الف نظامی
لائبریرین
جاپان کے تعلیمی نظام میں قومی زبان کی اہمیت
مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ میں نے جاپانی زبان کیا سیکھ لی ہے دنیا کی بے شمار دوسری زبانوں کے سیکھنے سے بے نیاز ہوگیا ہوں۔ مثلا مجھے جب سوشلزم پر ایک مضمون لکھنا تھا تو مجھے اپنی یونیورسٹی کے مختلف الخیال پروفیسروں کے سیمیناروں میں اور ان کے بحث مباحث میں شرکت سے بہت فائدہ پہنچا ۔ اس کے علاوہ روسی اور چینی زبان کی کتابوں کے ترجمے بھی جاپانی زبان میں مل گئے جن سے روس اور چین کے نقطہ ہائے نظر کا پتہ چلا۔ دنیا کی ہر ایک زبان کی اہم کتابوں کے تراجم جاپانی زبان میں مل جاتے ہیں۔
جنگ عظیم دوئم کے اختتام تک دنیا پر یورپی حکومت کا سکہ جما ہوا تھا اور ان کی ایسی دھاک بیٹھی ہوئی تھی کہ علم و فن ، ثقافت و لباس ، ہر چیز میں ان کی نقالی کو قابل فخر سمجھا جاتا تھا اور ہمارے ملک میں یہ غلامانہ ذہنیت تو آج بھی موجود ہے کہ انگریزی زبان میں تعلیم حاصل کیے ہوئے لوگ اپنے آپ کو معاشرہ میں "بڑی چیز" سمجھتے ہیں اور انگریزی نہ جاننے والے بھی انہیں ایسا ہی سمجھتے ہیں۔
جاپانیوں میں کوئی ایسا احساس کمتری نہیں ہے۔ جاپان کی قومی زبان سے ہٹ کر دو جاپانی کبھی کسی دوسری زبان میں ایک دوسرے سے ہم کلام نہیں ہوں گے ۔ جاپانی زبان میں ساری سائنسی اصطلاحات کے ترجمے موجود ہیں اور انہیں اپنی زبان میں کسی سائنسی ، تکنیکی یا فنی موضوع پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے کوئی دقت پیش نہیں آتی۔ انہوں نے کبھی یہ ضرورت محسوس نہیں کی کہ کسی بیرونی زبان میں علم حاصل کرنے کی سوچیں۔ ان کی اپنی زبان میں دنیا کی تازہ ترین ساری دریافتوں اور حالات و واقعات کی تفصیلات مل جاتی ہیں۔
اپنی قومی زبان کو بالائے طاق رکھ کر بیرونی زبان کو ذریعہ تعلیم بنانے کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں کہ ہم اپنی آبادی کے ایک بڑے حصے کو علمی ترقیوں سے محروم رکھنا چاہتے ہیں۔ غیر زبان میں تعلیم دینے سے پورا ملک اس میں شریک نہیں ہوسکتا اور تعلیم و تعلم کی سرگرمیاں ایک مخصوص طبقہ تک محدود ہوکر رہ جاتی ہیں۔ جیسا کہ ماضی میں ہندوستان میں علم پر برہمنوں کی اجارہ داری تھی۔
یہ قومی زبان میں تعلیم دینے کا نتیجہ ہی تو ہے کہ آج جاپان کی چھوٹی بستی میں بھی کتابوں اور رسائل کی بڑی بڑی دکانیں موجود ہیں۔ ٹوکیو میں نوکنیا نام کی ایک بہت بڑی کتابوں کی دکان ہے جو کہ ایک بڑی آٹھ منزلہ عمارت پر مشتمل ہے۔ اس کی ہر ایک منزل پر جاپانی زبان میں کتابیں ہی کتابیں بھری پڑی ہیں اور یہ سال کے بارہ مہینے روزانہ صبح دس بجے سے رات آٹھ بجے تک کھلی رہتی ہے۔ اور یہاں شائقین کا اتنا ہجوم ہوتا ہے کہ تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی اور اس اژدھام میں ہر شخص کو اپنی مرضی کی کتاب اور رسالہ کی تلاش رہتی ہے۔ یہاں کبھی چھٹی نہیں ہوتی بلکہ ہفتہ ، اتوار اور دوسری چھٹیوں کے دنوں میں یہاں کتابوں کے خریداروں کا ہجوم اور بڑھ جاتا ہے۔
