نور وجدان
لائبریرین
بچپن میں جامِ محبت سے آشنائی نہ ہوئی اور نہ ہی کوئی چہرہ محبوب سا لگا۔ اس کے ساتھ ساتھ محبت کے لفظ سے ''چڑ'' تھی ۔ ایک خود ساختہ وعدہ کیا ہوا تھا خود سے کہ محبت میں بربادی ہے اور بربادی کون کرنا چاہے گا۔۔۔۔۔۔۔!
کلاس میں کئ لڑکیاں محبت میں گرفتار تھیں ۔ جس کو محبت ہوتی ، اس سے دوری ہوجاتی ۔ ایک دن کہ بھی دیا :
''یار ! آپ کیسے لوگ ہو ؟ اسکول پڑھنے آتے ہو ، پڑھو اور جاؤ گھر ، یہ کیا جوگ پالے ہوئے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
اس طرح تعمیر رک جائے گی۔ اور اس '' محبت'' کی نفرت میں سارا دھیان خشک باتوں اور فلسفیانہ باتوں میں الجھا لیا ۔ جس سے دماغ کچھ زیادہ ہی خشک ہوگیا۔ خشک باتیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔! بس کچھ زیادہ ہی خشکی ہوگئ ۔۔۔۔!
ہر بار ''ٹوکنے'' پر ایک جواب ملتا کہ ''ہم'' ساتھ ساتھ پڑھتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔! اس لیے برباد نہیں ہیں ہم ۔۔۔۔! جہاں میں ایسے ایسے آئے ہیں ، جن کا محبت نے کچھ نہ چھوڑا۔۔۔!
تب سے ''ارادہ'' کرلیا کہ '' محبت'' دراصل ایک ''نفرت'' ہے اس ''محبت و نفرت '' کے کھیل میں ''وقت'' بڑا سیانہ ہے ۔ سو ہم منکر اور ہماری '' موحد'' سے نفرت بڑھتی ہی گئی۔۔۔۔ جانے کیوں مسلمان گھرانے کی پیداوار ہونے کے باوجود ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
شاید اس لیے کہ ایک انسان کے کئی موحد کیوں ؟؟ اب یہ سوال بڑا تڑپاتا تھا۔۔۔۔ محبت میں ''احد'' کا کلمہ بھی نہیں اور کثرت بھی بڑی ہے ۔ دل نے کہا کہ '' عاشقی بڑی بدنام شے ہے ۔ اس سے دوری ہی بھلی ۔ اقبال کا شعر بڑا یاد آتا ہے اس موقع پر۔۔۔۔۔!
کثرت میں ہوگیا وحدت کا راز مخفی
جگنو میں جو چمک ہے وہ پھول میں مہک ہے ۔۔۔۔
ایک ''وقت'' اور سو ''کرب'' ۔۔۔ منظروں سے محبت ، راستوں کے درمیان کھڑے ہو کر ، حسین شاہراہوں کی دلکشی پر غور کرتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔! ہرے بھرے درخت ، لہلہاتے کھیت ، ندی کی '' چھن چھن '' کرتی آواز اور میرا سانس۔۔۔۔۔ اکثر تھم سا جاتا ۔۔۔!!! جب بھی پہاڑوں پر جاتی ، کسی پہاڑ سے کھڑے ہوکر نیچے وادی کو دیکھتے ۔۔۔۔! دل کرتا یہیں مرجاؤں مگر اس حسین وادی کی قید سے نہ نکلوں ، پھر ایک اور وادی سے گزر ہوا۔۔۔ وہ اس سے زیادہ حسین ۔۔۔۔۔۔ '' میں'' ۔۔۔!!! میں اب راستوں کے درمیاں نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔! بلکہ راستے پر کھڑی ، پل پل کو محسوس کرتی ، سموتی ، ان ''پلوں'' میں مقید ہوتی گئ۔۔۔۔۔!!
