گرائیں
محفلین
سپریم کورٹ میں تین نومبر کے بعد اعلیٰ عدالتوں میں تعینات ہونے والے پی سی او ججز اور سندھ ہائی کورٹ کے دو ججوں کی برطرفی کے حوالے سے آئینی درخواستوں پر فیصلہ سناتے ہوئے سپریم کورٹ نے تین نومبر کو لگائی گئی ایمرجنسی کو غیر قانونی قرار دے دیا ہے۔
عدالت نے دلائل مکمل ہونے کے بعد جمعہ کی دوپہر کو فیصلہ محفوظ کر لیا تھا اور اس کا اعلان جمعہ کو شام گئے کیا گیا۔
فیصلے میں جسٹس عبدالحمید ڈوگر کی بطور چیف جسٹس تقرری، تین نومبر کے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے ججوں کے تقرر اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے قیام کو بھی غیر آئینی قرار دیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ نے جنرل(ر) مشرف کے ایمرجنسی سے متعلق اقدامات کو آئینی تحفظ دینے والے ٹکا اقبال کیس کے فیصلے کو بھی غیر موثر قرار دے دیا ہے۔
فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ فنانس بل کے ذریعے ججوں کا تقرر غیر آئینی تھا تاہم اس فیصلے سے صدر کا حلف اور انتظامی و مالی معاملات متاثر نہیں ہوں گے۔
جمعہ کو سماعت کے دوران اٹارنی جنرل آف پاکستان نے اپنے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ حکومت نے کبھی بھی جنرل پرویز مشرف کے اقدامات کی حمایت نہیں کی۔ جب چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چودھری نے ان سے پوچھا کہ پرویز مشرف نے تین نومبر کے بعد کتنے آرڈیننس جاری کیے ہیں تو اٹارنی جنرل نے بتایا کہ سینتیس آرڈیننس جاری کیے گئے تھے۔ اس کے بعد چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت واضح موقف کے ساتھ سامنے آئے اور تحریری طور پر آگاہ کرے کہ وہ کتنے آرڈیننس رکھنا چاہتی ہے، کیونکہ ان میں سے کچھ آرڈیننس ملکی سالمیت سے متعلق ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم غیر آئینی اقدامات کی حمایت کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ ’ہمیں اس بات کا بھی فیصلہ کرنا ہے کہ ماضی میں آئین سے کیوں انحراف کیا گیا۔‘
جسٹس خلیل رمدے نے بھی ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ابھی تک پارلیمنٹ نے ان آرڈیننسز کا جائزہ نہیں لیا۔ انہوں نے کہا کہ ’ہم پارلیمنٹ کے نگران نہیں ہیں اور ہمیں اپنے دائرے میں رہتے ہوئے کام کرنے ہیں۔‘
جسٹس جاوید اقبال نے کہا کہ ان آرڈیننسز کے حوالے سے ’ہمیں بھی تو معلوم ہونا چاہیئے کہ پارلیمنٹ کو کیا ذمہ داری دی گئی ہے۔‘
اٹارنی جنرل لطیف کھوسہ نے مزید کہا کہ ٹکا اقبال کیس میں عدالت نے جو فیصلہ دیا تھا ہم اسے تسلیم نہیں کرتے۔
اس سے قبل منگل کو چیف جسٹس آف پاکستان جناب جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا تھا کہ سابق فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف کے تین نومبر دو ہزار سات کے غیر آئینی اقدامات کو جواز فراہم کرنے والے عدالت عظمٰی کے فیصلے کو ختم کیے بغیر ملک میں جمہوریت اور آئینی اداروں کی بنیادیں مضبوط نہیں کی جا سکتیں۔
ان خیالات کا اظہار چیف جسٹس نے سپریم کورٹ کے چودہ رکنی بینچ کے سامنے سندھ ہائیکورٹ کے دو ججوں کی برطرفی کے خلاف دائر کردہ پٹیشن کی سماعت کے دوران دیےگئے اپنے ریمارکس میں کیا تھا۔ جسٹس افتخار محمد چودھری کا کہنا تھا کہ جنرل مشرف کے تین نومبر کے اقدامات کو آئینی جواز فراہم کرنے والے ٹکا اقبال کیس میں عدالتی فیصلے کے جراثیم جب تک نظام میں موجود رہیں گے ملک میں جمہوری ادارے پنپ نہیں سکیں گے اس لیے اس فیصلے کے ناپاک اثرات سے ملک، آئین اور جمہوریت کو بچانا ہوگا۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ملک میں قائم موجودہ نظام کلی طور پر آئینی ہے اور عدالت کے اس فیصلے کے ختم ہو جانے سے کسی ادارے فرد یا نظام کو کوئی خطرہ نہیں ہوگا۔ 'اٹھارہ فروری کے انتخابات آئین کے تحت ہوئے اس لیے اس کے تحت بننے والے ریاستی ادارے، قومی اسمبلی، صوبائی اسمبلیاں، صدر، وزیراعظم اور دیگر ریاستی ڈھانچے کی حیثیت بالکل آئینی ہے اورانہیں ٹکا اقبال کیس کے ختم ہونے سے کوئی نقصان نہیں ہوگا۔'
چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا کہ اس پٹیشن کی سماعت کے لیے اتنا بڑا بینچ بنانے کا کیا مقصد ہے سوائے اس کے کہ ’ہم اس ملک پر روز روز لگنے والے مارشل لا کا راستہ روکنا چاہتے ہیں۔‘
اصل ربط
عدالت نے دلائل مکمل ہونے کے بعد جمعہ کی دوپہر کو فیصلہ محفوظ کر لیا تھا اور اس کا اعلان جمعہ کو شام گئے کیا گیا۔
فیصلے میں جسٹس عبدالحمید ڈوگر کی بطور چیف جسٹس تقرری، تین نومبر کے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے ججوں کے تقرر اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے قیام کو بھی غیر آئینی قرار دیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ نے جنرل(ر) مشرف کے ایمرجنسی سے متعلق اقدامات کو آئینی تحفظ دینے والے ٹکا اقبال کیس کے فیصلے کو بھی غیر موثر قرار دے دیا ہے۔
فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ فنانس بل کے ذریعے ججوں کا تقرر غیر آئینی تھا تاہم اس فیصلے سے صدر کا حلف اور انتظامی و مالی معاملات متاثر نہیں ہوں گے۔
جمعہ کو سماعت کے دوران اٹارنی جنرل آف پاکستان نے اپنے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ حکومت نے کبھی بھی جنرل پرویز مشرف کے اقدامات کی حمایت نہیں کی۔ جب چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چودھری نے ان سے پوچھا کہ پرویز مشرف نے تین نومبر کے بعد کتنے آرڈیننس جاری کیے ہیں تو اٹارنی جنرل نے بتایا کہ سینتیس آرڈیننس جاری کیے گئے تھے۔ اس کے بعد چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت واضح موقف کے ساتھ سامنے آئے اور تحریری طور پر آگاہ کرے کہ وہ کتنے آرڈیننس رکھنا چاہتی ہے، کیونکہ ان میں سے کچھ آرڈیننس ملکی سالمیت سے متعلق ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم غیر آئینی اقدامات کی حمایت کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ ’ہمیں اس بات کا بھی فیصلہ کرنا ہے کہ ماضی میں آئین سے کیوں انحراف کیا گیا۔‘
جسٹس خلیل رمدے نے بھی ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ابھی تک پارلیمنٹ نے ان آرڈیننسز کا جائزہ نہیں لیا۔ انہوں نے کہا کہ ’ہم پارلیمنٹ کے نگران نہیں ہیں اور ہمیں اپنے دائرے میں رہتے ہوئے کام کرنے ہیں۔‘
جسٹس جاوید اقبال نے کہا کہ ان آرڈیننسز کے حوالے سے ’ہمیں بھی تو معلوم ہونا چاہیئے کہ پارلیمنٹ کو کیا ذمہ داری دی گئی ہے۔‘
اٹارنی جنرل لطیف کھوسہ نے مزید کہا کہ ٹکا اقبال کیس میں عدالت نے جو فیصلہ دیا تھا ہم اسے تسلیم نہیں کرتے۔
اس سے قبل منگل کو چیف جسٹس آف پاکستان جناب جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا تھا کہ سابق فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف کے تین نومبر دو ہزار سات کے غیر آئینی اقدامات کو جواز فراہم کرنے والے عدالت عظمٰی کے فیصلے کو ختم کیے بغیر ملک میں جمہوریت اور آئینی اداروں کی بنیادیں مضبوط نہیں کی جا سکتیں۔
ان خیالات کا اظہار چیف جسٹس نے سپریم کورٹ کے چودہ رکنی بینچ کے سامنے سندھ ہائیکورٹ کے دو ججوں کی برطرفی کے خلاف دائر کردہ پٹیشن کی سماعت کے دوران دیےگئے اپنے ریمارکس میں کیا تھا۔ جسٹس افتخار محمد چودھری کا کہنا تھا کہ جنرل مشرف کے تین نومبر کے اقدامات کو آئینی جواز فراہم کرنے والے ٹکا اقبال کیس میں عدالتی فیصلے کے جراثیم جب تک نظام میں موجود رہیں گے ملک میں جمہوری ادارے پنپ نہیں سکیں گے اس لیے اس فیصلے کے ناپاک اثرات سے ملک، آئین اور جمہوریت کو بچانا ہوگا۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ملک میں قائم موجودہ نظام کلی طور پر آئینی ہے اور عدالت کے اس فیصلے کے ختم ہو جانے سے کسی ادارے فرد یا نظام کو کوئی خطرہ نہیں ہوگا۔ 'اٹھارہ فروری کے انتخابات آئین کے تحت ہوئے اس لیے اس کے تحت بننے والے ریاستی ادارے، قومی اسمبلی، صوبائی اسمبلیاں، صدر، وزیراعظم اور دیگر ریاستی ڈھانچے کی حیثیت بالکل آئینی ہے اورانہیں ٹکا اقبال کیس کے ختم ہونے سے کوئی نقصان نہیں ہوگا۔'
چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا کہ اس پٹیشن کی سماعت کے لیے اتنا بڑا بینچ بنانے کا کیا مقصد ہے سوائے اس کے کہ ’ہم اس ملک پر روز روز لگنے والے مارشل لا کا راستہ روکنا چاہتے ہیں۔‘
اصل ربط