عمران شناور
محفلین
تازہ غزل احباب کی نذر
تیرے دل سے اتر چکا ہوں میں
ایسا لگتا ہے مر چکا ہوں میں
اب مجھے کس طرح سمیٹو گے
ریزہ ریزہ بکھر چکا ہوں میں
تیری بے اعتنائیوں کے سبب
ظرف کہتا ہے بھر چکا ہوں میں
تجھ کو ساری دعائیں لگ جائیں
اب تو جینے سے ڈر چکا ہوں میں
ایک غم اور منتظر ہے مرا
ایک غم سے گزر چکا ہوں میں
تجھ کو نفرت سے ہی نہیں فرصت
چاہتوں میں سنور چکا ہوں میں
آئنہ اب نہیں ہے گرد آلود
رو چکا ہوں، نکھر چکا ہوں میں
خود سے لڑنا بہت ہی مشکل ہے
تیری خاطر یہ کر چکا ہوں میں
اب تو باہر نکال پانی سے
دیکھ اب تو ابھر چکا ہوں میں
عمران شناور
تیرے دل سے اتر چکا ہوں میں
ایسا لگتا ہے مر چکا ہوں میں
اب مجھے کس طرح سمیٹو گے
ریزہ ریزہ بکھر چکا ہوں میں
تیری بے اعتنائیوں کے سبب
ظرف کہتا ہے بھر چکا ہوں میں
تجھ کو ساری دعائیں لگ جائیں
اب تو جینے سے ڈر چکا ہوں میں
ایک غم اور منتظر ہے مرا
ایک غم سے گزر چکا ہوں میں
تجھ کو نفرت سے ہی نہیں فرصت
چاہتوں میں سنور چکا ہوں میں
آئنہ اب نہیں ہے گرد آلود
رو چکا ہوں، نکھر چکا ہوں میں
خود سے لڑنا بہت ہی مشکل ہے
تیری خاطر یہ کر چکا ہوں میں
اب تو باہر نکال پانی سے
دیکھ اب تو ابھر چکا ہوں میں
عمران شناور