محمد خلیل الرحمٰن
محفلین
جادہ و منزل از سید قطب شہید
قاہرہ مصر کے مشہور و معروف التحریر اسکوائر میں منعقد ہونے والے مظاہرے بالآخر عرصے سے مسلط غاصب آمر حسنی مبارک کی تخت سے دستبرداری پر منتج ہوئے۔ عوامی انقلاب کے بعد منعقد کیے جانے والے انتخابات کے نتیجے میں جناب محمد مرسی نے صدارت کی کرسی سنبھالی جو اخوان المسلمون سے تعلق رکھنے کی بناء پر ہمارے بچپن کی یادوں کو یکبارگی جھنجھوڑ گئے۔ ۱۹۶۶ء کی ایک تاریک صبح کا ذکر ہے ، ہم نے جنگ اخبار کی دہشتناک خبر کو دیکھا اور دنگ رہ گئے، جس کے مطابق اخوان المسلمون کے کئی سرکردہ رہنماؤں کو پھانسی دے دی گئی تھی۔ ان شہیدوں میں سب سے بڑا نام سید قطب شہید کا تھا۔
اخوان المسلمون کے برسرِ اقتدار آنے کے واقعے نے ہمیں از سرِ نو اخوان المسلمون اور سید قطب شہید کے حالات کے مطالعے کی طرف توجہ دلائی۔ کچھ ماہ پیشتر ہی ہم نے سید قطب کی تفسیر ’’ فی ظلال القرآن‘‘ کے ایک صاحب کے کیے ہوئے انگریزی ترجمے کے مسودے کے تقریباً سو سوا سو صفحوں کی پروف ریڈنگ کی تھی جو ابھی ذہن میں تازہ ہی تھی۔
ہم نے اخوان المسلمون سے متعلق اپنی تلاش شروع کی تو سب سے پہلے ایک اتوار کے روز کتب بازار میں زینب الغزالی کی کتاب کا ترجمہ ’’ رودادِ قفس‘‘ نظر سے گزرا۔ اس کتاب پر اس دن بھاؤ تاؤ نہ ہوسکا جس پر ابھی تک ہم کفِ افسوس ملتے ہیں۔ پھر حسن البّنا ء شہید پر ناعمہ صہیب کی خوبصورت کتاب ’’ تاریخِ اسلام کی عظیم شخصیات‘‘ میں ایک مدلل مضمون پڑھنے کا اتفاق ہوا تو پتہ چلا کہ حسن البنّا ء تو ۱۹۴۹ء میں ہی شہید کردئیے گئے تھے۔
یوں ہی کتاب گردانی کرتے ہوئے ایک ردی فروش کے پاس سے خلیل حامدی کا ترجمہ حسن البنّاء کی ڈائری بھی مل گئی۔
ابھی کل ہی کی بات ہے ، اسی تگ و دو میں اپنے محلے کے ردی فروش کے پاس رکے تو گوہرِ مقصود ہاتھ آہی گیا۔ خلیل حامدی ہی کا ترجمہ کیا ہوا سید قطب شہید کی شہرہء آفاق کتاب ’’ معالم فی الطریق‘‘ کا ترجمہ’’ جادہ و منزل‘‘ کے نام سے ہاتھ آیا۔
کتاب کا نام: معالم فی الطریق از سید قطب شہید ترجمہ جادہ و منزل از خلیل حامدی
ناشر اسلامک پبلیکیشنز ( پرائیویٹ ) لمیٹڈ
طبع اکتوبر ۱۹۹۷ء
ترجمہ کتاب کے پیش لفظ ’’مصنف اور تصنیف ‘‘ میں خلیل حامدی رقم طراز ہیں۔
’’ سید قطب شہید اور ان کے دوسرے ساتھیوں پر جب قاہرہ کی فوجی عدالت میں مقدمہ چل رہا تھا تو دورانِ مقدمہ سرکاری وکیل کی جانب سے ہر ملزم سے یہ سوال کیا گیا کہ کیا اس نے ’’معالم فی الطریق‘‘ کامطالعہ کیا ہے ؟ اس مقدمے کی فردِ قراردادِ جرم اسی کتاب کے مضامین پر مشتمل تھی۔ چنانچہ یہی کتاب سید قطب اور اُن کے ساتھیوں کو تختہء دار پر لے جانے کا موجب ہوئی۔
۔۔۔۔ ایک ایسی کتاب کی تصنیف پر جس میں نہایت جچے تلے انداز میں اصولی بحثیں کی گئی ہیں اور کسی شخصیت کو زیرِ بحث نہیں لایا گیا، مصنف کو پھانسی دے دی جاتی ہے۔
