جارج برنارڈ شا اور مولانا عبدالعلیم صدیقی کی جب ملاقات ہوئی!

جارج برنارڈ شا اور مولانا عبدالعلیم صدیقی کی جب ملاقات ہوئی!
9963_49829764.jpg

سید عاصم محمود

یہ اپریل 1935ء کی بات ہے،مشہور آئرش ادیب، جارج برنارڈ شا (1856ء۔1950ء)نے جنوبی افریقہ جاتے ہوئے ممباسہ (کینیا)میں قیام کیا۔وہ بذریعہ بحری جہاز سیر و تفریح کرنے جنوبی افریقہ جا رہے تھے۔ممباسہ کا مجسٹریٹ شا کا رشتے دار تھا،سو وہ تین دن اسی کے ہاں ٹھہرے۔ مجسٹریٹ کی زبانی انھیں معلوم ہوا کہ آج کل شہر میں ہندوستان سے ایک نامور مسلمان عالم دین آئے ہوئے ہیں۔وہ بڑے مؤثر انداز میں مذہب اسلام کی خصوصیات بیان کرتے ہیں۔شا عالمی مذاہب کے مطالعے سے دلچسپی رکھتے تھے،سو انھوں نے ہندوستانی عالم سے ملنے کا اشتیاق ظاہر کیا۔مجسٹریٹ نے ملاقات کا اہتمام کر دیا۔سو 17اپریل کی ایک سہانی صبح مولانا عبدالعلیم صدیقی شا سے ملنے چلے آئے۔ برنارڈ شا تب تک بین الاقوامی ادیب بن چکے تھے۔سوشلسٹ تھے اور مذہبی تعلیمات پہ کم ہی عمل کرتے۔واضح رہے کہ برنارڈشا دنیا کے واحد ادیب ہیں جنھوں نے ادب کانوبیل انعام اور آسکر ایوارڈ،دونوں حاصل کیے۔ دوسری طرف کم عمری کے باوجود مولانا عبدالعلیم صدیقی (1892 ء۔ 1954ء)کی شہرت بہ حیثیت مبلغِ اسلام پوری دنیا میں پھیل چکی تھی۔آپ وسیع المطالعہ شخصیت،درس نظامی کے سند یافتہ اور ایل ایل بی تھے۔غیرمعمولی دماغ رکھنے والی دونوں ہستیوں میں جو پُرمغز گفتگو ہوئی،اس کا خلاصہ درج ذیل ہے: ٭٭
برنارڈ شا:مجھے افسوس ہے کہ پچھلی رات آپ کا لیکچر نہیں سن سکا۔تاہم یہ ضرور جانتا ہوں کہ آپ نے فلسفہِ امن پر اظہار خیال کیا۔مگر کیاا ٓپ کو فلسفہ ِجنگ پہ لیکچر نہیں دینا چاہیے تھا؟آخر اسلام تلوار کے زور پر ہی پھیلا ہے۔
مولانا عبدالعلیم صدیقی:یہ مغرب میں پھیلا بہت بڑا مغالطہ ہے۔لیکن مجھے حیرت ہے،آپ جیسا دانا و بینا دانشور بھی اس دیومالا پہ یقین رکھتا ہے کہ اسلام تلوار کے ذریعے پھیلا۔جس مذہب کے نام کے لغوی معنی ہی ’’امن‘‘ ہوں،وہ جنگوں کا حمایتی کیسے ہو سکتا ہے؟ قرآن پاک اور ہمارے رسولﷺ کی احادیث میں واضح طور پہ آیا ہے کہ مسلمان صرف دفاعی جنگ لڑ سکتا ہے۔جب اس پہ ظلم کیا جائے، تب وہ اپنے دفاع کی خاطرتلوار اٹھا سکتا ہے۔مزید برأں قران مجید میں صاف الفاظ میں لکھا ہے کہ مذہب کے معاملے میں کوئی زبردستی نہیں (البقرہ۔256)۔چناں چہ کسی غیر مسلم کو ڈرادھمکا کر مسلمان کرنا گناہ اور حرام ہے۔ہماری مقدس کتاب میں ہی اللہ تعالی نے تبلیغ کا طریق کار کچھ یوں بیان فرمایا ہے: ’’لوگوں کو حکمت اور نیک نصیحت کے ذریعے خدا کے راستے کی طرف بلائو۔اوربہت اچھے طریقے کے ساتھ ان سے مناظرہ کرو۔(النحل۔125) تاریخ افشا کرتی ہے کہ325ء میں نیقہ کونسل نے (نعوذباللہ)حضرت عیسیٰ ؑ کو خدا قرار دے ڈالا۔دراصل یہ اقدام بازنطینی شہنشاہ،قسطنطین اعظم کے شدید دبائو پہ اٹھایا گیا۔بعد ازاں جن عیسائیوں نے یہ نیا ارضی نظریہ تسلیم کرنے سے انکار کیا،انھیں بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔مگر میں اس بھیانک قتل عام کا ذمے دار حقیقی عیسائیت کو نہیں گردانتا۔اس کے مرتکب وہ حکمران اور پادری تھے جو اپنے نظریات عوام پہ تھوپ کر ذاتی مفادات کا تحفظ اور طاقت چاہتے تھے۔ اسی طرح صلیبی جنگوں کا آغاز ان عیسائی بادشاہوں اور بطریقوں نے کیا جن کی آمرانہ حکومت اور پُرآسائش طرز ِزندگی عوام دوست اسلامی تعلیمات پھیلنے سے خطرے میں پڑگئے ۔ان بادشاہوں نے یہ افواہیں پھیلا دیں کہ مسلم حکمران اپنی مملکتوں میں عیسائیوں پہ ظلم وستم کر رہے ہیں۔مدعا یہ تھا کہ عوام جوش و جذبے میں آ کر مسلمانوں پہ دھاوا بول دیں۔سو یہ عیاش،ظالم او ر آمر یورپی بادشاہ ہیں جنھوں نے طویل و فضول جنگیں چھیڑ ڈالیں۔عیسائیت کی حقیقی تعلیمات نے عوام کو ہرگز اسلام اور مسلمانوں پہ حملہ کرنے کا حکم نہیں دیا۔ مزید برأں اگر ہم فرض کر لیں کہ بعض مسلم حکمران حب ِمال و زمین میں گرفتار ہو کے جارح بن گئے اور انھوں نے ذاتی خواہشات کی تکمیل کے لیے جنگیں لڑیں۔ایسی صورت میں وہ اپنے ناقابل معافی جرائم کے خود ذمے دار ہوں گے۔اسلام کو ان کے کرتوتوں کا ذمے دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔اسلام کی حقیقی تعلیمات مسلمانوں کو یہ حکم نہیں دیتیں کہ وہ تبلیغ یا زر،زن ،زمین کی خاطر جنگیں لڑیں۔
برنارڈ شا:اس میں کوئی شک نہیں کہ رومن چرچ کے انتہاپسندوں نے اپنے نظریات عوام پہ ٹھونسنے کے لیے مخالفین پہ بہت ظلم ڈھائے۔عیسائیت کی اصل تعلیم کا اس قتل وغارت سے کوئی تعلق نہیں۔اور یہ بھی سچ ہے کہ مغرب میں اسلام کے حوالے سے کئی مغالطے پائے جاتے ہیں۔مگر سوال یہ ہے کہ کیا دیگر مسلمان بھی اس بات سے اتفاق رکھتے ہیں کہ اسلام کو زبردستی نہیں پھیلایا جا سکتا؟
مولانا عبدالعلیم صدیقی :جی بالکل!قرآن پاک میں ہر مسلمان کو حکم دیا گیا کہ وہ دین کے معاملے میں کوئی زبردستی نہ کرے،یہ میرا ذاتی نظریہ نہیں! مفسرینِ قرآن نے اس حکم کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔
برنارڈشا:گویا اس لحاظ سے اسلام اور عیسائیت میں مماثلت ہے۔اور ان میں مزید مماثلتیں بھی پائی جاتی ہیں۔
مولانا عبدالعلیم صدیقی:آپ نے صحیح کہا۔ مماثلت کی وجہ یہ ہے کہ دونوں آسمانی مذہب ہیں۔ان کا اصل منبع خدائے برتر و بزرگ کی ذات ہے۔اسلام تمام الوہی مذاہب میں سب سے نیا ہے۔مگر اللہ تعالٰی نے قرآن میں فرمایا ہے کہ اسلامی تعلیمات وہی ہیں جو حصرت ابراہیمؑ سے لے کر حضرت عیسیٰ ؑ تک سبھی رسولوں کو بتائی اور سکھلائی گئیں۔ لیکن جب ان رسولوں کی تعلیمات کو ذاتی مفاد کے اسیر پیروکاروں نے مسخ کر دیا،تب خدا نے آخری نبی ﷺ کو مبعوث فرمایا تاکہ وہ آسمانی تعلیم حقیقی شکل میں انسانیت تک پہنچا دیں۔یہی سچائی قران پاک میں یوں بیان ہوئی ہے: ’’اللہ نے تمھارے لیے دین کا وہی راستہ مقرر کیا جسے اختیار کرنے کا حکم (ہم نے)نوحؑ کو دیا تھا۔اور جس کی اے نبیﷺ،ہم نے تمھاری طرف وحی بھیجی۔اور جس کا ابراہیمؑ،موسیٰ ؑاور عیسیٰ ؑ کو حکم دیا تھا۔(الشوری۔13)
برنارڈ شا:آپ کا بہت شکریہ کہ آپ نے بہت مفید نکات بیان کیے۔اب میں عرب کے پیغمبرﷺ کو بہت عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتا ہوں۔آپ سے ملاقات میرے سفر کی حسین ترین یاد بن چکی۔ اس کے بعد برنارڈشا مہمان کو الوداع کہنے برآمدے تک آئے اور بڑے پُرتپاک انداز میں مولانا عبدالعلیم صدیقی کو رخصت کیا۔ ٭…٭…٭
http://dunya.com.pk/index.php/special-feature/2014-07-25/9963#.U-Oam-OSzbh
 

