محمد تابش صدیقی
منتظم
کیا کہنے ظہیر بھائی، بہت ہی عمدہ۔آشوبِ تشنگی میں یہ تسکیں بھی کم نہیں
احساں نہیں ہے سر پہ کسی سائبان کا
دل مصلحت پسند تھا ، شوق انتہا پرست
رستہ میں ڈھونڈتا ہی رہا درمیان کا
دنیا جھلک رہی ہے جو مجھ میں تو کیا عجب
میں آئنہ ہوں اپنے زمان و مکان کا
تسلیم کر چکے جو مقدر کے فیصلے
اُن کو نہیں ہے خوف کسی امتحان کا
ہر دردِ نو پہ نغمۂ تازہ لکھیں گے ہم
تلخی نہیں مزاج ہماری زبان کا
ایک دو اشعار تو اپنی ہی کیفیات کا پرتو معلوم ہوئے۔ 😊