نوید خان
محفلین
پسندیدگی اور حوصلہ افزائی کے لئے بے حد مشکور ہوں۔ امید کرتا ہوں کہ آپ اسی طرح حوصلہ افزائی کرتے رہیں گے۔آپ لکھتے رہیں. بہت اچھا لگا
پسندیدگی اور حوصلہ افزائی کے لئے بے حد مشکور ہوں۔ امید کرتا ہوں کہ آپ اسی طرح حوصلہ افزائی کرتے رہیں گے۔آپ لکھتے رہیں. بہت اچھا لگا
بہت شکریہ۔ اصلاح کی اگر گنجائش ہے تو آپ کی رہنمائی درکار ہے۔اچھی کوشش ہے .
ابتدائی پوسٹ کو تبدیل نہ کریں۔ تبدیلی کے ساتھ نیچے پوسٹ کر دیں۔ تاکہ اساتذہ کے سامنے اصلی متن موجود ہو، وہ بہتر رائے دے سکیں۔ جزاک اللہآپ کی بتائی ہوئی ترتیب زیادہ موزوں ہے اس لئے تدوین کر رہا ہوں۔ اصلاح اور رہنمائی کے لئے بے حد مشکور ہوں۔
جی بہت بہتر۔ابتدائی پوسٹ کو تبدیل نہ کریں۔ تبدیلی کے ساتھ نیچے پوسٹ کر دیں۔ تاکہ اساتذہ کے سامنے اصلی متن موجود ہو، وہ بہتر رائے دے سکیں۔ جزاک اللہ
بہت شکریہ۔ نوازش۔خوب کاوش ہے۔
باقی تو ٹھیک ہے، یہ استادِ محترم ہٹا دیں، اساتذہ پر ہی اچھا لگتا ہے۔ کیوں مار پڑوائیں گے مجھے۔استادِ محترم تابش صدیقی کی رہنمائی کے مطابق دوسرے شعر کے پہلے مصرعے میں عیبِ تنافر ہے جس سے بچنے کے لئے ان کی تجویز و اصلاح کے مطابق تبدیل کرنے کے بعد غزل کچھ اس طرح ہے۔
ویسے ہی غور کیا، تو معلوم ہوا کہ دل تو اس صورت میں بھی دونوں مصرعوں میں آ رہا ہے۔ لہٰذا اساتذہ کا کام اساتذہ کو ساجھے۔دل تھا مانوس باتوں سے اس کی ہی سو
شعر کہتے رہے دل دکھاتے رہے
آپ سے ایک نئی بات سیکھنے کو ملی ہے تو درحقیقت آپ میرے استاد ہی ہوئے۔ ان شاءاللہ ابھی تو آپ سے بہت کچھ سیکھنا ہے۔ ہر استاد کا اپنا مقام ہوتا ہے تو آپ کا بھی میرے دل میں عزت کا ایک اپنا مقام ہے۔باقی تو ٹھیک ہے، یہ استادِ محترم ہٹا دیں، اساتذہ پر ہی اچھا لگتا ہے۔ کیوں مار پڑوائیں گے مجھے۔
میں محض ایک قاری ہوں، اور اردو محفل کی بدولت کچھ باتیں سیکھ لی ہیں، انہیں آگے بتا کر چوڑا ہو جاتا ہوں۔ استاد نہ بنائیں۔
بہت اچھے!!!ستادِ محترم تابش صدیقی کی رہنمائی کے مطابق دوسرے شعر کے پہلے مصرعے میں عیبِ تنافر ہے جس سے بچنے کے لئے ان کی تجویز و اصلاح کے مطابق تبدیل کرنے کے بعد غزل کچھ اس طرح ہے۔
تیری محفل میں ہم گنگناتے رہے÷÷÷ اول توبے سبب اور بے وجہ ایک ہی بات ہے، لیکن لفظ وجہ کو ہم وجا نہیں باندھ سکتے ۔۔۔ اسے محض وج باندھا جاتا ہے۔۔۔
بے سبب بے وجہ مسکراتے رہے
دل تھا مانوس باتوں سے اس کی ہی سو÷÷÷÷پہلا مصرع ٹھیک نہیں ہے، تقطیع تو درست، لیکن الفاظ کی دروبست غلط ہے، یعنی دیکھنے میں بالکل کچا مصرع معلوم ہوتا ہے۔۔۔عقلی طور پر اگر دل اس کی باتوں سے مانوس تھا، تو شعر کہنے سے دل کا دُکھنا سمجھ میں نہیں آتا، اس سے تو دل لگ جائے گا، آپ کو خوشی بھی محسوس ہوسکتی ہے، غم مناسب نہیں ہے۔۔
شعر کہتے رہے دل دکھاتے رہے
ہجر کی رات اپنی ہی تنہائی کو۔۔۔۔تنہائی آپ کی کیفیت کا ہی تو نام ہے۔ تنہائی آپ سے الگ کوئی اور وجود نہیں رکھتی جسے آپ کچھ سنا سکیں۔ ہاں، اپنے آپ کو سنایا، آپ تنہا تھے، وہ سمجھ میں آتا ہے، خودکلامی سمجھ میں آنے والی چیز ہے۔۔۔ تنہائی کو فرض کرکے سنانا درست نہیں لگتا۔
درد کی داستاں ہم سناتے رہے
جن کو آنے کی جلدی تھی اس دیس میں۔۔۔۔۔مطلب واضح نہیں ہے۔ کیا راہ میں سنگ کھانے کا سبب دیس میں آنا ہے یا آنے میں جلدی کرنا؟
وہ پڑے راہ میں سنگ کھاتے رہے
چاند تاروں سے تھی جس کو تشبیہ دی۔۔۔۔اول تو پہلے مصرعے کے الفاظ کا تال میل اچھا نہیں ،دوم محض چاند سے تشبیہ دینا کافی تھا،تارے ملا کر آپ نے ان کو جو رتبہ دیا تھا، وہ گھٹا دیا۔ اس شعر میں لفظ تشبیہ نہ لایا جائے تو بہتر ہے،چاند سمجھا تھا، بہتر لگتا ہے۔۔۔ جھلملانا کن معنوں میں ہے، کیونکہ یہاں وہ بھی کمزور محسوس ہو رہا ہے۔ ۔۔
وصل کی رات وہ جھلملاتے رہے
تھا بڑا ذوق احمد کو اس پار کا
غم کے دریا میں برسوں نہاتے رہے
۔۔۔ذوق کی جگہ یہاں شوق بہتر ہوتا، پھر بھی کوئی اہم شعر نہیں، اگرچہ اعتراض والی بھی کوئی بات محسوس نہیں ہوتی۔
مطلب یہ ہے کہ غم کا دریا ختم ہونے میں ہی نہیں آیا اور پار جانے کی کوشش میں برسوں نہانے میں گزر گئے۔بہت اچھے!!!