زیک

مسافر
مولانا عبدالعلیم صدیقی:یہ مغرب میں پھیلا بہت بڑا مغالطہ ہے۔لیکن مجھے حیرت ہے،آپ جیسا دانا و بینا دانشور بھی اس دیومالا پہ یقین رکھتا ہے کہ اسلام تلوار کے ذریعے پھیلا۔جس مذہب کے نام کے لغوی معنی ہی ’’امن‘‘ ہوں،وہ جنگوں کا حمایتی کیسے ہو سکتا ہے؟ قرآن پاک اور ہمارے رسولﷺ کی احادیث میں واضح طور پہ آیا ہے کہ مسلمان صرف دفاعی جنگ لڑ سکتا ہے۔جب اس پہ ظلم کیا جائے، تب وہ اپنے دفاع کی خاطرتلوار اٹھا سکتا ہے
یہ خیال کہ اسلام بالکل بھی تلوار کے ذریعہ نہیں پھیلا اور اسلام میں صرف دفاعی جنگ کا تصور ہے علماء اور عوام میں کافی مقبول ہے مگر یہ غلط ہے۔ مسلمانوں نے تلوار کے ذریعہ ہی ایران، فلسطین و شام، مصر اور ہند وغیرہ پر حکومت قائم کی۔ ان علاقوں میں لوگوں نے بڑی تعداد میں مذہب اسلام مسلمان حکومت آنے کے کچھ عرصہ بعد ہی قبول کیا۔ یہ کہنا بھی غلط ہے کہ یہ سب جنگیں دفاعی تھیں۔
 
پہلی جنگ عظیم لگ بھگ سو سال پہلے اور دوسری جنگ عظیم صرف 69 سال پہلے برپا ہوئی تھی۔ اس میں سفید فام ، کرسچین ، ایک جیسے لگنے والے لوگ ہی آپس میں لڑ رہے تھے۔ جنگیں کسی ایک طبقے تک محدود نہیں رہی ہیں ۔ جب تک دنیا ایک ہی قسم کا طبقہ نہیں بن جاتی جنگیں ہوتی رہیں گی ۔۔۔ یہ انسان کی درندگی ہے نا کہ کسی مذہب کی وجہ سے ۔
 

صائمہ شاہ

محفلین
یہ خیال کہ اسلام بالکل بھی تلوار کے ذریعہ نہیں پھیلا اور اسلام میں صرف دفاعی جنگ کا تصور ہے علماء اور عوام میں کافی مقبول ہے مگر یہ غلط ہے۔ مسلمانوں نے تلوار کے ذریعہ ہی ایران، فلسطین و شام، مصر اور ہند وغیرہ پر حکومت قائم کی۔ ان علاقوں میں لوگوں نے بڑی تعداد میں مذہب اسلام مسلمان حکومت آنے کے کچھ عرصہ بعد ہی قبول کیا۔ یہ کہنا بھی غلط ہے کہ یہ سب جنگیں دفاعی تھیں۔
یہ تو بڑی دور کی باتیں ہیں آپ قیامِ پاکستان سے اب تک کی تاریخ ہی دیکھ لیں ہم نے اپنی مرضی کی تاریخ لکھی ہے سچ کو سچ نہیں کہا جھوٹ کو جھوٹ نہیں لکھا
 
