ناصر علی مرزا
معطل
جارج برنارڈ شا اور مولانا عبدالعلیم صدیقی کی جب ملاقات ہوئی!
سید عاصم محمود
یہ اپریل 1935ء کی بات ہے،مشہور آئرش ادیب، جارج برنارڈ شا (1856ء۔1950ء)نے جنوبی افریقہ جاتے ہوئے ممباسہ (کینیا)میں قیام کیا۔وہ بذریعہ بحری جہاز سیر و تفریح کرنے جنوبی افریقہ جا رہے تھے۔ممباسہ کا مجسٹریٹ شا کا رشتے دار تھا،سو وہ تین دن اسی کے ہاں ٹھہرے۔ مجسٹریٹ کی زبانی انھیں معلوم ہوا کہ آج کل شہر میں ہندوستان سے ایک نامور مسلمان عالم دین آئے ہوئے ہیں۔وہ بڑے مؤثر انداز میں مذہب اسلام کی خصوصیات بیان کرتے ہیں۔شا عالمی مذاہب کے مطالعے سے دلچسپی رکھتے تھے،سو انھوں نے ہندوستانی عالم سے ملنے کا اشتیاق ظاہر کیا۔مجسٹریٹ نے ملاقات کا اہتمام کر دیا۔سو 17اپریل کی ایک سہانی صبح مولانا عبدالعلیم صدیقی شا سے ملنے چلے آئے۔ برنارڈ شا تب تک بین الاقوامی ادیب بن چکے تھے۔سوشلسٹ تھے اور مذہبی تعلیمات پہ کم ہی عمل کرتے۔واضح رہے کہ برنارڈشا دنیا کے واحد ادیب ہیں جنھوں نے ادب کانوبیل انعام اور آسکر ایوارڈ،دونوں حاصل کیے۔ دوسری طرف کم عمری کے باوجود مولانا عبدالعلیم صدیقی (1892 ء۔ 1954ء)کی شہرت بہ حیثیت مبلغِ اسلام پوری دنیا میں پھیل چکی تھی۔آپ وسیع المطالعہ شخصیت،درس نظامی کے سند یافتہ اور ایل ایل بی تھے۔غیرمعمولی دماغ رکھنے والی دونوں ہستیوں میں جو پُرمغز گفتگو ہوئی،اس کا خلاصہ درج ذیل ہے: ٭٭
برنارڈ شا:مجھے افسوس ہے کہ پچھلی رات آپ کا لیکچر نہیں سن سکا۔تاہم یہ ضرور جانتا ہوں کہ آپ نے فلسفہِ امن پر اظہار خیال کیا۔مگر کیاا ٓپ کو فلسفہ ِجنگ پہ لیکچر نہیں دینا چاہیے تھا؟آخر اسلام تلوار کے زور پر ہی پھیلا ہے۔
مولانا عبدالعلیم صدیقی:یہ مغرب میں پھیلا بہت بڑا مغالطہ ہے۔لیکن مجھے حیرت ہے،آپ جیسا دانا و بینا دانشور بھی اس دیومالا پہ یقین رکھتا ہے کہ اسلام تلوار کے ذریعے پھیلا۔جس مذہب کے نام کے لغوی معنی ہی ’’امن‘‘ ہوں،وہ جنگوں کا حمایتی کیسے ہو سکتا ہے؟ قرآن پاک اور ہمارے رسولﷺ کی احادیث میں واضح طور پہ آیا ہے کہ مسلمان صرف دفاعی جنگ لڑ سکتا ہے۔جب اس پہ ظلم کیا جائے، تب وہ اپنے دفاع کی خاطرتلوار اٹھا سکتا ہے۔مزید برأں قران مجید میں صاف الفاظ میں لکھا ہے کہ مذہب کے معاملے میں کوئی زبردستی نہیں (البقرہ۔256)۔چناں چہ کسی غیر مسلم کو ڈرادھمکا کر مسلمان کرنا گناہ اور حرام ہے۔ہماری مقدس کتاب میں ہی اللہ تعالی نے تبلیغ کا طریق کار کچھ یوں بیان فرمایا ہے: ’’لوگوں کو حکمت اور نیک نصیحت کے ذریعے خدا کے راستے کی طرف بلائو۔