محمد ندیم پشاوری
محفلین
روئے زمین پر دیگر مقامات کے علاوہ تین ایسے مقدس و مشرف مقامات ہیں جس کے ساتھ مسلمانوں کی انتہائی حد تک روحانی وابستگی ہے جو یقیناً امت مسلمہ کی اجتماعیت کا سبب بھی ہے ۔ان مقامات میں سے سرفہرست کعبۃ اللہ، ثانیاً مسجد نبوی شریف اور تیسرا مقام بیت المقدس ہے۔بیت المقدس یا مسجد اقصیٰ وہ عظیم مقام ہے جس میں سرور کائناتﷺ نے معراج کے سفر سے قبل تمام انبیاء علیہم الصلوات واتسلیمات کی امامت فرمائی تھی۔ آپﷺ کی وفات کے بعد خلیفہ بلا فصل حضرت ابو بکر صدیقؓ اپنی باقی حیات میں فتنہ ارتداد کے خلاف لڑتے رہے یہاں تک کہ آپﷺ کی رفاقت اختیار کرنے کا شرف حاصل کر لیا۔فاروق اعظمؓ کا دور خلافت شروع ہوا۔ فتوحات کا سلسلہ بڑھتا گیا ، 17ھ یعنی 639ء میں عیسائیوں سے ایک معاہدے کے تحت بیت المقدس مسلمانوں کی سلطنت کا حصہ بن گیا جو کئی صدیوں تک مسلمانوں کے زیر انتظام رہا۔1099ء میں پہلی صلیبی جنگ کے موقع پر یورپی صلیبیوں نے 70 ہزار مسلمانوں کو شہید کر کے بیت المقدس پر قبضہ کر لیا۔ ٹھیک 87 سال بعد یعنی 1187ء میں سلطان صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس کو عیسائیوں کے قبضے سے چھڑالیا اور تقریباً 800 سال تک مسلمان دوبارہ بیت المقدس میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کو بجالاتے رہے۔بیت المقدس تمام الہامی مذاہب یعنی یہودیوں ، عیسائیوں اور مسلمانوں کے نزدیک ہمیشہ سے انتہائی قابل احترام اور مقدس رہا ہے۔یہودیوں کے بقول 70ء کی تباہی سے ہیکل سلیمانی کی ایک دیوار کا کچھ حصہ بچا ہوا ہے جہاں دو ہزار سال سے یہودی زائرین آکر رویا کرتے تھے اسی لیے اسے ’’دیوار گریہ‘‘ کہا جاتا ہے۔یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ اس نے ایک دن ارض مقدس یروشلم میں لوٹنا ہے جہاں ان کا مسیحا آئے گا اوروہ ان کے لیے حضرت داؤد علیہ السلام اورحضرت سلیمان علیہ السلام جیسی نمایاں حکومت قائم کرے گا۔بنی اسرائیل نے فرعونوں کی غلامی میں، اخلاق وکردارسمیت ہر اعلیٰ وصف کو بھلادیاتھا، اس لیے بار بار پیغمبروں کی آمد ہوئی جوا ن کی اصلاح کی کوشش کرتے رہے، مگراس ناشکری قوم نے نہ صرف پیغمبروں کی قربانی اورمحنت کو ضایع کیا بلکہ ان میں سے بہت سوں کوشہید بھی کرکے اپنی شقاوت اوربدبختی پر مہر ثبت کردی۔ یہی نہیں بلکہ آسمانی کتابوں میں تحریف کرکے اپنی اگلی نسلوں کے لیے ہدایت کے دروازے خود بند کردیے۔انہی بد بختیوں اور نافرمانیوں کی پاداش میں یہ قوم ہمیشہ سے ذلیل و رسوا رہی ہے ہر کوئی اِن کوبے عزت کر کے اپنے ملک سے بے دخل کرنے کی کامیاب کوشش کر چکا ہے۔587 قبل مسیح میں بابل کے بادشاہ بخت نصر نے اِن کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ 539قبل مسیح میں ایرانی فاتح سائرس (خورس یا خسرو) نے بابل کو فتح کر کے یہودیوں کو واپس آنے کی اجازت دے دی۔ 98 قبل مسیح یونانی فاتح ’’اینٹیوکس سوم‘‘ (Antiochus III) نے فلسطین پر حملہ کر کے فتح کر لیا جو مذہبا مشرک اور اخلاقاً بے راہ رو تھا ۔ اسے یہودی مذہب اور تہذیب سے سخت نفرت تھی اس کے خلاف یہودیوں نے ’’مکابی تحریک‘‘ برپا کی۔ مکابیوں کی تحریک رفتہ رفتہ خالص دنیا پرستی اور خواہشات نفسانی کی نذر ہو گئی چنانچہ 63 قبل مسیح میں روم کے جنرل پومپی (Pompey)نے فلسطین پر حملہ کر کے یہودیوں کی آزادی کا خاتمہ کر دیا۔ 64 اور 66 قبل مسیح کے درمیان یہودیوں اور رومیوں کے درمیان رنجشیں بڑھتی گئی یہاں تک کہ 70عیسوی کو ٹائٹس (Titus)نے بزور شمشیر یروشلم کو فتح کر کے 33لاکھ یہودیوں کو قتل کر دیا، 67 ہزار آدمیوں کو گرفتار کر کے غلام بنا لیا گیا۔ ہزارہا آدمی پکڑ پکڑ کر مصری کانوں میں بیگار کے لیے بھیج دئیے گئے۔ ہزاروں یہودی جنگلی جانوروں کی نذر کر دئیے گئے، یروشلم اور ہیکل کو پیوند خاک کر دیا گیا۔ اس کے بعد فلسطین سے یہودی اثر ایسا مٹا کہ دو ہزار برس تک اس کو پھر سر اٹھانے کا موقع نہ ملا۔صلیبی جنگوں کے دوران عیسائی جنگجؤوں کو لڑنے کے لیے اگر مسلمان نہ ملتے تو یہودیوں کو صلیب پر چھڑا دیتے چنانچہ شمالی فرانس، رائن لینڈ، ٹریولیس، وورمز، اور کئی دیگر مقامات پر عیسائی خونخوار بد بخت یہودیوں کو اتنی بے دردی سے مارتے کہ وہ ان کے ہتھے چڑھنے کے بجائے خود کشی کرنے کو ترجیح دیتے۔1257ء اور 1267ء کی خانہ جنگیوں کے دوران سات شہروں لندن(London)، کنٹربری(Contour Burry)، نارتھمپٹن(Northampton)، ونچسٹر( winchester)، ورسسٹر ( Worcester)، لنکولن(Lincoln) اور کمیبرج(Cambridge) کے تمام یہودی خاندانوں کو ملیا میٹ کر دیا۔ انگلینڈ کے ایڈورڈ اول (Edward I of England) نے سولہ ہزار یہودیوں کو حکم دیا کہ وہ اپنا مال و متاع کو چھوڑ کر نکل جائیں ۔ یہ لوگ چھوٹی چھوٹی کشتیوں میں روانہ ہوئے ، بہت سی کشتیاں سمندر میں ہی ڈوب گئیں اور باقی فرانس پہنچ گئے۔1180ءکو فرانس کے فلپ دوم (Philip II of France) نے تمام یہودیوں کو جیل میں ڈال دیا، پھر بھاری رقوم لے کر رہا کر دیا اور ایک سال بعد ملک سے نکل جانے کو کہا۔1236ء میں صلیبی جنگجوؤں نے یہودیوں سے مطالبہ کیا کہ وہ عیسائیت قبول کر لیں، انکار کرنے پر تین ہزار یہودیوں کو گھوڑوں کے سموں تلے کچل دیا گیا۔1254ء میں ایک بار پھر اِن کو فرانس سے ذلیل کر کے ملک بدر کر دیا گیا۔1321ء میں سپین کے رہنے والے یہودیوں کو ایک سازش کے نتیجے میں چن چن کر مارا گیا۔1348ء میں کنوؤں میں زہر پھینکنے کے الزام میں یورپ بھر میں لاکھوں یہودیوں کو زندہ جلا دیا گیا۔ 1364ء میں فرانس کے جان دوم (John II of France) کی وفات کے بعد یہودیوں نے فرانس کے حکمرانوں کو بھاری رشوتیں دے کر دوبارہ فرانس میں جگہ بنا لی۔ 1394ء میں یہودیوں کے خلاف فرانس کے مختلف شہروں میں ہنگامے ہوئے بالآخر مارپیٹ اور لوٹ مار کر کے ان کو نکال دیا گیا اور وہ اگلے چار سو سال تک یعنی انقلاب فرانس (1789ء) تک دوبارہ اس ملک کا رخ نہ کر سکے۔1494ء میں سپین میں مسلمانوں کے اقتدار کے خاتمے کے بعد فرڈیننڈ دوم (Ferdinand II) نے یہودیوں کی مزاحمت کے نتیجے میں بے شمار یہودیوں کو زندہ جلا دیا جبکہ باقی ملک چھوڑ کر بھاگ نکلے۔
چودہویں صدی کے آخر میں ذلتوں اور رسوائیوں کی داستان رقم کرنے کے بعد آخر کار پولینڈ پہنچے۔ سولہویں صدی یعنی 1648ء میں وہاں بھی مقامی لوگوں کے احتجاج اور قتل غارت گری سے تنگ آکر بھاگنے پر مجبور ہو گئے اور کچھ نے ذلت و رسوائی کا طوق گلے میں ڈال کر وہاں سکونت اختیار کر لی۔
پولینڈ سے پسپائی اختیار کرنے کے بعد جرمنی میں پناہ لینے کے لیے پہنچ گئے۔ وہاں پہنچنے پر بھی ’’ضرب علیھم الذلۃ ‘‘کا کوڑا ان کے سر پر سایہ فگن رہا۔عیسائی پادریوں نے اِن سے حلف لینے کا یہ طریقہ اختیار کیا کہ یہودی کو ننگے پاؤں سور کی کھال پر کھڑے ہو کر یہ الفاظ کہنے پڑتے:
’’میں نجس یہودی ہوں ، میں آوارہ ہوں، میرا کوئی گھر نہیں اور کوئی وطن نہیں، سوائے اس کے کہ جو چرچ کی مہربانی سے مجھے نصیب ہو، میں ذلیل ہوں اور تمام بنی نوع انسان کی ذلت کا صرف باعث ہی نہیں بلکہ اس کی تباہی کا سامان بھی ہوں۔میری عورتیں طوائفیں ہیں اور میرا انجام دائمی جہنم ہے کیونکہ میں جرچ اور تمام نیک عیسائیوں کا بد ترین دشمن ہوں‘‘
اٹھارھویں صدی عیسوی میں تقریباً دس لاکھ یہودی کسی بھی طرح سے روس پہنچ گئے اور تقریباً 70 سال تک آباد رہے، چنانچہ ایک یہودی نے عیسائیت قبول کرلی اور ایک کتاب ’’دی بک آف کہل‘‘ لکھی جس میں یہودیوں کا عیسائیوں کے خاتمے کی منصوبہ بندیوں کا انکشاف کیا گیا تھا۔ کتاب کو سرکاری سرپرستی کے تحت بڑے پیمانہ پر شائع کیا گیا اور 1871ء میں یہودیوں کا قتل عام شروع ہو گیا، چار دن تک یہودی بلا روک ٹوک مارے گئے۔ اس پر یہود کی اکثریت روس سے فرار ہو کر مغربی یورپ اور امریکہ پہنچنے لگی اور آج حالت یہاں تک آپہنچی ہے کہ آج امریکہ کی تجارت ہو یا معیشت، الیکٹرونک میڈیا ہو یا سوشل میڈیا، ملکی درآمدات ہو یا برآمدات تمام سرخ سفید کے مالک یہودی بن بیٹھے ہیں اسی لیے اُن کو بخوشی یا زبردستی یروشلم کو اسرائیل کا دار الحکومت قرار دینا ہی تھا تاکہ ان ناپاک اور نجس لوگوں کو اپنے ملک سے نکال باہر کریں۔250 عیسوی سے لے کر آج تک ان بد بخت لوگوں کو 109 مقامات سے نکالا گیا ہے اور مزید فلسطین سے نکالنے کی ضرورت اس لیے پیش نہیں آئے گی کیونکہ یہی وہ جگہ ہے جہاں اِن تمام کا خاتمہ ہونا ہے۔(ان شاء اللہ)
تقریباً دوہزارسال کی غلامی اوربدترین ذلت اورمحکومی کی زندگی گزارتے ہوئے یہ قوم ایک معاشرتی لعنت بن چکی تھی۔ہرکوئی ان سے نفرت کرتا، انہیں اپنے شہروں سے دربدرکرتا، علیحدہ لباس پہننے اورگلے میں شناخت کے لیے تختی لٹکانے کوکہا جاتا۔
ملکوں ملکوں بکھری یہ ذلیل ورسوا قوم 1896ء میں ایک جگہ اکٹھی ہوئی اورانہوں نے اس تصورکے مطابق آگے بڑھنے کا ارادہ کیا جوان کی مذہبی کتابوں میں درج تھا کہ تمہارا مسیحا آئے گا اورپھرتم پوری دنیا پریروشلم سے حکومت کروگے۔ آئندہ آنے والے سالوں کے لیے انہوں نے ایک ہدایت نامہ ترتیب دیا جسے “Protocols of the Elders of Zion” ’’صیہونیت کے برزگوں‘‘ کا مسودہ کہتے ہیں۔1897ء میں سوئزرلینڈ کے شہر ’’باسل‘‘ میں یہودیوں کی کانفرنس ہوئی اور وہاں دنیا پر قابض ہونے کے لیے پروٹوکول لکھے گئے، جس کا نمونہ آج ہمارے پاس اردو میں ترجمہ شدہ کتاب ’’یہودی پروٹوکولز‘‘ کے نام سے موجود ہے۔
گیارہ سال بعد انہوں نے بالفورڈکلیریشن کے ذریعے پوری دنیا کی قوموں سے یہ بات منوا لی کہ دنیا بھر میں بسنے والے تمام یہودی ایک قوم ہیں، خواہ وہ کوئی بھی زبان بولتے ہوں یا کسی نسل سے تعلق رکھتے ہوں اوران کوارض فلسطین میں آباد ہونے کا حق ہے۔5نومبر 1914ءکو برطانیہ نے خلافت عثمانیہ کے خلاف جنگ کا اعلان کردیا۔ اس کے 4 دن بعد برطانوی کابینہ میں ڈیویڈ لائڈ جارج نے یہودیوں کی فلسطین میں آباد کاری کے منصوبے کا خاکہ پیش کیا۔ مارک نے فرانس کے سفارت کار فرانکوئس پی کوٹ (Francois Picot) کے ساتھ مل کر برطانیہ کا فرانس کے درمیان ایک خفیہ معاہدہ کروایا جسے’’Asia Minor Agreement ‘‘کہتے ہیں۔ اس کے تحت خلافتِ عثمانیہ کے حصے بخرے ہوں گے تو کون کون سا علاقہ کس ملک کے پاس جائے گا؟ برطانیہ کے پاس دریائے اردن اور سمندر کے درمیان کا علاقہ جس میں آج کل اسرائیل واقع ہے اور جنوبی عراق جب کہ فرانس کے پاس جنوب مشرقی ترکی، شمالی عراق، شام اور لبنان اور روس کے پاس استنبول وغیرہ آنے تھے۔ یوں حیفہ اور ہیبرون کا علاقہ برطانیہ کے ہاتھ آ گیا جہاں انہوں نے صیہونی یہودیوں کے ساتھ معاہدہ کر کے انہیں وہاں آباد کرنا تھا۔ سائیکس اور پائی کوٹ نے اپنی مرضی سے پورے مشرق وسطیٰ کے نقشے پر لکیریں کھینچی جنہیں آج اردن، لبنان، عراق، شام، یمن، سعودی عرب اور دیگر ریاستیں کہتے ہیں۔ 21 جنوری 1915ء کوبرطانوی کابینہ میں ہربرٹ سیموئل کا میمورنڈم “فلسطین کا مستقبل” پیش ہوا۔آپ حیران ہوں گے کہ یورپ کے یہودی استقدر بااثر تھے کہ کابینہ نے ان کے میمورنڈم پر غور کیا۔ 1916ء میں بالفور ڈیکلریشن وجود میں آیا جس کے الفاظ تھے:
His majesty’s Government View with favor the establishment of a national Home for Jewish people, and will use their best endeavors to facilitate the achievement of their object
ترجمہ: (تاجِ برطانیہ اور اس کی حکومت فلسطین میں یہودیوں کے ایک قومی گھر کے قیام کو اچھی نظر سے دیکھتی ہے اور وہ اس کے حصول کے لیے اپنی تمام کوششیں بروئے کار لائے گی۔یہودیوں کوایک قوم تصورکرتے ہوئے وہاں بسنے کا حق ہوگا)۔1897ء کی پہلی کانفرنس کے بیس سال بعد 1917ء میں یورپی افواج نے یروشلم فتح کر لیا۔10 جنوری 1920ء کو لیگ آف نیشن (League of Nations) وجود میں آئی اور 1922ء میں سوئیٹزر لینڈ کے ایک شہر ’’لوسانی‘‘ (Lausanne)میں لیگ آف نیشن کے تحت ایک کانفرنس منعقد ہوئی جس میں فلسطین کے انتظام کو عراق اور اردن کے حوالے کر دیا گیا۔
1917ء جب ترکی کے حصے بخرے ہو چکے تھے برطانیہ نے اعلان کردیا کہ فلسطین میں یہودیوں کو جگہ ملنی چاہیے، یہ ان کا حق ہے۔ اُس وقت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے یہ فتویٰ دیا تھا کہ فلسطین میں کسی بھی مسلمان کے لیے یہودیو ں کو اپنی زمین بیچنا حرام ہے۔ بہرکیف برطانیہ نے عالمِ اسلام کے احتجاج کو نظرانداز کرتے ہوئے فلسطین یہودیوں کی آبادکاری شروع کردی۔1919ءمیں پہلا یہودی قافلہ لندن، پیرس، برلن اورنیویارک جیسے ماڈرن شہروں میںاپنی اربوں ڈالر کی جائیدادیں اور کاروبار چھوڑ کر بحر طبریہ عبورکرکے حیفہ اورتل ابیب کے ریگستان میں جاکرآباد ہونے کے لیے پہنچا۔اورآج تک یہ سلسلہ جاری ہے۔ آج فلسطین میں ساٹھ لاکھ سے زائد گھر یہودیوں کے آباد ہیں۔ کیا یہ سب خاندان جو جزیرئہ نمائے عرب کے شمالی کونے میں واقع ایک بے آب و گیاہ علاقے میں آباد ہو گئے یا کردیے گئے؟ ان کے پاس دولت، جائیداد، کاروبار یا عیش و عشرت کی کمی تھی؟ کیا ان کا بچپن یا ان کے باپ دادا کا بچپن اس سرزمین پر گزرا تھا کہ انہیں پل پل اس کے گلی کوچوں کی یاد ستاتی تھی؟ اور وہ اپنے آبائی گھروں میں جا کر آباد ہونا چاہتے تھے؟ اپنے قدیمی گلی محلوں میں کھیلنا کودنا چاہتے تھے؟ ایسا تو ہرگز نہ تھا۔ یہ سب لوگ جو انگلینڈ، یورپ کے دیگر ممالک اور امریکا کی ترقی یافتہ آبادیاں چھوڑ کر یہاں آباد ہوئے، اپنے اپنے علاقوں کے متمول ترین لوگ تھے۔ خوبصورت گھروں میں رہتے، شاندار گاڑیوں میں سفر کرتے اور وسیع کاروبار کے مالک ہوتے تھے۔ ان ملکوں میں امن، خوشحالی اور سلامتی بھی تھی۔ قانون کی حکمرانی اور انسانی حقوق کی پاسداری بھی، لیکن جہاں وہ جا کر آباد ہو رہے تھے وہاں تو نہ پانی، نہ سبزہ، سڑکیں نہ عمارات، ایک بے آباد سرزمین اور وہاں پر آباد عرب ان کی جان کے دشمن۔ اس کے باوجود وہ اپنا سب کچھ بیچ کر فلسطین کے علاقے میں جا کر آباد ہو گئے۔وہ وہاں کسی پرتعیش زندگی گزارنے، سائنس ٹیکنالوجی کی ترقی اورعلم کی پیاس بجھانے نہیں آئے بلکہ مسلمانوں کے خلاف تیسری عالمی جنگ کی تیاری اس ایمان اور یقین کے ساتھ کر رہے ہیں کہپھرایک ایسی سلطنت قائم کرنی ہے، جوفرات کے ساحلوں تک ہوگی. جس میں اردن، شام، قطر، بحرین، کویت، متحدہ عرب امارات ، یمن اورمدینہ تک آئیں گے۔ یہ تصورجس دن سے ان کے دماغوں میں راسخ ہوا اورانہوں نے بحیثیت قوم اس پریقین کرتے ہوئے عملدرآمد شروع کیا، اس کے بعد ان کی ترقی کی منزلیں طے کرنے کی رفتارناقابلِ یقین حد تک تیز ہوگئی۔ ہریہودی یہ خواب دیکھتا ہے اوراس کے لیے گھربارچھوڑکراسرائیلی آجاتا ہے یا پھرجہاں کہیں بھی ہے اپنی دولت سے خطیرحصہ اس اسرائیل کی ترقی کے لیے بھیجتا ہے۔
1917ء کے ٹھیک تیس سال بعد دوسری عالمی جنگ (World War II) چھیڑی گئی۔ اس بارصہیونیوں کے ہاتھوں اقوام متحدہ (United Nations)وجود میں آئی۔ جس کے بعد نومبر 1947ء میں برطانیہ نے اعلان کیا کہ یہود کو اُن کا وطن ملے گا، فلسطین میں آزاد یہودی مملکت ناگزیر ہے۔ اقوامِ متحدہ کے قیام کے 3 سال بعد 1948ء میں امریکا کی ایک ریاست کے جج مسٹرسٹرونگ نے ’’خیانت کے علمبردار‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی جس میں اس نے انکشاف کیا کہ 1897ء میں ہونے والی پہلی عالمی صہیونی کانفرنس میں لیگ آف نیشنر کا تصور ایک باقاعدہ زمانی ترتیب کے ساتھ پیش کیا گیا تھا کہ بالترتیب چند طے شدہ اقدامات کے بعد عالمی ادارہ وجود میں لایا جائے گا۔ اُس کانفرنس میں یہ بھی اعلان کردیا گیا تھا کہ ایسے ادارے کے قیام کے بعد یہودی مملکت کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوتے دیر نہیں لگے گی۔چنانچہ یہی ہوا۔ اقوام متحدہ کے تشکیل (24 اکتوبر 1945)پانے کے کچھ ہی عرصے بعد 1947ء میں فلسطین کو یہودیوں اور مسلمانوں کے درمیان تقسیم کرنے کی قرارداد پیش کی گئی۔ اس رائے شماری میں تمام رکن ملکوں کو شامل نہیں کیا گیا تھا، بلکہ چند مخصوص ممالک کو ووٹ دینے کا حق دیا گیا تھا۔ اس کے باوجود یہ قرادداد اتنی بے رحمانہ تھی کہ اس کی مخالفت میں پانچ اور حق میں صرف تین ووٹ آئے۔ قرارداد کو منظور کروانے کے لیے تین ووٹ اور چاہیے تھے۔ چنانچہ بدترین دھاندلی کرتے ہوئے رائے شماری میں فلپائن، ہنگری اور لائبیریا جیسے چند غریب ترین ممالک کو بھی شامل کرلیا گیا۔ ان پر یہودیوں کے حق میں ووٹ دینے کے لیے دباؤ ڈالا گیا۔ ان قحط زدہ ملکوں کی حکومتوں کو مالی رشوتیں بھی دی گئیں۔ اس طرح صہیونی لابی نے اسرائیل کے قیام کی قرارداد منظور کرائی۔ چنانچہ14 مئی 1948ء کو اسرائیل کے قیام کا اعلان ہوگیا۔ اس کے قیام کے 10 منٹ بعد امریکا نے اسے قبول کرلیا۔1995ء کے ایک فیصلے کے تحت اگرچہ امریکی کانگریس نے یروشلم (بیت المقدس) کو اسرائیل کا دار الحکومت قرار دے دیا تھا لیکن تینوں بڑے آسمانی مذاہب یعنی اسلام، یہودیت اور عیسائیت کے ساتھ اس شہر کے تاریخی، جذبات، نفسیاتی اور روحانی رشتوں کے پیش نظر بوجوہ اس کے اعلان کو چھ ماہ تک مؤخر کرنے کا اختیار امریکی صدر کو دے دیا گیا تھا اور یوں گزشتہ 22 برس سے تمام امریکی صدر اپنے اس حق کو خاموشی سے استعمال کرتے چلے آرہے تھے لیکن بالآخر ٹرمپ کے ذریعے مسلمانوں کے زخموں پر نمک پاشی کر دی گئی جس میں مزید اضافہ اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو کے موقف سے ہواکہ ’’ دنیا کے ہر کونے میں ہمارے لوگ یروشلم واپس آنے کے لیے بے تاب ہیں اور آج صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اعلان نے اسے ہمارے لیے ایک تاریخی دن بنا دیا ہے۔یہ ایک تاریخی دن ہے۔ یروشلم ہماری امیدوں، خوابوں اور دعاؤں کا مرکز رہا ہے۔ یروشلم یہودیوں کا تین ہزار سال سے دارالحکومت رہا ہے۔ یہاں پر ہماری عبادگاہیں رہی ہیں، ہمارے بادشاہوں نے حکمرانی کی ہے اور ہمارے پیغمبروں نے تبلیغ کی ہے‘‘۔
اس کے متوقع اثرات کیا ہیں اور کیا ہو سکتے ہیں فی الوقت ساری دنیا اس کی ضرب جمع وتفریق میں لگی ہوئی ہے لیکن صورت حال کچھ یوں معلوم ہوتی ہے، علامہ اقبالؒ نے فرمایا تھا: ؎
گنبد نیلوفری رنگ بدلتا ہے کیا دیکھیے اس بحر کی تہہ سے اچھلتا ہے کیا
اس کا جواب بھی علامہ اقبالؒ نے خود ہی یہ کہہ کر دے دیا ہے کہ:
آسمان ہو گا سحر کے نور سے آئینہ پوش اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی
آنکھ جو کچھ دیکھی ہے لب پہ آسکتا نہیں محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی۔
کیا خبر ٹرمپ کے اس شر سے ہی کوئی خیر کا پہلو نکل آئے۔تاریخ کے اس نازک موڑ پر مسلمان اُمت کو ایک اجتماعی موقف کو اپناتے ہوئے فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنے کے ساتھ ساتھ‘ اپنے مقدس مذہبی مقام کو پنجۂ یہود سے نکالنے کے لیے ٹھوس حکمت عملی کو اپنانا چاہیے۔جلد از جلد عالم اسلام کو اسرائیلی مظالم کے خلاف مضبوط موقف اختیار کرنا ہوگا ورنہ جو حشر آج فلسطین کا ہورہا ہے، وہی حالت کل ہر مسلمان ملک کا ہوسکتا ، کیونکہ طوفان خیز موجوں میں دوسروں کی ڈوبتی کشتی کو اطمینان سے دیکھنے والے خود بھی زیادہ دیر تک موجوں کی قہرانگیزی سے محفوظ نہیں رہتے۔
محمد ندیم پشاوری
ای میل:[حذف کیا گیا]
رابطہ: [حذف کیا گیا]
چودہویں صدی کے آخر میں ذلتوں اور رسوائیوں کی داستان رقم کرنے کے بعد آخر کار پولینڈ پہنچے۔ سولہویں صدی یعنی 1648ء میں وہاں بھی مقامی لوگوں کے احتجاج اور قتل غارت گری سے تنگ آکر بھاگنے پر مجبور ہو گئے اور کچھ نے ذلت و رسوائی کا طوق گلے میں ڈال کر وہاں سکونت اختیار کر لی۔
پولینڈ سے پسپائی اختیار کرنے کے بعد جرمنی میں پناہ لینے کے لیے پہنچ گئے۔ وہاں پہنچنے پر بھی ’’ضرب علیھم الذلۃ ‘‘کا کوڑا ان کے سر پر سایہ فگن رہا۔عیسائی پادریوں نے اِن سے حلف لینے کا یہ طریقہ اختیار کیا کہ یہودی کو ننگے پاؤں سور کی کھال پر کھڑے ہو کر یہ الفاظ کہنے پڑتے:
’’میں نجس یہودی ہوں ، میں آوارہ ہوں، میرا کوئی گھر نہیں اور کوئی وطن نہیں، سوائے اس کے کہ جو چرچ کی مہربانی سے مجھے نصیب ہو، میں ذلیل ہوں اور تمام بنی نوع انسان کی ذلت کا صرف باعث ہی نہیں بلکہ اس کی تباہی کا سامان بھی ہوں۔میری عورتیں طوائفیں ہیں اور میرا انجام دائمی جہنم ہے کیونکہ میں جرچ اور تمام نیک عیسائیوں کا بد ترین دشمن ہوں‘‘