یہ خیال کہ اسلام بالکل بھی تلوار کے ذریعہ نہیں پھیلا اور اسلام میں صرف دفاعی جنگ کا تصور ہے علماء اور عوام میں کافی مقبول ہے مگر یہ غلط ہے۔ مسلمانوں نے تلوار کے ذریعہ ہی ایران، فلسطین و شام، مصر اور ہند وغیرہ پر حکومت قائم کی۔ ان علاقوں میں لوگوں نے بڑی تعداد میں مذہب اسلام مسلمان حکومت آنے کے کچھ عرصہ بعد ہی قبول کیا۔ یہ کہنا بھی غلط ہے کہ یہ سب جنگیں دفاعی تھیں۔

دراصل اس نتیجہ تک پہنچنا ایک مغالطہ ہے اور مطالعہ تاریخ کی گہرائی میں کمی و یک رخ ہونا ہے۔ جنگ کی ضرورت وہاں پڑتی ہے جہاں پیغام اسلام پہنچنے میں کوئی رکاوٹ تھی اور عوام کو اپنے انتخاب میں آزادی نہ تھی۔ عوام سرزمین اسلام میں جہاں طریق اسلام رائج رہا ہو اپنے مذہب پر قائم رہنے یا اسلام قبول کرنے میں یکساں آزاد رہے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ مصر میں کوپٹک عیسائی، شام و فلسطین میں عیسائی اور یہودی ازاد اور حکومت تک میں مدخل رہے ہیں۔ مسلمانوں کے سب سے بڑے ملک انڈونیشیا و ملیشیا میں کوئی جنگ نہیں رہی۔ ہندوستان میں اکثریت ہندو ہی رہی۔ ایران میں بھی یہ معاملہ رہا۔ یہ ضرور ہے کہ کچھ جنگیں دفاعی قطعی نہیں تھیں۔ مگر یہ کہنا کہ اسلام تلوار کے زور پر پھیلا ایک جانبدارانہ سادہ نظریہ ہے جو تعصب پر مبنی ہے
 

وجی

لائبریرین
یہ خیال کہ اسلام بالکل بھی تلوار کے ذریعہ نہیں پھیلا اور اسلام میں صرف دفاعی جنگ کا تصور ہے علماء اور عوام میں کافی مقبول ہے مگر یہ غلط ہے۔ مسلمانوں نے تلوار کے ذریعہ ہی ایران، فلسطین و شام، مصر اور ہند وغیرہ پر حکومت قائم کی۔ ان علاقوں میں لوگوں نے بڑی تعداد میں مذہب اسلام مسلمان حکومت آنے کے کچھ عرصہ بعد ہی قبول کیا۔ یہ کہنا بھی غلط ہے کہ یہ سب جنگیں دفاعی تھیں۔
اور جو مغرب کے دلوں دماغ میں سمایا ہوا ہے کہ یہ تلوار سے پھیلا ہے وہ بھی غلط ہے
میرا خیال ہے کہ شام جو تلوار کے زور پر حاصل نہیں کیا گیا وہ جنگ پر آرہے تھے تو مسلمانوں نے انکو شکست دی ۔
 

زیک

مسافر
دراصل اس نتیجہ تک پہنچنا ایک مغالطہ ہے اور مطالعہ تاریخ کی گہرائی میں کمی و یک رخ ہونا ہے۔ جنگ کی ضرورت وہاں پڑتی ہے جہاں پیغام اسلام پہنچنے میں کوئی رکاوٹ تھی اور عوام کو اپنے انتخاب میں آزادی نہ تھی۔ عوام سرزمین اسلام میں جہاں طریق اسلام رائج رہا ہو اپنے مذہب پر قائم رہنے یا اسلام قبول کرنے میں یکساں آزاد رہے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ مصر میں کوپٹک عیسائی، شام و فلسطین میں عیسائی اور یہودی ازاد اور حکومت تک میں مدخل رہے ہیں۔ مسلمانوں کے سب سے بڑے ملک انڈونیشیا و ملیشیا میں کوئی جنگ نہیں رہی۔ ہندوستان میں اکثریت ہندو ہی رہی۔ ایران میں بھی یہ معاملہ رہا۔ یہ ضرور ہے کہ کچھ جنگیں دفاعی قطعی نہیں تھیں۔ مگر یہ کہنا کہ اسلام تلوار کے زور پر پھیلا ایک جانبدارانہ سادہ نظریہ ہے جو تعصب پر مبنی ہے
اسلام تلوار کے زور پر پھیلا کا کچھ لوگ یہ مطلب لیتے ہیں کہ لوگوں سے زبردستی مذہب تبدیل کروایا گیا۔ میں یہ نہیں کہہ رہا۔ صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ اکثر جنگیں دفاعی نہیں تھیں اور اسلامی فتوحات جو تلوار کے زور پر ہی ہوئیں ان کا اسلام پھیلنے میں بڑا رول تھا۔
 
اسلام تلوار کے زور پر پھیلا کا کچھ لوگ یہ مطلب لیتے ہیں کہ لوگوں سے زبردستی مذہب تبدیل کروایا گیا۔ میں یہ نہیں کہہ رہا۔ صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ اکثر جنگیں دفاعی نہیں تھیں اور اسلامی فتوحات جو تلوار کے زور پر ہی ہوئیں ان کا اسلام پھیلنے میں بڑا رول تھا۔

بازنطینیوں سے کوئی جنگ عرب مسلمان علاقے میں نہیں ہوئی لہذا یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ وہ حملہ آور تھے
آپ تو امریکن ہیں آپ سے زیادہ پری ایمٹو سٹرائک Pre-emptive strikeکے فلسفے کے بارے میں اور کون جانتا ہوگا۔۔۔۔
 
ولادت:عالمی مبلغ اسلام حضرت مولانا عبدالعلیم صاحب صدیقی قادری میرٹھی علیہ الرحمہ بتاریخ١٥رمضان المبارک١٣١٨ھ محلہ مشائخان شہر میرٹھ (یو پی)میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے والدِبزرگوار مولانا شاہ عبدالحکیم صاحب صدیقی اپنے وقت کے اکا بر علماو صوفیا میں شمار کیے جاتے تھے۔ حسب ونسب کا سلسلہ خلیفۂ اول حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملتا ہے۔ آبا واجداد میں پہلے حضرت مولانا حمید الدین صاحب ہندوستان آئے اور شہنشاہ بابر کی فوج میں ایک اعلیٰ عہدے پرفائز ہوئے ۔