وادیاں۔۔۔! یہ کوہسار ، یہ جھرنے ، سبزے پر بیٹھنا، سب کا سب ۔۔۔! سب ہی تعمیر و فطرت کے رخ بنتے رہے اور بارشوں کے بعد آسمان پر قزح کے رنگ امڈنے لگے ۔ ''میں'' ۔۔۔! ''میں ہوں''، اور ہوگئ میں رنگوں کی دیوانی ۔۔۔۔۔۔۔۔! سارے رنگ میرے اپنے ، سارے سپنے اپنے اپنے ۔۔۔۔۔۔۔۔! اکبھی درختوں کے پاس سے گزر کر، ندی کی چٹان کے پر بیٹھ کر ایک درخت سے ٹیک لگا لیتی اور لمحوں خواب میں گزار دیتی ۔۔۔۔۔ ۔۔۔!
ایک دن غلطی سے شام تک بیٹھی رہی ، شام کے بعد چاند نے مجھے اور میں نے اسے دیکھ لیا۔ ساری حکمتیں ''منکرینِ نفرت '' کی ختم ، محبت سے نفرت کا فلسفہ ختم اور ''احد'' کا تصور دل میں خواب بھرنے لگا ۔۔۔ یوں میرا وقت چاند کو تاکتے تاکتے گزرنے لگا۔۔۔۔! چاند بہت حسین تھا ، چاند تھا اور رات کے وقت ، چاند کا حسن اور نمایاں ہوجاتا ۔۔۔۔۔! میں نے محبت کا کلمہ پڑھ لیا اور مسلمان ہوگئی ۔۔۔۔!
اسلام لانے کے بعد ''مومن '' بننے کا درجہ نہ مل سکا اور ڈگمگا گئی ۔۔ وہ کہتے ہیں نا۔۔۔۔۔ ہاں جی ۔۔۔! وہ کہتے ہیں کہ محبت میں ''شک '' کی منزل ختم کرنی پڑتی ہے ، تب عشق نصیب ہوتا ہے ۔ اور ''میں'' شروع سے ''شکی''' ۔۔۔۔۔۔۔! کبھی یقین نہ کرنے والی ۔۔۔۔! آغاز محبت میں شک نے بیج بو دیا۔۔۔۔۔! اور محبت نے منہ موڑ لیا۔۔۔۔! مگر ہوا یوں کہ ۔۔۔۔کہ ۔۔محبت کو منانے کے چکر میں '' مسافر'' ہی رہی اور منزل نہ ملی ۔۔۔ منزل ''کھو'' گئی جبکہ راستہ بڑا صاف ستھرا تھا۔۔۔۔۔۔ ۔۔!!! اب یہ حال ہے کہ مسافتیں ختم ہی نہیں ہوتی ، دل تیقن کے ساتھ ''کلمہ'' پڑھتا ہے ، مگر ''رخ '' جو مڑ جائے تو واپس کون آئے ۔۔۔؟؟؟
کون واپس آیا؟؟؟؟ عقل والے چلے گئے اور محبت والے آگئے ، دل سے منطقیں اڑا کر ، دیوانہ بنا گئے ۔ اب دیوانہ ، کیا جانے دنیا کا حال ۔۔۔۔۔ کہ یہ دنیا الٹی ہے کہ سیدھی۔۔۔!!! یہ چپٹی ہے یا گول ۔۔۔ ۔۔!!!
ارے ۔۔۔۔!دنیا تو دنیا ہے ، عشق کا پیالہ یا زہر کا ۔۔۔ پینا ہے ، آنکھ بند کی ، ساری حسیات کو مفلوج کرکے ، اس کو کڑوے گھونٹ کی طرح نگلا۔۔۔ اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ وہ اس کا تھوڑا سا حصہ زبان نے چکھ لیا، وہ کڑوا بھی تھا ، مگر ''مے'' بھی ، نشہ تھا یا کیف تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔! مست ایک قطرے نے بنا کر ، پیاسا بنا کر صحرا کا عادی بنا دیا۔۔۔۔!!! اب شراب کے سوا کچھ اچھا ہی نہیں لگتا کہ دل کرتا ، شراب ، شراب اور بس شراب ۔۔۔!!