میرا اپنا تجربہ یہی ہے کہ جب کبھی میں پاکستان یا بنگلہ دیش جاتا ہوں تو جگہ جگہ لوگوں کی خواہش ہوتی ہے کہ مختلف قسم کے پروگرام رکھیں تاکہ جاپان اور جدید دنیا کے تازہ ترین حالات و واقعات سے واقفیت حاصل کریں۔ یہ علم کی پیاس ہر انسان میں ہوتی ہے لیکن اگر ہم قومی زبان نہ بنائیں تو یہ پیاس کبھی بجھ ہی نہیں سکتی اور نہ ہی لوگوں میں مطالعہ کا ذوق و شوق بڑھ سکتا ہے۔ پاکستان میں صرف دینی کتابیں اردو زبان میں مل سکتی ہیں یا پھر تفریحی ادب ، لیکن مختلف علوم و فنون پر اگر کوئی ہمت کرکے کتاب لکھ بھی ڈالے تو اس کو سمجھنے والے بھی کم اور اس طرح کی کتاب کے فروخت ہونے کے امکان بھی کم۔ ہمارے ہاں ہر کتاب کا پہلا ایڈیشن بالعموم ایک ہزار کی تعداد میں چھاپا جاتا ہے جبکہ جاپان میں ہر ہفتہ نئی کتاب ہزاروں کی تعداد میں فروخت ہوجاتی ہے۔
جاپان میں لائبریریوں کی صورتحال کا اندازہ اس سے لگائیے کہ میں آج کل جاپان کے شہر کوبے میں ہوں اور اس شہر میں اس وقت پانچ بڑی لائبریریاں ہیں ۔ میں اپنا شناختی کارڈ دکھا کر اپنے گھر کے قریب کی کسی لائبریری کا مفت میں رکن بن کر رکنیت کارڈ حاصل کرلوں تو کوبے کی ساری لائبریریوں سے ایک وقت میں 7 کتابیں پندرہ دن کے لیے لے جاسکتا ہوں اور جتنی چاہے ان کی مدت میں توسیع کرواتا رہوں۔ یہ لائبریریاں دیر تک کھلی رہتی ہیں تو یہاں بیٹھ کر بھی خوب مطالعہ کرسکتا ہوں۔ ان لائبریریوں میں یہ اصول ہے کہ انہوں نے کتابیں شایع کرنے والی ہر کمپنی کو یہ آرڈر دے رکھا ہے کہ ہر نئی کتاب کے پانچ دس نسخے انہیں فروخت کیے جائیں ، اس طرح ہر شہر کی بلدیہ کی لائبریریوں کے علاوہ ہر سکول ، کالج اور یونیورسٹی کی لائبریریاں ہوتی ہیں جو اسی قسم کی ہر نئی کتاب کے چند نسخے ہمیشہ منگوا کر ضرور رکھتی ہیں۔
از حسین خان
سوائے ان طالبعلموں کے جو ایم اے اور پی ایچ ڈی کرتے ہیں کسی بھی جاپانی کے دماغ میں یہ بات نہیں ہے کہ اس کو تعلیم حاصل کرنا ہے تو انگریزی یا کوئی غیر ملکی زبان سیکھنا ضروری ہے۔ جتنے بھی جاپانی غیرملکی زبان سیکھتے ہیں اپنی کسی تجارتی ضرورت کے تحت یا محض شوقیہ سیکھتے ہیں۔ کسی کے دماغ میں یہ نہیں ہوتا کہ اگر فلاں زبان نہ سیکھوں تو اعلی تعلیم نہیں حاصل کرسکتا۔ ہر موضوع پر اونچی سطح تک جاپانی زبان میں ان کے اپنے پروفیسروں کی لکھی ہوئی بے شمار کتابیں موجود ہیں اور دنیا کی ہر زبان کی تمام اہم کتابوں کے ترجمے بھی، ہر موضوع پر ، جاپانی زبان میں مل جائیں گے۔ مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ میں نے جاپانی زبان کیا سیکھ لی ہے دنیا کی بے شمار دوسری زبانوں کے سیکھنے سے بے نیاز ہوگیا ہوں۔ مثلا مجھے جب سوشلزم پر ایک مضمون لکھنا تھا تو مجھے اپنی یونیورسٹی کے مختلف الخیال پروفیسروں کے سیمیناروں میں اور ان کے بحث مباحث میں شرکت سے بہت فائدہ پہنچا ۔ اس کے علاوہ روسی اور چینی زبان کی کتابوں کے ترجمے بھی جاپانی زبان میں مل گئے جن سے روس اور چین کے نقطہ ہائے نظر کا پتہ چلا۔ دنیا کی ہر ایک زبان کی اہم کتابوں کے تراجم جاپانی زبان میں مل جاتے ہیں۔
جنگ عظیم دوئم کے اختتام تک دنیا پر یورپی حکومت کا سکہ جما ہوا تھا اور ان کی ایسی دھاک بیٹھی ہوئی تھی کہ علم و فن ، ثقافت و لباس ، ہر چیز میں ان کی نقالی کو قابل فخر سمجھا جاتا تھا اور ہمارے ملک میں یہ غلامانہ ذہنیت تو آج بھی موجود ہے کہ انگریزی زبان میں تعلیم حاصل کیے ہوئے لوگ اپنے آپ کو معاشرہ میں "بڑی چیز" سمجھتے ہیں اور انگریزی نہ جاننے والے بھی انہیں ایسا ہی سمجھتے ہیں۔
