نیٹ پہ کسی موضوع کے لئے سرچ مارتا تھا تو اکثر اردو محفل سامنے آ جاتی۔ جس سے خوشہ چینی بھی کرتا اور کئی مقامات پہ اضافہ یا درستگی کی ضرورت بھی محسوس ہوتی، قومی زبان سے فطری لگاؤ بھی محفلین بننے پر مجبور کرتا رہا۔ لیکن مصروفیات نے محفلین بننے کی اجازت نہ دی۔
19 مئی 2014ء کو اپنے گھر قصور سے ایک تقریب میں شرکت کے لئے لاہور جا رہا تھا۔ چونگی امرسدھو سے داروغہ والا کے لئے بس پہ بیٹھا۔ گاڑی شالامار چوک سے مڑی ہی تھی کہ فائرنگ کی آواز آئی لوگ سیٹوں کے نیچے چھپنے لگے، میں حالات دیکھنے کے لئے کھڑا ہوا ہی تھا ایک گولی بس کی باڈی کو اور میری سیٹ کو چیرتے ہوئے میرے دائیں جانب ران میں آ کر پیوست ہو گئی۔ (شومئی قسمت جگہ آخر والی سیٹ پہ ملی تھی) اس دوران میں نے پولیس والوں کو ایک کالے رنگ کی مرسڈیز پہ فائر کرتے دیکھا تھا۔ (بعد میں پتا چلا کہ وہ پیپلز پارٹی کے ایم پی اے کے ہارے ہورے ہوئے امیدوار کی بلٹ پروف گاڑی تھی۔ جس سے گولیاں سلپ ہو کے راہگیروں کو لگ رہی تھیں۔ موصوف ایک پولیس والے کو پھڑکا کے آ رہے تھے اس لئے پولیس اندھی ہو کے اندھا دھند فائرنگ کر رہی تھی۔
پاکستانی عوام کا چونکہ پتا تھا کہ پہلے پوچھیں گے کس کو گولی لگی؟ کہاں لگی؟ سو کسی کا انتظار کئے بغیر میں نے 1122 پہ کال کردی، لوگوں کے سنبھلنے اور مجھے سہارا دے کے گاڑی سے باہر لانے تک میں گھر پر بھائی کو اور لاہور اسلام آباد ایک ایک دوست کو کال کر چکا تھا۔ ایکسرے سے پتا چلا کہ تھوڑی ہڈی فریکچر ہے۔ دس پندرہ دن ہسپتالوں میں گزرے۔ میٹرو بس کی طرح میری ٹانگ پہ بھی بڑا سا جنگلہ (فکسیٹر) لگ گیا۔ اب بیڈ ریسٹ پہ ہوں۔
(عیادت کے لئے آنے والے ہر شخص کو تفصیلات بتا بتا کر تھک چکا ہوں۔ اس لئے تفصیلات پھر کبھی)
اسی بیڈ ریسٹ کے دوران ایک موضوع نے میری توجہ اپنی جانب مبذول کرائی، اس بار بھی وہی ہوا پہلے لنک میں ہی اردو محفل سامنے آ گئی۔ فوراً دل میں چھپی پرانی حسرت نے انگڑائی لی، ہم موضوع کو بھول گئے اور فورم کے رکن بن گئے۔
دوستوں کی دعائیں رہیں تو چارپائی سے اٹھنے کے بعد بھی باقاعدگی سے حاضری رہے گی۔ انشاء اللہ
پرسوں بروز ہفتہ 12 جولائی کو جنگلہ اتروانے جانا ہے۔ سب دوستوں سے خصوصی دعاؤں کی گزارش ہے۔