علوم عربیہ اورعلوم جدیدہ کی تحصیل:ابتدائی تعلیم آپ نے میرٹھ کے مدرسے میں اپنے والد بزرگوار سے حاصل کی۔ بچپن ہی سے ذہین تھے۔ تھوڑے ہی عرصے میں قرآن مجید مکمل کرلیا ۔ختم قرآن پاک اور ابتدائی کتب پڑھنے کے بعد ہی آپ کو مدرسہ عربیہ میرٹھ میں داخل کیا گیا۔ آپ کی قوتِ حافظہ کا یہ عالم تھا کہ اساتذہ جس قدر درس دیتے تھے اس کا ایک ایک لفظ ذہین نشین ہو جاتا تھا اور جب آپ کے ہم سبق درس کی تکرار کرتے تو آپ استاد کی پوری تقریر سنا دیتے تھے۔ آپ کے اساتذہ کہا کرتے تھے۔ ہمارا یہ شاگرد مستقبل قریب میں اپنے وقت کا ایسا فاضل ہوگا جو علما اور آبا واجداد کا نام روشن کرے گا۔١٩٥٠ء میں جب حضرت مبلغ اسلام بارہ سال تھے تو سایۂ پدری سر سے اٹھ گیا۔ ابتدائی تعلیم ختم ہو چکی تھی، بعد میں مولانا عبدالمومن ،مولانا قاضی احتشام الدین، مولانا محمد شاہ اور مولانا امجد علی سہار نپوری کے شاگرد ہوئے اور اکتساب علم کرتے رہے۔ سترہ سال کی عمر میں علوم مذہبی کی ڈگری حاصل کی۔ مدرسہ عربیہ کے علاوہ آپ نے مدرسہ عربیہ قومیہ میرٹھ میں بھی تعلیم پائی۔ فارسی اور اردو پر دسترس حاصل کی۔میرٹھ کالج (جواب میرٹھ یونیورسٹی میں تبدیل ہوچکاہے )سے بی ،اے کیا اورالہ آبادیونیورسٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی۔

طالب علمی کے زمانے ہی سے آپ کو تبلیغ واشاعتِ دین ،مناظرہ ومکالمہ ،مذاہبِ عالم کے مطالعے کا شوق تھا۔ سال کی عمر میں دیانت وذکاوت کا یہ عالم تھا کہ عالمانہ مباحثے کرتے تھے۔ جمعہ کے دن اکثر اپنی لکھی ہوئی تقریر ذہین نشین کر کے جامع مسجد میرٹھ میں سناتے تھے۔ اپنے والد بزرگوار سے اکثر کہا کرتے تھے کہ خدا نے اگر مجھے موقع دیا تو میں ہندوستان سے نکل کر دنیا کے ہر حصے میں اشاعتِ دین کروں گا۔

خطابت کانرالاانداز:اس کے بعدسرکار اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خاں صاحب بریلوی رحمة اللہ علیہ کی صحبت میں رہ کر پنجاب یونیورسٹی سے علوم مشرقی کی ڈگری حاصل کی۔ کتب بینی کے شوق نے عربی وفارسی اور اردو کی طرح انگریزی زبان کا ماہر بنادیا۔ میرٹھ کالج کی طالب علمی کے زمانے میں ہی آپ کو برما مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کی صدارت کے لیے تجویز کیا گیا۔ اس کانفرنس میں آپ نے جو معرکة الا آرا خطبہ صدارت ارشاد فرمایا وہ برما، ملایا، سیلون، اور انڈونیشیا کے گوشے گوشے میں پہنچا۔ اس سے آپ کی شخصیت ان اطراف میں مشہور ہوگئی۔ برما کے مقتدر مسلم لیڈروں سے تبلیغ واشاعت دین پر جو گفتگوہوئی وہ در اصل مستقبل کے تبلیغی مشن کے لیے بنیادو اساس بن گئیں۔قدرت نے حضرت علامہ کو زور تقریر وحلاوت گفتار خاص طور پر ودیعت کیا تھا۔آپ کوہر سال ماہ محرم الحرام میں وعظ فرمانے کے لیے ممبئی بلایا جاتاجہاں لاکھوں مشتاق دیدار گرویدہ،مہینوں پہلے سے آپ کی آمد کے مشتاق رہتے تھے۔شدھی تحریک سے حفاظت کے پیش نظر آپ نے ممبئی،کرناٹک،احمدآباد اور گجرات میں تبلیغی مراکز قائم کیے۔ آپ نے بہت سی سیاسی وقومی تحریکات میںنمایا ںحصہ لیا۔

ربِ قدیر نے آپ کو اندازِ زورِ بیان ، حلاوتِ گفتار اور شیریں مقالی خاص طور پر ودیعت کی تھی جس کی وجہ سے مختلف ممالک سے آپ کے نا م دعوتی پیغام آتے تھے ۔١٩٢٣ء میں سیلون کے مسلمانوں نے آپ کو مدعو کیا۔ آپ ان کی خوا ہش کا احترام کرتے ہوئے سیلون تشریف لے گئے اور قرآن و حدیث کی روشنی میں اسلام کی حقانیت کو روزِ روشن کی طرح واضح کیا۔ آپ کی مساعیِ جمیلہ سے ایک عیسائی وزیر ”مسٹر ایف کنکس بیری” آغوشِ اسلام میں آگیا۔ اس کے علاوہ بے شمار حق کے متلاشیوں نے اسلام کے دامن میں پناہ لی اور حلقہ بگوشِ اسلام ہوگئے۔آپ کے قوتِ استدالال نے اہلِ علم و دانش کے ایک بڑے طبقے کو متاثر کیا۔ آپ کے داعیانہ طرز سے متاثر ہوکر پھر سیلون سے پیہم پیغامات ملنے لگے۔ آپ دوبارہ تشریف لے گئے اور انگریزی داں طبقے کو اسلامی تعلمات کے سانچے میں ڈھالنے کے لیے ایک لائحہ عمل تیار کیا جس کے تحت ١٩٢٨ء میں” کوکبِ اسلام ” کے نام سے انگریزی اخبار کا اجرا عمل میں آیا جس کی عنانِ ادارت مسٹرموس جے کے سپرد کی ۔جس نے متعدد ممالک میں لوگوں کو اسلام سے روشناس کرایا۔ علاوہ ازیں گرین پمفلٹ کی تحریک بھی شروع کی۔ ١٩٥١ء میں آپ روے زمین کے کنارے تک دین کو پھیلانے کا عزم مصمم کرکے لوٹے اور پوری دنیا کا تبلیغی دورہ کیااور وہاں اسلام کی جوت جگائی۔ فکر اسلامی کا یہ آفاقی سفیر جو حسنِ عمل کا ایک ہمہ گیر ادارہ اور آٹھ اجنبی زبانوں پر قدرت رکھتا تھا۔

