پاکستانی مسیحیوں کے پاس بہترین موقع ہے کہ اس نکتہ کو عدالت میں اٹھائیں اور اپنے مقدس صحیفہ پر تحریف کا الزام لگانے والے مسلمانوں کو دفعہ 295 کے تحت سزائیں دلوائیں۔ اینج تے فیر اینج سہی!
تحریف کا الزام ہم کیا لگائیں، یہ تو خود ان کا بالواسطہ ماننا ہے:
کتابِ مقدس یا
بائیبل (
یونانی τὰ βιβλία) (
انگریزی: Bible) یونانی لفظ۔ بمعنی کتب)
[2] مسیحیوں کا ایک مذہبی کتب کا مقدس مجموعہ ہے۔ یہ مجموعۂ صحائف مختلف مقامات پر مختلف اوقات میں مختلف مصنفین نے تحریر کیے۔ یہود اور مسیحی بائبل کی کتابوں کو خدائی الہام یا خدا اور انسان کے درمیان رشتے کا ایک مستند ریکارڈ سمجھتے ہیں۔
یہودی بائبل
یہود کے مذہبی ذخیرہ کتب کی بنیاد کتابِ بائبل کا پہلا حصہ ہے۔ جسے
پرانا عہد نامہ یا عہدِ عتیق کہا جاتا ہے۔ بائبل کا دوسرا حصہ یعنی
نیا عہد نامہ یہودی کتب پر نہیں مسیحی اناجیل اور دیگر مذہبی صحائف پر مشتمل ہے۔ بائبل کا لفظی معنی کتاب مقدس کیا گیا ہے۔ اس کے تراجم دنیا کی بیشتر زبانوں میں ملتے ہیں۔ پرانے عہد نامے کی کتابوں کی ترتیب یہ ہے:
1. تورات جس کا لفظی معنٰی قانون ہے۔ اس میں پانچ کتابیں شامل ہیں:
[3] پیدائش،
خروج،
احبار،
گنتی،
استثناء۔
ناقدین کے خیال میں یہ تورات اصل تورات نہیں جو کم و بیش چار پانچ بار دنیا سے جل کر اور تباہ و برباد ہو کر ناپید ہو چکی ہے اور یہ بعد کی پیداوار ہے۔ ناقدین کا مزید کہنا ہے کہ عزرا کاہن نے اسے اسیری بابل سے رہائی کے بعد موسٰی سے کافی عرصہ بعد اپنی زبانی یاداشت سے لکھا۔
2. نبییم جس میں بائیس کتابیں شامل ہیں۔ بعض خالص تاریخی اور بعض انبیا کی طرف منسوب ہیں۔ مثلاً
یشوع،
قضاۃ،
سموئیل اول و دوم،
سلاطین اول و دوم،
تواریخ اول و دوم،
یسعیاہ وغیرہ۔
3. کتبیم جس میں بارہ کتابیں شامل ہیں۔
زبور،
امثال،
ایوب،
یرمیاہ،
نحمیاہ،
دانی ایل،
حزقی ایل،
نوحہ وغیرہ۔
ان کے علاوہ یہود کی مذہبی کتابوں میں
تلمود کا ذکر بار بار آتا ہے۔ یہ روایات، قصص و حکایات، مذہبی احکام، اجتہادات وغیرہ کے مجموعے کا نام ہے۔ جو یہودیوں میں سینہ بسینہ چلا آیا اور دوسری صدی عیسوی میں ایک یہودی عالم یہوداہ ھا ناسی المعروف ربی نے اسے جمع کر ڈالا۔
مشناہ تھا۔ بالفاظ دیگر اسے تورات کی تفسیر کہہ سکتے ہیں۔ اس مجموعے کی مزید تشریح ہوتی رہی اور اُسے جمع کیا گیا تو اس کا نام
گمارا رکھا گیا۔ ان دونوں مجموعوں کو تلمود کہا جاتا ہے۔ تلمود کی دو اقسام ہیں ایک شامی جو فلسطین میں تیار ہوا دوسرا بابلی جس کا مواد بزمانہ اسیریِ بابل اکٹھا ہوا۔ یہودیوں میں دونوں معتبر اور مستعمل ہیں۔ مگر اختلاف کے وقت ترجیح شامی کو دیتے ہیں۔
یہ بھی معلوم رہنا لازم ہے کہ پرانے عہد نامے کے دو نسخے ہیں: ایک عبرانی نسخہ جو یہودیوں میں مستعمل اور لائق استناد ہے۔ دوسرا نسخہ یونانی ہے جسے سپتواجنتا کہا جاتا ہے اور مسیحیوں میں معتبر و مستند ہے۔ مسیحیوں کے معتبر نسخے میں بھی پھر ان کے دو بڑے فرقے پروٹسٹنٹ اور کاتھولک کے نزدیک 19 کتب متنازع فیہ ہیں۔ کاتھولک انہیں صحیح مانتے ہیں اور پروٹسٹنٹ جعلی قرار دیتے ہیں۔ جو کتب صرف یونانی نسخے میں زائد ہیں انہیں اپاکرفا کہا جاتا ہے۔ موجودہ بائبل کی کتابوں میں بعض ان کتبِ یہود کا ذکر یا حوالہ موجود ہے جو شامل مجموعہ نہیں ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ کتابیں گم ہو چکی ہیں۔ ان کی تعداد ڈیڑھ درجن تک جا پہنچتی ہے۔ غرض بائبل کی کتب موجودہ و غیر موجودہ کا معاملہ بہت مشکوک ہے۔ رحمت اللہ کیرانوی نے اپنی کتاب ”
اظہار الحق“ میں دعویٰ کیا ہے کہ بائبل کی شروع کی پانچ کتب یعنی توارت تحریف اور ترمیم و اضافہ کا شکار ہوئی ہیں اس میں کئی تضاد ہیں۔ رحمت اللہ کیرانوی اظہار الحق میں لکھتے ہیں کہ یہود و مسیحیوں کا ایمان ہے کہ تورات خود موسٰی نے لکھی تو اس میں خود موسٰی کی وفات کا ذکر کیسے ہے اور لکھا ہے کہ آج کے دن تک کوئی ان کی قبر کو نہیں جانتا۔ مصنف کے بقول اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کتاب موسٰی کی وفات کے کافی عرصے بعد مدون ہوئی تھی اور اس کتاب میں بعض ایسے واقعات موجود ہیں جو بعد میں پیش آئے۔
ربط