مہ جبین
محفلین
تیرا کہنا مان لیں گے اے دلِ دیوانہ ہم
چوم لیں روضہء سرکار بے تابانہ ہم
ایک دن ہوجائیں گے شمعِ رسالت پر نثار
اِس لگن میں جی رہے ہیں صورتِ پروانہ ہم
یہ حقیقت ہے ابھی اس آستاں سے دور ہیں
اس حقیقیت کو بنادیں گے ابھی افسانہ ہم
ساقیء کوثر کا جاں پرور اشارا چاہئے
پھر چھلکنے ہی نہ دیں گے عمر کا پیمانہ ہم
جس کے اک جھونکے سے کھِل اٹھتا ہے گلزارِ حیات
چاہتے ہیں وہ ہوائے کوچہء جانانہ ہم
ان کے در پر مر کے ملتی ہے حیاتِ جاوداں
موت کے ہاتھوں سے لیں گے زیست کا پروانہ ہم
آپ کا غم حاصلِ عمرِ گریزاں ہے ایاز !
ان کے در پر پیش کردیں گے یہی نذرانہ ہم
ایاز صدیقی