اتنا تو پتا ہے کہ ، منکر نہیں ہوں میں ، ملحد نہیں ہوں میں ۔۔۔۔۔ ! اتنا جانتی ہوں ۔۔۔۔ اس سے آگے کا پتا نہیں چلتا اور بس یہ احساس ہوتا ہے کہ محبت گھونٹ گھونٹ ملے تو نشہ ٹوٹ کر چڑھتا ہے ۔۔۔۔۔۔! اس کے بعد کوئی ''تکثیریت ''کا قائل ہو یا ''احد'' کا ۔۔۔۔۔ دل میں عزت پیدا ہوگی ، ہر نفس کے لیے ۔۔۔ ارے ، اب بھی نہ بدلتے تو پھر کب۔۔۔؟؟
اور پھر جو بھی ملا ، جیسا بھی ، کبھی کسی کے دل کے مندر کو دکھانے کی کوشش نہ کی کہ ڈر لگتا ہے کہ اندر چاہے کتنے بھی شیشے ہوں ، ایک شیشہ ''اُس '' کا بھی ہے ۔۔۔۔۔۔! کہیں ''وہ '' نہ ٹوٹ جائے ۔۔۔۔!! پھر ، پھر سے منکر کا درجہ نہ مل جائے ۔۔۔ احترام، احترام ، بس احترام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!
'' وہ'' شیشہ ایک دن اپنا ''شیش محل '' بنا ئے گا۔ مگر جام تو ''تکثیریت'' سے ملے گا، جو جتنا تڑپے گا، اتنا حسن محل کا بڑھے گا۔بس درد کی ''شدت' سے بنتے محل کاایک دن'' در ''وا'' ہونا ہے ، عاشق دروازے پر کھڑا ہے ۔۔۔۔ جانے کب وا ہوجائے ، جانے کبھی خامشی کا سکوت ٹوتے ، جانے کب ، جانے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!! جانے کب میخانہ یہ دل بنے گا۔۔۔ جانے کب۔۔۔۔؟؟؟
کلاس میں کئ لڑکیاں محبت میں گرفتار تھیں ۔ جس کو محبت ہوتی ، اس سے دوری ہوجاتی ۔ ایک دن کہ بھی دیا :
''یار ! آپ کیسے لوگ ہو ؟ اسکول پڑھنے آتے ہو ، پڑھو اور جاؤ گھر ، یہ کیا جوگ پالے ہوئے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
اس طرح تعمیر رک جائے گی۔ اور اس '' محبت'' کی نفرت میں سارا دھیان خشک باتوں اور فلسفیانہ باتوں میں الجھا لیا ۔ جس سے دماغ کچھ زیادہ ہی خشک ہوگیا۔ خشک باتیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔! بس کچھ زیادہ ہی خشکی ہوگئ ۔۔۔۔!
ہر بار ''ٹوکنے'' پر ایک جواب ملتا کہ ''ہم'' ساتھ ساتھ پڑھتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔! اس لیے برباد نہیں ہیں ہم ۔۔۔۔! جہاں میں ایسے ایسے آئے ہیں ، جن کا محبت نے کچھ نہ چھوڑا۔۔۔!
تب سے ''ارادہ'' کرلیا کہ '' محبت'' دراصل ایک ''نفرت'' ہے اس ''محبت و نفرت '' کے کھیل میں ''وقت'' بڑا سیانہ ہے ۔ سو ہم منکر اور ہماری '' موحد'' سے نفرت بڑھتی ہی گئی۔۔۔۔ جانے کیوں مسلمان گھرانے کی پیداوار ہونے کے باوجود ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
شاید اس لیے کہ ایک انسان کے کئی موحد کیوں ؟؟ اب یہ سوال بڑا تڑپاتا تھا۔۔۔۔ محبت میں ''احد'' کا کلمہ بھی نہیں اور کثرت بھی بڑی ہے ۔ دل نے کہا کہ '' عاشقی بڑی بدنام شے ہے ۔ اس سے دوری ہی بھلی ۔ اقبال کا شعر بڑا یاد آتا ہے اس موقع پر۔۔۔۔۔!
