تیری محفل میں ہم گنگناتے رہے۔۔۔غزل برائے اصلاح

آپ کی بتائی ہوئی ترتیب زیادہ موزوں ہے اس لئے تدوین کر رہا ہوں۔ اصلاح اور رہنمائی کے لئے بے حد مشکور ہوں۔
ابتدائی پوسٹ کو تبدیل نہ کریں۔ تبدیلی کے ساتھ نیچے پوسٹ کر دیں۔ تاکہ اساتذہ کے سامنے اصلی متن موجود ہو، وہ بہتر رائے دے سکیں۔ جزاک اللہ
 

نوید خان

محفلین
استادِ محترم تابش صدیقی کی رہنمائی کے مطابق دوسرے شعر کے پہلے مصرعے میں عیبِ تنافر ہے جس سے بچنے کے لئے ان کی تجویز و اصلاح کے مطابق تبدیل کرنے کے بعد غزل کچھ اس طرح ہے۔

تیری محفل میں ہم گنگناتے رہے
بے سبب بے وجہ مسکراتے رہے​

دل تھا مانوس باتوں سے اس کی ہی سو
شعر کہتے رہے دل دکھاتے رہے​

ہجر کی رات اپنی ہی تنہائی کو
درد کی داستاں ہم سناتے رہے​

جن کو آنے کی جلدی تھی اس دیس میں
وہ پڑے راہ میں سنگ کھاتے رہے​

چاند تاروں سے تھی جس کو تشبیہ دی
وصل کی رات وہ جھلملاتے رہے​

تھا بڑا ذوق احمد کو اس پار کا
غم کے دریا میں برسوں نہاتے رہے

اساتذہ سے اس تبدیلی پر نظرِ ثانی اور غزل میں مزید اصلاح و رہنمائی درکار ہے۔ جس کے لئے بندہِ ناچیز انتہائی ممنون رہے گا۔​
 
استادِ محترم تابش صدیقی کی رہنمائی کے مطابق دوسرے شعر کے پہلے مصرعے میں عیبِ تنافر ہے جس سے بچنے کے لئے ان کی تجویز و اصلاح کے مطابق تبدیل کرنے کے بعد غزل کچھ اس طرح ہے۔
باقی تو ٹھیک ہے، یہ استادِ محترم ہٹا دیں، اساتذہ پر ہی اچھا لگتا ہے۔ کیوں مار پڑوائیں گے مجھے۔
میں محض ایک قاری ہوں، اور اردو محفل کی بدولت کچھ باتیں سیکھ لی ہیں، انہیں آگے بتا کر چوڑا ہو جاتا ہوں۔ استاد نہ بنائیں۔ :)
 

نوید خان

محفلین
باقی تو ٹھیک ہے، یہ استادِ محترم ہٹا دیں، اساتذہ پر ہی اچھا لگتا ہے۔ کیوں مار پڑوائیں گے مجھے۔
میں محض ایک قاری ہوں، اور اردو محفل کی بدولت کچھ باتیں سیکھ لی ہیں، انہیں آگے بتا کر چوڑا ہو جاتا ہوں۔ استاد نہ بنائیں۔ :)
آپ سے ایک نئی بات سیکھنے کو ملی ہے تو درحقیقت آپ میرے استاد ہی ہوئے۔ ان شاءاللہ ابھی تو آپ سے بہت کچھ سیکھنا ہے۔ ہر استاد کا اپنا مقام ہوتا ہے تو آپ کا بھی میرے دل میں عزت کا ایک اپنا مقام ہے۔ :)
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
ستادِ محترم تابش صدیقی کی رہنمائی کے مطابق دوسرے شعر کے پہلے مصرعے میں عیبِ تنافر ہے جس سے بچنے کے لئے ان کی تجویز و اصلاح کے مطابق تبدیل کرنے کے بعد غزل کچھ اس طرح ہے۔

