محترم اراکین محفل آپ سب سے التجا ہے کہ میرے لکھے پر تنقیدی نگاہ رکھا کریں ۔ تاکہ میری سوچ کی " کجی " درست ہو ۔
اپنی تحریر سے آپ کا اختلاف میرے لیئے باعث آگہی ٹھہرے گا ۔ مجھے اک " طفل مکتب " ہی جانیئے جو کہ " اپنی حقیقت کی تلاش " میں سرگرداں ہے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
کسی حساس شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ
سینے میں جلن آنکھوں میں طوفان سا کیوں ہے
اس شہر میں ہر شخص پریشان سا کیوں ہے
دل ہے تو دھڑکنے کا بہانہ کوئی ڈھونڈے
پتھر کی طرح بے حس و بے جان سا کیوں ہے
تنہائی کی یہ کون سی منزل ہے رفیقو
تا حد نظر ایک بیابان سا کیوں ہے
اک اور شاعر نے کچھ ایسے کہا کہ
جب بہار آئی تو صحرا کی طرف چل نکلا
صحنِ گُل چھوڑ گیا، دل میرا پاگل نکلا
جب اسے ڈھونڈنے نکلے تو نشاں تک نہ ملا
دل میں موجود رہا۔ آنکھ سے اوجھل نکلا
اک ملاقات تھی جو دل کوسدا یاد رہی
ہم جسے عمر سمجھتے تھے وہ اک پل نکلا
وہ جو افسانہء غم سن کے ہنسا کرتے تھے
اتنا روئے ہیں کہ سب آنکھ کا کاجل نکلا
ہم سکوں ڈھونڈنے نکلے تھے، پریشان رہے
شہر تو شہر ہے، جنگل بھی نہ جنگل نکلا
کون ایوب پریشاں نہیں تاریکی میں
چاند افلاک پہ،دل سینے میں بے کل نکلا
کوئی " پریشانی سی پریشانی ہے " ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
زندگی کے صحرا میں رقصاں وقت کے بگولوں کے مقابل انسان کی مثال ریت کے ذرے جیسی ہے ۔ جسے وقت کے بگولے اپنے ساتھ اڑائے پھرتے زندگی کو رواں رکھتے ہیں ۔ وقت کے بگولوں پر سوار انسان کی زندگی کا سفر " غاروں کی صدی " سے شروع ہوا ۔ " اوزاروں کی صدیوں " سے گزرتے " تہذیبو ں کی صدیوں " تک پہنچتے " روحانیت کی صدیوں " سے آگہی پاتے " ایجادات کی صدی " سے گزر " ترقی کی صدی " میں قدم رکھا تو " پریشانی کی صدی " کا سامنا ہوا ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
وقت کے بگولوں نے انسانی زندگی کو روزمرہ کے مسائل و مشکلات میں الجھاتے عجیب و غریب حوادث کا شکار بناتے " ذہنی دباؤ کھنچاؤ تناؤ " کے جال میں پھنسا دیا ۔
بنی نوع انسان کا " مسائل الجھنوں پریشانیوں " کا شکار ہونا کوئی نئی بات نہیں ۔ یہ الجھنیں یہ روزمرہ کے مسائل انسانی زندگی کے آغاز سے ہی حضرت انساں کے ساتھی ہیں ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
یہ حقیقت اپنی جگہ کہ "آج کے مادی دور اورتیز رفتار زندگی میں ’’یہ مسائل ‘‘ ہر انسان کی زندگی کا ایک لازمی جزو ہو چکے ہیں ۔
سکول کے بچے ہوں یا کالج یونیورسٹی کے طالب علم اپنے مشکوک مستقبل کے احساس سے پریشان ۔۔۔
سند یافتہ بے کار نوجوان تلاش روزگار میں سرگرداں و پریشان ۔
عام لوگ اور ملازمت پیشہ افراد نامساعد حالات اور اپنے کام کاج سے مطمئن نہ ہونے کی وجہ سے پریشان ۔
تجارت پیشہ افراد نفع و نقصان کی دوڑ میں شامل ہو تےپریشا ں ۔
عمر رسیدہ لوگ زندگی سے بیزار ہو کر احساس تنہائی اورگمشدگی عمر سے پریشان ۔
امیر و غریب ہر دو اپنے اپنے اخراجات پورے کرنے کی فکر میں پریشان ۔۔
گویا کہ
’’ جو پریشان نہیں وہ یہ سوچ سوچ کر پریشان کہ وہ کیوں نہیں پریشان ‘‘۔
اور ہر جانب سے صرف اک یہی صدا " سکون کہیں نہیں "
غرض ہر انسان زندگی کی شاہراہ پر چلتے چلتے پریشانی کو اپنے ہمراہ سائے کی طرح ساتھ لئے چل رہا ہے اور اگر کوئی پریشان نہیں ہے تو شاید آج کی اصطلاح میں وہ ’’نارمل انسان‘‘ کہلانے کا مستحق نہیں ہے یعنی پریشانی اور زندگی لازم و ملزوم ہیں۔ پریشان ہونے کے باوجود اگر انسان اپنے روز مرہ کے معمولات بخود احسن انجام دے پارہا ہے تو کوئی بات نہیں مگر جب پریشانی زندگی کے روز مرہ معمولات میں دخل اندازی کرنے لگے تو یہ ایک بیماری یا نفسیاتی مسئلہ بن جاتی ہے۔
اگر مندرجہ بالا " انسانی زندگی کی حقیقتوں " کو کسی " حکیم" کے سامنے رکھا جائے تو اس کی " تشخیص " صرف یہی ہوگی کہ یہ سب " مسائل پریشانیاں خوف " صرف اور صرف " توکل و قناعت " پر یقین نہ رکھنے سے جنم لیتے ہیں ۔ " وہ جو سب کا مالک و خالق " ہے ۔ اس نے انسانوں تک اپنے چنیدہ انسانوں کی وساطت سے ان مسائل سے چھٹکارے کا علاج پہنچا دیا ہے ۔ ہر الہامی آسمانی کتب میں اس حقیقت کو کھلے طور بیان کر دیا گیا ہے کہ " توکل و قناعت " اختیار کیئے بنا " بے چینی و بے سکونی " سے بچنا محال ہے ۔
قران پاک میں " ایمان والوں " سے خطاب فرماتے فرمایا گیا ہے کہ
الذين امنوا وتطمئن قلوبهم بذكر الله
الا بذكر الله تطمئن القلوب
جو لوگ ایمان لائے ان کے دل اللہ کے ذکر سے اطمینان حاصل کرتے ہیں۔
یاد رکھو اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کو تسلی حاصل ہوتی ہے (2
سورة الرعد
بلاشک یہ سچا فرمان ہے۔
یہ بھی اک حقیقت ہے کہ " ذکر سے اطمینان و سکون " حاصل ہونے کا یقین صرف تسبیحات سے حاصل نہیں ہوتا ۔۔۔ اکثر یہ شکایت کرتے ملتے ہیں کہ " صبح و شام " تسبیحات " کرتے ہیں ۔ ورد میں محو رہتے ہیں ۔ مگر " زندگی " سے " حزن و ملا ل بے چینی و بے سکونی " دور نہیں ہوتی ۔
اللہ کا ذکر کوئی نشہ نہیں جو کہ احساس سے بیگانہ کرتے " مصنوعی سکون " طاری کر دے ۔ اللہ کا ذکر صرف " ور د " پر موقوف نہیں بلکہ ۔ اک حساس روح کے حامل وجود کا اپنے خالق کی تعلیمات پر بے و چون و چرا عمل کرتے انسانیت کی خدمت کرنا ہے ۔ اپنے خالق کی یاد میں اس سے ملاقات کے یقین سے جینا ہے ۔ "اسمائے الحسنی " کی مالا نہیں جپنی بلکہ ان میں پنہاں صفات کو اپنی ذات پر ایسے لاگو کرنا ہے ۔ انسانیت کو فلاح پہنچے ۔۔۔ ۔ صرف زبان کو تر نہیں کرنا ۔ تسبیح نہیں پھیرنی ۔ بلکہ اپنے کامل وجود کو انسان کی خدمت میں مصروف کرنا ہے ۔ پھر یہ " ذکر " اطمینان کا باعث ۔۔ اور " توکل و قناعت " کا زینہ بنتا ہے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
پھر انسان کو یہ یقین ہوتا ہے کہ جس ہستی پر وہ ایمان لایا ہے، جس کو اس نے اپنا رب اور اپنا معبود ماناہے، و ہی در حقیقت خالق و مالک ہے۔ اسی کے ہاتھ میں کل کائنات کی بادشاہی ہے ۔اور جس نے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دے دیا، اللہ تعالیٰ اسے کبھی رسوا اور محروم نہیں کرے گا۔ کیونکہ اس کا یہ وعدہ سچا ہے کہ
الا ان اولياء الله لا خوف عليهم ولا هم یحزنون O الذين امنوا وكانوا يتقون O لهم البشري في الحياة الدنيا وفي الاخرة لا تبديل لكلمات الله ذلك هو الفوز العظيم O(یونس 62-63 -64)
سن رکھو کہ جو اللہ کے دوست ہیں ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے (یعنی) جو لوگ ایمان لائے اور پرہیزگار رہے ان کے لیے دنیا کی زندگی میں بھی بشارت ہے اور آخرت میں بھی۔ اللہ کی باتیں بدلتی نہیں۔ یہی تو بڑی کامیابی ہے