اوربہت اچھے طریقے کے ساتھ ان سے مناظرہ کرو۔(النحل۔125) تاریخ افشا کرتی ہے کہ325ء میں نیقہ کونسل نے (نعوذباللہ)حضرت عیسیٰ ؑ کو خدا قرار دے ڈالا۔دراصل یہ اقدام بازنطینی شہنشاہ،قسطنطین اعظم کے شدید دبائو پہ اٹھایا گیا۔بعد ازاں جن عیسائیوں نے یہ نیا ارضی نظریہ تسلیم کرنے سے انکار کیا،انھیں بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔مگر میں اس بھیانک قتل عام کا ذمے دار حقیقی عیسائیت کو نہیں گردانتا۔اس کے مرتکب وہ حکمران اور پادری تھے جو اپنے نظریات عوام پہ تھوپ کر ذاتی مفادات کا تحفظ اور طاقت چاہتے تھے۔ اسی طرح صلیبی جنگوں کا آغاز ان عیسائی بادشاہوں اور بطریقوں نے کیا جن کی آمرانہ حکومت اور پُرآسائش طرز ِزندگی عوام دوست اسلامی تعلیمات پھیلنے سے خطرے میں پڑگئے ۔ان بادشاہوں نے یہ افواہیں پھیلا دیں کہ مسلم حکمران اپنی مملکتوں میں عیسائیوں پہ ظلم وستم کر رہے ہیں۔مدعا یہ تھا کہ عوام جوش و جذبے میں آ کر مسلمانوں پہ دھاوا بول دیں۔سو یہ عیاش،ظالم او ر آمر یورپی بادشاہ ہیں جنھوں نے طویل و فضول جنگیں چھیڑ ڈالیں۔عیسائیت کی حقیقی تعلیمات نے عوام کو ہرگز اسلام اور مسلمانوں پہ حملہ کرنے کا حکم نہیں دیا۔ مزید برأں اگر ہم فرض کر لیں کہ بعض مسلم حکمران حب ِمال و زمین میں گرفتار ہو کے جارح بن گئے اور انھوں نے ذاتی خواہشات کی تکمیل کے لیے جنگیں لڑیں۔ایسی صورت میں وہ اپنے ناقابل معافی جرائم کے خود ذمے دار ہوں گے۔اسلام کو ان کے کرتوتوں کا ذمے دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔اسلام کی حقیقی تعلیمات مسلمانوں کو یہ حکم نہیں دیتیں کہ وہ تبلیغ یا زر،زن ،زمین کی خاطر جنگیں لڑیں۔
برنارڈ شا:اس میں کوئی شک نہیں کہ رومن چرچ کے انتہاپسندوں نے اپنے نظریات عوام پہ ٹھونسنے کے لیے مخالفین پہ بہت ظلم ڈھائے۔عیسائیت کی اصل تعلیم کا اس قتل وغارت سے کوئی تعلق نہیں۔اور یہ بھی سچ ہے کہ مغرب میں اسلام کے حوالے سے کئی مغالطے پائے جاتے ہیں۔مگر سوال یہ ہے کہ کیا دیگر مسلمان بھی اس بات سے اتفاق رکھتے ہیں کہ اسلام کو زبردستی نہیں پھیلایا جا سکتا؟
مولانا عبدالعلیم صدیقی :جی بالکل!قرآن پاک میں ہر مسلمان کو حکم دیا گیا کہ وہ دین کے معاملے میں کوئی زبردستی نہ کرے،یہ میرا ذاتی نظریہ نہیں! مفسرینِ قرآن نے اس حکم کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔
برنارڈشا:گویا اس لحاظ سے اسلام اور عیسائیت میں مماثلت ہے۔اور ان میں مزید مماثلتیں بھی پائی جاتی ہیں۔
