داغ جانچ لو ہاتھ میں پہلے دل شیدا لے کر - داغ دہلوی

کاشفی

محفلین
غزل
جانچ لو ہاتھ میں پہلے دل شیدا لے کر
نہیں پھرنے کا مری جاں یہ سودا لے کر
ناز ہوتا ہے اُنہیں مال پرایا لے کر
دُون کی لیتے ہیں میرا دل شیدا لے کر
دل کاسودا جو کرے تم سے وہ سودائی ہے
دام دیتے ہی نہیں مال پرایا لے کر
رکھ دیا ہاتھ مرے منہ پہ تب کافر نے
صبح اُٹھنے نہ دیا نام خدا کا لے کر
اپنی آنکھوں سے تو دیکھی نہیں دل کی چوری
کیوں گنہگار ہوں میں نام کسی کا لے کر
 

عرفان سرور

محفلین
خاطر سے یا لحاظ سے میں مان تو گیا
جھُوٹی قسم سے آپ کا ایمان تو گیا

دل لے کے مُفت کہتے ہیں کچھ کام کا نہیں
اُلٹی شکائتیں ہوئیں، احسان تو گیا

دیکھا ہے بُت کدے میں جو اے شیخ کچھ نہ پوچھ
ایمان کی تو بات ہے کہ ایمان تو گیا

افشائے رازِ عشق میں گو ذِلّتیں ہوئیں
لیکن اُسے جتا تو دیا، جان تو گیا

گو نامہ بر سے خوش نہ ہوا پر ہزار شکر
مجھ کو وہ میرے نام سے پہچان تو گیا

بزمِ عدو میں‌صورتِ پروانہ دل میرا
گو رشک سے جلا تیرے قربان تو گیا

ہوش و حواس و تاب و تواں داغ ‌جا چکے
اب ہم بھی جانے والے ہیں سامان تو گیا

داغ​
 

عرفان سرور

محفلین

تمھارے خط میں نیا اک سلام کس کا تھا
نہ تھا رقیب تو آخر وہ نام کس کا تھا

وہ قتل کرکے مجھے ہر کسی سے پوچھتے ہیں
یہ کام کس نے کیا یہ کام کس کا تھا

وفا کریں گے ،نبھائیں گے ،بات مانیں گے
تمھیں بھی یاد ہے یہ کلام کس کا تھا

رہا نہ دل میں وہ بیدرد اور درد رہا
مقیم کون ہوا ، مقام کس کا تھا

نہ پوچھ کچھ تھی کسی کی وہاں آؤ بھگت
تمھاری بزم میں کل اہتمام کس کا تھا

ہمارے خط کے تو پُرزے کیے،پڑھا بھی نہیں
سُنا جو تو نے بدل وہ پیام کس کا تھا

انہیں صفات سے ہوتا ہے آدمی مشہور
جو لطفِ عام وہ کرتے تو نام کس کا تھا

ہر اک سے کہتے ہیں داغ بے وفا نکلا
یہ پوچھے اُن سے کوئی وہ غلام کس کا تھا

داغ
 

عرفان سرور

محفلین
آرزو ہے وفا کرے کوئی
جی نہ چاہے تو کیا کرے کوئی

گر مرض ہو دوا کرے کوئی
مرنے والے کا کیا کرے کوئی

کوستے ہیں جلے ہوئے کیا کیا
اپنے حق میں دعا کرے کوئی

ان سے سب اپنی اپنی کہتے ہیں
میرا مطلب ادا کرے کوئی

تم سراپا ہو صورتِ تصویر
تم سے پھر بات کیا کرے کوئی

جس میں لاکھوں برس کی حوریں ہوں
ایسی جنت کو کیا کرے کوئی

داغ
 

عرفان سرور

محفلین
ہر سُو دِکھائی دیتے ہیں وہ جلوہ گر مجھے
کیا کیا فریب دیتی ہے میری نظر مجھے

آیا نہ راس نالۂ دل کا اثر مجھے
اب تم ملے تو کچھ نہیں اپنی خبر مجھے

ڈالا ہے بیخودی نے عجب راہ پر مجھے
آنکھیں ہیں اور کچھ نہیں آتا نظر مجھے

کرنا ہے آج حضرتِ ناصح کا سامنا
مل جائے دو گھڑی کو تمہاری نظر مجھے

یکساں ہے حُسن و عشق کی سرمستیوں کا رنگ
اُن کی خبر انہیں ہے نہ اپنی خبر مجھے

میں دُور ہوں تو روحِ سخن مجھ سے کس لیے
تم پاس ہو تو کیوں نہیں آتا نظر مجھے

دل لے کے میرا دیتے ہو داغِؔ جگر مجھے
یہ بات بھولنے کی نہیں عمر بھر مجھے

 

عرفان سرور

محفلین
سبق ایسا پڑھا دیا تو نے
دل سے سب کچھ بھلا دیا تو نے

لاکھ دینے کا ایک دینا ہے
دل یہ بے مدعا دیا تو نے

بے طلب جو ملا، ملا مجھ کو
بے غرض جو دیا، دیا تو نے

کہیں مشتاق سے حجاب ہوا
کہیں پردہ اٹھا دیا تو نے

مٹ گئے دل سے نقشِ باطل سب
نقش اپنا جما دیا تو نے

مجھ گناہگار کو جو بخش دیا
تو جہنم کو کیا دیا تو نے

داغ کو کون دینے والا تھا
جو دیا، دیا اے خدا دیا تو نے​
 

عرفان سرور

محفلین

پھر شبِ غم نے مجھے شکل دکھائی کیونکر
یہ بلا گھر سے نکالی ہوئی آئی کیونکر

تو نے کی غیر سے میری برائی کیونکر
گر نہ تھی دل میں تو لب پر تیرے آئی کیونکر

تم دل آزار و ستم گر نہیں میں نے مانا
مان جائے گی اسے ساری خدائی کیونکر

آئینہ دیکھ کے وہ کہنے لگے آپ ہی آپ
ایسے اچھوں کی کرے کوئی برائی کیونکر

کثرتِ رنج و الم سن کے یہ الزام ملا
اتنے سے دل میں ہے اتنوں کی سمائی کیونکر

داغ کل تک تو دعا آپ کی مقبول نہ تھی
آج منہ مانگی مراد آپ نے پائی کیونکر

 

عرفان سرور

محفلین

مانندِ گل ہیں‌ میرے جگر میں‌ چراغِ داغ
پروانے دیکھتے ہیں تماشائے باغِ داغ

مرگِ عدو سے آپ کے دل میں چُھپا نہ ہو
میرے جگر میں اب نہیں ملتا سراغِ داغ

دل میں قمر کے جب سے ملی ہے اسے جگہ
اس دن سے ہو گیا ہے فلک پر دماغِ داغ

تاریکیٔ لحد سے نہیں دل جلے کو خوف
روشن رہے گا تا بہ قیامت چراغِ داغ

مولا نے اپنے فضل و کرم سے بچا لیا
رہتا وگرنہ ایک زمانے کو داغِ داغ


داغ دہلوی
 
Top