صحافتی خدمات:علامہ نے 1928ء میں سیلون سے انگریزی اخبارStar οf Islam(کوکب اسلامی)کی بنیاد رکھی اور سنگاپور میں ایک انگریزی رسالہThе Genuin Islam جاری کیا۔آپ کی سرپرستی میں امریکہ سے ایک بلند پایہ اسلامی میگزین بنامThе Islamic World & Thе U.S.A. (اسلامی دنیا اور امریکہ )جاری ہواجوآج بھی اسی آب وتاب کے ساتھ شائع ہورہاہے۔ڈربن جنوبی افریقہ میں دی مسلم ڈائجسٹ جاری کیا غرضیکہ مختلف ممالک میں مختلف اخبار وجرائد جاری کیے۔آپ کودنیا کی کئی زبانوں پرمکمل دسترس حاصل تھیںاور مذاہب عالم اور علوم جدیدہ پر آپ کی نظر وسیع تھی جو ایک جامع مبلغ اسلام میں ہونی چاہئے۔اسی لیے آپ نے دنیا کے ہر حصے میں پہنچ کرتبلیغ واشاعت کا ٹھو س کام کیا۔

سیاسی خدمات:تبلیغِ اسلام کی قابلِ قدر خدمات کے علاوہ آپ کی سیاسی خدمات بھی ناقابل فراموش ہیں۔ دنیا کے کسی گوشے میں مسلمانوں پر ظلم ڈھایا جاتا تو آپ بے چین ہو جاتے ۔شدھی تحریک کے علاوہ تحریکِ خلافت اور تحریکِ پاکستان میں مردانہ وار حصہ لیا۔ صرف پاک و ہند ہی میں نہیں بلکہ دیگرممالک میں بھی تحریکِ پاکستان کے لیے فضا ہموار کی۔ مصر اور انگلینڈمیں کانگر یسی ایجنٹو ںسے مناظرے کیے۔مسلم لیگ کی طرف سے باقاعدہ طور پر علما کی ایک جماعت کے قائد کی حیثیت سے حج کے موقع پر مکۂ مکرمہ جاکر دنیاکے گوشے گوشے سے آئے ہوئے مسلمانوں کے سامنے پاکستان کی اہمیت کوواضح کیا۔مفتیِ اعظم فلسطین سید امین الحسینی،حسن البناء قائد اخوان المسلمین،سیدعبداللہ شاہ (اردن) اوردیگرعرب لیڈروںکو تحریکِ پا کستان سے پوری طرح روشنا س کرایا۔

١٩٤٦ء میں آل انڈیا سنی کانفرنس بنارس میں شرکت فرمائی اور علی الاعلان تحریکِ پاکستان کی حمایت فرمائی۔قائدِ اعظم کی وفات سے کچھ عرصہ پہلے عالمی دورے سے واپسی پر کراچی میں عظیم کانفرنس منعقد کی جس میں سندھ، پنجاب اور مشرقی پاکستان کے اکابر علما و مشائخ نے شرکت کی۔ اس کانفرنس میں پاکستان کے لیے آئینِ اسلامی کے جامع دستور کا مسودہ تیار کر لیا گیا، علما نے تائیدی نوٹ لکھے اور حضرت مولانا صدیقی رحمہ اللہ تعالیٰ کی سرکردگی میں قائدِ اعظم کی خدمت میں مسودہ ٔ آئین پیش کیا گیا۔ قائدِ اعظم نے تین گھنٹے تک مسودۂ آئین کے مختلف پہلوؤں پر گفتگو کی۔حضرت مولاناصدیقی نے انہیں اس خوش اسلوبی سے مطمئن کیاکہ قائدِ اعظم نے یقین دلایا کہ انشاء اللہ تعالیٰ قومی اسمبلی کے منظور کرنے پر بہت جلد یہ آئین نافذ کر دیا جائے گا۔ اس کے بعد جلد ہی ان کی وفات ہو گئی اور قائدِ اعظم علماے کرام سے کیا ہوا یہ وعدہ ایفا نہ کر سکے۔ یاد رہے کہ پاکستان بننے کے بعد قائدِ اعظم نے پہلی نمازِ عیدحضورمبلغ اسلام ہی کی اقتدا میں ادا کی تھی۔

عالمی تبلیغی دورے:آپ نے جنوبی مشرقی ایشیائی ممالک:سیلون،برما(میانمار)،شیام،انڈونیشیا،فرانسیسی ہند چین، ملایا، چین، جاپان، سنگاپور، کولا لمپور،یورپی ممالک میں امریکہ ، جرمنی، فرانس، انگلینڈ، روم، کناڈا، افریقہ ، برٹش ویسٹ انڈیز،بلاد اسلامیہ میں مصر، سیریا ، عراق ،لبنان،ترکی اور بھی بہت سے ممالک کا تبلیغی دورہ اس وقت فرمایا جب اس قدر اسباب ووسائل موجود نہیں تھے۔ان عالمی دوروں میں جہاں آپ نے بے شمار کانفرنسوں،سوسائٹیوں اور انجمنوں میں شرکت کی،دنیا کے ہر حصے میں تبلیغی ادارے،کالج ،لائبریریاں،مدارس اور مساجد قایم کیں وہیں سائنس اور فلسفے کے ماہرین اور یونیورسیٹیوں کے فضلاء سے معر کة الآرا مباحثے بھی ہوئے۔آپ نے ہزارہا انگریزوں کو کلمہ شہادت پڑھایا، اَن گنت لوگوں کے ایمان کی حفاظت کیں اورقادیانیوں اور عیسائی جماعتوںنے جن ہزارہا مسلمانوں کو عیسائی بنالیا تھا انھیں پھر دعوت اسلام دی،ان میں سے اٹھارہ ہزارنے اسلام قبول کرلیا۔آپ کی تبلیغ اسلام اس قدر مؤثر تھی کہ بڑے بڑے پا در ی،سائنس داں،دانشور، حاکم ،جج آپ کے دست اقدس پر مشرف بہ اسلام ہوئے جن میں چند شخصیات کے نام درج ذیل ہیں۔( ١) سیلون کے آنریبل جسٹس ایم مروائی( ٢) سیلون کے عیسائی وزیر ایف کنگسری (٣)ری یونین کے فرانسیسی گورنر مرواٹ (٤) امریکی سائنسداں انڈائن ہوف (٥) سنگا پو رکے ایس این ڈٹ(٦)یو رنیو کی شہزادی(٧)ٹرینی ڈاڈکی ایک خاتون وزیر مروفل ڈاناوا فاطمہ وغیرہ وغیرہ ۔

