تیرے ہوتے جنم لیا ہوتا

محمد بلال اعظم

لائبریرین
نعت

تیرے ہوتے جنم لیا ہوتا
کوئی مجھ سا نہ دوسرا ہوتا
سانس لیتا تُو اور میں جی اٹھتا
کاش مکہ کی میں فضا ہوتا
ہجرتوں میں پڑا ہوتا میں
اور تُو کچھ دیر کو رکا ہوتا
تیرے حجرے کے آس پاس کہیں
میں کوئی کچا راستہ ہوتا
بیچ طائف بوقتِ سنگ زنی
تیرے لب پہ سجی دعا ہوتا
کسی غزوہ میں زخمی ہو کر میں
تیرے قدموں میں جا گرا ہوتا
کاش احد میں شریک ہو سکتا
اور باقی نہ پھر بچا ہوتا
تری کملی کا سوت کیوں نہ ہوا
تیرے شانوں پہ جھولتا ہوتا
چوب ہوتا میں تری چوکھٹ کی
یا تیرے ہاتھ کا عصّا ہوتا
تیری پاکیزہ زندگی کا میں
کوئی گمنام واقعہ ہوتا
لفظ ہوتا کسی میں آیت کا
جو تیرے ہونٹ سے ادا ہوتا
میں کوئی جنگجو عرب ہوتا
اور تیرے سامنے جھکا ہوتا
میں بھی ہوتا تیرا غلام کوئی
لاکھ کہتا نہ میں رہا ہوتا
سوچتا ہوں تب جنم لیا ہوتا
جانے پھر کیا سے کیا ہوا ہوتا
چاند ہوتا تیرے زمانے کا
پھر تیرے حکم سے بٹا ہوتا
پانی ہوتا اداس چشموں کا
تیرے قدموں میں بہہ گیا ہوتا
پودا ہوتا میں جلتے صحرا میں
اور تیرے ہاتھ سے لگا ہوتا
تیری صحبت مجھے ملی ہوتی
میں بھی تب کتنا خوشنما ہوتا
مجھ پہ پڑتی جو تیری چشمِ کرم
آدمی کیا میں معجزہ ہوتا
ٹکڑا ہوتا میں ایک بادل کا
اور ترے ساتھ گھومتا ہوتا
آسمان ہوتا عہدِ نبویﷺ کا
تجھ کو حیرت سے دیکھتا ہوتا
خاک ہوتا میں تیری گلیوں کی
اور تیرے پاﺅں چومتا ہوتا
پیڑ ہوتا کھجور کا میں کوئی
جس کا پھل تُو نے کھا لیا ہوتا
بچہ ہوتا غریب بیوہ کا
سر تیری گود میں چھپا ہوتا
رستہ ہوتا تیرے گزرنے کا
اور تیرا رستہ دیکھتا ہوتا
بت ہی ہوتا میں خانہ کعبہ میں
جو تیرے ہاتھ سے فنا ہوتا
مجھ کو خالق بناتا غار حَسن
اور میرا نام بھی حرا ہوتا
(حسن نثار)
 

زبیر مرزا

محفلین
سبحان اللہ
عمدہ نعتہ کلام
مولانا طاہرالقادری کی نعت بھی لاجواب ہے - اُس کے اشعار تو رقت طاری کردیتے ہیں
 

زبیر مرزا

محفلین
تیرے ہوتے جنم لیا ہوتا
پھر کبھی تو تجھے ملا ہوتا
کاش میں سنگ در تیرا ہوتا
تیرے قدموں کو چومتا ہوتا
تو چلا کرتا میری پلکوں پر
کاش میں تیرا راستہ ہوتا
ذرہ ہوتا جو تیری راہوں کا
تیرے تلووں کو چھولیا ہوتا
لڑتا پھرتا تیرے عدووں سے
تیری خاطر میں مر گیا ہوتا
چاند ہوتا میں آسمانوں پر
تیری انگلی سے کٹ گیا ہوتا
تو کبھی تو مجھے بھی تک لیتا
تیرے تکنے پے بک گیا ہوتا
رنگ ہوتا جو سبز گنبد کا
ہر کوئی مجھ کو دیکھتا ہوتا
تیرے مسکن کے گرد شام و سحر
بن کے منگتا میں پھر رہا ہوتا
تیرے نعلین سرپے رکھ لیتا
بخت اپنا جگا لیا ہوتا
آپ آتے میرے جنازے پر
تیرے ہوتے ہی مر گیا ہوتا
ہوتا طاہر تیرے فقیروں میں
تیری دہلیز پر کھڑا ہوتا
پروفیسر ڈاکٹرمحمد طاہر القادری
 
تیرے ہوتے جنم لیا ہوتا
پھر کبھی تو تجھے ملا ہوتا
کاش میں سنگ در تیرا ہوتا
تیرے قدموں کو چومتا ہوتا
تو چلا کرتا میری پلکوں پر
کاش میں تیرا راستہ ہوتا
ذرہ ہوتا جو تیری راہوں کا
تیرے تلووں کو چھولیا ہوتا
لڑتا پھرتا تیرے عدووں سے
تیری خاطر میں مر گیا ہوتا
چاند ہوتا میں آسمانوں پر
تیری انگلی سے کٹ گیا ہوتا
تو کبھی تو مجھے بھی تک لیتا
تیرے تکنے پے بک گیا ہوتا
رنگ ہوتا جو سبز گنبد کا
ہر کوئی مجھ کو دیکھتا ہوتا
تیرے مسکن کے گرد شام و سحر
بن کے منگتا میں پھر رہا ہوتا
تیرے نعلین سرپے رکھ لیتا
بخت اپنا جگا لیا ہوتا
آپ آتے میرے جنازے پر
تیرے ہوتے ہی مر گیا ہوتا
ہوتا طاہر تیرے فقیروں میں
تیری دہلیز پر کھڑا ہوتا
پروفیسر ڈاکٹرمحمد طاہر القادری
میرے خیال میں حسن نثار کی نعت زیادہ رقت طاری کرتی ہے کمال اللہ اللہ اللہ اللہ
 
تیرے ہوتے جنم لیا ہوتا
کوئی مجھ سا نہ دوسرا ہوتا
سانس لیتا تُو اور میں جی اٹھتا
کاش مکہ کی میں فضا ہوتا
ہجرتوں میں پڑاؤ ہوتا میں
اور تُو کچھ دیر کو رکا ہوتا
تیرے حجرے کے آس پاس کہیں
میں کوئی کچا راستہ ہوتا
بیچ طائف بوقتِ سنگ زنی
تیرے لب پہ سجی دعا ہوتا
کسی غزوہ میں زخمی ہو کر میں
تیرے قدموں میں جا گرا ہوتا
کاش احد میں شریک ہو سکتا
اور باقی نہ پھر بچا ہوتا
تری کملی کا سوت کیوں نہ ہوا
تیرے شانوں پہ جھولتا ہوتا
چوب ہوتا میں تیری چوکھٹ کی
یا ترے ہاتھ کا عصّا ہوتا
تیری پاکیزہ زندگی کا میں
کوئی گمنام واقعہ ہوتا
لفظ ہوتا کسی میں آیت کا
جو ترے ہونٹ سے ادا ہوتا
میں کوئی جنگجو عرب ہوتا
اور ترے سامنے جھکا ہوتا
میں بھی ہوتا ترا غلام کوئی
لاکھ کہتا نہ میں رہا ہوتا
سوچتا ہوں تب جنم لیا ہوتا
جانے پھر کیا سے کیا ہوا ہوتا
چاند ہوتا ترے زمانے کا
پھر ترے حکم سے بٹا ہوتا
پانی ہوتا اداس چشموں کا
تیرے قدموں میں بہہ گیا ہوتا
پودا ہوتا میں جلتے صحرا میں
اور ترے ہاتھ سے لگا ہوتا
تیری صحبت مجھے ملی ہوتی
میں بھی تب کتنا خوشنما ہوتا
مجھ پہ پڑتی جو تیری چشمِ کرم
آدمی کیا میں معجزہ ہوتا
ٹکڑا ہوتا میں ایک بادل کا
اور ترے ساتھ گھومتا ہوتا
آسماں ہوتا عہدِ نبویﷺ کا
تجھ کو حیرت سے دیکھتا ہوتا
خاک ہوتا میں تیری گلیوں کی
اور ترے پاﺅں چومتا ہوتا
پیڑ ہوتا کھجور کا میں کوئی
جس کا پھل تُو نے کھا لیا ہوتا
بچہ ہوتا غریب بیوہ کا
سر تری گود میں چھپا ہوتا
رستہ ہوتا ترے گزرنے کا
اور ترا رستہ دیکھتا ہوتا
بت ہی ہوتا میں خانہ کعبہ میں
جو ترے ہاتھ سے فنا ہوتا
مجھ کو خالق بناتا غار حَسن
اور مرا نام بھی حرا ہوتا
حسن نثار

 
آخری تدوین:
Top