باب دہم
دُوررس تبدیلی کی ضرورت
ہم اسلام کو کیسے پیش کریں
جب ہم لوگوں کے سامنے اسلام کو پیش کریں تو چاہے ہمارے مخاطب مسلمان ہوں یا غیر مسلم بہرحال ایک بدیہی حقیقت سے ہمیں پوری طرح باخبر رہنا چاہیے ، اور یہ وہ حقیقت ہے جو خود اسلام کے مزاج اور فطرت کا نتیجہ ہے ، اور اسلام کی تاریخ اس کا ثبوت فراہم کر رہی ہے ۔ مختصر الفاظ میں اس حقیقت کو یوں بیان کیا جا سکتا ہے :
اسلام اس زندگی اور کائنات کا جو تصور پیش کرتا ہے وہ ایک نہایت درجہ جامع اور منفرد تصور ہے ، اور امتیازی اوصاف کا حامل ہے ۔ اس تصور سے انسانی زندگی کا جو نظام ماخوذ ہوتا ہے وہ بھی اپنے تمام اجزائے ترکیبی سمیت اپنی ذات میں ایک مستقل اور کامل نظام ہے اور مخصوص امتیازات سے بہرہ مند ہے ۔ یہ تصور بنیادی طور پر اُن تمام جاہلی تصورات سے متصادم ہے جو قدیم زمانے میں رائج رہے یا دورِ حاضر میں پائے جاتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ یہ تصور بعض سطحی اور ضمنی جزئیات اور تفصیلات میں جاہلی تصورات سے کبھی کبھار اتفاق کرے لیکن جہاں تک ان اصولوں اور ضابطوں کا سوال ہے جن سے یہ جزوی اور ضمنی پہلو برآمد ہوتے ہیں تو وہ ان تمام نظریات اور تصورات سے مختلف اور بالکل جدا ہیں جو انسانی تاریخ کے اندر اب تک رائج اور فروغ پذیر رہے ہیں۔ چنانچہ اسلام کا سب سے پہلا کام یہ ہے کہ وہ ایک ایسی انسانی زندگی کی تشکیل کرتا ہے جو اُس کے تصور کی صحیح نمائندہ اور اس کی عملی تفسیر ہو۔ وہ دنیا کے اندر ایک ایسا نظام قائم کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ طریقۂ حیات کی تصویر ہوتا ہے ۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے امتِ مسلمہ کو دنیا کے اندر اٹھایا ہی اس غرض کے لیے ہے کہ وہ الہٰی طریقۂ زندگی کی ترجمان بن کر رہے اور اُسے دنیا کے سامنے عمل کی زبان میں پیش کرے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّۃ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْہوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللّہ (آلِ عمران : 110)
تم وہ بہترین گروہ ہو جسے انسانوں کے لیے اٹھایا گیا ہے ۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور بُرائی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان لاتے ہو۔
اس امت کی وہ یہ صفت بیان کرتا ہے کہ:
الَّذِينَ إِن مَّكَّنَّاہمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلاَۃ وَآتَوُا الزَّكَاۃ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَہوْا عَنِ الْمُنكَرِ (الحج: 41)
یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار دیں تو یہ نماز قائم کریں گے ، زکوٰۃ دیں گے ، نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے روکیں گے ۔
اسلام کی یہ شان نہیں ہے کہ وہ دنیا کے اندر قائم شدہ جاہلی تصورات کے ساتھ مصالحانہ رویہ اختیار کرے یا جاہلی نظاموں اور جاہلی قوانین سے بقائے باہم کے اصول پر معاملہ کرے ۔ یہ مؤقف اسلام نے اُس روز بھی نہیں اختیار کیا تھا جس روز اُس نے دنیا میں قدم رکھا تھا، اور نہ آج یہ اُس کا مؤقف ہو سکتا ہے اور نہ آئندہ کبھی اُمید ہے کہ اس مؤقف کو وہ اپنائے گا۔ جاہلیت خواہ کسی دور سے تعلق رکھتی ہو وہ جاہلیت ہی ہے ۔ اور وہ حقیقت میں اللہ تعالیٰ کی بندگی سے انحراف اور اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے نظامِ زندگی سے بغاوت ہے ۔ وہ ناخدا شناس مآخذ سے زندگی کے قوانین و شرائع، قواعد و اصول، عادات و روایات اور اقدارو معیارات اخذ کرنے کا نام ہے ۔ اس کے برعکس اسلام اللہ کے سامنے سرافگندگی کا نام ہے ۔ اسلام کسی دور اور کسی حالت کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ یہ ہر دور کے لیے ہے اور ہر حالت کے لیے نافع ہے ۔ اس کا مشن انسانوں کو جاہلیت کی تاریکیوں سے نکال کر ہدایت کی روشنی میں لانا ہے ۔ زیادہ واضح الفاظ میں جاہلیت یہ ہے کہ انسان اپنے ہی جیسے انسانوں کی بندگی کریں۔ یعنی کچھ انسان غالب و برتر بن کر دوسرے انسانوں کے لیے منشائے خداوندی سے ہٹ کر قانون سازی کریں اور انہیں اس سے بحث نہ ہو کہ قانون سازی کے اختیارات کس شکل میں استعمال کیے گئے ہیں۔ اور اسلام یہ ہے کہ تمام انسان صرف خدائے واحد کی بندگی کریں۔ اپنے تمام تصورات و عقائد، قوانین و شرائع اور اقدارِحیات اور ردوقبول کے معیار اللہ سے حاصل کریں اور مخلوق کی عبودیت سے آزاد ہو کر ہمہ تن خالق کی بندگی کے لیے یکسو ہو جائیں۔
یہ حقیقت خود اسلام کی فطرت کا تقاضا ہے اور اسلام کے اُس کردار سے عیاں ہوتی ہے جو دنیا کے اندر اُس نے انجام دیا ہے یا انجام دینا چاہتا ہے ۔ یہی حقیقت ہمیں ان تمام انسانوں کے سامنے جنہیں ہم اسلام کی دعوت پیش کریں، وہ خواہ مسلمان ہوں یا غیرمسلم یکساں طور پر واضح کر دینی چاہیے ۔
اسلام اور جاہلیت میں ہرگز مصالحت نہیں ہو سکتی
اسلام جاہلیت کے ساتھ نیمے دروں نیمے بروں نوعیت کی کوئی مصالحت قبول نہیں کرتا۔ معاملہ خواہ اس کے تصور اور نظریہ کا ہو اور خواہ اس تصور اور نظریہ پر مرتب ہونے والے قوانینِ حیات کا، اسلام رہے گا، یا جاہلیت رہے گی تیسری ایسی کوئی شکل جس میں آدھا اسلام ہو اور آدھی جاہلیت اسلام کو قبول یا پسند نہیں ہے ۔ اس معاملے میں اسلام کا نقطۂ نظر بالکل واضح اور روشن ہے ۔ وہ یہ کہتا ہے کہ حق ایک ایسی اکائی ہے جس کا تجزیہ نہیں ہو سکتا۔ حق نہ ہوگا تو لازماً باطل ہو گا۔ حق اور باطل دونوں میں اختلاط و امتزاج اور بقائے باہم محال ہے ۔ حکم یا اللہ کا چلے گا، یا جاہلیت کا۔ اللہ کی شریعت کا سکہ رواں ہوگا یا پھر ہوائے نفس کی عملداری ہوگی۔ اس حقیقت کو قرآن نے بکثرت آیات میں بیان کیا ہے :
وَأَنِ احْكُم بَيْنَہم بِمَآ أَنزَلَ اللّہ وَلاَ تَتَّبِعْ أَہوَاءہمْ وَاحْذَرْہمْ أَن يَفْتِنُوكَ عَن بَعْضِ مَا أَنزَلَ اللّہ إِلَيْكَ (المائدہ: 49)
(پس اے محمد!) آپ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق ان لوگوں کے معاملات کا فیصلہ کریں۔ اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں۔ ان سے ہوشیار رہیں کہ کہیں یہ لوگ آپ کو فتنہ میں ڈال کر اُس ہدایت کے کچھ حصے سے منحرف نہ کر دیں جو خدا نے آپ کی طرف نازل کی ہے ۔
فَلِذَلِكَ فَادْعُ وَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ وَلاَ تَتَّبِعْ أَہوَاءہمْ (شوریٰ: 15)
پس اس طرف دعوت دیں، اور اس پر جمے رہیں جیسا کہ آپ کو حکم دیا گیا ہے ۔ اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں۔
فَإِن لَّمْ يَسْتَجِيبُوا لَكَ فَاعْلَمْ أَنَّمَا يَتَّبِعُونَ أَہوَاءہمْ وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ ہوَاہ بِغَيْرِ ہدًی مِّنَ اللَّہ إِنَّ اللَّہ لاَ يَہدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ (القصص: 50)
اور اگر آپ کے مطالبے کا جواب نہ دیں تو جان لو کہ یہ لوگ اپنی خواہشات کے پیروکار ہیں۔ اور اس شخص سے بڑھ کر گمراہ کون ہوسکتا ہے جس نے اپنی خواہش کی پیروی کی اور اللہ کی ہدایت کی پرواہ نہ کی۔ بے شک اللہ تعالیٰ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔
ثُمَّ جَعَلْنَاكَ عَلَی شَرِيعَۃ مِّنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْہا وَلاَ تَتَّبِعْ أَہوَاء الَّذِينَ لاَ يَعْلَمُونَ • إِنَّہمْ لَن يُغْنُوا عَنكَ مِنَ اللَّہ شَيئًا وإِنَّ الظَّالِمِينَ بَعْضُہمْ أَوْلِيَاء بَعْضٍ وَاللَّہ وَلِيُّ الْمُتَّقِينَ (الجاثیہ: 18 – 19)
اے نبی ہم نے تم کو دین کے معاملے میں ایک صاف شاہراہ (شریعت) پر قائم کیا ہے ۔ لہٰذا تم اُسی پر چلو اور ان لوگوں کی خواہشات کا اتباع نہ کرو جو علم نہیں رکھتے ۔ یہ اللہ کے سامنے تمہارے کچھ کام نہ آئیں گے ۔ اور بے شک ظالم ایک دوسرے کے رفیق ہیں اور اللہ پرہیزگاروں کا دوست ہے ۔
أَفَحُكْمَ الْجَاہلِيَّۃ يَبْغُونَ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللّہ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُوقِنُونَ (المائدہ: 50)
پس کیا یہ جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں حالاں کہ جو لوگ اللہ پر یقین رکھتے ہیں ان کے نزدیک اللہ سے بہتر فیصلہ کرنے والا کوئی نہیں ہے ۔
ان آیات سے صاف واضح ہوتا ہے کہ صرف دو ہی راہیں ہیں، تیسری کوئی راہ نہیں ہے ۔ یا تو اللہ اور اس کے رسول کی دعوت پر سرِ تسلیم خم کرنا ہوگا۔ اور یا بصورتِ دیگر خواہشِ نفس کی پیروی ہوگی، اللہ کا فیصلہ تسلیم کرنا ہوگا یا جاہلیت کے سامنے سرافگندگی۔ اگر اللہ کے نازل کردہ قانون کو بنائے فیصلہ نہ ٹھہرایا جائے گا تو طبعی طور پر احکامِ الٰہی سے اعراض و انکار ہو گا۔ کتاب اللہ کے مذکورہ بالا واضح بیانات کے بعد کسی بحث و مجادلہ اور حیلہ جوئی کی گنجائش نہیں ہے ۔
اِسلام کا اصل مشن
اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ دنیا کے اندر اسلام کا فرضِ اولین یہ ہے کہ جاہلیت کو انسانی قیادت کے منصب سے ہٹا کر زمامِ قیادت خود اپنے ہاتھ میں لے اور اپنے مخصوص طریقِ حیات کو جو مستقل اور جُداگانہ اوصاف و خصائص کا حامل ہے نافذ کرے ۔ اس صالح قیادت سے اُس کا مقصد انسانیت کی فلاح و بہبود ہے جو صرف انسان کے اپنے خالق کے سامنے جُھک جانے اور انسان اور کائنات کی حرکت میں توافق و ہم آہنگی قائم ہوجانے سے پیدا ہو سکتی ہے ۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ وہ انسان کو اُس مقامِ رفیع پر متمکن کر دے جو اللہ تعالیٰ نے اُس کے لیے تجویز کیا ہے اور خواہشاتِ نفس کے غلبہ و استیلاء سے اُسے نجات دے ۔ یہ وہی مقصد ہے جسے حضرت ربیع بن عامر نے فارسی فوج کے قائد رستم کے جواب میں بیان کیا تھا۔ رستم نے پوچھا تھا کہ “تم لوگ یہاں کس غرض کے لیے آئے ہو؟“ ربیع نے کہا: اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس لیے بھیجا ہے کہ ہم انسانوں کو انسانوں کی بندگی سے نکال کر خدائے واحد کی بندگی میں داخل کریں۔ دُنیا پرستی کی تنگنائیوں سے نکال کر دنیا اور آخرت دونوں کی وسعتوں سے ہمکنار کریں، انسانی ادیان کے ظلم و ستم سے نجات دے کر انہیں اسلام کے عدل میں لائیں۔“
اسلام انسان کی ان نفسانی خواہشات کی تائید و توثیق کے لیے نہیں آیا جن کا انسان مختلف نظریات و تخیلات کے رُوپ میں اور گوناگوں رسم و رواج کے پردے میں اظہار کرتا رہا ہے ۔ اسلام کی ابتدا کے وقت بھی ایسے نظریات و رسوم پائے گئے تھے اور آج بھی مشرق و مغرب میں انسانیت پر خواہشاتِ نفس کا غلبہ و حکمرانی ہے ۔ اسلام خواہشات کی اس حکمرانی کو مضبوط بنانے نہیں آیا، بلکہ اس لیے آیا ہے کہ وہ ایسے تمام تصورات و قوانین اور رسوم و روایات کی بساط لپیٹ دے ۔ اور ان کی جگہ اپنی مخصوص بنیادوں پر انسانی زندگی کی تعمیرِنو کرے ، ایک نئی دنیا تخلیق کرے ، زندگی کی نئی طرح ڈالے جس کا مرکز و محور اسلام ہو۔