جگر جان کر منجملۂ خاصانِ مے خانہ مجھے ۔ جگر مراد آبادی

فرخ منظور

لائبریرین
جان کر منجملۂ خاصانِ مے خانہ مجھے
مُدّتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ مجھے

ننگِ مے خانہ تھا میں ساقی نے یہ کیا کر دیا
پینے والے کہہ اُٹھے "یا پیرِ مے خانہ" مجھے

سبزہ و گل، مو ج و دریا، انجم و خورشید و ماہ
اِک تعلق سب سے ہے لیکن رقیبانہ مجھے

زندگی میں آ گیا جب کوئی وقتِ امتحاں
اس نے دیکھا ہے جگرؔ بے اختیارانہ مجھے

(جگرؔ مراد آبادی)
 
بابو رفیق رواڑوی کا مطلع اسی زمین میں

وہ جو فرماتے ہیں ننگِ بزمِ میخانہ مجھے
ایک پیمانہ انہیں دو ایک پیمانہ مجھے
 
جگر مرادآبادی نے اس غزل میں لفظ " نہ" کو دو حرفی استعمال کیا ہے ۔ کیا یہ دلیل کافی نہیں کہ نہ کو حسبِ ضرورت دو حرفی باندھاجاسکتا ہے؟؟ ویسے مجھے علم ہے کہ جگر صاحب نے ایک آدھ اور بھی بدعات کی ہیں ۔ مثلا اپنی ایک مشہور غزل میں انہوں نے فارسی اضافت کے ساتھ اعلانِ نون بھی کیا ہے ۔ " فخر ِ ہندوستان " کی ترکیب استعمال کی ہے ۔ اہل ِ علم سے میرا سوال یہ ہے کہ اس طرح اعلانِ نون کرنا ہم جیسے مبتدیوں کے لئے جائز ہے یا نہیں ؟ جواب کے لئے ممنون ہونگی ۔
الف عین
مزمل شیخ بسمل
سید عاطف علی
محمد وارث
 

محمد وارث

لائبریرین
جگر مرادآبادی نے اس غزل میں لفظ " نہ" کو دو حرفی استعمال کیا ہے ۔ کیا یہ دلیل کافی نہیں کہ نہ کو حسبِ ضرورت دو حرفی باندھاجاسکتا ہے؟؟ ویسے مجھے علم ہے کہ جگر صاحب نے ایک آدھ اور بھی بدعات کی ہیں ۔ مثلا اپنی ایک مشہور غزل میں انہوں نے فارسی اضافت کے ساتھ اعلانِ نون بھی کیا ہے ۔ " فخر ِ ہندوستان " کی ترکیب استعمال کی ہے ۔ اہل ِ علم سے میرا سوال یہ ہے کہ اس طرح اعلانِ نون کرنا ہم جیسے مبتدیوں کے لئے جائز ہے یا نہیں ؟ جواب کے لئے ممنون ہونگی ۔
الف عین
مزمل شیخ بسمل
سید عاطف علی
محمد وارث

جو اوپر والے اشعار ہیں ان میں تو مجھے "نہ" نظر نہیں آیا۔ اگر آپ کا اشارہ قافیہ کی طرف ہے تو یہ اردو شاعری کی روایت ہے کہ ایسے الفاظ میں نہ دوحرفی ہی باندھا جاتا ہے اور بوقتِ ضرورت یک حرفی کر لیا جاتا ہے۔ جہاں تک صرف "نہ" کی بات ہے تو بہتر تو یہی ہے کہ اسے یک حرفی ہی باندھا جائے، ہاں مبتدی اگر اسے دو حرفی باندھ بھی لیں صرفِ نظر کرنا چاہیے۔