مولانا عبدالعلیم صدیقی:آپ نے صحیح کہا۔ مماثلت کی وجہ یہ ہے کہ دونوں آسمانی مذہب ہیں۔ان کا اصل منبع خدائے برتر و بزرگ کی ذات ہے۔اسلام تمام الوہی مذاہب میں سب سے نیا ہے۔مگر اللہ تعالٰی نے قرآن میں فرمایا ہے کہ اسلامی تعلیمات وہی ہیں جو حصرت ابراہیمؑ سے لے کر حضرت عیسیٰ ؑ تک سبھی رسولوں کو بتائی اور سکھلائی گئیں۔ لیکن جب ان رسولوں کی تعلیمات کو ذاتی مفاد کے اسیر پیروکاروں نے مسخ کر دیا،تب خدا نے آخری نبی ﷺ کو مبعوث فرمایا تاکہ وہ آسمانی تعلیم حقیقی شکل میں انسانیت تک پہنچا دیں۔یہی سچائی قران پاک میں یوں بیان ہوئی ہے: ’’اللہ نے تمھارے لیے دین کا وہی راستہ مقرر کیا جسے اختیار کرنے کا حکم (ہم نے)نوحؑ کو دیا تھا۔اور جس کی اے نبیﷺ،ہم نے تمھاری طرف وحی بھیجی۔اور جس کا ابراہیمؑ،موسیٰ ؑاور عیسیٰ ؑ کو حکم دیا تھا۔(الشوری۔13)
برنارڈ شا:آپ کا بہت شکریہ کہ آپ نے بہت مفید نکات بیان کیے۔اب میں عرب کے پیغمبرﷺ کو بہت عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتا ہوں۔آپ سے ملاقات میرے سفر کی حسین ترین یاد بن چکی۔ اس کے بعد برنارڈشا مہمان کو الوداع کہنے برآمدے تک آئے اور بڑے پُرتپاک انداز میں مولانا عبدالعلیم صدیقی کو رخصت کیا۔ ٭…٭…٭
http://dunya.com.pk/index.php/special-feature/2014-07-25/9963#.U-Oam-OSzbh
سید عاصم محمود
یہ اپریل 1935ء کی بات ہے،مشہور آئرش ادیب، جارج برنارڈ شا (1856ء۔1950ء)نے جنوبی افریقہ جاتے ہوئے ممباسہ (کینیا)میں قیام کیا۔وہ بذریعہ بحری جہاز سیر و تفریح کرنے جنوبی افریقہ جا رہے تھے۔ممباسہ کا مجسٹریٹ شا کا رشتے دار تھا،سو وہ تین دن اسی کے ہاں ٹھہرے۔ مجسٹریٹ کی زبانی انھیں معلوم ہوا کہ آج کل شہر میں ہندوستان سے ایک نامور مسلمان عالم دین آئے ہوئے ہیں۔وہ بڑے مؤثر انداز میں مذہب اسلام کی خصوصیات بیان کرتے ہیں۔شا عالمی مذاہب کے مطالعے سے دلچسپی رکھتے تھے،سو انھوں نے ہندوستانی عالم سے ملنے کا اشتیاق ظاہر کیا۔مجسٹریٹ نے ملاقات کا اہتمام کر دیا۔سو 17اپریل کی ایک سہانی صبح مولانا عبدالعلیم صدیقی شا سے ملنے چلے آئے۔ برنارڈ شا تب تک بین الاقوامی ادیب بن چکے تھے۔سوشلسٹ تھے اور مذہبی تعلیمات پہ کم ہی عمل کرتے۔واضح رہے کہ برنارڈشا دنیا کے واحد ادیب ہیں جنھوں نے ادب کانوبیل انعام اور آسکر ایوارڈ،دونوں حاصل کیے۔ دوسری طرف کم عمری کے باوجود مولانا عبدالعلیم صدیقی (1892 ء۔ 1954ء)کی شہرت بہ حیثیت مبلغِ اسلام پوری دنیا میں پھیل چکی تھی۔آپ وسیع المطالعہ شخصیت،درس نظامی کے سند یافتہ اور ایل ایل بی تھے۔غیرمعمولی دماغ رکھنے والی دونوں ہستیوں میں جو پُرمغز گفتگو ہوئی،اس کا خلاصہ درج ذیل ہے: ٭٭
