جامعہ بنوریہ کا فتوی جماعت اسلامی کیلئے

ابن جمال

محفلین
میرے خیال اسے جب یہ موضوع ختم ہوچکاہے اور مودودی صاحب اوران پر اس دور میں فتوی لگانے والے دونوں جوار رحمت میں منتقل ہوچکے ہیں اورخداکے سامنے حاضر ہوچکے ہیں تواب ان پر بات نہیں کرنی چاہئے۔ہاں مودودی صاحب کی کسی کتاب میں کوئی بات غلط لکھی ہوئی ہو تواس کی نشاندہی کریں اورجوعلمی طریقہ ہے وہ اختیار کریں۔لیکن اب مودودی صاحب کی شخصیت پر بات کرنا غلط ہے اور ویسے بھی حدیث رسول ہے کہ مردوں کا ذکر خیر کیاجائے ہمیں چاہئے کہ ہم ان کی اچھی باتوں کو یاد کریں اورباقی جولغزشیں ہوئی ہیں ان کیلئے خدا سے استغفار طلب کریں۔
(آج کل یہ چیز بڑی نایاب ہوگئی ہے۔شاید ہی کسی دیوبندی نے آج تک مولانا احمد رضاخان کی ہدایت کیلئے دعاکی ہوگی اوراوران کیلئے خدا سے مغفرت طلب کی ہو، یااس کے برعکس کسی بریلوی نے مولانا قاسم نانوتوی اوردیگر علمائے دیوبند کیلئے ہدایت ومغفرت کی دعاکی ہو۔تحریری طورپر کچھ لکھنا دینادوسری بات ہے لیکن کسی نے اپنی نمازوں میں دعائوں میں ایساکیاہو،بہت نایاب ہوچکی ہے یہ شئے۔)
ویسے غلطیاں کس سے نہیں ہوتی ہیں نہ اس میں کسی جماعت کاکو الگ نہیں کیاجاسکتا۔ اہل حدیث حضرات کو دیکھ لیں البانی صاحب کے بعض فتاوی جمہورامت بلکہ ایک حد تک اجماع کے خلاف ہیں۔علماء دیوبند میں قاری طیب کا واقعہ بہت مشہور ہواتھاجو ان کی عصبیت کا منہ بولتاثبوت ہے اورطاہر القادری کی غلطیوں پر خود ان کے مسلک والے لکھ رہے ہیں۔اس لئے مودودی صاحب سے اگرکوئی غلطی ہوئی بھی ہوتو اس غلطی پر تنقید کریں،مودودی صاحب کی شخصیت پر نہیں جیسامولانا منظورنعمانی نے کیا ہے۔والسلام
 
واہ ابن جمال واہ کیا برجستہ تبصرہ فرمایا آپ نے ۔۔۔۔۔۔۔
صدیق بھائی جہاں تک طاہر القادری کی بات ہے میں خود اس شخص کا بدترین مخالف ہوں لیکن کیا کروں اس کی کسی بھی حرکت کو غلط ثابت نہیں کیا جاسکتا ہے جس حرکت کو بھی اگر مخالف علماء اپنی تقاریر میں زیربحث لاتے ہیں وہ میں طاہر القادری کے بندوں کو دکھاتا ہوں نتیجتا کچھ ہی دنوں کے بعد طاہر القادری صاحب کا اپنی اس حرکت کا جواب قرآن سنت کی یعنی نص کی روشنی میں سامنے آجاتا ہے اور میں لاجواب ہوجاتا ہوں یہ شخص نہایت حاضرجواب اور علم الکلام کا ماہر ہے اس سے دنیا کے کسی بھی شخص کا گفتگو میں جیتنا محال ہے۔
جہاں تک مولانا مودودی کا تعلق ہے تو موصوف بہت بڑے عالم تھے اور ان مدرسوں والے دوسروں کی خیرات پر پلنے والے علماء سے ہزار درجہ بڑے عالم تھے۔اور غلطیاں تو کس سے نہیں ہوتی ہیں صحابہ تک غلطیوں سے مبرا نہیں تھے تو تابعین اور تبع تابعین چہ جائیکہ ان کے بعد کے دور کے لوگ۔
صحابہ کے دور کے بعد دو نظریوں نے جنم لیا یعنی ایک راستہ مقرر ہوگیا ایک بالکل سیدھا راستہ یعنی قرآن و سنت کا اور دوسرا راستہ روحانیت کا
امام ابن تیمیہ اور حافظ ابن قیم پھر ہندوستان میں ابوالکلام آزاد اور پھر ابو اعلیٰ مولانا مودودی نے اس نظریہ کا خوب پرچار کیا اور حق ادا کردیا۔
کچھ لوگ بالکل ہی روحانیت والے ہوگئے ۔
کچھ لوگ روحانیت اور قرآن سنت ساتھ لیکر چلے جن میں امام احمد رضا خان اور علمائے دیوبند جن میں قاسم نانوتوی اور مولانا اشرف علی تھانوی کے نام قابل زکر ہیں ۔
اب اگر ایک بندہ یا ایک فرقہ آپ کے نظریہ کو نہیں مانتا ہے تو اس کا یہ حل نہیں ہے کہ جاہلوں کی طرح اس فتویٰ بازی کا بازار گرم کردیا جائے۔
ناراضگی معاف کچھ زیادہ ہی لکھ گیا ہوں
 

فرخ

محفلین
السلام و علیکم
محترم
آپ طاہر القادری کے مخالف کسطرح ہیں اگر انہیں غلط ثابت نہیں کیا جا سکتا؟

واہ ابن جمال واہ کیا برجستہ تبصرہ فرمایا آپ نے ۔۔۔۔۔۔۔
صدیق بھائی جہاں تک طاہر القادری کی بات ہے میں خود اس شخص کا بدترین مخالف ہوں لیکن کیا کروں اس کی کسی بھی حرکت کو غلط ثابت نہیں کیا جاسکتا ہے جس حرکت کو بھی اگر مخالف علماء اپنی تقاریر میں زیربحث لاتے ہیں وہ میں طاہر القادری کے بندوں کو دکھاتا ہوں نتیجتا کچھ ہی دنوں کے بعد طاہر القادری صاحب کا اپنی اس حرکت کا جواب قرآن سنت کی یعنی نص کی روشنی میں سامنے آجاتا ہے اور میں لاجواب ہوجاتا ہوں یہ شخص نہایت حاضرجواب اور علم الکلام کا ماہر ہے اس سے دنیا کے کسی بھی شخص کا گفتگو میں جیتنا محال ہے۔
جہاں تک مولانا مودودی کا تعلق ہے تو موصوف بہت بڑے عالم تھے اور ان مدرسوں والے دوسروں کی خیرات پر پلنے والے علماء سے ہزار درجہ بڑے عالم تھے۔اور غلطیاں تو کس سے نہیں ہوتی ہیں صحابہ تک غلطیوں سے مبرا نہیں تھے تو تابعین اور تبع تابعین چہ جائیکہ ان کے بعد کے دور کے لوگ۔
صحابہ کے دور کے بعد دو نظریوں نے جنم لیا یعنی ایک راستہ مقرر ہوگیا ایک بالکل سیدھا راستہ یعنی قرآن و سنت کا اور دوسرا راستہ روحانیت کا
امام ابن تیمیہ اور حافظ ابن قیم پھر ہندوستان میں ابوالکلام آزاد اور پھر ابو اعلیٰ مولانا مودودی نے اس نظریہ کا خوب پرچار کیا اور حق ادا کردیا۔
کچھ لوگ بالکل ہی روحانیت والے ہوگئے ۔
کچھ لوگ روحانیت اور قرآن سنت ساتھ لیکر چلے جن میں امام احمد رضا خان اور علمائے دیوبند جن میں قاسم نانوتوی اور مولانا اشرف علی تھانوی کے نام قابل زکر ہیں ۔
اب اگر ایک بندہ یا ایک فرقہ آپ کے نظریہ کو نہیں مانتا ہے تو اس کا یہ حل نہیں ہے کہ جاہلوں کی طرح اس فتویٰ بازی کا بازار گرم کردیا جائے۔
ناراضگی معاف کچھ زیادہ ہی لکھ گیا ہوں
 

وجی

لائبریرین
میرے خیال میں مخالفت کا یہ مطلب نہیں کہ دوسرے کو غلط ہی ثابت کیا جائے
 
السلام و علیکم
محترم
آپ طاہر القادری کے مخالف کسطرح ہیں اگر انہیں غلط ثابت نہیں کیا جا سکتا؟

فرخ بھائی میں پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری کے تبحر علمی کا قائل ہوں اور ان کو ایک متبحر عالم مانتا ہوں اور جہاں تک مخالفت کا تعلق ہے وہ بعض ایسی باتیں ہیں یعنی ایسے اسرار و رموز ہیں جو کہ ان جیسے متبحر عالم کو ببانگ دہل بیان کرنا چاہیے ہیں لیکن وہ ان کو اخفاء رکھتے ہیں اب وہ اسرار و رموز کیا ہیں یہ میں آپ کو نہیں بتا سکتا ہوں
 

فرخ

محفلین
عجیب بات ہے جناب۔۔۔ ایک طرف آپ قادری صاحب سے یہ چاہتے ہیں کہ اُن اسرار و رموز کو ببانگ دہل بیان کر دیں اور خود انہیں خفیہ رکھنا چاہتے ہیں
کچھ بات پلے نہیں پڑی۔۔۔۔۔۔۔

فرخ بھائی میں پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری کے تبحر علمی کا قائل ہوں اور ان کو ایک متبحر عالم مانتا ہوں اور جہاں تک مخالفت کا تعلق ہے وہ بعض ایسی باتیں ہیں یعنی ایسے اسرار و رموز ہیں جو کہ ان جیسے متبحر عالم کو ببانگ دہل بیان کرنا چاہیے ہیں لیکن وہ ان کو اخفاء رکھتے ہیں اب وہ اسرار و رموز کیا ہیں یہ میں آپ کو نہیں بتا سکتا ہوں
 

dehelvi

محفلین
مسلکی اختلاف رکھنے والے لوگ اپنے مکتب فکر سے اپنے مخالفین کے لئے فتوے لیتے ہی ہیں، کیا یہ ضروری ہے کہ پبلک فورم پر ان کی تشہیر کی جائے؟ فتوی ذاتی عمل کے لئے لیا جاتا ہے سب پر تھوپنے کے لئے نہیں۔
 

ابن جمال

محفلین
جہاں تک مولانا مودودی کا تعلق ہے تو موصوف بہت بڑے عالم تھے اور ان مدرسوں والے دوسروں کی خیرات پر پلنے والے علماء سے ہزار درجہ بڑے عالم تھے
روحانی باباجی!ہمیں مولانامودودی صاحب سے ایسی بھی عقیدت نہیں ہونی چاہئے کہ ہم دوسرے علماء کی تنقیص اورتوہین کریں۔آپ نے جس طرح
خیرات پر پلنے والے علماء
کاذکر کیاہے وہ کسی بھی سنجیدہ مزاج شخص کے شایان شان نہیں اورنہ ہی کسی علم کاذوق رکھنے والے کیلئے قابل قبول ہوگا۔جیساکہ میں پہلے کہہ چکاہوں ذاتیات پر بات نہیں ہونی چاہئے۔ افکار ومعتقدات پر بات ہونی چاہئے۔کیونکہ آئیڈیل نہ مولانا مودودی ہیں اورنہ دوسرے علماء،آئیڈیل تو صرف رسول پاک کی ذات گرامی واقدس واطہر ہے۔
 
ابن جمال میرے بھائی میں نے جو بات خیرات پر پلنے کی کی ہے وہ نفسیات،مشاہدات اور ذاتی تجربوں پر مبنی ہے ضروری نہیں ہے کہ مدرسہ میں پلنے والے سب طلباء خیرات پر ہی پلے ہوں ہر بات سوفیصدی نہیں تسلیم کرنا چاہیئے ہے بلکہ 001. کو بھی مد نظر رکھنا چاہیئے ہے میرے ایسے کئی دوست ہیں جو کہ مدرسہ میں پڑھے ہوئے ہیں اور جب طالب علم تھے تو اپنے خرچہ پر کئی نادار اور غریب طلباء کی کفالت کیا کرتے تھے۔۔۔۔
میرا کہنے کا مقصد یہ ہے کہ سب تو نہیں لیکن 90فیصدی مدارس میں طلباء کو اپنے کھانے کا انتظام مانگ تانگ کر کرنا پڑتا ہے۔۔۔اور دین کے طالب کو تو بہت بلند نگہہ ہونا چاہیئے ہے۔ بقول اقبال
نگہ بلند سخن دلنواز جان پرسوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لیئے
اب میں بندہ مزید کیا عرض کرے آپ خود سمجھدار ہیں۔ اگر میری بات بری لگی ہو پیشگی معذرت
نوٹ: ہر مدرسہ سعودی ریالوں پر نہیں پلتا کہ جس میں طالب علم کی خودی کو بلند رکھنے کے لیئے اس کی عزت نفس کو تار تار نہ کیا جائے۔
 
Top