ہم اس کتاب کے بابِ اول ’’ قرآن کی تیار کردہ لاثانی نسل‘‘ کی تلخیص قارئین کی نظر کرتے ہیں۔
دعوتِ اسلامی نے ایک زمانے میں ایسی انسانی نسل تیار کی تھی جس کی مثال پوری اسلامی تاریخ بلکہ پوری انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ اس نسل سے مراد رسول مقبول ﷺ کے صحابہء کرامؓ ہیں۔ اس نسل کے بعد تاریخی ادوار میں دعوتِ اسلامی کے ہاتھوں اس طرز اور کردار کی جمیعت پھر وجود میں نہیں آئی۔ اگرچہ تاریخ کے ہر دور میں اس کردار کے افراد تو بلا شبہہ پائے گئے ہیں ، مگر ایسا کبھی نہیں ہوا کہ ایک ہی خطے میں بڑی تعداد میں اس طرز اور کردار کے لوگ جمع ہوگئے ہوں۔
صحابہ کرام ؓ کے بعد ایسی لاثانی جمیعت کیوں وجود میں نہ آئی؟ :
اسلام کی دعوت و ہدایت جس کتاب میں موجود ہے وہ ہمارے ہاتھوں میں ہے۔ اس کتاب کو پیش کرنے والی ہستی ۔۔۔ رسول اللہ ﷺ ۔۔۔۔ کی تعلیمات و احادیث اور سیرتِ پاک آج بھی اُسی طرح ہماری نگاہوں کے سامنے ہے جس طرح وہ اُس پہلی اسلامی جمیعت کی نگاہوں کے سامنے تھی جس کا تاریخ کے اسٹیج پر دوبارہ اعادہ نہ ہوسکا۔ ۔۔۔۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اُس وقت رسول خدا ﷺ بنفسِ نفیس اس جمیعت کے قائد تھے اور اب یہ صورتحال نہیں ہے۔ لیکن کیا یہی فرق اسلام کی مثالی تنظیم کے دوبارہ وجود میں نہ آنے کا سبب ہے؟ رسول اللہ ﷺ کا وجودِ مبارک اگر دعوتِ اسلامی کے قیام اور بار آور ہونے کے لیے حتمی اور ناگزیر ہوتا تو اللہ تعالیٰ نے اسلام کو ہرگز عالمگیر دعوت اور پوری انسانیت کا دین نہ قرار دیا ہوتا۔ اس دعوت کو جب ۲۳ سال گزر گئے اور وہ اوجِ کمال تک پہنچ گئی تو اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر ﷺ کو اپنے جوارِ رحمت میں طلب فرمالیا اور آپﷺ کے بعد اس دین کو زمانہء آخر تک کے لیے جاری و ساری کردیا۔ پس رسول مقبول ﷺ کے وجودِ گرامی کا نگاہوں سے اوجھل ہوجانا معیاری اسلامی جمعیت کے فقدان کا باعث نہیں قرار دیا جاسکتا۔
اس کی پہلی وجہ:
جس چشمہ سے صحابہء کرام ؓ کی عظیم المرتبت جماعت نے اسلام کا فہم حاصل کیا وہ صرف قرآن تھا۔ رسول اللہ ﷺ کی احادیث و تعلیمات اس چشمے سے پھوٹنے والے سوتے تھے۔ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ صحابہء کرام ؓ ۔۔۔۔ پہلی اسلامی نسل۔۔۔۔ کا صرف کتابِ الہٰی پر اکتفا ء کرنا اور فہمِ دین کی خاطر کسی اور چشمہ سے رجوع نہ کرنا فکر و نظر کے جمود اور تہذیب و تمدن سے بیگانگی کی وجہ سے نہ تھا، بلکہ ایک سوچے سمجھے منصوبے اور طر کردہ طریقِ کار کی بناء پر تھا۔
یہ نسل یا جمیعت تاریخ میں لاثانی اور یکتا تنظیم سمجھی گئی ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اس نے دین کے فہم اور تربیت کا اکتساب صرف ایک ہی مآخذ سے کیامگر بعد کے ادوار میں یہ صورت پیش آئی کہ اس چشمے کےاندر اور بھی متعدد چشموں کی آمیزش ہوگئی۔ بعد کی نسلوں نے جس چشمے سے اخذ و اکتساب کیا اُس کا حال یہ تھا کہ اُس میں یونانی فلسفہ و منطق ، قدیم عجمی قصے کہانیاں ، اسرائیلیات، مسیحی الٰہیات، اور دوسرے مذاہب اور تمدنوں کے بچے کچھے آثار مخلوط ہوچکے تھے۔ چنانچہ قرآن ِ کریم کی تعبیرات پر اِن تمام چیزوں کا عکس پڑا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ صحابہء کرامؓ جیسی کامل و خالص ہیئت اجتماعیہ دوبارہ منصہٗ ظہور پر نہ آسکی۔
دوسری وجہ:
اس فرق کے پیدا کرنے میں ایک اور اساسی عامل بھی کارفرما رہا ہے۔ صحابہ ٗ کرام ؓ قرآن کی تلاوت اور اس میں تدبر اِس غرض کے لیے نہیں کرتے تھے کہ اپنی معلومات کو بڑھائیں ، یا ادبی ذوق کو تسکین دیں ، یا ذہنی تفریح کا سامان مہیا کریں۔ بلکہ وہ قرآن کی طرف اس لیے رجوع کرتے تھے کہ وہ یہ معلوم کریں کہ ان کی انفرادی زندگی کے بارے میں مالک الملک نے کیا ہدایات دی ہیں ؟ جس معاشرے کے اندر وہ سانس لے رہے ہیں، اس کی اجتماعی زندگی کے لیے کیا احکام ہیں؟
تیسری وجہ:
ایک تیسرا عامل بھی اس تاریخی حقیقت میں کار فرما نظر آتا ہے۔ عہدِ رسالت میں ایک شخص جب حلقہ بگوش اسلام ہوجاتا تو وہ اپنے دورِ جاہلیت کو یک قلم ترک کردیتا تھا۔ پھر اسی احساس اور قلبی دھڑکن کے ساتھ وہ اسلام کی طرف لپکتا تاکہ وہاں سے نورِ ہدایت حاصل کرے۔ اور اگر کبھی اس کا نفسِ امّارہ غالب آجاتا یا ترک شدہ عادات کی کشش اس پر غالب آجاتی تو وہ احساسِ گناہ و لغزش سے بے چین ہوجاتا اور فوراً توبہ کرتا۔ اور دوبارہ قرآنی ہدایت کے مطابق مکمل طور پر ڈھل جانے کے لیے کوشاں ہوجاتا۔
ہمارے لیے صحیح طریقِ کار:
آج بھی ہم جاہلیت میں گھرے ہوئے ہیں۔ یہ جاہلیت بھی اسی خو بو کی ہے جس سے اسلام کو صدر اول میں سابقہ پیش آیا تھا۔ جن چیزوں کو غلطی سے اسلامی ثقافت، اسلامی مآخذ اسلامی فلسفہ اور اسلامی فکر سمجھا جاتا ہے، وہ سب بھی جاہلیت کی مصنوعات ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اسلامی اقدار ہمارے دلوں میں گھر نہیں کرتیں۔
پس ہم پر لازم ہے کہ ہم جاہلیت کے اِن تمام اثرات و عناصر سے پاک رہیں جن میں ہم رہ بس رہے ہیں۔ ہم پر لازم ہے کہ ابتداء سے ہم اس خالص سرچشمہٗ ہدایت کی طرف رجوع کریں جس سے اسلام کے پہلے لاثانی معاشرے کے افراد نے فہمِ دین حاصل کیا تھا۔
جاہلیت سے مکمل مقاطعہ:
زندگی کے اِس نئے سفر میں ہمارا سب سے پہلا قدم یہ ہوگا کہ ہم جاہلی معاشرے اور اِس کی تمام اقدار و نظریات پر غلبہ پانے کی کوشش کریں ۔ ہمارا راستہ الگ ہے اور جاہلیت کا راستہ الگ۔ بہتر یہی ہے کہ ہم ہر وقت اِس امر سے باخبر رہیں کہ ہمارے طریقِ کار کی فطرت و مزاج کیا ہے۔ اور اس راستے کے نشیب و فراز کیا ہیں جس پر چل کر ہم جاہلیت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں سے اُسی کامیابی کے ساتھ نکل جائیں جس کامیابی کے ساتھ صحابہٗ کرام ؓ کی ممتاز و لاثانی جماعت نکلی تھی۔