ہمارے یہاں عرصہ سے ہو یہ رہا ہے کہ دین و سیاست ہو یا علم و ادب ، زندگی کے ہر شعبہ میں خانے بنائے گئے ہیں ، خطوط کھینچ کر ان خانوں کی تحدید کر لی گئی ہے اور اب ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ ان فقہی ، کلامی ، تاریخی ، ادبی ، سیاسی مکاتب میں سے کسی ایک مکتب سے کلیتا اتفاق کرے یا کلیتا اختلاف اور ان خانوں میں سے کسی ایک خانہ میں خطوط سے بہت دور ہٹ کر دامن سمیٹ کر کھڑا ہو۔ اب اگر کوئی غریب اپنے دماغ سے بھی سوچنے کا عادی ہے ، مسائل میں اس کی اپنی بھی رائے ہوتی ہے اور وہ تحقیق کے بغیر کوئی قول تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا اور کسی ایک گروہ سے عمومی اور دوامی وابستگی ضروری نہیں سمجھتا اور ان خانوں کے حدود کا شدت سے پابند نہیں ہے ، کسی مسئلہ میں خط کے اس پار والوں سے بھی متفق ہو سکتا ہے تو وہ ان دونوں خانوں کے مکینوں کی نظر میں اجنبی اور مشتبہ ٹھہرتا ہے کہ ہر مسئلہ میں جماعت سے متفق کیوں نہیں ہے؟ گروہ کا صد فی صد وفادار کیوں نہیں ہے؟ دوسری جماعت اور گروہ کو شر محض کیوں نہیں سمجھتا؟ اس کی رائے کے ساتھ اس کی نیت میں بھی اسے کلام کیوں نہیں ہے؟ بعض مسائل میں اس سے متفق کیوں ہے؟ افکار کے ساتھ کردار پر بھی نکتہ چینی اس کے مسلک میں ناروا کیوں ہے؟ جزئیات میں اختلاف کو اہمیت کیوں نہیں دیتا ( حیات شاہ محمد اسحاق محدث دہلوی از حکیم سید محمود احمد برکاتی ، صفحہ 16 ، 17 )
اس تنبیہ سے مقصد یہ ہے کہ برادرانِ اسلام اپنے اندر قوتِ برداشت پیدا کریں اندھا دھند کفر اور نفاق کے فتوے صادر نہ کریں اور حضرت مولانا روم قدس سرہ کے اس شعر کو یاد رکھیں
تو برائے وصل کردن آمدی
نے برائے فصل کردن آمدی