فارسی شاعری جامی: أحن شوقاً إلى ديار لقيت فيها جمال سلمی

اربش علی

محفلین
أحن شوقاً إلى ديار لقيت فيها جمال سلمی
که می رساند ازان نواحی نویدِ لطفی به جانبِ ما؟

(میں اس دیار کا شدت سے مشتاق ہوں جہاں میں نے پہلی دفعہ سلمیٰ کا جمال دیکھا تھا۔ کون ہے جو ان اطراف سے ہماری جانب لطف و کرم کی کوئی نوید لائے گا؟)

به وادیِ غم منم فتاده، زمامِ فکرت ز دست داده
نه بخت یاور، نه عقل رهبر، نه تن توانا، نه دل شکیبا

(میں وادیِ غم میں گر پڑا ہوں، فکر و عقل کی لگام میرے ہاتھ سے چھوٹ گئی ہے۔ نہ بخت ساتھ دے رہا ہے، نہ عقل میری رہبر ہے۔ نہ جسم توانا ہے، اور نہ ہی دل کو قرار ہے۔)

زهی جمالِ تو قبلهٔ جان، حریمِ کوی تو کعبهٔ دل
فإن سجدنا إلیك نسجد، و إن سعینا إلیك نسعى

(زہے جمال آپ کا کہ میرے لیے قبلۂ جاں ہے، اور آپ کے کوچے کی حدود میرے دل کا کعبہ ہیں۔ پس اگر ہم سجدہ کریں تو آپ ہی کی طرف کریں گے، اور اگر دوڑ کر آئیں تو آپ ہی کی طرف دوڑیں گے۔)

ز سِرِّ عشقِ تو بود ساکن زبانِ اربابِ شوق لیکن
ز بی‌زبانی غمِ نهانی چنانکه دانی شد آشکارا

(آپ کے عشق کے راز سے اربابِ شوق کی زبان تو ساکن ہو گئی مگر اس بے زبانی سے (میرا) ایک غمِ پنہاں جیسا کہ آپ آگاہ ہیں آشکار ہو گیا۔)

بکت عیوني علی شیوني، فساء حالي، و لا أبالي
که دانم آخر طبیبِ وصلت مریضِ خود را کند مداوا

(میری آنکھیں میری اس بدحالی پر رو رہی ہیں، میرا حال خراب ہے، مگر مجھے ذرا پروا نہیں ہے۔ کیوں کہ میں جانتا ہوں کہ آپ کا وصال طبیب بن کر آخر اپنے مریض کا علاج کر دے گا۔)

اگر به جورم برآوری جان، و گر به تیغم بیفکنی سر
قسم به جانت که برندارم سرِ ارادت ز خاکِ آن پا

(اگر آپ بہ زور میری جان لے ڈالیں، یا تیغ سے میرا سر قلم کر دیں، آپ کی جان کی قسم، میں تب بھی اس خاکِ پا سے اپنا سرِارادت و عقیدت نہیں اٹھاؤں گا۔)

به ناز گفتی: "فلان، کجایی؟ چه بود حالت درین جدایی؟"
مرضت شوقاً، و مت هجراً، فکیف أشكو؟ إلیك شکوی

(آپ نے ناز وعشوہ سے کہا، "اے فلاں! تو کہاں ہے؟ اس جدائی میں تیرا کیا حال ہوا؟" میں آپ کی محبت میں مریض ہوا، اور آپ کے ہجر میں مر گیا۔ پس میں شکوہ بھی کیسے کروں؟ وہ بھی تو آپ ہی سے ہے!)

بر آستانت کمینه جامی مجال بودن ندید، ازان رو
به کنجِ فرقت نشست محزون، به کوی محنت گرفت ماوا

(اس حقیر جامی نے آپ کے آستاں پر ٹھہرنے کو جگہ نہ پائی۔ چناں چہ مغموم ہو کر کنجِ فرقت میں جا بیٹھا، اور غم و اندوہ کے کوچے کو ٹھکانا کر لیا۔)

مولانا عبد الرحمٰن جامی
 
Top