شعیب گناترا
لائبریرین
ریختہ صفحہ ۱۰۱ کتابی صفحہ ۱۰۳
لگے ۔ برچھوں طرارے بھر بھر کر اترنے لگے۔
ہر شاہ سوار نے باگ کا پودھا روک کر راہ وار کی گردن پر ہاتھ مارا: ”بس، بیٹا، بس۔“ یہ کہہ کر چمکارا۔ شاہ زاده عالی قدر نے کہا: ”صاحبوں، نمازیں پڑھ لو۔ پھر سیر و شکار میں مشغول ہو۔“ یہ سنتے ہی سوار اپنے اپنے گھوڑوں سے اترے اور زمین پر زین پوش بچھائے۔ خدمت گار شاه زادے کا بھی مصلیٰ لے کر آئے۔ سب نے آبِ جاری سے وضو کیا اور بہ کمال تفریح فریضۂ سحری بجا لائے۔ تسبیحیں پڑھیں، سجده آخر کیا، سوار ہوئے اور گھوڑوں کو پوقدمے پر رکھ لیا۔ ناگاہ، ، ایک ہرن، جس کا معشوق کا برن، سنگوٹیاں سونے سے منڈھی۔ مخملی کار چوبی جھول پڑی، چوکڑی بھرتا ہوا سامنے کچھ دور پر نظر آیا۔ شاہ زادہ، دیکھتے ہی بے اختیار ہو گیا اور بے ساختہ یہ کلمہ زبان پر لایا: ”شاید یہ آہو کسی شوقین کا پالا ہوا ہے۔ غفلت میں چھوٹ کر یہاں آ گیا ہے ل۔ خبردار، نہ اسے کوئی تیر مارے، نہ گولی لگائے، نہ کوئی شخص اس کے پاس جائے۔ میں اپنے ہاتھوں سے اسے گرفتار کروں گا اور جناب عالیہ کو جا کر دوں گا۔“
رفیق تو سب نا تجربہ کار تھے۔ نہ اس اسرار کو خود سمجھے نہ سمجھایا۔ شاہ زادے نے گھوڑے کو قدم قدم بڑھایا۔ قریب جا کر چاہتا تھا، حلقہ کمان کا گردن میں ڈال دے کہ ہرن نے چوکڑی بھری۔ ساتھ ہی اس نے بھی گھوڑا اڑایا مگر کیا ہوتا ہے؟ یہ راہ وار، وہ پری۔ دو چار ہی جست میں رمنے سے باہر تھا۔ غرض لگا کر لے چلا۔ طرفتہ العین میں صید و صیاد دونوں آنکھوں سے اوجھل ہو گئے۔ رفیق گھبرا کر تعاقب میں دوڑے۔ لیکن یہ وہ اسرار نہ تھا، جس کا پتا ملتا۔ ہر چند خاک اڑائی مگر دونوں کی ہوا بھی نہ پائی۔ وزیر زادہ قمر طلعت اور عیار سبک سیر نے منہ نہ موڑا یعنی تلاش اور تجسّس کے جادے کو نہ چھوڑا۔ چرخِ تفرقہ انداز کا وار چل گیا۔ یہ دونوں اور طرف نکل گئے، شاہ زادہ اور طرف نکل گیا۔ باقی ماندہ سب اپنی اپنی جگہ پر حیران تھے۔ آخر سرگرداں ہو کر جہاں سے بڑھے تھے اسی مقام پر پھر گئے۔ تمام دن چشم بر راه رہے۔ کرب، انتظار اور اضطرار سے انواع، انواع طرح کے صدمے سہے۔ نہ شاہد مقصود کی صورت نظر آئی نہ کسی طرف سے کچھ خبر آئی۔ آفتاب مغرب میں پہنچا، دنیا تیره و تار ہوئی۔
ریختہ صفحہ ۱۰۲ کتابی صفحہ ۱۰۴
جدائی کی رات بال کھولے نمودار ہوئی۔ اشعار
وہ شب تھی کہ ناگن بلا تھی کہ شام
نہ تھا نور کا نام کو جس میں نام
وہ بہیڑ وہ جنگل وہ آفت کی رات
کہے تو کہ آئی قیامت کی رات
شرر بار تھا اژدھائے فلک
ستاروں پہ تھا نیشِ عقرب کا شک