تھا بڑا ذوق احمد کو اس پار کا
غم کے دریا میں برسوں نہاتے رہے
اگر دریا پار جانے کا ذوق یا شوق تھا تو ایک ہی جگہ پر نہاتے کیوں رہے؟؟؟ پار جانے کے لیے تیرنے کی کاوش کیوں نہ کی؟؟؟
بہت بہت شکریہ محترم شاہنواز صاحب۔ جزاک اللہ خیر۔ستادِ محترم تابش صدیقی کی رہنمائی کے مطابق دوسرے شعر کے پہلے مصرعے میں عیبِ تنافر ہے جس سے بچنے کے لئے ان کی تجویز و اصلاح کے مطابق تبدیل کرنے کے بعد غزل کچھ اس طرح ہے۔
تیری محفل میں ہم گنگناتے رہے÷÷÷ اول توبے سبب اور بے وجہ ایک ہی بات ہے، لیکن لفظ وجہ کو ہم وجا نہیں باندھ سکتے ۔۔۔ اسے محض وج باندھا جاتا ہے۔۔۔
بے سبب بے وجہ مسکراتے رہے
دل تھا مانوس باتوں سے اس کی ہی سو÷÷÷÷پہلا مصرع ٹھیک نہیں ہے، تقطیع تو درست، لیکن الفاظ کی دروبست غلط ہے، یعنی دیکھنے میں بالکل کچا مصرع معلوم ہوتا ہے۔۔۔عقلی طور پر اگر دل اس کی باتوں سے مانوس تھا، تو شعر کہنے سے دل کا دُکھنا سمجھ میں نہیں آتا، اس سے تو دل لگ جائے گا، آپ کو خوشی بھی محسوس ہوسکتی ہے، غم مناسب نہیں ہے۔۔
شعر کہتے رہے دل دکھاتے رہے
ہجر کی رات اپنی ہی تنہائی کو۔۔۔۔تنہائی آپ کی کیفیت کا ہی تو نام ہے۔ تنہائی آپ سے الگ کوئی اور وجود نہیں رکھتی جسے آپ کچھ سنا سکیں۔ ہاں، اپنے آپ کو سنایا، آپ تنہا تھے، وہ سمجھ میں آتا ہے، خودکلامی سمجھ میں آنے والی چیز ہے۔۔۔ تنہائی کو فرض کرکے سنانا درست نہیں لگتا۔
درد کی داستاں ہم سناتے رہے
جن کو آنے کی جلدی تھی اس دیس میں۔۔۔۔۔مطلب واضح نہیں ہے۔ کیا راہ میں سنگ کھانے کا سبب دیس میں آنا ہے یا آنے میں جلدی کرنا؟
وہ پڑے راہ میں سنگ کھاتے رہے
چاند تاروں سے تھی جس کو تشبیہ دی۔۔۔۔اول تو پہلے مصرعے کے الفاظ کا تال میل اچھا نہیں ،دوم محض چاند سے تشبیہ دینا کافی تھا،تارے ملا کر آپ نے ان کو جو رتبہ دیا تھا، وہ گھٹا دیا۔ اس شعر میں لفظ تشبیہ نہ لایا جائے تو بہتر ہے،چاند سمجھا تھا، بہتر لگتا ہے۔۔۔ جھلملانا کن معنوں میں ہے، کیونکہ یہاں وہ بھی کمزور محسوس ہو رہا ہے۔ ۔۔
وصل کی رات وہ جھلملاتے رہے
تھا بڑا ذوق احمد کو اس پار کا
غم کے دریا میں برسوں نہاتے رہے
۔۔۔ذوق کی جگہ یہاں شوق بہتر ہوتا، پھر بھی کوئی اہم شعر نہیں، اگرچہ اعتراض والی بھی کوئی بات محسوس نہیں ہوتی۔
در حقیقت آجکل گرمی بہت ہے اسلئے نہانے میں مزہ آ رہا تھا۔ پار جانے کی کوشش ہی نہیں کی بندے نے۔ (پیشگی معذرت)بہت اچھے!!!
تھا بڑا ذوق احمد کو اس پار کا
غم کے دریا میں برسوں نہاتے رہے
اگر دریا پار جانے کا ذوق یا شوق تھا تو ایک ہی جگہ پر نہاتے کیوں رہے؟؟؟ پار جانے کے لیے تیرنے کی کاوش کیوں نہ کی؟؟؟