اٹھارھویں صدی عیسوی میں تقریباً دس لاکھ یہودی کسی بھی طرح سے روس پہنچ گئے اور تقریباً 70 سال تک آباد رہے، چنانچہ ایک یہودی نے عیسائیت قبول کرلی اور ایک کتاب ’’دی بک آف کہل‘‘ لکھی جس میں یہودیوں کا عیسائیوں کے خاتمے کی منصوبہ بندیوں کا انکشاف کیا گیا تھا۔ کتاب کو سرکاری سرپرستی کے تحت بڑے پیمانہ پر شائع کیا گیا اور 1871ء میں یہودیوں کا قتل عام شروع ہو گیا، چار دن تک یہودی بلا روک ٹوک مارے گئے۔ اس پر یہود کی اکثریت روس سے فرار ہو کر مغربی یورپ اور امریکہ پہنچنے لگی اور آج حالت یہاں تک آپہنچی ہے کہ آج امریکہ کی تجارت ہو یا معیشت، الیکٹرونک میڈیا ہو یا سوشل میڈیا، ملکی درآمدات ہو یا برآمدات تمام سرخ سفید کے مالک یہودی بن بیٹھے ہیں اسی لیے اُن کو بخوشی یا زبردستی یروشلم کو اسرائیل کا دار الحکومت قرار دینا ہی تھا تاکہ ان ناپاک اور نجس لوگوں کو اپنے ملک سے نکال باہر کریں۔250 عیسوی سے لے کر آج تک ان بد بخت لوگوں کو 109 مقامات سے نکالا گیا ہے اور مزید فلسطین سے نکالنے کی ضرورت اس لیے پیش نہیں آئے گی کیونکہ یہی وہ جگہ ہے جہاں اِن تمام کا خاتمہ ہونا ہے۔(ان شاء اللہ)
تقریباً دوہزارسال کی غلامی اوربدترین ذلت اورمحکومی کی زندگی گزارتے ہوئے یہ قوم ایک معاشرتی لعنت بن چکی تھی۔ہرکوئی ان سے نفرت کرتا، انہیں اپنے شہروں سے دربدرکرتا، علیحدہ لباس پہننے اورگلے میں شناخت کے لیے تختی لٹکانے کوکہا جاتا۔
ملکوں ملکوں بکھری یہ ذلیل ورسوا قوم 1896ء میں ایک جگہ اکٹھی ہوئی اورانہوں نے اس تصورکے مطابق آگے بڑھنے کا ارادہ کیا جوان کی مذہبی کتابوں میں درج تھا کہ تمہارا مسیحا آئے گا اورپھرتم پوری دنیا پریروشلم سے حکومت کروگے۔ آئندہ آنے والے سالوں کے لیے انہوں نے ایک ہدایت نامہ ترتیب دیا جسے “Protocols of the Elders of Zion” ’’صیہونیت کے برزگوں‘‘ کا مسودہ کہتے ہیں۔1897ء میں سوئزرلینڈ کے شہر ’’باسل‘‘ میں یہودیوں کی کانفرنس ہوئی اور وہاں دنیا پر قابض ہونے کے لیے پروٹوکول لکھے گئے، جس کا نمونہ آج ہمارے پاس اردو میں ترجمہ شدہ کتاب ’’یہودی پروٹوکولز‘‘ کے نام سے موجود ہے۔
گیارہ سال بعد انہوں نے بالفورڈکلیریشن کے ذریعے پوری دنیا کی قوموں سے یہ بات منوا لی کہ دنیا بھر میں بسنے والے تمام یہودی ایک قوم ہیں، خواہ وہ کوئی بھی زبان بولتے ہوں یا کسی نسل سے تعلق رکھتے ہوں اوران کوارض فلسطین میں آباد ہونے کا حق ہے۔5نومبر 1914ءکو برطانیہ نے خلافت عثمانیہ کے خلاف جنگ کا اعلان کردیا۔ اس کے 4 دن بعد برطانوی کابینہ میں ڈیویڈ لائڈ جارج نے یہودیوں کی فلسطین میں آباد کاری کے منصوبے کا خاکہ پیش کیا۔ مارک نے فرانس کے سفارت کار فرانکوئس پی کوٹ (Francois Picot) کے ساتھ مل کر برطانیہ کا فرانس کے درمیان ایک خفیہ معاہدہ کروایا جسے’’Asia Minor Agreement ‘‘کہتے ہیں۔ اس کے تحت خلافتِ عثمانیہ کے حصے بخرے ہوں گے تو کون کون سا علاقہ کس ملک کے پاس جائے گا؟ برطانیہ کے پاس دریائے اردن اور سمندر کے درمیان کا علاقہ جس میں آج کل اسرائیل واقع ہے اور جنوبی عراق جب کہ فرانس کے پاس جنوب مشرقی ترکی، شمالی عراق، شام اور لبنان اور روس کے پاس استنبول وغیرہ آنے تھے۔ یوں حیفہ اور ہیبرون کا علاقہ برطانیہ کے ہاتھ آ گیا جہاں انہوں نے صیہونی یہودیوں کے ساتھ معاہدہ کر کے انہیں وہاں آباد کرنا تھا۔ سائیکس اور پائی کوٹ نے اپنی مرضی سے پورے مشرق وسطیٰ کے نقشے پر لکیریں کھینچی جنہیں آج اردن، لبنان، عراق، شام، یمن، سعودی عرب اور دیگر ریاستیں کہتے ہیں۔ 21 جنوری 1915ء کوبرطانوی کابینہ میں ہربرٹ سیموئل کا میمورنڈم “فلسطین کا مستقبل” پیش ہوا۔آپ حیران ہوں گے کہ یورپ کے یہودی استقدر بااثر تھے کہ کابینہ نے ان کے میمورنڈم پر غور کیا۔ 1916ء میں بالفور ڈیکلریشن وجود میں آیا جس کے الفاظ تھے:
His majesty’s Government View with favor the establishment of a national Home for Jewish people, and will use their best endeavors to facilitate the achievement of their object
ترجمہ: (تاجِ برطانیہ اور اس کی حکومت فلسطین میں یہودیوں کے ایک قومی گھر کے قیام کو اچھی نظر سے دیکھتی ہے اور وہ اس کے حصول کے لیے اپنی تمام کوششیں بروئے کار لائے گی۔یہودیوں کوایک قوم تصورکرتے ہوئے وہاں بسنے کا حق ہوگا)۔1897ء کی پہلی کانفرنس کے بیس سال بعد 1917ء میں یورپی افواج نے یروشلم فتح کر لیا۔10 جنوری 1920ء کو لیگ آف نیشن (League of Nations) وجود میں آئی اور 1922ء میں سوئیٹزر لینڈ کے ایک شہر ’’لوسانی‘‘ (Lausanne)میں لیگ آف نیشن کے تحت ایک کانفرنس منعقد ہوئی جس میں فلسطین کے انتظام کو عراق اور اردن کے حوالے کر دیا گیا۔
1917ء جب ترکی کے حصے بخرے ہو چکے تھے برطانیہ نے اعلان کردیا کہ فلسطین میں یہودیوں کو جگہ ملنی چاہیے، یہ ان کا حق ہے۔ اُس وقت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے یہ فتویٰ دیا تھا کہ فلسطین میں کسی بھی مسلمان کے لیے یہودیو ں کو اپنی زمین بیچنا حرام ہے۔ بہرکیف برطانیہ نے عالمِ اسلام کے احتجاج کو نظرانداز کرتے ہوئے فلسطین یہودیوں کی آبادکاری شروع کردی۔1919ءمیں پہلا یہودی قافلہ لندن، پیرس، برلن اورنیویارک جیسے ماڈرن شہروں میںاپنی اربوں ڈالر کی جائیدادیں اور کاروبار چھوڑ کر بحر طبریہ عبورکرکے حیفہ اورتل ابیب کے ریگستان میں جاکرآباد ہونے کے لیے پہنچا۔اورآج تک یہ سلسلہ جاری ہے۔ آج فلسطین میں ساٹھ لاکھ سے زائد گھر یہودیوں کے آباد ہیں۔ کیا یہ سب خاندان جو جزیرئہ نمائے عرب کے شمالی کونے میں واقع ایک بے آب و گیاہ علاقے میں آباد ہو گئے یا کردیے گئے؟ ان کے پاس دولت، جائیداد، کاروبار یا عیش و عشرت کی کمی تھی؟ کیا ان کا بچپن یا ان کے باپ دادا کا بچپن اس سرزمین پر گزرا تھا کہ انہیں پل پل اس کے گلی کوچوں کی یاد ستاتی تھی؟ اور وہ اپنے آبائی گھروں میں جا کر آباد ہونا چاہتے تھے؟ اپنے قدیمی گلی محلوں میں کھیلنا کودنا چاہتے تھے؟ ایسا تو ہرگز نہ تھا۔ یہ سب لوگ جو انگلینڈ، یورپ کے دیگر ممالک اور امریکا کی ترقی یافتہ آبادیاں چھوڑ کر یہاں آباد ہوئے، اپنے اپنے علاقوں کے متمول ترین لوگ تھے۔ خوبصورت گھروں میں رہتے، شاندار گاڑیوں میں سفر کرتے اور وسیع کاروبار کے مالک ہوتے تھے۔ ان ملکوں میں امن، خوشحالی اور سلامتی بھی تھی۔ قانون کی حکمرانی اور انسانی حقوق کی پاسداری بھی، لیکن جہاں وہ جا کر آباد ہو رہے تھے وہاں تو نہ پانی، نہ سبزہ، سڑکیں نہ عمارات، ایک بے آباد سرزمین اور وہاں پر آباد عرب ان کی جان کے دشمن۔ اس کے باوجود وہ اپنا سب کچھ بیچ کر فلسطین کے علاقے میں جا کر آباد ہو گئے۔وہ وہاں کسی پرتعیش زندگی گزارنے، سائنس ٹیکنالوجی کی ترقی اورعلم کی پیاس بجھانے نہیں آئے بلکہ مسلمانوں کے خلاف تیسری عالمی جنگ کی تیاری اس ایمان اور یقین کے ساتھ کر رہے ہیں کہپھرایک ایسی سلطنت قائم کرنی ہے، جوفرات کے ساحلوں تک ہوگی. جس میں اردن، شام، قطر، بحرین، کویت، متحدہ عرب امارات ، یمن اورمدینہ تک آئیں گے۔ یہ تصورجس دن سے ان کے دماغوں میں راسخ ہوا اورانہوں نے بحیثیت قوم اس پریقین کرتے ہوئے عملدرآمد شروع کیا، اس کے بعد ان کی ترقی کی منزلیں طے کرنے کی رفتارناقابلِ یقین حد تک تیز ہوگئی۔ ہریہودی یہ خواب دیکھتا ہے اوراس کے لیے گھربارچھوڑکراسرائیلی آجاتا ہے یا پھرجہاں کہیں بھی ہے اپنی دولت سے خطیرحصہ اس اسرائیل کی ترقی کے لیے بھیجتا ہے۔