جاپانیوں میں کوئی ایسا احساس کمتری نہیں ہے۔ جاپان کی قومی زبان سے ہٹ کر دو جاپانی کبھی کسی دوسری زبان میں ایک دوسرے سے ہم کلام نہیں ہوں گے ۔ جاپانی زبان میں ساری سائنسی اصطلاحات کے ترجمے موجود ہیں اور انہیں اپنی زبان میں کسی سائنسی ، تکنیکی یا فنی موضوع پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے کوئی دقت پیش نہیں آتی۔ انہوں نے کبھی یہ ضرورت محسوس نہیں کی کہ کسی بیرونی زبان میں علم حاصل کرنے کی سوچیں۔ ان کی اپنی زبان میں دنیا کی تازہ ترین ساری دریافتوں اور حالات و واقعات کی تفصیلات مل جاتی ہیں۔
اپنی قومی زبان کو بالائے طاق رکھ کر بیرونی زبان کو ذریعہ تعلیم بنانے کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں کہ ہم اپنی آبادی کے ایک بڑے حصے کو علمی ترقیوں سے محروم رکھنا چاہتے ہیں۔ غیر زبان میں تعلیم دینے سے پورا ملک اس میں شریک نہیں ہوسکتا اور تعلیم و تعلم کی سرگرمیاں ایک مخصوص طبقہ تک محدود ہوکر رہ جاتی ہیں۔ جیسا کہ ماضی میں ہندوستان میں علم پر برہمنوں کی اجارہ داری تھی۔
یہ قومی زبان میں تعلیم دینے کا نتیجہ ہی تو ہے کہ آج جاپان کی چھوٹی بستی میں بھی کتابوں اور رسائل کی بڑی بڑی دکانیں موجود ہیں۔ ٹوکیو میں نوکنیا نام کی ایک بہت بڑی کتابوں کی دکان ہے جو کہ ایک بڑی آٹھ منزلہ عمارت پر مشتمل ہے۔ اس کی ہر ایک منزل پر جاپانی زبان میں کتابیں ہی کتابیں بھری پڑی ہیں اور یہ سال کے بارہ مہینے روزانہ صبح دس بجے سے رات آٹھ بجے تک کھلی رہتی ہے۔ اور یہاں شائقین کا اتنا ہجوم ہوتا ہے کہ تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی اور اس اژدھام میں ہر شخص کو اپنی مرضی کی کتاب اور رسالہ کی تلاش رہتی ہے۔ یہاں کبھی چھٹی نہیں ہوتی بلکہ ہفتہ ، اتوار اور دوسری چھٹیوں کے دنوں میں یہاں کتابوں کے خریداروں کا ہجوم اور بڑھ جاتا ہے۔
میرا اپنا تجربہ یہی ہے کہ جب کبھی میں پاکستان یا بنگلہ دیش جاتا ہوں تو جگہ جگہ لوگوں کی خواہش ہوتی ہے کہ مختلف قسم کے پروگرام رکھیں تاکہ جاپان اور جدید دنیا کے تازہ ترین حالات و واقعات سے واقفیت حاصل کریں۔ یہ علم کی پیاس ہر انسان میں ہوتی ہے لیکن اگر ہم قومی زبان نہ بنائیں تو یہ پیاس کبھی بجھ ہی نہیں سکتی اور نہ ہی لوگوں میں مطالعہ کا ذوق و شوق بڑھ سکتا ہے۔ پاکستان میں صرف دینی کتابیں اردو زبان میں مل سکتی ہیں یا پھر تفریحی ادب ، لیکن مختلف علوم و فنون پر اگر کوئی ہمت کرکے کتاب لکھ بھی ڈالے تو اس کو سمجھنے والے بھی کم اور اس طرح کی کتاب کے فروخت ہونے کے امکان بھی کم۔ ہمارے ہاں ہر کتاب کا پہلا ایڈیشن بالعموم ایک ہزار کی تعداد میں چھاپا جاتا ہے جبکہ جاپان میں ہر ہفتہ نئی کتاب ہزاروں کی تعداد میں فروخت ہوجاتی ہے۔
جاپان میں لائبریریوں کی صورتحال کا اندازہ اس سے لگائیے کہ میں آج کل جاپان کے شہر کوبے میں ہوں اور اس شہر میں اس وقت پانچ بڑی لائبریریاں ہیں ۔ میں اپنا شناختی کارڈ دکھا کر اپنے گھر کے قریب کی کسی لائبریری کا مفت میں رکن بن کر رکنیت کارڈ حاصل کرلوں تو کوبے کی ساری لائبریریوں سے ایک وقت میں 7 کتابیں پندرہ دن کے لیے لے جاسکتا ہوں اور جتنی چاہے ان کی مدت میں توسیع کرواتا رہوں۔ یہ لائبریریاں دیر تک کھلی رہتی ہیں تو یہاں بیٹھ کر بھی خوب مطالعہ کرسکتا ہوں۔ ان لائبریریوں میں یہ اصول ہے کہ انہوں نے کتابیں شایع کرنے والی ہر کمپنی کو یہ آرڈر دے رکھا ہے کہ ہر نئی کتاب کے پانچ دس نسخے انہیں فروخت کیے جائیں ، اس طرح ہر شہر کی بلدیہ کی لائبریریوں کے علاوہ ہر سکول ، کالج اور یونیورسٹی کی لائبریریاں ہوتی ہیں جو اسی قسم کی ہر نئی کتاب کے چند نسخے ہمیشہ منگوا کر ضرور رکھتی ہیں۔