ایک دن نیو رک (امریکہ) کے سٹی ہال میں آپ نے اسلام کی حقانیت کے موضوع پر بڑی فافضلانہ تقریر کی اور جلسہ ختم ہوتے ہی ایک سو بانوے امریکیوں نے اسلام قبول کیاجس میں مشہور سائنس داں جارج اینٹن بیوف اور ان کی بیگم شامل تھیں ۔ واشنگٹن میں مختلف اداروں میں لیکچر دیے اور چھبیس پرو فیسرز کو مع ان کے اہل و عیال مسلمان کیا۔

وفات:سلسلہ علالت ماہ رمضان المبارک سے قبل جاری تھا۔بیماری کے باوجود فرائض اسلام ادا کرتے رہے۔رمضان المبارک کے روزے رکھتے،نماز تراویح میں شریک اور نماز تہجد بلا ناغہ ادا کرتے اور حرم شریف میں حاضر رہتے۔اگست کی رات آپ نے سر حضور پرنورصلی اللہ علیہ وسلم کے روضۂ اقدس کی جانب کیااور دنیاے تبلیغ کے ایک آفتاب عالمتاب نے دنیا سے منہ چھپالیا۔ہر کس وناکس ماتم کناں تھا،جسد مطہر کو آب زمزم سے غسل کرایا گیا،آب زمزم سے شستہ کفن کو عطر بیز کرکے کفن پہنایا گیا،مسجد نبوی میں نماز جنازہ ہوئی اور جنت البقیع میں ہزارہا صحابہ کرام،حضورپرنورصلی اللہ علیہ وسلم کے اعزاواقربا،فرزاندان توحید اور بزرگان دین ومجاہدین اسلام کے بیچ سپردِ لحد کیا گیا۔اس طرح بیک وقت آپ کو دو جنتیں میسر آئیں،ایک جنت البقیع جنت اور دوسرے آپ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے قدموں میں ہے،ماں کا قدم دوسری جنت گویا کہ دین کی خدمت کی مولیٰ نے یہ جزادی کہ ایک صدیقی ،صدیقہ کے قدموں میں مدفون ہے۔

اسلام کی اسی عظیم ترین شخصیت کی یادمیں ہرسال عاشورہ کے دن مصطفی بازارمج گائوں ممبئی میں انہیں کی عظیم یادگاردارالعلوم علیمیہ جمداشاہی بستی یوپی کے زیراہتمام عرس علیمی منعقدہوتاہے جس میں ملک کے معرو ف خطباومشائخ تشریف لاتے ہیں
http://alqamar.info/articles/?p=22792
 

وجی

لائبریرین
بازنطینیوں سے کوئی جنگ عرب مسلمان علاقے میں نہیں ہوئی لہذا یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ وہ حملہ آور تھے
بھائی صاحب مسلمانوں کی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی دو جنگیں ہوگئیں تھیں
پھر ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کی زندگی میں وہ جنگ ہوئی جس میں شام کا علاقہ فتح ہوا ۔
 
کیا اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے؟
سوال: یہ کیسے ممکن ہے کہ اسلام کو امن کا مذہب قراردیا جائے،کیونکہ یہ تو تلوار(جنگ وجدال)کے زور سے پھیلا ہے؟

جواب: بیشتر غیر مسلموں کی ایک عام شکایت یہ ہے کہ اگراسلام طاقت کے استعمال سے پھیلا نہ ہوتا،تو اس وقت دنیا میں اس کے ماننے والوں کی تعداد اتنی زیادہ(اربوں میں(ہرگزنہ ہوتی۔درج ذیل نکات یہ واضح کریں گے کہ اسلام کے تیزرفتار عالمگیر پھیلائو میں تلوار طاقت کے بجائے سچائی ،عقل اوردلیل کی بے مثل طاقت کار فرمارہی ہے۔

اسلام کا مطلب ”امن ” ہے:

لفظ ”اسلام” کا ماخذ ”سلام” ہے۔ جس کا مطلب امن ہے۔اس کا ایک اورمفہوم یہ بھی ہے کہ اپنی مرضی اورارادے کو اﷲتعالیٰ کے حکم کا تابع کردیاجائے۔یعنی اسلام امن کا مذہب ہے،اوریہ امن وسکون اسی وقت حاصل ہوسکتا ہے جب انسان اپنی مرضی کو اﷲتعالیٰ کے حکم کے تابع بنادے۔

کبھی کبھارامن برقراررکھنے کے لیے طاقت استعمال کرنا پڑتی ہے:

اس دنیا کا ہر فردامن اورہم آہنگی قائم رکھنے کے حق میں نہیں۔ایسے بہت سے لوگ ہیں جو اپنے ظاہری یا پوشیدہ مفادات کے لیے امن وامان میں خلل ڈالتے رہتے ہیں۔لہٰذا،بعض مواقع پر امن قائم رکھنے کے لیے طاقت کا استعمال کرنا پڑتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہر ملک میں پولیس کا محکمہ ہوتا ہے جو مجرموں اورمعاشرے کے شرپسند عناصر کے خلاف طاقت استعمال کرتاہے،تاکہ ملک میں امن وامان برقراررکھا جاسکے۔اسلام امن کی ترغیب دیتا ہے۔اسی کے ساتھ ساتھ اسلام ہمیں یہ ترغیب بھی دیتا ہے کہ ناانصافی کے خلاف لڑیں۔لہٰذا،بعض مواقع پرناانصافی اورشرپسندی کے خلاف لڑائی میں طاقت کا استعمال بھی کرناپڑتا ہے۔یادرہے کہ اسلام میں طاقت کا استعمال صرف اورصرف امن اورانصاف کو فروغ دینے کے لیے ہی کیاجاسکتا ہے۔

مؤرخ ڈی لیسی اورلیری کی رائے:

اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے،اس عام غلط فہمی کا بہترین جواب ایک نامور مؤرخ، ڈی لیسی اورلیری نے اپنی مشہور کتاب”اسلام ایٹ دی کراس روڈ” میں صفحہ٨پر کچھ اس طرح سے دیا ہے:

”تاہم تاریخ سے ظاہر ہوتا ہے کہ جنگجو مسلمانوں کے دنیا بھر میں پھیلنے اورمفتوح اقوام کو تلوار کے زورپردائرئہ اسلام میں داخل کرنے کی من گھڑت داستان ان

زبردست خیالی اوردیومالائی کہانیوں میں سے ایک ہے جنہیں مؤرخین ہمیشہ سے دہراتے آرہے ہیں۔”