باقی نون معلنہ کی جو بات ہے تو اگر آپ مبتدی ہیں تو پھر استاد کون ہے؟ یہ بھی اردو شاعری کی روایت ہے کہ ترکیبِ اضافی میں نون معلنہ استعمال نہیں کرتے جب کہ جدید فارسی میں نون غنہ کا کوئی وجود ہی نہیں ہے، ہر جگہ نون معلنہ ہے سو میرے خیال میں بوقتِ ضرورت اسے کسی بھی طرح باندھا جا سکتا ہے۔
 
وارث بھائی سے متفق ہوں۔ نہ اگر نفی یا نافیہ کے طور پر اکیلا آیا ہے تو مستحسن نہیں بلکہ واجب ہے کہ اسے یک حرفی باندھا جائے۔ اسے دو حرفی باندھنا مکروہات میں ہے۔
جگر کی غزل میں "نہ" کہیں نہیں ہے بلکہ یہ تو ایک مکمل لفظ کا حصہ ہے۔ اس میں ایسی اجازت بھی موجود ہے۔ اور اس طرح باندھنے کی مثالیں بھی عام ہیں۔ سو جگر نے کچھ عجب نہیں کیا۔
 
جو اوپر والے اشعار ہیں ان میں تو مجھے "نہ" نظر نہیں آیا۔ اگر آپ کا اشارہ قافیہ کی طرف ہے تو یہ اردو شاعری کی روایت ہے کہ ایسے الفاظ میں نہ دوحرفی ہی باندھا جاتا ہے اور بوقتِ ضرورت یک حرفی کر لیا جاتا ہے۔ جہاں تک صرف "نہ" کی بات ہے تو بہتر تو یہی ہے کہ اسے یک حرفی ہی باندھا جائے، ہاں مبتدی اگر اسے دو حرفی باندھ بھی لیں صرفِ نظر کرنا چاہیے۔

باقی نون معلنہ کی جو بات ہے تو اگر آپ مبتدی ہیں تو پھر استاد کون ہے؟ یہ بھی اردو شاعری کی روایت ہے کہ ترکیبِ اضافی میں نون معلنہ استعمال نہیں کرتے جب کہ جدید فارسی میں نون غنہ کا کوئی وجود ہی نہیں ہے، ہر جگہ نون معلنہ ہے سو میرے خیال میں بوقتِ ضرورت اسے کسی بھی طرح باندھا جا سکتا ہے۔

وارث بھائی سے متفق ہوں۔ نہ اگر نفی یا نافیہ کے طور پر اکیلا آیا ہے تو مستحسن نہیں بلکہ واجب ہے کہ اسے یک حرفی باندھا جائے۔ اسے دو حرفی باندھنا مکروہات میں ہے۔
جگر کی غزل میں "نہ" کہیں نہیں ہے بلکہ یہ تو ایک مکمل لفظ کا حصہ ہے۔ اس میں ایسی اجازت بھی موجود ہے۔ اور اس طرح باندھنے کی مثالیں بھی عام ہیں۔ سو جگر نے کچھ عجب نہیں کیا۔

جنابانِ عالی مقام ۔ جوابات کا بہت بہت شکریہ ۔ اب مجھے خود اپنا سوال پڑھ کر خفت سی ہورہی ہے ۔ نجانے کس عالم میں غزل کو ٹھیک سے دیکھے بغیر نتیجہ اخذ کیا اور سوال داغ دیا ۔ شاید جلدی میں غزل دیکھتے وقت " دیکھا نہ مجھے " اور " آیا نہ مجھے " قسم کے کسی قافیے کا التباس ہوگیا ۔ حالانکہ جگر صاحب نے یہاں ایسا کوئی قافیہ استعمال کیا ہی نہیں ہے۔ بیشک " نہ " ان تمام الفاظ کے آخری نہ سے مختلف اور الگ لفظ ہے ۔ خیر ۔ اعلان ِ نون کے بارے میں وضاحت کا بھی بہت شکریہ ۔

خدا رحمت کند ایں صاحبانِ پاک طینت را
 
Top