موجو
لائبریرین
سلیم منصور خالد
انسانی جان کتنی قیمتی ہے اور انسانی حُرمت کیا معنی رکھتی ہے، قرآن حکیم نے دوٹوک الفاظ میں وضاحت کر دی ہے:
[ARABIC]مَنْ قَتَلَ نَفْسًام بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا [/ARABIC](المائدہ ۵:۳۲)
’’جس نے ایک بے گناہ کو قتل کیا، اس نے گویا ساری انسانیت کو قتل کر دیا‘‘۔
مراد یہ کہ بے گناہ انسانوں کا قتل کوئی بھی کرے، یہ ایک ایسا گھناؤنا جرم ہے کہ کوئی اور جرم اس کی سنگینی کو نہیں پہنچتا۔ اگر مقتولین کی تعداد دوچار نہیں، دس بیس بھی نہیں،سیکڑوں اور ہزاروں بھی نہیں بلکہ لاکھوں میں ہو تو معاملہ اور بھی نازک اور سنگین ہوجاتا ہے۔ اس معاملے کی وضاحت ۱۹۷۱ء میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے المیے اور بنگلہ دیش کی تشکیل میں قتل و غارت کے مبالغہ آمیز اعداد و شمار کے حوالے سے پیش کی جارہی ہے۔ یہ اعداد و شمار دروغ گوئی کی آخری حدود سے بھی متجاوز ہیں اور یہ سلسلہ بڑے دھڑلّے سے گذشتہ ۳۹برسوں سے جاری ہے۔ آیئے حقائق کی روشنی میں اس صورتِ حال کا تجزیہ کرتے ہیں۔ یک طرفہ پروپیگنڈے کا آغاز اس طرح ہوتا ہے:
مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے عمل (۱۶ دسمبر ۱۹۷۱ء) کے ساتھ ہی اُوپر تلے مختلف اعداد و شمار فضا میں گردش کرنے لگے۔
مثال کے طور پر: ’’مشرقی پاکستان سے ایک کروڑ بنگالی، بھارت میں پناہ گزین ہونے پر مجبور ہوگئے ہیں، ان کی گزربسر بڑی اذیت ناک ہے، انھیں دنیا بھر سے امداد کی ضرورت ہے‘‘۔
’’پاکستانی فوج نے لاکھوں بنگالی مار دیے ہیں‘‘۔۱۰لاکھ، نہیں ۲۰ لاکھ، نہیں ۳۰ لاکھ، یہ بھی نہیں ۳۵لاکھ مار دیے ہیں‘‘
بلکہ
’’۵۰لاکھ سے بھی زیادہ مار دیے ہیں‘‘
’’۲لاکھ بنگالی عورتوں کو زنا بالجبر کا نشانہ بنایا گیا‘‘۔
’’۳ لاکھ، نہیں ساڑھے تین لاکھ بنگالی عورتوں سے زیادتی کی گئی‘‘
۸ جنوری ۱۹۷۲ء کو پاکستان توڑنے کی سازش کے مرکزی کردار شیخ مجیب الرحمن نے پاکستان سے رہائی پاکر لندن پہنچتے ہی دعویٰ کیا:
’’بنگلہ دیش میں ۱۰لاکھ انسان مارے گئے ہیں‘‘۔ (دی ٹائمز، ڈیلی ٹیلی گراف، لندن، ٹائمز آف انڈیا، دہلی، پاکستان ٹائمز، لاہور ۹جنوری ۱۹۷۲ء)
لیکن
لندن سے براستہ دہلی، ڈھاکا جاتے ہوئے شیخ مجیب کے ’فہم‘ اور ’معلومات‘ میں حیرت انگیز اضافہ ہوا، اور ۱۰جنوری کو ڈھاکا کی سرزمین چھونے کے بعد موصوف نے کہا:
’’۳۵لاکھ بنگالی مارے گئے ہیں‘‘ (جیوتی سین گپتا، بنگلہ دیش میں تحریکِ آزادی، ۱۹۴۷ء تا ۱۹۷۳ء (انگریزی) کلکتہ، ۱۹۷۴ء، ص ۴۴۵)۔
مگر کچھ ہی عرصے بعد انھوں نے ۳۵ لاکھ کے عدد میں ذرا کمی کرکے: ’’۳۰ لاکھ مارے گئے اور ۳ لاکھ عورتوں سے بالجبر زیادتی (ریپ) کی گئی‘‘ کے عدد پر جم جانا مناسب سمجھا اور پھر یہی موقف نجی، عوامی اور بین الاقوامی سطح پر دہرانا وظیفۂ زندگی بنا لیا۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انسانی جان کتنی قیمتی ہے اور انسانی حُرمت کیا معنی رکھتی ہے، قرآن حکیم نے دوٹوک الفاظ میں وضاحت کر دی ہے:
[ARABIC]مَنْ قَتَلَ نَفْسًام بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا [/ARABIC](المائدہ ۵:۳۲)
’’جس نے ایک بے گناہ کو قتل کیا، اس نے گویا ساری انسانیت کو قتل کر دیا‘‘۔
مراد یہ کہ بے گناہ انسانوں کا قتل کوئی بھی کرے، یہ ایک ایسا گھناؤنا جرم ہے کہ کوئی اور جرم اس کی سنگینی کو نہیں پہنچتا۔ اگر مقتولین کی تعداد دوچار نہیں، دس بیس بھی نہیں،سیکڑوں اور ہزاروں بھی نہیں بلکہ لاکھوں میں ہو تو معاملہ اور بھی نازک اور سنگین ہوجاتا ہے۔ اس معاملے کی وضاحت ۱۹۷۱ء میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے المیے اور بنگلہ دیش کی تشکیل میں قتل و غارت کے مبالغہ آمیز اعداد و شمار کے حوالے سے پیش کی جارہی ہے۔ یہ اعداد و شمار دروغ گوئی کی آخری حدود سے بھی متجاوز ہیں اور یہ سلسلہ بڑے دھڑلّے سے گذشتہ ۳۹برسوں سے جاری ہے۔ آیئے حقائق کی روشنی میں اس صورتِ حال کا تجزیہ کرتے ہیں۔ یک طرفہ پروپیگنڈے کا آغاز اس طرح ہوتا ہے:
مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے عمل (۱۶ دسمبر ۱۹۷۱ء) کے ساتھ ہی اُوپر تلے مختلف اعداد و شمار فضا میں گردش کرنے لگے۔
مثال کے طور پر: ’’مشرقی پاکستان سے ایک کروڑ بنگالی، بھارت میں پناہ گزین ہونے پر مجبور ہوگئے ہیں، ان کی گزربسر بڑی اذیت ناک ہے، انھیں دنیا بھر سے امداد کی ضرورت ہے‘‘۔
’’پاکستانی فوج نے لاکھوں بنگالی مار دیے ہیں‘‘۔۱۰لاکھ، نہیں ۲۰ لاکھ، نہیں ۳۰ لاکھ، یہ بھی نہیں ۳۵لاکھ مار دیے ہیں‘‘
بلکہ
’’۵۰لاکھ سے بھی زیادہ مار دیے ہیں‘‘
’’۲لاکھ بنگالی عورتوں کو زنا بالجبر کا نشانہ بنایا گیا‘‘۔
’’۳ لاکھ، نہیں ساڑھے تین لاکھ بنگالی عورتوں سے زیادتی کی گئی‘‘
۸ جنوری ۱۹۷۲ء کو پاکستان توڑنے کی سازش کے مرکزی کردار شیخ مجیب الرحمن نے پاکستان سے رہائی پاکر لندن پہنچتے ہی دعویٰ کیا:
’’بنگلہ دیش میں ۱۰لاکھ انسان مارے گئے ہیں‘‘۔ (دی ٹائمز، ڈیلی ٹیلی گراف، لندن، ٹائمز آف انڈیا، دہلی، پاکستان ٹائمز، لاہور ۹جنوری ۱۹۷۲ء)
لیکن
لندن سے براستہ دہلی، ڈھاکا جاتے ہوئے شیخ مجیب کے ’فہم‘ اور ’معلومات‘ میں حیرت انگیز اضافہ ہوا، اور ۱۰جنوری کو ڈھاکا کی سرزمین چھونے کے بعد موصوف نے کہا:
’’۳۵لاکھ بنگالی مارے گئے ہیں‘‘ (جیوتی سین گپتا، بنگلہ دیش میں تحریکِ آزادی، ۱۹۴۷ء تا ۱۹۷۳ء (انگریزی) کلکتہ، ۱۹۷۴ء، ص ۴۴۵)۔
مگر کچھ ہی عرصے بعد انھوں نے ۳۵ لاکھ کے عدد میں ذرا کمی کرکے: ’’۳۰ لاکھ مارے گئے اور ۳ لاکھ عورتوں سے بالجبر زیادتی (ریپ) کی گئی‘‘ کے عدد پر جم جانا مناسب سمجھا اور پھر یہی موقف نجی، عوامی اور بین الاقوامی سطح پر دہرانا وظیفۂ زندگی بنا لیا۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