دیا بادِ صرصر نے سب کو فشار
زمیں کی طرح ہِل گئے کوہسار
ہوئے بُجھ کے خاموش شمع و چراغ
گھٹے اہل ماتم پڑے دل میں داغ
کسی نے فریاد کی، کسی نے گردشِ چرخ سے داد بے داد کی۔ کوئی بولا: ”کل باز پُرس کا دن ہے، اب عتابِ سلطانی سے بچنا غیر ممکن ہے۔ ہائے حضرت شاه زادے کو پوچھیں گے تو کیا جواب دیں گے۔ شرمنده و خفت زدہ ہو کر آنکھیں جھکالیں گے۔ آه آہ خورشید گوہر پوش کے مقدر میں تباہی تھی۔ ہماری قسمت میں رو سیاہی تھی۔ وائے تقدیر آسمان نے اچھی چال کی۔ افسوس صد افسوس جان بھی گئی۔ آبرو بھی گئی۔“ بعض بہ مقتضائے محبت درختوں سے سر ٹکراتے تھے اور آنکھوں سے خونِ دل بہاتے تھے۔ ”ہائے وہ آہو بڑا داغ دے گیا۔ خدا جانے شاہ زادے کو کدھر لگا کر لے گیا۔ ہے ہے ستم ہوا۔ ہے ہے خوشی میں غم ہوا۔ ہائے کیسی بلا میں گرفتار ہو گئے۔ ہے ہے شکار کھیلنے کیا آئے خود شکار ہو گئے۔“
بس تمام رات یہی ماتم رہا۔ ہرشخص مبتلائے رنج و الم رہا۔ صبح ہوتے روتے پیٹتے شہر کو چلے مگر اس ہیئت سے کہ گریباں دریدہ ل، سر کھولے، چہروں پر خاک ملے جس طرح کسی بادشاہ کے جنازے کے ساتھ جلوسی فوج ہوتی ہے۔ اُس فوج کی یہ کیفیت تھی کہ ہر ایک دم بخود تھا۔ سکتے کا عالم تھا۔ تصویر کی صورت تھی۔ سواروں کے منہ اُترے، قربوس پر سر جھکے، آنسو
لگے ۔ برچھوں طرارے بھر بھر کر اترنے لگے۔
ہر شاہ سوار نے باگ کا پودھا روک کر راہ وار کی گردن پر ہاتھ مارا: ”بس، بیٹا، بس۔“ یہ کہہ کر چمکارا۔ شاہ زاده عالی قدر نے کہا: ”صاحبوں، نمازیں پڑھ لو۔ پھر سیر و شکار میں مشغول ہو۔“ یہ سنتے ہی سوار اپنے اپنے گھوڑوں سے اترے اور زمین پر زین پوش بچھائے۔ خدمت گار شاه زادے کا بھی مصلیٰ لے کر آئے۔ سب نے آبِ جاری سے وضو کیا اور بہ کمال تفریح فریضۂ سحری بجا لائے۔ تسبیحیں پڑھیں، سجده آخر کیا، سوار ہوئے اور گھوڑوں کو پوقدمے پر رکھ لیا۔ ناگاہ، ، ایک ہرن، جس کا معشوق کا برن، سنگوٹیاں سونے سے منڈھی۔ مخملی کار چوبی جھول پڑی، چوکڑی بھرتا ہوا سامنے کچھ دور پر نظر آیا۔ شاہ زادہ، دیکھتے ہی بے اختیار ہو گیا اور بے ساختہ یہ کلمہ زبان پر لایا: ”شاید یہ آہو کسی شوقین کا پالا ہوا ہے۔ غفلت میں چھوٹ کر یہاں آ گیا ہے ل۔ خبردار، نہ اسے کوئی تیر مارے، نہ گولی لگائے، نہ کوئی شخص اس کے پاس جائے۔ میں اپنے ہاتھوں سے اسے گرفتار کروں گا اور جناب عالیہ کو جا کر دوں گا۔“
