عاطف بٹ
محفلین
تیرے گمنام اگر نام کمانے لگ جائیں
شرف و شیوہ و تسلیم ٹھکانے لگ جائیں
شرف و شیوہ و تسلیم ٹھکانے لگ جائیں
جس طرح نور سے پیدا ہے جہانِ اشیاء
اک نظر ڈال کے ہم بھی نظر آنے لگ جائیں
اک نظر ڈال کے ہم بھی نظر آنے لگ جائیں
یہ بھی ممکن ہے کوئی روکنے والا ہی نہ ہو
یہ بھی ممکن ہے یہاں مجھ کو زمانے لگ جائیں
یہ بھی ممکن ہے یہاں مجھ کو زمانے لگ جائیں
دیکھ اے حسنِ فراواں یہ بہت ممکن ہے
میرا دل تک نہ لگے تیرے خزانے لگ جائیں
میرا دل تک نہ لگے تیرے خزانے لگ جائیں
جن کے ہونے سے ہے مشروط ہمارا ہونا
اپنے ہونے کا نہ احساس دلانے لگ جائیں
اپنے ہونے کا نہ احساس دلانے لگ جائیں
تو محبّت کی غرض لمحہء موجود سے رکھ
ترے ذمّے نہ مرے درد پرانے لگ جائیں
ترے ذمّے نہ مرے درد پرانے لگ جائیں
یہ محبّت نہ کہیں ردِعمل بن جائے
ہم ترے بعد کوئی ظلم نہ ڈھانے لگ جائیں
ہم ترے بعد کوئی ظلم نہ ڈھانے لگ جائیں
کارِ دُنیا بھی عجب ہے کہ مرے گھر والے
دن نکلتے ہی مری خیر منانے لگ جائیں
دن نکلتے ہی مری خیر منانے لگ جائیں
پاس ہی ڈوب رہی ہے کوئی کشتی تابش
خود نہیں بچتے اگر اس کو بچانے لگ جائیں
خود نہیں بچتے اگر اس کو بچانے لگ جائیں