طارق شاہ
محفلین
غزلِ
عنبرامروہوی
تیری نگاہِ ناز کی خاطر کِسی طرح
منزل سے آ مِلے ہیں مسافر کِسی طرح
اب اِس میں دین جائے، کہ ایمان و جان و دل
کرنا ہے مُجھ کو رام وہ کافر کِسی طرح
موسٰی کی طرح کام کریگا عصائے عِشق
آیا جو میرے ڈھب پہ وہ کافر کِسی طرح
شامِ ابد سے جس کو مِلا دے قبولِ عام
ہوسکتا ایسے شعر کا شاعر کِسی طرح
ہو لاکھ بے چراغ، مگر کاٹنی تو ہے
کٹ جائے گی یہ رات بھی آخر کِسی طرح
حسرت شدید ہے کہ، جو کھُل کر نہ کہہ سکا
ہوجائے اُس پہ حال وہ ظاہر کِسی طرح
اے دل اب اُسکی یاد میں، کب تک یہ بیخودی !
ہو اُس کی بزمِ ناز میں حاضر کِسی طرح
محفوظ رکھ نِگاہ کو عُجلت کی گرد سے
رہنا ہے دل کو عِشق میں صابر کِسی طرح
حاصل ہے جس ہُنر میں مہارت رقیب کو
اُس فن میں ہو سکا نہ میں ماہر کِسی طرح
عنبرامروہوی