برنارڈ شا:مجھے افسوس ہے کہ پچھلی رات آپ کا لیکچر نہیں سن سکا۔تاہم یہ ضرور جانتا ہوں کہ آپ نے فلسفہِ امن پر اظہار خیال کیا۔مگر کیاا ٓپ کو فلسفہ ِجنگ پہ لیکچر نہیں دینا چاہیے تھا؟آخر اسلام تلوار کے زور پر ہی پھیلا ہے۔
مولانا عبدالعلیم صدیقی:یہ مغرب میں پھیلا بہت بڑا مغالطہ ہے۔لیکن مجھے حیرت ہے،آپ جیسا دانا و بینا دانشور بھی اس دیومالا پہ یقین رکھتا ہے کہ اسلام تلوار کے ذریعے پھیلا۔جس مذہب کے نام کے لغوی معنی ہی ’’امن‘‘ ہوں،وہ جنگوں کا حمایتی کیسے ہو سکتا ہے؟ قرآن پاک اور ہمارے رسولﷺ کی احادیث میں واضح طور پہ آیا ہے کہ مسلمان صرف دفاعی جنگ لڑ سکتا ہے۔جب اس پہ ظلم کیا جائے، تب وہ اپنے دفاع کی خاطرتلوار اٹھا سکتا ہے۔مزید برأں قران مجید میں صاف الفاظ میں لکھا ہے کہ مذہب کے معاملے میں کوئی زبردستی نہیں (البقرہ۔256)۔چناں چہ کسی غیر مسلم کو ڈرادھمکا کر مسلمان کرنا گناہ اور حرام ہے۔ہماری مقدس کتاب میں ہی اللہ تعالی نے تبلیغ کا طریق کار کچھ یوں بیان فرمایا ہے: ’’لوگوں کو حکمت اور نیک نصیحت کے ذریعے خدا کے راستے کی طرف بلائو۔اوربہت اچھے طریقے کے ساتھ ان سے مناظرہ کرو۔(النحل۔125) تاریخ افشا کرتی ہے کہ325ء میں نیقہ کونسل نے (نعوذباللہ)حضرت عیسیٰ ؑ کو خدا قرار دے ڈالا۔دراصل یہ اقدام بازنطینی شہنشاہ،قسطنطین اعظم کے شدید دبائو پہ اٹھایا گیا۔بعد ازاں جن عیسائیوں نے یہ نیا ارضی نظریہ تسلیم کرنے سے انکار کیا،انھیں بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔مگر میں اس بھیانک قتل عام کا ذمے دار حقیقی عیسائیت کو نہیں گردانتا۔اس کے مرتکب وہ حکمران اور پادری تھے جو اپنے نظریات عوام پہ تھوپ کر ذاتی مفادات کا تحفظ اور طاقت چاہتے تھے۔ اسی طرح صلیبی جنگوں کا آغاز ان عیسائی بادشاہوں اور بطریقوں نے کیا جن کی آمرانہ حکومت اور پُرآسائش طرز ِزندگی عوام دوست اسلامی تعلیمات پھیلنے سے خطرے میں پڑگئے ۔ان بادشاہوں نے یہ افواہیں پھیلا دیں کہ مسلم حکمران اپنی مملکتوں میں عیسائیوں پہ ظلم وستم کر رہے ہیں۔مدعا یہ تھا کہ عوام جوش و جذبے میں آ کر مسلمانوں پہ دھاوا بول دیں۔سو یہ عیاش،ظالم او ر آمر یورپی بادشاہ ہیں جنھوں نے طویل و فضول جنگیں چھیڑ ڈالیں۔عیسائیت کی حقیقی تعلیمات نے عوام کو ہرگز اسلام اور مسلمانوں پہ حملہ کرنے کا حکم نہیں دیا۔ مزید برأں اگر ہم فرض کر لیں کہ بعض مسلم حکمران حب ِمال و زمین میں گرفتار ہو کے جارح بن گئے اور انھوں نے ذاتی خواہشات کی تکمیل کے لیے جنگیں لڑیں۔