تیری محفل میں ہم گنگناتے رہے
بے سبب بے وجہ مسکراتے رہے​
÷÷÷ اول توبے سبب اور بے وجہ ایک ہی بات ہے، لیکن لفظ وجہ کو ہم وجا نہیں باندھ سکتے ۔۔۔ اسے محض وج باندھا جاتا ہے۔۔۔
دل تھا مانوس باتوں سے اس کی ہی سو
شعر کہتے رہے دل دکھاتے رہے​
÷÷÷÷پہلا مصرع ٹھیک نہیں ہے، تقطیع تو درست، لیکن الفاظ کی دروبست غلط ہے، یعنی دیکھنے میں بالکل کچا مصرع معلوم ہوتا ہے۔۔۔عقلی طور پر اگر دل اس کی باتوں سے مانوس تھا، تو شعر کہنے سے دل کا دُکھنا سمجھ میں نہیں آتا، اس سے تو دل لگ جائے گا، آپ کو خوشی بھی محسوس ہوسکتی ہے، غم مناسب نہیں ہے۔۔
ہجر کی رات اپنی ہی تنہائی کو
درد کی داستاں ہم سناتے رہے​
۔۔۔۔تنہائی آپ کی کیفیت کا ہی تو نام ہے۔ تنہائی آپ سے الگ کوئی اور وجود نہیں رکھتی جسے آپ کچھ سنا سکیں۔ ہاں، اپنے آپ کو سنایا، آپ تنہا تھے، وہ سمجھ میں آتا ہے، خودکلامی سمجھ میں آنے والی چیز ہے۔۔۔ تنہائی کو فرض کرکے سنانا درست نہیں لگتا۔
جن کو آنے کی جلدی تھی اس دیس میں
وہ پڑے راہ میں سنگ کھاتے رہے​
۔۔۔۔۔مطلب واضح نہیں ہے۔ کیا راہ میں سنگ کھانے کا سبب دیس میں آنا ہے یا آنے میں جلدی کرنا؟
چاند تاروں سے تھی جس کو تشبیہ دی
وصل کی رات وہ جھلملاتے رہے​
۔۔۔۔اول تو پہلے مصرعے کے الفاظ کا تال میل اچھا نہیں ،دوم محض چاند سے تشبیہ دینا کافی تھا،تارے ملا کر آپ نے ان کو جو رتبہ دیا تھا، وہ گھٹا دیا۔ اس شعر میں لفظ تشبیہ نہ لایا جائے تو بہتر ہے،چاند سمجھا تھا، بہتر لگتا ہے۔۔۔ جھلملانا کن معنوں میں ہے، کیونکہ یہاں وہ بھی کمزور محسوس ہو رہا ہے۔ ۔۔
تھا بڑا ذوق احمد کو اس پار کا
غم کے دریا میں برسوں نہاتے رہے
۔۔۔ذوق کی جگہ یہاں شوق بہتر ہوتا، پھر بھی کوئی اہم شعر نہیں، اگرچہ اعتراض والی بھی کوئی بات محسوس نہیں ہوتی۔
 

سید عمران

محفلین
ستادِ محترم تابش صدیقی کی رہنمائی کے مطابق دوسرے شعر کے پہلے مصرعے میں عیبِ تنافر ہے جس سے بچنے کے لئے ان کی تجویز و اصلاح کے مطابق تبدیل کرنے کے بعد غزل کچھ اس طرح ہے۔

تیری محفل میں ہم گنگناتے رہے
بے سبب بے وجہ مسکراتے رہے​
÷÷÷ اول توبے سبب اور بے وجہ ایک ہی بات ہے، لیکن لفظ وجہ کو ہم وجا نہیں باندھ سکتے ۔۔۔ اسے محض وج باندھا جاتا ہے۔۔۔
دل تھا مانوس باتوں سے اس کی ہی سو
شعر کہتے رہے دل دکھاتے رہے​
÷÷÷÷پہلا مصرع ٹھیک نہیں ہے، تقطیع تو درست، لیکن الفاظ کی دروبست غلط ہے، یعنی دیکھنے میں بالکل کچا مصرع معلوم ہوتا ہے۔۔۔عقلی طور پر اگر دل اس کی باتوں سے مانوس تھا، تو شعر کہنے سے دل کا دُکھنا سمجھ میں نہیں آتا، اس سے تو دل لگ جائے گا، آپ کو خوشی بھی محسوس ہوسکتی ہے، غم مناسب نہیں ہے۔۔
ہجر کی رات اپنی ہی تنہائی کو
درد کی داستاں ہم سناتے رہے​
۔۔۔۔تنہائی آپ کی کیفیت کا ہی تو نام ہے۔ تنہائی آپ سے الگ کوئی اور وجود نہیں رکھتی جسے آپ کچھ سنا سکیں۔ ہاں، اپنے آپ کو سنایا، آپ تنہا تھے، وہ سمجھ میں آتا ہے، خودکلامی سمجھ میں آنے والی چیز ہے۔۔۔ تنہائی کو فرض کرکے سنانا درست نہیں لگتا۔
جن کو آنے کی جلدی تھی اس دیس میں
وہ پڑے راہ میں سنگ کھاتے رہے​
۔۔۔۔۔مطلب واضح نہیں ہے۔ کیا راہ میں سنگ کھانے کا سبب دیس میں آنا ہے یا آنے میں جلدی کرنا؟
چاند تاروں سے تھی جس کو تشبیہ دی
وصل کی رات وہ جھلملاتے رہے​
۔۔۔۔اول تو پہلے مصرعے کے الفاظ کا تال میل اچھا نہیں ،دوم محض چاند سے تشبیہ دینا کافی تھا،تارے ملا کر آپ نے ان کو جو رتبہ دیا تھا، وہ گھٹا دیا۔ اس شعر میں لفظ تشبیہ نہ لایا جائے تو بہتر ہے،چاند سمجھا تھا، بہتر لگتا ہے۔۔۔ جھلملانا کن معنوں میں ہے، کیونکہ یہاں وہ بھی کمزور محسوس ہو رہا ہے۔ ۔۔
تھا بڑا ذوق احمد کو اس پار کا
غم کے دریا میں برسوں نہاتے رہے
۔۔۔ذوق کی جگہ یہاں شوق بہتر ہوتا، پھر بھی کوئی اہم شعر نہیں، اگرچہ اعتراض والی بھی کوئی بات محسوس نہیں ہوتی۔
بہت اچھے!!!
تھا بڑا ذوق احمد کو اس پار کا
غم کے دریا میں برسوں نہاتے رہے
اگر دریا پار جانے کا ذوق یا شوق تھا تو ایک ہی جگہ پر نہاتے کیوں رہے؟؟؟ پار جانے کے لیے تیرنے کی کاوش کیوں نہ کی؟؟؟
 
بہت اچھے!!!
تھا بڑا ذوق احمد کو اس پار کا
غم کے دریا میں برسوں نہاتے رہے
اگر دریا پار جانے کا ذوق یا شوق تھا تو ایک ہی جگہ پر نہاتے کیوں رہے؟؟؟ پار جانے کے لیے تیرنے کی کاوش کیوں نہ کی؟؟؟
مطلب یہ ہے کہ غم کا دریا ختم ہونے میں ہی نہیں آیا اور پار جانے کی کوشش میں برسوں نہانے میں گزر گئے۔
 

نوید خان

محفلین
بہت
ستادِ محترم تابش صدیقی کی رہنمائی کے مطابق دوسرے شعر کے پہلے مصرعے میں عیبِ تنافر ہے جس سے بچنے کے لئے ان کی تجویز و اصلاح کے مطابق تبدیل کرنے کے بعد غزل کچھ اس طرح ہے۔

تیری محفل میں ہم گنگناتے رہے
بے سبب بے وجہ مسکراتے رہے​
÷÷÷ اول توبے سبب اور بے وجہ ایک ہی بات ہے، لیکن لفظ وجہ کو ہم وجا نہیں باندھ سکتے ۔۔۔ اسے محض وج باندھا جاتا ہے۔۔۔
دل تھا مانوس باتوں سے اس کی ہی سو
شعر کہتے رہے دل دکھاتے رہے​
÷÷÷÷پہلا مصرع ٹھیک نہیں ہے، تقطیع تو درست، لیکن الفاظ کی دروبست غلط ہے، یعنی دیکھنے میں بالکل کچا مصرع معلوم ہوتا ہے۔۔۔عقلی طور پر اگر دل اس کی باتوں سے مانوس تھا، تو شعر کہنے سے دل کا دُکھنا سمجھ میں نہیں آتا، اس سے تو دل لگ جائے گا، آپ کو خوشی بھی محسوس ہوسکتی ہے، غم مناسب نہیں ہے۔۔
ہجر کی رات اپنی ہی تنہائی کو
درد کی داستاں ہم سناتے رہے​
۔۔۔۔تنہائی آپ کی کیفیت کا ہی تو نام ہے۔ تنہائی آپ سے الگ کوئی اور وجود نہیں رکھتی جسے آپ کچھ سنا سکیں۔ ہاں، اپنے آپ کو سنایا، آپ تنہا تھے، وہ سمجھ میں آتا ہے، خودکلامی سمجھ میں آنے والی چیز ہے۔۔۔ تنہائی کو فرض کرکے سنانا درست نہیں لگتا۔
جن کو آنے کی جلدی تھی اس دیس میں
وہ پڑے راہ میں سنگ کھاتے رہے​
۔۔۔۔۔مطلب واضح نہیں ہے۔ کیا راہ میں سنگ کھانے کا سبب دیس میں آنا ہے یا آنے میں جلدی کرنا؟
چاند تاروں سے تھی جس کو تشبیہ دی
وصل کی رات وہ جھلملاتے رہے​
۔۔۔۔اول تو پہلے مصرعے کے الفاظ کا تال میل اچھا نہیں ،دوم محض چاند سے تشبیہ دینا کافی تھا،تارے ملا کر آپ نے ان کو جو رتبہ دیا تھا، وہ گھٹا دیا۔ اس شعر میں لفظ تشبیہ نہ لایا جائے تو بہتر ہے،چاند سمجھا تھا، بہتر لگتا ہے۔۔۔ جھلملانا کن معنوں میں ہے، کیونکہ یہاں وہ بھی کمزور محسوس ہو رہا ہے۔ ۔۔
تھا بڑا ذوق احمد کو اس پار کا
غم کے دریا میں برسوں نہاتے رہے
۔۔۔ذوق کی جگہ یہاں شوق بہتر ہوتا، پھر بھی کوئی اہم شعر نہیں، اگرچہ اعتراض والی بھی کوئی بات محسوس نہیں ہوتی۔
بہت بہت شکریہ محترم شاہنواز صاحب۔ جزاک اللہ خیر۔
 

نوید خان

محفلین
بہت اچھے!!!
تھا بڑا ذوق احمد کو اس پار کا
غم کے دریا میں برسوں نہاتے رہے
اگر دریا پار جانے کا ذوق یا شوق تھا تو ایک ہی جگہ پر نہاتے کیوں رہے؟؟؟ پار جانے کے لیے تیرنے کی کاوش کیوں نہ کی؟؟؟
در حقیقت آجکل گرمی بہت ہے اسلئے نہانے میں مزہ آ رہا تھا۔ پار جانے کی کوشش ہی نہیں کی بندے نے۔ :LOL: (پیشگی معذرت)
 
Top