رفیق تو سب نا تجربہ کار تھے۔ نہ اس اسرار کو خود سمجھے نہ سمجھایا۔ شاہ زادے نے گھوڑے کو قدم قدم بڑھایا۔ قریب جا کر چاہتا تھا، حلقہ کمان کا گردن میں ڈال دے کہ ہرن نے چوکڑی بھری۔ ساتھ ہی اس نے بھی گھوڑا اڑایا مگر کیا ہوتا ہے؟ یہ راہ وار، وہ پری۔ دو چار ہی جست میں رمنے سے باہر تھا۔ غرض لگا کر لے چلا۔ طرفتہ العین میں صید و صیاد دونوں آنکھوں سے اوجھل ہو گئے۔ رفیق گھبرا کر تعاقب میں دوڑے۔ لیکن یہ وہ اسرار نہ تھا، جس کا پتا ملتا۔ ہر چند خاک اڑائی مگر دونوں کی ہوا بھی نہ پائی۔ وزیر زادہ قمر طلعت اور عیار سبک سیر نے منہ نہ موڑا یعنی تلاش اور تجسّس کے جادے کو نہ چھوڑا۔ چرخِ تفرقہ انداز کا وار چل گیا۔ یہ دونوں اور طرف نکل گئے، شاہ زادہ اور طرف نکل گیا۔ باقی ماندہ سب اپنی اپنی جگہ پر حیران تھے۔ آخر سرگرداں ہو کر جہاں سے بڑھے تھے اسی مقام پر پھر گئے۔ تمام دن چشم بر راه رہے۔ کرب، انتظار اور اضطرار سے انواع، انواع طرح کے صدمے سہے۔ نہ شاہد مقصود کی صورت نظر آئی نہ کسی طرف سے کچھ خبر آئی۔ آفتاب مغرب میں پہنچا، دنیا تیره و تار ہوئی۔
ریختہ صفحہ ۱۰۲ کتابی صفحہ ۱۰۴
جدائی کی رات بال کھولے نمودار ہوئی۔ اشعار
وہ شب تھی کہ ناگن بلا تھی کہ شام
نہ تھا نور کا نام کو جس میں نام
وہ بہیڑ وہ جنگل وہ آفت کی رات
کہے تو کہ آئی قیامت کی رات
شرر بار تھا اژدھائے فلک
ستاروں پہ تھا نیشِ عقرب کا شک
دیا بادِ صرصر نے سب کو فشار
زمیں کی طرح ہِل گئے کوہسار
ہوئے بُجھ کے خاموش شمع و چراغ
گھٹے اہل ماتم پڑے دل میں داغ
کسی نے فریاد کی، کسی نے گردشِ چرخ سے داد بے داد کی۔ کوئی بولا: ”کل باز پُرس کا دن ہے، اب عتابِ سلطانی سے بچنا غیر ممکن ہے۔ ہائے حضرت شاه زادے کو پوچھیں گے تو کیا جواب دیں گے۔ شرمنده و خفت زدہ ہو کر آنکھیں جھکالیں گے۔ آه آہ خورشید گوہر پوش کے مقدر میں تباہی تھی۔ ہماری قسمت میں رو سیاہی تھی۔ وائے تقدیر آسمان نے اچھی چال کی۔ افسوس صد افسوس جان بھی گئی۔ آبرو بھی گئی۔“ بعض بہ مقتضائے محبت درختوں سے سر ٹکراتے تھے اور آنکھوں سے خونِ دل بہاتے تھے۔ ”ہائے وہ آہو بڑا داغ دے گیا۔ خدا جانے شاہ زادے کو کدھر لگا کر لے گیا۔ ہے ہے ستم ہوا۔ ہے ہے خوشی میں غم ہوا۔ ہائے کیسی بلا میں گرفتار ہو گئے۔ ہے ہے شکار کھیلنے کیا آئے خود شکار ہو گئے۔“
بس تمام رات یہی ماتم رہا۔ ہرشخص مبتلائے رنج و الم رہا۔ صبح ہوتے روتے پیٹتے شہر کو چلے مگر اس ہیئت سے کہ گریباں دریدہ ل، سر کھولے، چہروں پر خاک ملے جس طرح کسی بادشاہ کے جنازے کے ساتھ جلوسی فوج ہوتی ہے۔ اُس فوج کی یہ کیفیت تھی کہ ہر ایک دم بخود تھا۔ سکتے کا عالم تھا۔ تصویر کی صورت تھی۔ سواروں کے منہ اُترے، قربوس پر سر جھکے، آنسو