مسلمانوں نے اسپین پر٨٠٠ سال حکومت کی:

مسلمانوں نے اسپین پر تقریباً٨٠٠ سال حکومت کی۔اسپین میں مسلمانوں نے لوگوں کو اپنا مذہب تبدیل کرنے (مسلمان بنانے) کے لیے کبھی تلوار کا استعمال نہیں کیا۔بعدازاں صلیبی عیسائیوں نے اسپین پر قبضہ کرلیا اورمسلمانوں کو وہاں سے نکال باہرکیا۔حدتویہ ہے کہ پورے اسپین میں کسی ایک مسلمان کو بھی یہ اجازت نہ تھی کہ وہ آزادی سے اذان ہی دے سکتا۔

ایک کروڑ چالیس لاکھ عرب،آج بھی کپتی عیسائی ہیں:

مسلمان پچھلے چودہ سوسال سے عرب کے حکمران رہے ہیں۔درمیان کے صرف چندسال ایسے ہیں جب وہاں برطانوی اور فرانسیسی حکمرانی رہی۔تاہم مجموعی طورپرمسلمان سرزمین عرب پر چودہ سوسال سے حکمران ہیں۔اس کے باوجود،آج بھی وہاں ایک کروڑ چالیس لاکھ عرب ایسے ہیں جو کپتی عیسائی(کوپٹک کرسچنز)ہیں،یعنی وہ عیسائی جو وہاں نسل درنسل آباد چلے آرہے ہیں۔اگرمسلمانوں نے تلواراستعمال کی ہوتی تو اس خطے میں کوئی ایک عرب بھی ایسا نہ ہوتاجوعیسائی رہ پاتا۔

ہندوستان میں ٨٠ فیصد سے زیادہ غیر مسلم ہیں:

ہندوستان پر بھی مسلمانوں نے لگ بھگ ایک ہزارسال تک حکومت کی۔اگروہ چاہتے تو ان کے پاس اتنی طاقت تھی کہ وہ ہندوستان میں بسنے والے ایک ایک غیرمسلم کو(تلوار کے زور پر)اسلام قبول کرنے پر مجبورکرسکتے تھے۔آج ہندوستان کی آبادی کا ٨٠ فیصد سے زاید حصہ غیرمسلموں پر مشتمل ہے۔ہندوستان میں غیرمسلموں کی اتنی بڑی اکثریت خود اپنی زبان سے یہ گواہی دے رہی ہے کہ برصغیر میں بھی اسلام طاقت کے زورسے ہرگز نہیں پھیلا۔

انڈونیشیا اور ملائشیا:

آبادی کے لحاظ سے انڈونیشا،دنیا کا سب سے بڑا اسلامی ملک ہے۔ملائشیا میں بھی مسلمانوں کی اکثریت ہے۔کیا یہ پوچھاجاسکتا ہے کہ وہ”کون سے فوج تھی جو(مسلح ہوکر(انڈونیشیا اورملائشیا پر حملہ آور ہوئی تھی؟”(یعنی وہاں پر اسلام کے پھیلائو میں مسلمانوں کی کون سی جنگی طاقت کو دخل ہے؟

افریقہ کا مشرقی ساحل:

اسی طرح براعظم افریقہ کے مشرقی ساحل کے ساتھ ساتھ بھی اسلام بہت تیزی سے پھیلا ہے۔ایک بارپھر،یہی سوال سامنے آتا ہے کہ اگراسلام تلوار کے زورسے پھیلا ہے توکون سےمسلمان ملک کی فوج ان علاقوں کو فتح کرنے اورلوگوں کو مسلمان کرنے وہاں گئی تھی؟

تھامس کا رلائل:

مشہورمؤرخ،تھامس کارلائل اپنی تصنیف”ہیروزانیڈہیرو ورشپ”میں اسلام پھیلنے کے بارے میں اس غلط فہمی کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتا ہے:

”تلوارتوہے،لیکن آپ اپنی تلوارلے کرکہاں جائیں گے؟ہرنئی رائے ابتدامیں اقلیت ہی کے درمیان ہوتی ہے۔ (ابتدامیں) صرف کسی ایک فرد کے ذہن میں ہوتی ہے۔یہ سوچ وہیں سے پروان چڑھتی ہے۔اس ساری دنیا کا صرف ایک آدمی جو اس (بات) پر یقین رکھتا ہے،صرف ایک آدمی جو باقی سارے آدمیوں کے مدِّمقابل ہوتاہے۔پھر(اگر)وہ تلواراُٹھالے اور (اپنی بات کو) پھیلانے کی کوشش کرنے لگے،تواس سے معمولی سی کامیابی ہی حاصل کرپائے گا۔آپ کے پاس آپ کی اپنی تلوارلازماً ہونی چاہیے!(تاہم) مجموعی طورپرکوئی چیزاتنی ہی پھیلے گی کہ جتنی وہ خود،اپنے طورپر،پھیل سکتی ہے۔”

دین میں کوئی زورزبردستی نہیں ہے:

اسلام کون سی تلوارسے پھیلا؟اگرمسلمانوں کے پاس یہ (تلوار)ہوتی اورانہوں نے اسلام پھیلانے کے لیے اس کا استعمال کیا بھی ہوتا،تب بھی وہ اسلام پھیلانے میں ان کے کسی کام نہ آتی،کیونکہ قرآن پاک میں ارشادِباری تعالیٰ ہے:

لَآ اِکْرَا ہَ فِیْ الدِِّیْنِ ط قَدْتَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ [سورةالبقرہ،٢،آیت:٢٥٦]

”دین کے معاملے میں کوئی زورزبردستی نہیں ہے۔صحیح بات غلط خیالات سے چھانٹ کررکھ دی گئی ہے۔”

علم،عقل اوردلیل کی تلوار:

جس تلوار نے اسلام کو دنیا بھرمیں پھیلایا،وہ علم کی،عقل کی اوردلیل کی تلوار ہے۔یہی وہ تلوار ہے جوانسان کے ذہن اورقلب کوفتح کرتی ہے۔سورتہ النحل کی ١٢٥ ویں آیتِ مبارکہ ارشاد ہوتا ہے:

اُدْعُ اِلٰٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَةِ وَ الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَ جَادِلْہُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ ط اِنَّ رَبَّکَ ھُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِیْلِہ وَھُوَاَ عْلَمُ بِالْمُھْتَدِیْنَ ہ[سورتہ النحل،١٦،آیت:١٢٥]

”اے نبی ۖ! اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو،حکمت اورعمدہ نصیحت کےساتھ اورلوگوں سے مباحثہ کروایسے طریقہ پر جو بہترین ہو۔تمہارارب ہی زیادہ بہتر جانتا ہے کہ کون اس کی راہ سے بھٹکا ہوا ہے اورکون راہِ راست پر ہے۔”

١٩٣٤ء سے١٩٨٤ء کے درمیان دنیا کے سب سے زیادہ پھیلنے والے مذہب:

ریڈرزڈائجسٹ المانک،برائے ١٩٨٤ء میں شائع شدہ ایک مضمون میں دنیا کے بڑے مذہب میں پھیلائو کے اعداد وشمار دیے گئے ہیں جو ١٩٣٤ء سے ١٩٨٤ء تک نصف صدی کا احاطہ کرتے ہیں۔بعدازاں یہی مضمون”دی پلین ٹرتھ”نامی جریدے میں بھی شائع ہوا۔اس مضمون میں سرِفہرست اسلام تھا،جو پچاس سال کے عرصے میں ٢٣٥ فیصد بڑھا تھا،جبکہ اسی دوران عیسائیت کا پھیلائو صرف ٢٧ فیصد تک رہاتھا۔کیا یہ پوچھا جاسکتا ہے کہ اس صدی میں ایسی کون سی جنگ ہوئی تھی،جس نے کروڑوں لوگوں کو اسلام قبول کرنے پر مجبورکردیا؟

اسلام، یورپ اور امریکہ میں سب سے تیزی سے پھیلنے والا مذہب ہے:

اس وقت امریکہ میں سب سے زیادہ تیزی کے ساتھ پھیلنے والا مذہب اسلام ہے۔اسی طرح یورپ میں بھی تیز رفتار ترین انداز سے پھیلنے والا مذہب اسلام ہی ہے۔کیا آپ بتاسکتے ہیں کہ وہ کون سی تلوار ہے جو مغرب کے لوگوں کو اتنی تیزی سے اسلام قبول کرنے پر آمادہ کررہی ہے؟

ڈاکٹرجوزف ایڈم پیٹرسن کی رائے:

ڈاکٹرجوزف ایڈم پیٹرسن نے بالکل درست کہا ہے:

”وہ لوگ جو اس بات سے خوفزدہ ہیں کہ نیوکلیائی ہتھیار ایک نہ ایک دن عربوں ہاتھوں میں چلے جائیں گے،وہ یہ محسوس کرنے سے قاصر ہیں کہ اسلام بم تو پہلے ہی گرایا جاچکا ہے۔یہ بم تو اسی دن گرادیا گیا تھا،جس دن محمد (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) پیدا ہوئے تھے۔”
http://www.irfglobal.net/faq/222-2/

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بے شک اسلام اخلاق سے پھیلا ہے لیکن یہ دعویٰ غلط ہے کہ تلوار اخلاق کی ضد ہے۔ یہ شبہ اس وقت پیدا ہوا جب حضرات علمائے کرام سے پوچھا گیا کہ اسلام کی اشاعت کس طرح ہوئی۔ انہوں نے ایک جامع لفظ ’’اخلاق‘‘ کو استعمال فرمایا اور جواب دیا کہ اسلام اخلاق سے پھیلا ہے۔
لیکن علماء کرام کے اس قول سے یہ ثابت کرنا کہ اسلام کی اشاعت میں تلوار کا کوئی دخل نہیں ہے بلکہ تلوار تو اخلاق کی ضد ہے۔ دین کو بگاڑنے اور مسلمانوں کو نہتا کرکے اپنے دشمن کے لیے ترنوالہ بنانے کی ایک سوچی سمجھی سازش ہے
(1 ) اخلاق کی تشریح
پہلا اہم مسئلہ اخلاق کی تشریح کا ہے تو خوب سمجھنا چاہیے کہ اخلاق مسکرانے، ہنسنے، ظلم سہنے کا نام نہیں بلکہ ہر وقت اور ہر حال کے مطابق ایسا کام کرنا جو اس حال اور وقت کے مناسب ہو اور اس کے بگاڑ کا ذریعہ نہ ہو یہ اخلاق ہے۔ پیار کے وقت نرمی اور سختی کی جگہ پر سختی اخلاق کہلاتی ہے۔ کوئی آدمی کسی خطرناک سانپ کو دودھ پلا کر پال رہا ہو، تا کہ یہ سانپ انسانوں کو نقصان پہنچائے تو اس کا سانپ کو دودھ پلانا بظاہر اخلاق ہے، مگر حقیقت میں ظلم ہے۔ اب کوئی مفکر بھی اس آدمی کو اخلاق کا تاج پہنانے کی لیے تیار نہ ہو گا۔
اخلاق کے اس معنی کو ایک عام فہم مثال کے ذریعہ سے سمجھا جا سکتا ہے، ایک آدمی نے کسی کتے کو پیاسا مرتے دیکھا اور اس نے اسے پانی پلا دیا اس کا یہ فعل یقیناً اخلاق ہے۔ لیکن اس نے جیسے ہی اس کتے کو پانی پلایا کتا کسی مسلمان عورت کو کاٹنے کے لیے لپکا۔ اب اس نے لاٹھی کے ذریعے سے کتے کا علاج کیا تو اس کا یہ مارنا بھی اخلاق ہی ہے۔ ایک باپ اپنے بیٹے کو کسی برائی یا مضر چیز سے روکنے کے لیے مارتا ہے، اس کا مارنا یقینا اخلاق کے زمرے میں شامل ہو گا لیکن ایک باپ اپنے بیٹے کو فحش کاری میں مبتلا دیکھ کر بھی کچھ نہیں کہتا اور اس پر اپنے احسانات کو جاری رکھتا ہے تو یہ باپ اخلاق کا خوگر نہیں ظلم کا پجاری ہے

چنانچہ ہم دعوے کی ساتھ یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ اسلام اخلاق سے پھیلا ہے اور اخلاق اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک اس میں تلوار نہ ہو۔
اس کی عقلی حیثیت بھی مخفی نہیں ہے۔ ایک ڈاکٹر مریض کے جسم کے کینسر کاٹنے کا حکم دیتا ہے مگر اسے کوئی بھی نہیں کہتا کہ ڈاکٹر صاحب آپ تو پڑھے لکھے آدمی ہے آپ کس طرح کاٹنے کی باتیں کر رہے ہیں۔ آپ کو تو اخلاق کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ بلکہ کینسر کو تیز دھار نشتر کے ذریعے کاٹنے پر ڈاکٹر صاحب کا شکریہ ادا کیا جاتا ہے اور انہیں فیس بھی دی جاتی ہے۔

ربط
 
Top