ایسی صورت میں وہ اپنے ناقابل معافی جرائم کے خود ذمے دار ہوں گے۔اسلام کو ان کے کرتوتوں کا ذمے دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔اسلام کی حقیقی تعلیمات مسلمانوں کو یہ حکم نہیں دیتیں کہ وہ تبلیغ یا زر،زن ،زمین کی خاطر جنگیں لڑیں۔
برنارڈ شا:اس میں کوئی شک نہیں کہ رومن چرچ کے انتہاپسندوں نے اپنے نظریات عوام پہ ٹھونسنے کے لیے مخالفین پہ بہت ظلم ڈھائے۔عیسائیت کی اصل تعلیم کا اس قتل وغارت سے کوئی تعلق نہیں۔اور یہ بھی سچ ہے کہ مغرب میں اسلام کے حوالے سے کئی مغالطے پائے جاتے ہیں۔مگر سوال یہ ہے کہ کیا دیگر مسلمان بھی اس بات سے اتفاق رکھتے ہیں کہ اسلام کو زبردستی نہیں پھیلایا جا سکتا؟
مولانا عبدالعلیم صدیقی :جی بالکل!قرآن پاک میں ہر مسلمان کو حکم دیا گیا کہ وہ دین کے معاملے میں کوئی زبردستی نہ کرے،یہ میرا ذاتی نظریہ نہیں! مفسرینِ قرآن نے اس حکم کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔
برنارڈشا:گویا اس لحاظ سے اسلام اور عیسائیت میں مماثلت ہے۔اور ان میں مزید مماثلتیں بھی پائی جاتی ہیں۔
مولانا عبدالعلیم صدیقی:آپ نے صحیح کہا۔ مماثلت کی وجہ یہ ہے کہ دونوں آسمانی مذہب ہیں۔ان کا اصل منبع خدائے برتر و بزرگ کی ذات ہے۔اسلام تمام الوہی مذاہب میں سب سے نیا ہے۔مگر اللہ تعالٰی نے قرآن میں فرمایا ہے کہ اسلامی تعلیمات وہی ہیں جو حصرت ابراہیمؑ سے لے کر حضرت عیسیٰ ؑ تک سبھی رسولوں کو بتائی اور سکھلائی گئیں۔ لیکن جب ان رسولوں کی تعلیمات کو ذاتی مفاد کے اسیر پیروکاروں نے مسخ کر دیا،تب خدا نے آخری نبی ﷺ کو مبعوث فرمایا تاکہ وہ آسمانی تعلیم حقیقی شکل میں انسانیت تک پہنچا دیں۔یہی سچائی قران پاک میں یوں بیان ہوئی ہے: ’’اللہ نے تمھارے لیے دین کا وہی راستہ مقرر کیا جسے اختیار کرنے کا حکم (ہم نے)نوحؑ کو دیا تھا۔اور جس کی اے نبیﷺ،ہم نے تمھاری طرف وحی بھیجی۔اور جس کا ابراہیمؑ،موسیٰ ؑاور عیسیٰ ؑ کو حکم دیا تھا۔(الشوری۔13)
برنارڈ شا:آپ کا بہت شکریہ کہ آپ نے بہت مفید نکات بیان کیے۔اب میں عرب کے پیغمبرﷺ کو بہت عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتا ہوں۔آپ سے ملاقات میرے سفر کی حسین ترین یاد بن چکی۔ اس کے بعد برنارڈشا مہمان کو الوداع کہنے برآمدے تک آئے اور بڑے پُرتپاک انداز میں مولانا عبدالعلیم صدیقی کو رخصت کیا۔ ٭…٭…٭
http://dunya.com.pk/index.php/special-feature/2014-07-25/9963#.U-Oam-OSzbh