نوید صادق
محفلین
غزل
تیری یادوں سے کچھ اس طور اُجالی میں نے
ہجر کی شام بنا لی ہے وصالی میں نے
میں نے اس پھول کو کتنا ہی سنبھالے رکھا
یہ الگ بات کہ خوشبو نہ سنبھالی میں نے
تیری تصویر تو اب تجھ سے بھی کچھ آگے ہے
رنگ ہی ایسے بھرے آج مثالی میں نے
تجھ کو ہی دیکھا پھر امداد طلب نظروں سے
خود کو اندر سے جو سمجھا کبھی خالی میں نے
دور لوگوں میں کھڑ ا دیکھوں تماشا اپنا
اپنے ہاتھوں سے ہی جب آگ لگا لی میں نے
دل ملا ہے تری یادوں میں دھڑ کنے والا
آنکھ پائی ہے تجھے دیکھنے والی میں نے
روز خوابوں کے جزیروں میں نکل جاتا ہوں
تجھ سے ملنے کی نئی راہ نکالی میں نے
(شمشیر حیدر)
تیری یادوں سے کچھ اس طور اُجالی میں نے
ہجر کی شام بنا لی ہے وصالی میں نے
میں نے اس پھول کو کتنا ہی سنبھالے رکھا
یہ الگ بات کہ خوشبو نہ سنبھالی میں نے
تیری تصویر تو اب تجھ سے بھی کچھ آگے ہے
رنگ ہی ایسے بھرے آج مثالی میں نے
تجھ کو ہی دیکھا پھر امداد طلب نظروں سے
خود کو اندر سے جو سمجھا کبھی خالی میں نے
دور لوگوں میں کھڑ ا دیکھوں تماشا اپنا
اپنے ہاتھوں سے ہی جب آگ لگا لی میں نے
دل ملا ہے تری یادوں میں دھڑ کنے والا
آنکھ پائی ہے تجھے دیکھنے والی میں نے
روز خوابوں کے جزیروں میں نکل جاتا ہوں
تجھ سے ملنے کی نئی راہ نکالی میں نے
(شمشیر حیدر)