کثرت میں ہوگیا وحدت کا راز مخفی
جگنو میں جو چمک ہے وہ پھول میں مہک ہے ۔۔۔۔
ایک ''وقت'' اور سو ''کرب'' ۔۔۔ منظروں سے محبت ، راستوں کے درمیان کھڑے ہو کر ، حسین شاہراہوں کی دلکشی پر غور کرتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔! ہرے بھرے درخت ، لہلہاتے کھیت ، ندی کی '' چھن چھن '' کرتی آواز اور میرا سانس۔۔۔۔۔ اکثر تھم سا جاتا ۔۔۔!!! جب بھی پہاڑوں پر جاتی ، کسی پہاڑ سے کھڑے ہوکر نیچے وادی کو دیکھتے ۔۔۔۔! دل کرتا یہیں مرجاؤں مگر اس حسین وادی کی قید سے نہ نکلوں ، پھر ایک اور وادی سے گزر ہوا۔۔۔ وہ اس سے زیادہ حسین ۔۔۔۔۔۔ '' میں'' ۔۔۔!!! میں اب راستوں کے درمیاں نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔! بلکہ راستے پر کھڑی ، پل پل کو محسوس کرتی ، سموتی ، ان ''پلوں'' میں مقید ہوتی گئ۔۔۔۔۔!!
وادیاں۔۔۔! یہ کوہسار ، یہ جھرنے ، سبزے پر بیٹھنا، سب کا سب ۔۔۔! سب ہی تعمیر و فطرت کے رخ بنتے رہے اور بارشوں کے بعد آسمان پر قزح کے رنگ امڈنے لگے ۔ ''میں'' ۔۔۔! ''میں ہوں''، اور ہوگئ میں رنگوں کی دیوانی ۔۔۔۔۔۔۔۔! سارے رنگ میرے اپنے ، سارے سپنے اپنے اپنے ۔۔۔۔۔۔۔۔! اکبھی درختوں کے پاس سے گزر کر، ندی کی چٹان کے پر بیٹھ کر ایک درخت سے ٹیک لگا لیتی اور لمحوں خواب میں گزار دیتی ۔۔۔۔۔ ۔۔۔!
ایک دن غلطی سے شام تک بیٹھی رہی ، شام کے بعد چاند نے مجھے اور میں نے اسے دیکھ لیا۔ ساری حکمتیں ''منکرینِ نفرت '' کی ختم ، محبت سے نفرت کا فلسفہ ختم اور ''احد'' کا تصور دل میں خواب بھرنے لگا ۔۔۔ یوں میرا وقت چاند کو تاکتے تاکتے گزرنے لگا۔۔۔۔! چاند بہت حسین تھا ، چاند تھا اور رات کے وقت ، چاند کا حسن اور نمایاں ہوجاتا ۔۔۔۔۔! میں نے محبت کا کلمہ پڑھ لیا اور مسلمان ہوگئی ۔۔۔۔!
اسلام لانے کے بعد ''مومن '' بننے کا درجہ نہ مل سکا اور ڈگمگا گئی ۔۔ وہ کہتے ہیں نا۔۔۔۔۔ ہاں جی ۔۔۔! وہ کہتے ہیں کہ محبت میں ''شک '' کی منزل ختم کرنی پڑتی ہے ، تب عشق نصیب ہوتا ہے ۔ اور ''میں'' شروع سے ''شکی''' ۔۔۔۔۔۔۔! کبھی یقین نہ کرنے والی ۔۔۔۔! آغاز محبت میں شک نے بیج بو دیا۔۔۔۔۔! اور محبت نے منہ موڑ لیا۔۔۔۔! مگر ہوا یوں کہ ۔۔۔۔کہ ۔۔محبت کو منانے کے چکر میں '' مسافر'' ہی رہی اور منزل نہ ملی ۔۔۔ منزل ''کھو'' گئی جبکہ راستہ بڑا صاف ستھرا تھا۔۔۔۔۔۔ ۔۔!!! اب یہ حال ہے کہ مسافتیں ختم ہی نہیں ہوتی ، دل تیقن کے ساتھ ''کلمہ'' پڑھتا ہے ، مگر ''رخ '' جو مڑ جائے تو واپس کون آئے ۔۔۔؟؟؟
کون واپس آیا؟؟؟؟ عقل والے چلے گئے اور محبت والے آگئے ، دل سے منطقیں اڑا کر ، دیوانہ بنا گئے ۔ اب دیوانہ ، کیا جانے دنیا کا حال ۔۔۔۔۔ کہ یہ دنیا الٹی ہے کہ سیدھی۔۔۔!!! یہ چپٹی ہے یا گول ۔۔۔ ۔۔!!!
ارے ۔۔۔۔!دنیا تو دنیا ہے ، عشق کا پیالہ یا زہر کا ۔۔۔ پینا ہے ، آنکھ بند کی ، ساری حسیات کو مفلوج کرکے ، اس کو کڑوے گھونٹ کی طرح نگلا۔۔۔ اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ وہ اس کا تھوڑا سا حصہ زبان نے چکھ لیا، وہ کڑوا بھی تھا ، مگر ''مے'' بھی ، نشہ تھا یا کیف تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔! مست ایک قطرے نے بنا کر ، پیاسا بنا کر صحرا کا عادی بنا دیا۔۔۔۔!!! اب شراب کے سوا کچھ اچھا ہی نہیں لگتا کہ دل کرتا ، شراب ، شراب اور بس شراب ۔۔۔!!
اتنا تو پتا ہے کہ ، منکر نہیں ہوں میں ، ملحد نہیں ہوں میں ۔۔۔۔۔ ! اتنا جانتی ہوں ۔۔۔۔ اس سے آگے کا پتا نہیں چلتا اور بس یہ احساس ہوتا ہے کہ محبت گھونٹ گھونٹ ملے تو نشہ ٹوٹ کر چڑھتا ہے ۔۔۔۔۔۔! اس کے بعد کوئی ''تکثیریت ''کا قائل ہو یا ''احد'' کا ۔۔۔۔۔ دل میں عزت پیدا ہوگی ، ہر نفس کے لیے ۔۔۔ ارے ، اب بھی نہ بدلتے تو پھر کب۔۔۔؟؟
اور پھر جو بھی ملا ، جیسا بھی ، کبھی کسی کے دل کے مندر کو دکھانے کی کوشش نہ کی کہ ڈر لگتا ہے کہ اندر چاہے کتنے بھی شیشے ہوں ، ایک شیشہ ''اُس '' کا بھی ہے ۔۔۔۔۔۔! کہیں ''وہ '' نہ ٹوٹ جائے ۔۔۔۔!! پھر ، پھر سے منکر کا درجہ نہ مل جائے ۔۔۔ احترام، احترام ، بس احترام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!
'' وہ'' شیشہ ایک دن اپنا ''شیش محل '' بنا ئے گا۔ مگر جام تو ''تکثیریت'' سے ملے گا، جو جتنا تڑپے گا، اتنا حسن محل کا بڑھے گا۔بس درد کی ''شدت' سے بنتے محل کاایک دن'' در ''وا'' ہونا ہے ، عاشق دروازے پر کھڑا ہے ۔۔۔۔ جانے کب وا ہوجائے ، جانے کبھی خامشی کا سکوت ٹوتے ، جانے کب ، جانے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!! جانے کب میخانہ یہ دل بنے گا۔۔۔ جانے کب۔۔۔۔؟؟؟
آخری تدوین: