باب نہم
مسلمان کی قومیت
مسلمانوں کی اجتماعی تنظیم کی بنیاد
جس ساعتِ سعیدہ میں اسلام نے نوعِ انسانی کو اخلاق و اقدار کا نیا تصور دیا، اور ان اخلاق و اقدار کے حصول کا نیا آستانہ بایا، اُسی ساعتِ سعیدہ میں اس نے انسان کے باہمی تعلقات و روابط کا ایک نیا تصور بھی عطا کیا۔اسلام کے آنے کا مقصد یہ تھا کہ وہ انسان اور اس کے رب کے درمیان تعلقات کو درست کرے ۔ اور انسان کو یہ بتائے کہ پروردگارِ عالم ہی وہ واحد با اختیار ہستی ہے جس کی بارگاہِ عزت سے اُسے اپنی زندگی کی اقدار اور رد و قبول کے پیمانے حاصل کرنے چاہئیں۔ کیوں کہ اُسی نے اُسے خلعتِ ہستی اور سرمایۂ حیات ارزانی فرمایا ہے ۔ اپنے روابط اور رشتوں کے بارے میں بھی اُسی ذات کو مرکز و مرجع سمجھے جس کے ارادۂ کُن فکاں سے وہ عدم سے وجود میں آیا ہے اور جس کی طرف اُسے آخر کار لوٹ کر جانا ہے ۔ اسلام نے آ کر پوری قوت و صراحت کے ساتھ انسان کو یہ بتایا کہ اللہ کی نظر میں انسانوں کو باہم جوڑنے والا صرف ایک ہی رشتہ ہے ۔ اگر یہ رشتہ پوری طرح استوار ہو گیا تو اس کے مقابلے میں خون اور مؤدت و الفت کے دوسرے رشتے مٹ جاتے ہیں:
لاَ تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّہ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّہ وَرَسُولَہ وَلَوْ كَانُوا آبَاءہمْ أَوْ أَبْنَاءہمْ أَوْ إِخْوَانَہمْ أَوْ عَشِيرَتَہمْ (مجادلہ: 22)
جو لوگ اللہ اور آخرت کے روز پر ایمان بھی رکھتے ہیں ان کو تم نہ دیکھو گے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے دشمنوں سے دوستی رکھتے ہیں گو وہ اُن کے باپ اور بیٹے اور بھائی اور اہلِ قبیلہ ہی کیوں نہ ہوں۔
دنیا کے اندر اللہ کی پارٹی صرف ایک ہے ۔ اس کے مقابلے میں دوسری تمام پارٹیاں شیطان اور طاغوت کی پارٹیاں ہیں:
الَّذِينَ آمَنُواْ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللّہ وَالَّذِينَ كَفَرُواْ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ الطَّاغُوتِ فَقَاتِلُواْ أَوْلِيَاء الشَّيْطَانِ إِنَّ كَيْدَ الشَّيْطَانِ كَانَ ضَعِيفًا (النساء: 76)
جن لوگوں نے ایمان کاراستہ اختیار کیا ہے ، وہ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں اور جنہوں نے کفر کاراستہ اختیار کیا ہے ، وہ طاغوت کی راہ میں لڑتے ہیں۔ پس شیطان کے ساتھیوں سے لڑو اور یقین جانو کہ شیطان کی چالیں نہایت کمزور ہیں۔
اللہ تک پہنچنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے ،اس کے ماسوا جو راستہ ہے وہ اللہ سے دور لے جانا والا ہے :
وَأَنَّ ہ۔ذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوہ وَلاَ تَتَّبِعُواْ السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَن سَبِيلِہ (انعام: 153)
یہی میرا سیدھا راستہ ہے ، لہذا تم اسی پر چلو اور دوسرے راستے پر نہ چلو کہ وہ اُس کے راستے سے ہٹا کر تمہیں پراگندہ کر دیں گے ۔
انسانی زندگی کے لیے صرف ایک ہی نظامِ حق ہے ، اور وہ ہے اسلامی نظام۔ اس کے علاوہ جتنے نظام ہیں وہ عینِ جاہلیت ہیں:
أَفَحُكْمَ الْجَاہلِيَّۃ يَبْغُونَ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللّہ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُوقِنُونَ (المائدہ: 50)
تو کیا پھر جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں؟ حالاں کہ جو لوگ اللہ پر یقین رکھتے ہیں ان کے نزدیک اللہ سے بہتر فیصلہ کرنے والا کوئی نہیں ہے ۔
صرف ایک ہی شریعت واجب الاتباع ہے اور وہ ہے اللہ کی شریعت۔
اس کے سوا جتنی شریعتیں ہیں، سوائے نفس ہی ہیں:
ثُمَّ جَعَلْنَاكَ عَلَی شَرِيعَۃ مِّنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْہا وَلاَ تَتَّبِعْ أَہوَاء الَّذِينَ لاَ يَعْلَمُونَ (جاثیہ: 1
اے نبی ہم نے تم کو دین کے معاملے میں ایک صاف شاہراہ (شریعت) پر قائم کیا ہے ۔ لہذا تم اُس پر چلو اور ان لوگوں کی خواہشات کا اتباع نہ کرو جو علم نہیں رکھتے ۔
دنیا میں حق صرف ایک ہے جس میں تعدد و تنوع محال ہے ۔ حق کے سوا جو کچھ ہے وہ ضلالت اور تاریکی ہے :
فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ إِلاَّ الضَّلاَلُ فَأَنَّی تُصْرَفُونَ (یونس: 32)
پھر حق کے بعد گمراہی کے سوا اور کیا باقی رہ گیا؟ آخر یہ تم کدھر پھرائے جا رہے ہو۔
دنیا میں صرف ایک ہی ایسی سرزمین ہے جسے دارالاسلام کہا جا سکتا ہے ۔ اور وہ ملک ہے جہاں اسلامی ریاست قائم ہو، شریعتِ الٰہی کی فرماں روائی ہو، حدود اللہ کی پاسداری ہو، اور جہاں مسلمان باہم مل کر امورِ مملکت سر انجام دیتے ہوں۔ اس کے علاوہ جو بھی سرزمین ہوگی وہ دارالحرب کے حکم میں داخل ہے ۔ دارالحرب کے ساتھ ایک مسلمان دو ہی طرح کا رویہ اختیار کر سکتا ہے : جنگ یا معاہدۂ امان کے تحت صُلح، معاہد ملک دارالاسلام کے حکم میں ہرگز نہیں ہوگا۔ اس کے اور دارالاسلام کے مابین ولایت کا رشتہ قائم نہیں ہو سکتا:
إِنَّ الَّذِينَ آمَنُواْ وَہاجَرُواْ وَجَاہدُواْ بِأَمْوَالِہمْ وَأَنفُسِہمْ فِي سَبِيلِ اللّہ وَالَّذِينَ آوَواْ وَّنَصَرُواْ أُوْلَ۔ئِكَ بَعْضُہمْ أَوْلِيَاء بَعْضٍ وَالَّذِينَ آمَنُواْ وَلَمْ يُہاجِرُواْ مَا لَكُم مِّن وَلاَيَتِہم مِّن شَيْءٍ حَتَّی يُہاجِرُواْ وَإِنِ اسْتَنصَرُوكُمْ فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ إِلاَّ عَلَی قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَہم مِّيثَاقٌ وَاللّہ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ • وَالَّذينَ كَفَرُواْ بَعْضُہمْ أَوْلِيَاء بَعْضٍ إِلاَّ تَفْعَلُوہ تَكُن فِتْنَۃ فِي الأَرْضِ وَفَسَادٌ كَبِيرٌ • وَالَّذِينَ آمَنُواْ وَہاجَرُواْ وَجَاہدُواْ فِي سَبِيلِ اللّہ وَالَّذِينَ آوَواْ وَّنَصَرُواْ أُولَ۔ئِكَ ہمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا لَّہم مَّغْفِرَۃ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ • وَالَّذِينَ آمَنُواْ مِن بَعْدُ وَہاجَرُواْ وَجَاہدُواْ مَعَكُمْ فَأُوْلَ۔ئِكَ مِنكُمْ (انفال: 72 تا 75)
جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں اپنی جانیں لڑائیں اور اپنے مال کھپائے ، اور جن لوگوں نے ہجرت کرنے والوں کو جگہ دی اور ان کی مدد کی، وہی دراصل ایکدوسرے کے ولی ہیں۔ رہے وہ لوگ جو ایمان تو لے آئے مگر ہجرت کر کے (دار الاسلام) آ نہیں گئے تو ان سے تمہارا ولایت کا کوئی تعلق نہیں ہے جب تک کہ وہ ہجرت کر کے نہ آ جائیں۔ ہاں اگر وہ دین کے معاملہ میں تم سے مدد مانگیں تو ان کی مدد کرنا تم پر فرض ہے ، لیکن کسی ایسی قوم کے خلاف نہیں جس سے تمہارا معاہدہ ہو۔ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اسے دیکھتا ہے ۔ جو لوگ منکرِ حق ہیں وہ ایک دوسرے کی حمایت کرتے ہیں، اگر تم (اہلِ ایمان ایک دوسرے کی حمایت) نہ کرو گے تو زمین میں فتنہ اور بڑا فساد برپا ہوگا۔ اور جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے اللہ کی راہ میں گھر بار چھوڑے اور جہاد کیا اور جنہوں نے پناہ دی اور مدد کی وہی سچے مومن ہیں۔ ان کے لیے خطاؤں سے درگزر ہے اور بہترین رزق ہے ۔ اور جو لوگ بعد میں ایمان لائے اور ہجرت کر کے آ گئے اور تمہارے ساتھ مل کر جہاد کرنے لگے وہ بھی تم ہی میں شامل ہیں۔
اس روشن اور مکمل ہدایت اور اِس قطعی اور فیصلہ کن تعلیم کو لے کر اسلام دنیا میں رونق افروز ہوا۔ اور اس نے انسان کو خاک اور مٹی کے رشتوں اور خون و گوشت کے رابطوں سے نجات دے کر اُسے اعلٰی و ارفع مقام بخشا۔ اسلام کی نظر میں مسلمان کا کوئی وطن نہیں ہے ۔ اگر اس کا کوئی وطن ہے تو صرف وہ خطۂ زمین جہاں شریعتِ الٰہی کا عَلَم لہرا رہا ہو، اور باشندوں کے باہمی روابط تعلق باللہ کی بنیاد پر قائم ہو۔ اسلام کی نظر میں مسلمان کی کوئی قومیت نہیں ہے ۔ اگر اس کی کوئی قومیت ہے تو وہ صرف وہ عقیدہ ہے جس کے تحت وہ دارالاسلام کے اندر بسنے والی جماعت مسلمہ کا ایک رکن بنا ہے ۔ مسلمان کی کوئی رشتہ داری اور قرابت نہیں ہے ، سوائے اس کے جو ایمان اور عقیدہ کے تقاضے میں وجود میں آتی ہے اور جس کے بعد اُس کے اور اس کے دوسرے دینی ساتھیوں کے درمیان ایک نہایت مضبوط و مستحکم ناطہ وجود میں آ جاتا ہے ۔ مسلمان کی اپنے ماں، باپ، بھائی، بیوی اور خاندان کے ساتھ اُس وقت تک کوئی رشتہ داری استوار نہیں ہو سکتی جب تک وہ بنیادی اور اولین رشتہ قائم نہ ہو جو سب کو اپنے خالق سے جوڑتا ہے ، اور پھر اُسی ربانی رشتہ کی بنیاد پر اُن کے درمیان خونی اور نسلی قرابتیں بھی استوار تر ہو جاتی ہیں:
يَا أَيُّہا النَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَۃ وَخَلَقَ مِنْہا زَوْجَہا وَبَثَّ مِنْہمَا رِجَالاً كَثِيرًا وَنِسَاء وَاتَّقُواْ اللّہ الَّذِي تَسَاءلُونَ بِہ وَالأَرْحَامَ (نساء: 1)
اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اُس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت مرد و عورت دنیا میں پھیلا دیے ۔ اُس اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو۔
لیکن ربانی رشتہ اس امر میں مانع نہیں ہے کہ ایک مسلمان اختلاف عقیدہ کے باوجود والدین کے ساتھ معروف کی حد تک اس وقت تک حُسنِ سلوک اور حسنِ معاشرت رکھے جب تک وہ اسلامی محاذ کے دشمنوں کی صفوں میں شامل نہ ہوں۔ اگر وہ کفار کی کھُلم کھُلا حمایت پر اُتر آئیں تو ایسی صورت میں مسلمان کی اپنے والدین کے ساتھ کوئی رشتہ داری اور صلہ رحمی کا تعلق باقی نہیں رہتا۔ اور حسنِ معاشرت اور نیک برتاؤ کی تمام پابندیاں ختم ہو جاتی ہیں۔ عبد اللہ بن ابی جو رئیس المنافقین تھا اُس کے صاحبزادے حضرت عبد اللہ نے اس معاملے میں ہمارے لیے نہایت درخشاں مثال پیش کی ہے :
ابن جریر نے ابن زیاد کی سند سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبد اللہ بن ابی کے صاحبزادے حضرت عبد اللہ کو بُلا کر فرمایا: آپ کو معلوم ہے کہ آپ کا باپ کیا کہہ رہا ہے ؟ عبد اللہ نے عرض کیا: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں اُس نے کیا کہا ہے ؟ آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ کہتا ہے کہ اگر ہم مدینہ لوٹ گئے تو وہاں عزت والا ذلت والے کو نکال باہر کرے گا! حضرت عبد اللہ نے کہا: اے اللہ کے رسول خدا کی قسم اُس نے درست کہا ہے ، بخدا آپ عزت والے ہیں اور وہی ذلیل ہے ۔ یا رسول اللہ! خدائے برتر کی قسم، آپ کی مدینہ میں تشریف آوری کے وقت اہلِ یثرب کو معلوم ہے کہ اس شہر میں مجھ سے زیادہ اپنے والد کا فرمانبردار کوئی شخص نہیں تھا۔ اور اب اگر اللہ اور اُس کے رسول کی خوشنودی اس میں ہے کہ میں والد کا سر اُن کی خدمت میں پیش کردوں تو میں اُس کا سر لائے دیتا ہوں۔ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ایسا نہ کرو" چنانچہ جب مسلمان مدینہ پہنچے تو عبد اللہ بن ابی کے لڑکے حضرت عبد اللہ مدینہ کے باہر اپنے باپ کے سامنے تلوار سونت کر کھڑے ہو گئے ۔ اور اس سے کہنے لگے کیا تونے یہ کہا ہے کہ اگر ہم مدینہ لوٹے تو وہاں کا عزت والا ذلیل لوگوں کو نکال دے گا، خدائے بزرگ کی قسم تجھے ابھی معلوم ہو جائے گا کہ تو عزت والا ہے یا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم۔ خدا کی قسم جب تک اللہ اور اس کے رسول اجازت نہ دیں، تجھے مدینہ کا سایہ نصیب نہیں ہو سکتا اور تو مدینہ میں ہر گز پناہ نہیں لے سکتا۔ عبد اللہ بن ابی نے چلا کر دو مرتبہ کہا : اے خزرج کے لوگو! دیکھو یہ میرا ہی بیٹا مجھے گھر میں داخل ہونے سے روک رہا ہے ۔ حضرت عبد اللہ اُس کے شور و ہنگامہ کے باوجود یہی کہتے رہے کہ جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اذن نہ ہو خدا کی قسم تجھے ہر گز مدینہ میں قدم نہ رکھنے دوں گا۔ یہ شور سُن کر کچھ لوگ حضرت عبد اللہ کے پاس جمع ہو گئے اور انہیں سمجھایا بجھایا۔ مگر وہ اس بات پر مُصر رہے کہ اللہ اور اس کے رسول کے اذن کے بغیر میں اسے مدینہ میں گھسنے نہیں دوں گا۔ چنانچہ چند لوگ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور آپ کو اس واقعہ کی اطلاع دی۔ آپ نے سن کر فرمایا، عبد اللہ کے پاس جاؤ اور اسے کہو: "اپنے باپ کو گھر آنے سے نہ روکے !" چنانچہ وہ لوگ عبد اللہ کے پاس آئے اور انہیں آنحضورؐ کے ارشاد سے آگاہ کیا۔ حضرت عبد اللہ کہنے لگے : اگر اللہ کے نبی کا حکم ہے تو اب یہ داخل ہو سکتا ہے ۔
جب عقیدہ و ایمان کا رشتہ قائم ہو جاتا ہے تو اس کے بعد نسب و رحم کے رشتے نہ بھی ہوں تو بھی تمام اہلِ ایمان باہم بھائی بھائی بن جاتے ہیں۔ اور ان میں وہ مضبوط تر رابطہ وجود میں آتا ہے جو انہیں یک قالب و یک جان بنا دیتا ہے ۔ اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے : انما المومنون اخوۃ (تمام اہل ایمان بھائی بھائی ہیں)۔ اس مختصر ارشاد میں حصر بھی ہے اور تاکید بھی۔ نیز فرمایا:
إِنَّ الَّذِينَ آمَنُواْ وَہاجَرُواْ وَجَاہدُواْ بِأَمْوَالِہمْ وَأَنفُسِہمْ فِي سَبِيلِ اللّہ وَالَّذِينَ آوَواْ وَّنَصَرُواْ أُوْلَ۔ئِكَ بَعْضُہمْ أَوْلِيَاء بَعْضٍ (انفال: 72)
جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے اللہ کی راہ میں گھر بار چھوڑا اور اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور جانوں سے جہاد کیا اور جن لوگوں نے ہجرت کرنے والوں کو جگہ دی اور ان کی مدد کی، وہی دراصل ایک دوسرے کے ولی ہیں۔
اس آیت میں جس ولایت کا ذکر کیا گیا ہے وہ صرف ایک ہی وقت میں پائی جانے والی اور ایک ہی نسل تک محدود نہیں ہے بلکہ وہ آئندہ آنے والی نسلوں تک بھی منتقل ہوتی رہتی ہے ، اور امت مسلمہ کے اگلوں کو پچھلوں سے اور پچھلوں کو اگلوں کے ساتھ محبت و مؤدت اور وفاداری و غمگساری اور رحم دلی و شفقت کی ایک مقدس و لازوال لڑی میں پرو دیتی ہے :
وَالَّذِينَ تَبَوَّؤُوا الدَّارَ وَالْإِيمَانَ مِن قَبْلِہمْ يُحِبُّونَ مَنْ ہاجَرَ إِلَيْہمْ وَلاَ يَجِدُونَ فِي صُدُورِہمْ حَاجَۃ مِّمَّا أُوتُوا وَيُؤْثِرُونَ عَلَی أَنفُسِہمْ وَلَوْ كَانَ بِہمْ خَصَاصَۃ وَمَن يُوقَ شُحَّ نَفْسِہ فَأُوْلَئِكَ ہمُ الْمُفْلِحُونَ • وَالَّذِينَ جَاؤُوا مِن بَعْدِہمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلاِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلاَ تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِّلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَؤُوفٌ رَّحِيمٌ (حشر: 10 - 9 )
اور جو لوگ مہاجرین کی ہجرت سے پہلے مدینے میں رہتے تھے اور ایمان لا چکے تھے (یعنی انصار) وہ ہجرت کرنے والوں سے محبت کرتے ہیں اور مالِ غنیمت میں سے مہاجرین کو جو کچھ بھی دے دیا جائے اُس کی وجہ سے یہ اپنے دل میں اُس کی کوئی طلب نہیں پاتے اور خواہ انہیں تنگی ہی کیوں نہ ہو مگر وہ (اپنے مہاجرین بھائیوں کو) ترجیح دیتے ہیں۔ اور جو شخص اپنی طبیعت کے بخل سے محفوظ رکھا گیا تو ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔ اور جو اُن کے بعد آئے وہ یہ دُعائیں مانگتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار ہمیں اور ہمارے ان بھائیوں کو معاف فرما جو ہم سے پہلے ایمان لا چکے ہیں ۔۔۔۔۔۔ اور ہمارے دلوں میں اہلِ ایمان کے لیے کوئی کینہ نہ رہنے دے ، اے ہمارے پروردگار بے شک تو بڑا شفقت رکھنے والا اور مہربان ہے ۔
ہر دور میں عقیدہ ہی بنائے جمع و تفریق تھا
اللہ تعالٰی نے اپنی کتابِ حکیم میں مومنین کے سامنے انبیائے سابقین کی برگزیدہ جماعت کی متعدد مثالیں اور قصے بیان فرمائے ہیں۔ ان انبیاء علیہم السلام نے مختلف ادوار میں ایمان کی قندیلیں فروزاں کیں، اور ایمان و عقیدہ کے نورانی قافلوں کی قیادت فرمائی۔ ان مثالوں میں اللہ تعالٰی نے واضح کیا ہے کہ ہر نبی کی نگاہ میں اصل رشتہ اسلام اور عقیدہ کا رشتہ تھا۔ان کے مقابلے میں کوئی اور رشتہ اور قرابت داری کسی لحاظ سے بھی نافع ثابت نہیں ہو سکتی۔
وَنَادَی نُوحٌ رَّبَّہ فَقَالَ رَبِّ إِنَّ ابُنِي مِنْ أَہلِي وَإِنَّ وَعْدَكَ الْحَقُّ وَأَنتَ أَحْكَمُ الْحَاكِمِينَ • قَالَ يَا نُوحُ إِنَّہ لَيْسَ مِنْ أَہلِكَ إِنَّہ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ فَلاَ تَسْأَلْنِ مَا لَيْسَ لَكَ بِہ عِلْمٌ إِنِّي أَعِظُكَ أَن تَكُونَ مِنَ الْجَاہلِينَ • قَالَ رَبِّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ أَنْ أَسْأَلَكَ مَا لَيْسَ لِي بِہ عِلْمٌ وَإِلاَّ تَغْفِرْ لِي وَتَرْحَمْنِي أَكُن مِّنَ الْخَاسِرِينَ﴿ھود: 45 تا 47)
اور نوح نے اپنے رب کو پکارا۔ کہا اے رب میرا بیٹا میرے گھر والوں میں سے ہے اور تیرا وعدہ سچا ہے اور تُو سب حاکموں سے بڑا اور بہتر حاکم ہے ۔ جواب میں ارشاد ہوا اے نوح! وہ تیرے گھر والوں میں سے نہیں ہے ۔ وہ تو ایک بگڑا ہوا کام ہے ۔ لہذا تو اس بات کی مجھ سے درخواست نہ کر جس کی حقیقت تو نہیں جانتا میں تجھے نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے آپ کو جاہلوں کی طرح نہ بنا لے ۔ نوح نے فوراً عرض کیا: اے میرے رب میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ وہ چیز تجھ سے مانگوں جس کا مجھے علم نہیں۔ اگر تو نے مجھے معاف نہ کیا اور رحم نہ فرمایا تو میں برباد ہو جاؤں گا۔
وَإِذِ ابْتَلَی إِبْرَاہيمَ رَبُّہ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّہنَّ قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا قَالَ وَمِن ذُرِّيَّتِي قَالَ لاَ يَنَالُ عَہدِي الظَّالِمِينَ (بقرہ: 124)
اور یاد کرو جب ابراہیم کو اس کے رب نے چند باتوں میں آزمایا اور وہ ان سب پر پورا اتر گیا۔ تو اس نے کہا: "میں تجھے سب لوگوں کا پیشوا بنانے والا ہوں" ابراہیم نے عرض کیا: اور کیا میری اولاد سے بھی یہی وعدہ ہے ؟ اس نے جواب دیا: میرا وعدہ ظالموں متعلق نہیں ہے ۔
وَإِذْ قَالَ إِبْرَاہيمُ رَبِّ اجْعَلْ ہ۔َذَا بَلَدًا آمِنًا وَارْزُقْ أَہلَہ مِنَ الثَّمَرَاتِ مَنْ آمَنَ مِنْہم بِاللّہ وَالْيَوْمِ الآخِرِ قَالَ وَمَن كَفَرَ فَأُمَتِّعُہ قَلِيلاً ثُمَّ أَضْطَرُّہ إِلَی عَذَابِ النَّارِ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ (بقرہ: 126)
اور جب ابراہیم نے دعا کی: اے میرے رب، اس شہر کو امن کا شہر بنا دے ، اور اس کے باشندوں میں سے جو اللہ اور آخرت کو مانیں، انہیں ہر قسم کے پھلوں کا رزق دے ، اللہ نے فرمایا: اور جو نہ مانے گا دنیا کی چند روزہ زندگی کا سامان تو میں اُسے بھی دوں گا، مگر آخر کار اُسے عذابِ جہنم کی طرف گھسیٹوں گا اور وہ بدترین ٹھکانا ہے ۔
حضرت ابراہیمؑ نے جب اپنے بات کو اور اپنے اہلِ خاندان کو گمراہی پر مُصِر دیکھا تو وہ اُن سے کنارہ کش ہو گئے اور فرمایا:
وَأَعْتَزِلُكُمْ وَمَا تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّہ وَأَدْعُو رَبِّي عَسَی أَلاَ أَكُونَ بِدُعَاء رَبِّي شَقِيًّا (مریم: 4
میں آپ لوگوں کو چھوڑتا ہوں اور اُن ہستیوں کو بھی جنہیں آپ لوگ خدا کو چھوڑ کر پُکاراکرتے ہیں۔ میں تو اپنے رب ہی کو پکاروں گا، امید ہے کہ میں اپنے رب کو پکار کے نامراد نہ رہوں گا۔
اللہ تعالٰی نے حضرت ابراہیمؑ اور ان کی قوم کا ذکر کرتے ہوئے اُن پہلوؤں کو مومنین کے سامنے خاص طور پر پیش کیا ہے جن میں مومنین کو ان کے نقشِ قدم پر چلنا چاہیے ۔ فرمایا:
قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَۃ حَسَنَۃ فِي إِبْرَاہيمَ وَالَّذِينَ مَعَہ إِذْ قَالُوا لِقَوْمِہمْ إِنَّا بُرَاء مِنكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّہ كَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَۃ وَالْبَغْضَاء أَبَدًا حَتَّی تُؤْمِنُوا بِاللَّہ وَحْدَہ (ممتحنہ: 4)
بے شک تمہارے لیے ابراہیم اور ان کے ساتھی بہترین نمونہ ہیں جب کہ انہوں نے اپنی قوم سے دو ٹوک کہہ دیا کہ ہم کو تم سے اور جن کی تم اللہ کے سوا پرستش کرتے ہو اُن سے کوئی سروکار نہیں ہے ۔ ہم تمہارے (معبودوں اور عقیدوں کو) کو بالکل نہیں مانتے اور ہم میں اور تم میں ہمیشہ کے لیے کھُلم کھُلا عداوت اور دشمنی قائم ہو گئی ہے یہاں تک کہ تم صرف اللہ پر ایمان لے آؤ۔
وہ جواں ہمت اور جواں سال رفقاء جو اصحاب کہف کے لقب سے مشہور ہیں جب انہوں نے دیکھا کہ دین و عقیدہ کی متاع گراں بہا کے لیے ان کے وطن، ان کے اہل و عیال اور ان کے خاندان و قبیلہ میں کوئی گنجائش نہیں رہی ہے تو وہ اپنے اہل و عیال کو خیر باد کہہ کر اپنی قوم سے کنارہ کش ہو گئے ، وہ اپنے وطن سے ہجرت کر گئے اور متاعِ ایمان کو لے کر اپنے پروردگار کی طرف بھاگ کھڑے ہوئے تاکہ وہ دین و ایمان کی بنیاد پر صرف ایک اللہ کے بندے بن کر رہ سکیں:-
إِنَّہمْ فِتْيَۃ آمَنُوا بِرَبِّہمْ وَزِدْنَاہمْ ہدًی • وَرَبَطْنَا عَلَی قُلُوبِہمْ إِذْ قَامُوا فَقَالُوا رَبُّنَا رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ لَن نَّدْعُوَ مِن دُونِہ إِلَہا لَقَدْ قُلْنَا إِذًا شَطَطًا • ہؤُلاَء قَوْمُنَا اتَّخَذُوا مِن دُونِہ آلِہۃ لَّوْلاَ يَأْتُونَ عَلَيْہم بِسُلْطَانٍ بَيِّنٍ فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَی عَلَی اللَّہ كَذِبًا • وَإِذِ اعْتَزَلْتُمُوہمْ وَمَا يَعْبُدُونَ إِلاَ اللَّہ فَأْوُوا إِلَی الْكَہفِ يَنشُرْ لَكُمْ رَبُّكُم مِّن رَّحمتہ ويُہيِّئْ لَكُم مِّنْ أَمْرِكُم مِّرْفَقًا (الکھف: 13 تا 16)
وہ چند نوجوان تھے جو اپنے رب پر ایمان لے آئے تھے اور ہم نے ان کو ہدایت میں ترقی بخشی تھی۔ ہم نے اُن کے دل اُس وقت مضبوط کر دیے جب وہ اُٹھے اور انہوں نے اعلان کر دیا کہ ہمارا رب تو بس وہی ہے جو آسمانوں اور زمین کا رب ہے ۔ ہم اُسے چھوڑ کر کسی دوسرے معبود کو نہ پکاریں گے ۔ اگر ہم ایسا کریں تو بالکل بے جا بات کریں گے ۔ (پھر انہوں نے آپس میں ایک دوسرے سے کہا) یہ ہماری قوم تو ربِ کائنات کو چھوڑ کر دوسرے خدا بنا بیٹھی ہے ۔ یہ لوگ اپنے اس عقیدے پر کوئی واضح دلیل کیوں نہیں لاتے ؟ آخر اُس شخص سے بڑا ظالم اور کون ہو سکتا ہے جو اللہ پر جھوٹ باندھے ؟ اب جب کہ تم ان سے اور ان کے معبود اِن غیر اللہ سے بے تعلق ہو چکے ہو تو چلو اب فلاں غار میں چل کر پناہ لو۔ تمہارا رب تم پر اپنی رحمت کا دامن وسیع کرے گا اور تمہارے کام کے لیے سر و سامان مہیا کرے گا۔
حضرت نوح علیہ السلام اور حضرت لوط علیہ السلام کی بیویوں کا ذکر قرآن میں آتا ہے ۔ان برگزیدہ پیغمبروں اور ان کی بیویوں کے درمیان صرف اس بنا پر تفریق رہ جاتی ہے کہ ان کی بیویوں کا عقیدہ خاوندوں کے عقیدہ سے جدا تھا اور وہ آلودۂ شرک تھیں:
ضَرَبَ اللَّہ مَثَلًا لِّلَّذِينَ كَفَرُوا اِمْرَأَۃ نُوحٍ وَاِمْرَأَۃ لُوطٍ كَانَتَا تَحْتَ عَبْدَيْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَيْنِ فَخَانَتَاہمَا فَلَمْ يُغْنِيَا عَنْہمَا مِنَ اللَّہ شَيْئًا وَقِيلَ ادْخُلاَ النَّارَ مَعَ الدَّاخِلِينَ (تحریم: 10)
کافروں کی عبرت کے لیے اللہ نوحؑ کی عورت اور لوطؑ کی عورت کی مثال دیتا ہے ۔ یہ دونوں عورتیں ہمارے بندوں میں سے دو بندوں کے نکاح میں تھیں۔ ان دونوں نے ان سے خیانت کی مگر اللہ کی گرفت سے دونوں کے شوہر ان کو نہ بچا سکے اور دونوں عورتوں کو حکم دیا گیا کہ جاؤ دوسرے لوگوں کے ساتھ تم بھی جہنم میں داخل ہو جاؤ۔
ساتھ ہی جابر و سر کش فرمانروا فرعون مصر کی بیوی کی مثال بیان کی گئی ہے اور اہلِ ایمان کے لیے اُسوہ کے طور پر اُس کا ذکر کیا گیا ہے :
وَضَرَبَ اللَّہ مَثَلًا لِّلَّذِينَ آمَنُوا اِمْرَأَۃ فِرْعَوْنَ إِذْ قَالَتْ رَبِّ ابْنِ لِي عِندَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّۃ وَنَجِّنِي مِن فِرْعَوْنَ وَعَمَلِہ وَنَجِّنِي مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ (تحریم: 11)
اور اہلِ ایمان کی نصیحت کے لیے اللہ فرعون کی بیوی کی مثال بیان کرتا ہے جب کہ اُس نے دعا کی: اے میرے پروردگار! میرے لیے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا اور مجھ کر فرعون اور اُس کے کردارِ بد سے نجات دے اور مجھے ظالم لوگوں سے بھی نجات دے ۔
علی ہذا القیاس قرآن نے ہر نوعیت کے رشتوں اور قرابتوں کے بارے میں مختلف مثالیں بیان کی ہیں۔ نوح علیہ السلام کے قصہ میں رشتۂ پدری کی مثال ملے گی، حضرت ابراہیمؑ کے قصے میں بیٹے اور وطن کے رشتے کی مثال بیان کی گئی ہے ، اصحابِ کہف کے قصے میں اعزہ و اقارب، قبیلہ و برادری اور وطن و قوم کے رشتہ کی جامع مثال پیش کی گئی ہے ، حضرت نوح اور لوط علیہما السلام کے قصے اور فرعون کے تذکرے میں ازدواجی تعلق کی مثال دی گئی ہے ۔ قرآن کی نظر میں یہ تمام رشتے عقیدہ و ایمان کے ابدی رشتہ اور سرمدی رابطہ کے انقطاع کے بعد ناقابلِ لحاظ قرار پاتے ہیں۔
قومِ رسولِ ہاشمی کی بِنائے ترکیب
جب انبیاء کی برگزیدہ جماعت روابط و تعلقات اور رشتوں اور برادریوں کا حقیقی پیمانہ اور پاکیزہ تصور پیش کر چکتی ہے تو امت وسط کی باری آتی ہے ۔ چنانچہ امت وسط کے اندر بھی اس نوعیت کی مثالوں اور نمونوں اور تجربوں کا وسیع اور ایمان افروز ذخیرہ ملتا ہے ۔ یہ امت بھی اُسی ربانی راستے پر گامزن نظر آتی ہے جو ازل سے اللہ تعالٰی نے اہلِ ایمان کے گروہ کے لیے منتخب و پسند فرمایا ہے ۔ اس امت کے اندر بھی آپ دیکھیں گے کہ جب رشتۂ ایمان ٹوٹ جاتا ہے ۔ دوسرے لفظوں میں جب انسان اور انسان کے درمیان اولین رشتہ منقطع ہو جاتا ہے تو ایک ہی خاندان اور قبیلے کے لوگ جُدا جُدا گروہوں میں بٹ جاتے ہیں، بلکہ ایک ہی گھر کے مختلف افراد میں جُدائی واقع ہو جاتی ہے ۔ اللہ تعالٰی مومنین کی صفت بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے :
لاَ تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّہ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّہ وَرَسُولَہ وَلَوْ كَانُوا آبَاءہمْ أَوْ أَبْنَاءہمْ أَوْ إِخْوَانَہمْ أَوْ عَشِيرَتَہمْ أُوْلَئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِہمُ الْإِيمَانَ وَأَيَّدَہم بِرُوحٍ مِّنْہ وَيُدْخِلُہمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِہا الْأَنْہارُ خَالِدِينَ فِيہا رَضِيَ اللَّہ عَنْہمْ وَرَضُوا عَنْہ أُوْلَئِكَ حِزْبُ اللَّہ أَلاَ إِنَّ حِزْبَ اللَّہ ہمُ الْمُفْلِحُونَ (مجادلہ: 22)
جو لوگ اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں تُو انہیں ان لوگوں سے دوستی کرتے نہ پائے گا جو اللہ اور اُس کے رسول کے دشمن ہیں گو وہ اُن کے باپ، یا بیٹے یا بھائی یا اہلِ قبیلہ ہی کیوں نہ ہوں۔ یہ (اہل ایمان) وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کے اندر اللہ نے ایمان نقش کر دیا ہے اور فیضانِ غیبی سے اُن کی تائید کی ہے ۔ اور وہ ان کو ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور وہ اُن میں ہمیشہ رہیں گے ۔ خدا اُن سے خوش اور وہ خدا سے خوش۔ یہ خدائی گروہ ہے ۔ اور آگاہ رہو کہ خدائی گروہ ہی فلاح پانے والا ہے ۔
ایک طرف محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اور آپ کے چچا ابو لہب اور آپ کے ہم قبیلہ عمرو بن ہشام (ابو جہل) کے درمیان خونی اور نسلی رشتے ٹوٹ جاتے ہیں، مہاجرینِ مکہ اپنے اہل و اقربا کے خلاف برسرِ جنگ نظر آتے ہیں اور معرکۂ بدر میں ان کے خلاف صف آرا ہو جاتے ہیں اور دوسری طرف مکہ کے ان مہاجرین کے درمیان اور یثرب کے انصار کے درمیان عقیدہ کا سرمدی رشتہ استوار ہو جاتا ہے اور وہ سگے بھائی بن جاتے ہیں اور خونی اور نسلی رشتے سے بھی زیادہ قریب ہوجاتے ہیں۔ یہ رشتہ مسلمانوں کی ایک نئی برادری کو جنم دیتا ہے اس برادری میں عرب بھی شامل ہیں اور غیر عرب بھی۔ روم کے صہیب بھی اس کے رکن ہیں اور حبش کے بلال اور فارس کے سلمان بھی۔ ان کے درمیان قبائلی عصبیت مٹ جاتی ہے ، نسلی تعصب و تفاخر ختم ہو جاتا ہے ، وطن اور قوم کے نعرے تحلیل ہو جاتے ہیں۔ اور اللہ کا پیغمبر اُن سب سے مخاطب ہو کر فرماتا ہے :
• دعوھا فانھا منتنۃ (ان عصبیتوں سے دست بردار ہو جاؤ یہ متعفن لاشیں ہیں)
• لیس منا من دعا الی عصبیۃ، و لیس منا من قاتل علی عصبیۃ، و لیس منا من مات علی عصبیۃ (جو کسی جاہلی عصبیت کی طرف دعوت دیتا ہے وہ ہم میں سے نہیں، جو عصبیت کے لیے جنگ کرتا ہے وہ ہم میں سے نہیں، جو عصبیت پر مرتا ہے وہ ہم میں سے نہیں ہے )
دارالاسلام اور دارالحرب
الغرض ان مردار و متعفن عصبیتوں کا چلن ختم ہو گیا۔ نسبی تعصب کا مردار لاشہ دفن کر دیا گیا، نسلی برتری کا جاہلی نعرہ پاؤں تلے روند ڈالا گیا، قومی گھمنڈ کی گندگی زائل کر دی گئی اور اُس کا نام و نشان تک باقی نہ رہا۔ اور انسان نے گوشت اور خون کے تعفن اور زمین و وطن کے لوث سے آزاد رہ کر آفاق عالم کے عطر بیز چمنستان میں مشام جان کو معطر کیا۔ اس دن سے مسلمان کا وطن جغرافی حدود اربعہ میں محدود نہیں رہا بلکہ پورا دارالاسلام اس کا وطن ٹھیرا۔ وہ وطن جہاں عقیدہ و ایمان کی حکمرانی ہوتی ہے ، اور صرف شریعتِ الٰہی کا سکہ رواں ہوتا ہے ۔ یہی وطن مسلمان کی پناہ گاہ بنا، اسی کی مدافعت کے لیے وہ کمربستہ رہا اور اسی کے تحفظ و استحکام میں اُس نے جان کا نذرانہ پیش کیا اور اُس کی توسیع و اضافہ میں اُس نے جام شہادت نوش کیا۔ یہ دارالاسلام ہر اُس شخص کا مامَن ہے جو عقیدۂ اسلام کا قلاوہ گلے میں ڈال لیتا ہے ، اور شریعت اسلامی کو قانون زندگی کی حیثیت سے تسلیم کرتا ہے ، وہ ش۔خص بھی اس پناہ گاہ سے استفادہ کر سکتا ہے جو مسلمان تو نہیں ہے مگر اسلامی شریعت کو نظام ریاست کی حیثیت سے قبول کرتا ہے ۔ جیسا کہ ان اہلِ کتاب کا معاملہ ہے جو دارالاسلام کے اندر بودوباش رکھتے ہیں۔ مگر وہ سرزمین جس پر اسلام کی حکمرانی کا پھریرا نہ لہراتا ہو اور شریعتِ الٰہی کو نافذ نہ کیا جاتا ہو وہ مسلمان کے لیے بھی اور دارالاسلام کے معاہد ذمی کے لیے بھی دارالحرب ہے ۔ مسلمان اس کے خلاف شمشیر بکف رہے گا خواہ وہ اُس کی جنم بھومی ہو، اُس سے اُس کے نسبی اور سسرالی رشتہ وابستہ ہوں، اس کے اموال و املاک اُس میں موجود ہوں اور اُس کے مادی مفادات اُس سے وابستہ ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کے خلاف تلوار اٹھائی حالانکہ مکہ آپؐ کا پیدائشی اور آبائی وطن تھا۔ وہیں آپؐ کے اعزہ و اقارب اور خاندان کے لوگ رہتے تھے ، آپؐ کے اور آپؐ کے صحابہ کے مکانات اور جائیدادیں بھی وہیں تھیں۔ جنہیں آپؐ ہجرت کے وقت وہاں چھوڑ آئے تھے ۔ مگر مکہ کی سرزمین پیغمبر خدا کے لیے اور ان کی امت کے لیے اُس وقت تک دارالاسلام نہ بن سکی جب تک وہ اسلام کے آگے سرنگوں نہیں ہو گئی اور شریعت غرّا کے ہاتھ اقتدار کی مسند نہیں آ گئی۔
اسی کا نام اِسلام ہے ، یہی نرالا تصور زندگی اسلام کہلاتا ہے ، اسلام چند اشلوکوں کا نام نہیں ہے کہ بس انہیں زبان سے دُہرا دینا ہی کافی ہو، اور نہ کسی مخصوص سرزمین کے اندر جس پر اسلام کا بورڈ چسپاں ہو یا جو اسلامی نام سے پکاری جاتی ہو پیدا ہو جانے سے کسی آدمی کو خود بخود اسلام کا سرٹیفکیٹ مل جاتا ہے ، اور نہ یہ مسلمان والدین کے گھر میں پیدا ہونے سے وراثت میں مل جاتا ہے ۔
فَلاَ وَرَبِّكَ لاَ يُؤْمِنُونَ حَتَّی يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَہمْ ثُمَّ لاَ يَجِدُواْ فِي أَنفُسِہمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُواْ تَسْلِيمًا (نساء: 65)
نہیں اے محمد، تمہارے رب کی قسم یہ کبھی مومن نہیں ہو سکتے ۔ جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں، پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی محسوس نہ کریں، بلکہ سر بسر تسلیم کر لیں۔
صرف اسی کا نام اسلام ہے ، اور صرف وہی سرزمین دارالاسلام ہے جہاں اس کی حکومت ہو۔ یہ وطن و نسل، نسب و خون اور قبیلہ و برادری کی حد بندیوں سے بالا و برتر ہے ۔
اسلامی وطن اور اس کے دفاع کا اصل محرک
اسلام نے آ کر انسانوں کو ان تمام زنجیروں سے رہا کیا جنہوں نے اُسے زمین کی پستی سے باندھ رکھا تھا، تاکہ انسان آسمان کی پہنائیوں میں پرواز کے قابل ہو سکے ۔ خون و نسب کے تمام سفلی طوق و سلاسل پاش پاش کر دے تاکہ انسان آزاد ہو کر بلند ترین فضاؤں میں پرواز کر سکے ۔ اسلام نے بتایا کہ مسلمان کا وطن زمین کا کوئی مخصوص خطہ نہیں ہے جس کی محبت میں اُسے تڑپنا چاہیے اور جس کے دفاع میں اُسے جان کی بازی لگانی چاہیے ، مسلمان کی قومیت جس سے وہ متعارف ہوتا ہے کسی حکومت کی عطا کردہ نیشنلٹی نہیں ہے ، مسلمان کی برادری جس کی وہ پناہ لیتا ہے اور جس کی خاطر لڑتا اور مرتا ہے وہ خون کے رشتہ سے ترکیب نہیں پاتی۔ مسلمان کا پرچم جس پر وہ ناز کرتا ہے اور جس کو اونچا رکھنے کے لیے وہ جان تک کی بازی لگا دیتا ہے وہ کسی قوم کا پرچم نہیں ہے ، مسلمان کی فتح یابی جس کے لیے وہ بے تاب رہتا ہے اور جس سے ہمکنار ہونے پر وہ خدا کے سامنے سجدۂ شکر ادا کرتا ہے ، وہ محض فوجی غلبہ نہیں ہے بلکہ وہ فتحِ حق ہے جسے قرآن نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے :
إِذَا جَاء نَصْرُ اللَّہ وَالْفَتْحُ • وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّہ أَفْوَاجًا • فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْہ إِنَّہ كَانَ تَوَّابًا (سورۃ النصر)
جب آ گئی اللہ کی مدد اور فتح۔ اور تُو نے دیکھ لیا لوگوں کو اللہ کے دین میں فوج در فوج داخل ہوتے ۔ سو تُو اپنے رب کی حمد کی تسبیح کر اور اُس سے استغفار کر، بے شک وہ توبہ قبول کرنے والا ہے ۔