میرے خیال اسے جب یہ موضوع ختم ہوچکاہے اور مودودی صاحب اوران پر اس دور میں فتوی لگانے والے دونوں جوار رحمت میں منتقل ہوچکے ہیں اورخداکے سامنے حاضر ہوچکے ہیں تواب ان پر بات نہیں کرنی چاہئے۔ہاں مودودی صاحب کی کسی کتاب میں کوئی بات غلط لکھی ہوئی ہو تواس کی نشاندہی کریں اورجوعلمی طریقہ ہے وہ اختیار کریں۔لیکن اب مودودی صاحب کی شخصیت پر بات کرنا غلط ہے اور ویسے بھی حدیث رسول ہے کہ مردوں کا ذکر خیر کیاجائے ہمیں چاہئے کہ ہم ان کی اچھی باتوں کو یاد کریں اورباقی جولغزشیں ہوئی ہیں ان کیلئے خدا سے استغفار طلب کریں۔
(آج کل یہ چیز بڑی نایاب ہوگئی ہے۔شاید ہی کسی دیوبندی نے آج تک مولانا احمد رضاخان کی ہدایت کیلئے دعاکی ہوگی اوراوران کیلئے خدا سے مغفرت طلب کی ہو، یااس کے برعکس کسی بریلوی نے مولانا قاسم نانوتوی اوردیگر علمائے دیوبند کیلئے ہدایت ومغفرت کی دعاکی ہو۔تحریری طورپر کچھ لکھنا دینادوسری بات ہے لیکن کسی نے اپنی نمازوں میں دعائوں میں ایساکیاہو،بہت نایاب ہوچکی ہے یہ شئے۔)
ویسے غلطیاں کس سے نہیں ہوتی ہیں نہ اس میں کسی جماعت کاکو الگ نہیں کیاجاسکتا۔ اہل حدیث حضرات کو دیکھ لیں البانی صاحب کے بعض فتاوی جمہورامت بلکہ ایک حد تک اجماع کے خلاف ہیں۔علماء دیوبند میں قاری طیب کا واقعہ بہت مشہور ہواتھاجو ان کی عصبیت کا منہ بولتاثبوت ہے اورطاہر القادری کی غلطیوں پر خود ان کے مسلک والے لکھ رہے ہیں۔اس لئے مودودی صاحب سے اگرکوئی غلطی ہوئی بھی ہوتو اس غلطی پر تنقید کریں،مودودی صاحب کی شخصیت پر نہیں جیسامولانا منظورنعمانی نے کیا ہے۔والسلام