1917ء کے ٹھیک تیس سال بعد دوسری عالمی جنگ (World War II) چھیڑی گئی۔ اس بارصہیونیوں کے ہاتھوں اقوام متحدہ (United Nations)وجود میں آئی۔ جس کے بعد نومبر 1947ء میں برطانیہ نے اعلان کیا کہ یہود کو اُن کا وطن ملے گا، فلسطین میں آزاد یہودی مملکت ناگزیر ہے۔ اقوامِ متحدہ کے قیام کے 3 سال بعد 1948ء میں امریکا کی ایک ریاست کے جج مسٹرسٹرونگ نے ’’خیانت کے علمبردار‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی جس میں اس نے انکشاف کیا کہ 1897ء میں ہونے والی پہلی عالمی صہیونی کانفرنس میں لیگ آف نیشنر کا تصور ایک باقاعدہ زمانی ترتیب کے ساتھ پیش کیا گیا تھا کہ بالترتیب چند طے شدہ اقدامات کے بعد عالمی ادارہ وجود میں لایا جائے گا۔ اُس کانفرنس میں یہ بھی اعلان کردیا گیا تھا کہ ایسے ادارے کے قیام کے بعد یہودی مملکت کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوتے دیر نہیں لگے گی۔چنانچہ یہی ہوا۔ اقوام متحدہ کے تشکیل (24 اکتوبر 1945)پانے کے کچھ ہی عرصے بعد 1947ء میں فلسطین کو یہودیوں اور مسلمانوں کے درمیان تقسیم کرنے کی قرارداد پیش کی گئی۔ اس رائے شماری میں تمام رکن ملکوں کو شامل نہیں کیا گیا تھا، بلکہ چند مخصوص ممالک کو ووٹ دینے کا حق دیا گیا تھا۔ اس کے باوجود یہ قرادداد اتنی بے رحمانہ تھی کہ اس کی مخالفت میں پانچ اور حق میں صرف تین ووٹ آئے۔ قرارداد کو منظور کروانے کے لیے تین ووٹ اور چاہیے تھے۔ چنانچہ بدترین دھاندلی کرتے ہوئے رائے شماری میں فلپائن، ہنگری اور لائبیریا جیسے چند غریب ترین ممالک کو بھی شامل کرلیا گیا۔ ان پر یہودیوں کے حق میں ووٹ دینے کے لیے دباؤ ڈالا گیا۔ ان قحط زدہ ملکوں کی حکومتوں کو مالی رشوتیں بھی دی گئیں۔ اس طرح صہیونی لابی نے اسرائیل کے قیام کی قرارداد منظور کرائی۔ چنانچہ14 مئی 1948ء کو اسرائیل کے قیام کا اعلان ہوگیا۔ اس کے قیام کے 10 منٹ بعد امریکا نے اسے قبول کرلیا۔1995ء کے ایک فیصلے کے تحت اگرچہ امریکی کانگریس نے یروشلم (بیت المقدس) کو اسرائیل کا دار الحکومت قرار دے دیا تھا لیکن تینوں بڑے آسمانی مذاہب یعنی اسلام، یہودیت اور عیسائیت کے ساتھ اس شہر کے تاریخی، جذبات، نفسیاتی اور روحانی رشتوں کے پیش نظر بوجوہ اس کے اعلان کو چھ ماہ تک مؤخر کرنے کا اختیار امریکی صدر کو دے دیا گیا تھا اور یوں گزشتہ 22 برس سے تمام امریکی صدر اپنے اس حق کو خاموشی سے استعمال کرتے چلے آرہے تھے لیکن بالآخر ٹرمپ کے ذریعے مسلمانوں کے زخموں پر نمک پاشی کر دی گئی جس میں مزید اضافہ اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو کے موقف سے ہواکہ ’’ دنیا کے ہر کونے میں ہمارے لوگ یروشلم واپس آنے کے لیے بے تاب ہیں اور آج صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اعلان نے اسے ہمارے لیے ایک تاریخی دن بنا دیا ہے۔یہ ایک تاریخی دن ہے۔ یروشلم ہماری امیدوں، خوابوں اور دعاؤں کا مرکز رہا ہے۔ یروشلم یہودیوں کا تین ہزار سال سے دارالحکومت رہا ہے۔ یہاں پر ہماری عبادگاہیں رہی ہیں، ہمارے بادشاہوں نے حکمرانی کی ہے اور ہمارے پیغمبروں نے تبلیغ کی ہے‘‘۔
اس کے متوقع اثرات کیا ہیں اور کیا ہو سکتے ہیں فی الوقت ساری دنیا اس کی ضرب جمع وتفریق میں لگی ہوئی ہے لیکن صورت حال کچھ یوں معلوم ہوتی ہے، علامہ اقبالؒ نے فرمایا تھا: ؎
گنبد نیلوفری رنگ بدلتا ہے کیا دیکھیے اس بحر کی تہہ سے اچھلتا ہے کیا
اس کا جواب بھی علامہ اقبالؒ نے خود ہی یہ کہہ کر دے دیا ہے کہ:
آسمان ہو گا سحر کے نور سے آئینہ پوش اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی
آنکھ جو کچھ دیکھی ہے لب پہ آسکتا نہیں محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی۔
کیا خبر ٹرمپ کے اس شر سے ہی کوئی خیر کا پہلو نکل آئے۔تاریخ کے اس نازک موڑ پر مسلمان اُمت کو ایک اجتماعی موقف کو اپناتے ہوئے فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنے کے ساتھ ساتھ‘ اپنے مقدس مذہبی مقام کو پنجۂ یہود سے نکالنے کے لیے ٹھوس حکمت عملی کو اپنانا چاہیے۔جلد از جلد عالم اسلام کو اسرائیلی مظالم کے خلاف مضبوط موقف اختیار کرنا ہوگا ورنہ جو حشر آج فلسطین کا ہورہا ہے، وہی حالت کل ہر مسلمان ملک کا ہوسکتا ، کیونکہ طوفان خیز موجوں میں دوسروں کی ڈوبتی کشتی کو اطمینان سے دیکھنے والے خود بھی زیادہ دیر تک موجوں کی قہرانگیزی سے محفوظ نہیں رہتے۔
محمد ندیم پشاوری
ای میل:[حذف کیا گیا]
رابطہ: [حذف کیا گیا]
مدیر کی آخری تدوین: