کاشفی
محفلین
غزل
(ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی)
جائیں تو کہاں اب جائیں ہم نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے
ہوتا نہیں وہ مائل بہ کرم نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے
سب وعدہ شکن ہوتے ہیں صنم نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے
سہتے ہی رہے ہم اُن کے ستم نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے
چبھتے رہے دل میں خارِ الم نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے
سب بھول گئے وہ قول و قسم نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے
قائم نہ رہا کچھ اُن کا بھرم نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے
بھرتے تھے محبت کا جو دم نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے
ہم جن کو سمجھتے تھے اپنا غیروں سے بھی وہ نکلے بدتر
یہ دیکھ کے آنکھیں ہوگئیں نم نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے
ہم عرضِ تمنا اے برقی اُس سے نہ کریں تو کس سے کریں
ہوجاتا ہے سُن کر وہ برہم نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے
(ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی)
جائیں تو کہاں اب جائیں ہم نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے
ہوتا نہیں وہ مائل بہ کرم نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے
سب وعدہ شکن ہوتے ہیں صنم نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے
سہتے ہی رہے ہم اُن کے ستم نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے
چبھتے رہے دل میں خارِ الم نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے
سب بھول گئے وہ قول و قسم نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے
قائم نہ رہا کچھ اُن کا بھرم نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے
بھرتے تھے محبت کا جو دم نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے
ہم جن کو سمجھتے تھے اپنا غیروں سے بھی وہ نکلے بدتر
یہ دیکھ کے آنکھیں ہوگئیں نم نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے
ہم عرضِ تمنا اے برقی اُس سے نہ کریں تو کس سے کریں
ہوجاتا ہے سُن کر وہ برہم نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے