ایم اسلم اوڈ
محفلین
اب کے سونامی نے جاپان کا رخ کیا ہے، ماہرین نے ایک بے تحاشا اور سب سے بڑے سمندری طوفان کا احاطہ کرنے والا لفظ سونامی اختیار کیا ہے۔ سونامی کے لفظ سے ہی ذہن و دل کے دریچے دہل جاتے ہیں۔ جہاں جہاں پہلے سونامی وارد ہوا تباہیوں کی اک انمٹ داستاں رقم کر گیا، اب یہ جاپان میں وارو ہوا ہے تو جاپان کی چولیں ہل کے رہ گئی ہیں۔ اگرچہ اس سونامی کا مرکز ٹوکیو سے چار سو کلو میٹر دور 20 میل سمندر کی گہرائی میں تھا اور ریکٹر سکیل پر اس کے غضب کی شدت 8.9 تھی مگر اس نے دور دور تک کے شہروں اور گائوں کے در و بام ہلا دیئے ہیں۔ میڈیا نے اس تباہی کے جو مناظر دکھائے وہ اس قدر ہولناک تھے کہ دیکھنے والے کا دل بیٹھنے لگتا تھا۔ ساحلی شہر سندائی تویوں غرقاب ہوا کہ سوائے اس کے رن وے کے پورا شہر اپنی تمام تر زندگی کی ہمہ ہمی سمیت سمندر برد ہو گیا۔ ساری ترقی، ساری ٹیکنالوجی اور ساری اقتصادی بلندی دیکھتے ہی دیکھتے یوں نگاہوں سے اوجھل ہو گئی، گویا کہ کبھی تھی ہی نہیں۔ تباہی صرف سندائی تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ اس کی صدائیں دیگر بے شمار علاقوں کے ساتھ ساتھ جاپانی دارالحکومت ٹوکیو میں بھی سنی گئیں۔ موجودہ عہد کی ترقی کا ماحصل اگر ایٹم ہے تو جاپان کے دوسرے کے بعد اب تیسرا ایٹمی ری ایکٹر بھی ناصرف خود بھک سے اڑ گیا ہے بلکہ وہ جن کی تعمیر و ترقی کے لئے مصروف کار تھا خود ان کی زندگیوں کے لئے بدترین خطرے کا روپ دھار چکا ہے۔ جاپانی وزیراعظم نے اپیل کی ہے کہ اس ری ایکٹر کے نواح میں بستے 20 کلو میٹر تک کے لوگ فی الفور اپنے اپنے گھروں اور علاقوں سے نکل جائیں۔ یہ بھی خبر ہے کہ 10 گھنٹوں میں انہیں تابکاری ٹوکیو تک پہنچ سکتی ہے۔ اب تک پورے نقصانات کا مکمل گوشوارہ تو مرتب نہیں کیا جا سکا تاہم خام تخمینوں کے مطابق پانچ لاکھ سے زیادہ افراد بے گھر اور بے در ہو چکے ہیں۔ 4 ہزار افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی جا چکی ہے۔ جاپانی اقتصادیات اور معیشت کو اتنا شدید دھچکا لگا ہے کہ حکومت کو کئی ٹریلین ’’ین‘‘ اپنی مردہ ہوتی معیشت کی رگوں میں انجیکٹ کرنے پڑے ہیں۔ جاپانی وزیراعظم نے اسے دوسری جنگ عظیم کے بعد جاپان کے لئے سب سے بڑا اور بدترین دھچکا قرار دیا ہے۔ بجلی کی پیداوار اور بہائو اس قدر متاثر ہوا ہے کہ جاپانی دارالحکومت ٹوکیو سمیت ہر جگہ تین تین گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہو گی اور یہ دورانیہ کئی مہینوں تک چلے گا۔ جاپان کی ایک لاکھ فوج امدادی سرگرمیوں میں مصروف عمل ہو گئی ہے اور جاپان نے عالمی سطح پر بھی مدد مانگ لی ہے۔
جاپان دوسری جنگ عظیم میں کھنڈر بن گیا تھا۔ ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی بموں نے تباہی اور ویرانی مسلط کر دی تھی۔ اس سے پہلے کی جاپانی تاریخ درندگی کی تاریخ ہے۔ اس کی فوج ایک بے انتہا خونخوار فوج تھی۔ اس فوج نے تیس کے عشرے میں چین کے علاقے مانچوریا کو قبرستان بنا ڈالا تھا۔ ناکنگ نامی شہر کے ایک ملین باسیوں کو ٹکٹکیوں پر لٹکا دیا تھا۔ فلپینز سے برما تک کے علاقے کو ظلم، دھونس اور دھاندلی کے بل بوتے پر بیگار کیمپ میں بدل ڈالا تھا۔ پھر جب دوسری جنگ عظیم میں خود تباہی اور بارود کا ذائقہ چکھا تو ہتھیار پگھلا ڈالے اور معیشت و اقتصادی ترقی میں دوڑیں لگا دیں۔ اس نے خوب ترقی کی۔ اتنی ترقی کی کہ پوری دنیا میں اس کی ٹیکنالوجی کی اور بالخصوص اس کی گاڑیوں کا لوہا مانا جانے لگا۔ ہر ملک اس اعتبار سے اس کا محتاج ہو گیا۔ معیشت مستحکم ہوئی اور دولت کی ریل پیل ہو گئی۔ زلزلے یہاں بہت آتے تھے چنانچہ ٹیکنالوجی پہ انحصار کیا گیا اور عمارتیں زلزلہ پروف بنا لی گئیں۔ چنانچہ اب یہاں زلزلہ خوف کی علامت نہیں رہا تھا بلکہ وہ ایک معمول کی چیز تھی۔ زلزلہ آتا تھا مگر کسی بھی عمارت کو ہلائے بغیر گزر جاتا تھا۔
جاپانی بہت مطمئن تھے اوضر ہمارے دانشور کہیں زیادہ مرعوب، وہ جاپان کی مثالیں دیتے فوج کم کرنے، ہتھیار پگھلا دینے اور محض معیشت کو مضبوط کرنے کی باتیں کرتے۔ آج دنیا جاپان کو دیکھ رہی ہے اور اسے اس ’’فلسفہ ٹیکنالوجی‘‘ پر ازسرنو غور کرنا پڑ رہا ہے۔ لوگ سوچ رہے ہیں اور یہ سوچ تناور ہو رہی ہے کہ محض ٹیکنالوجی نہیں بچا سکتی۔ جاپانی خدا کو بھول گئے تھے بلکہ انہوں نے ٹیکنالوجی کو مذہب اور خدا کا درجہ دے دیا تھا۔ ٹیکنالوجی کے خدا نے انہیں بہت عروج دیا مگر اب ایسا دھوکا دیا کہ سب ملیا میٹ ہو کے رہ گیا ہے۔ یہ سانحہ دراصل دنیا کی، مادیت کی، سانئس کی اور ٹیکنالوجی کی حیثیت اور حقیقت سامنے لانے کے لئے ایک آئینہ ہے۔ مسلمانوں کو بلکہ تمام انسانوں کو اللہ رب العزت نے بار بار سمجھایا کہ اسباب پر نہیں، مسائل کے سدباب پر نہیں بلکہ اسباب اور سدباب کے رب پر اعتماد و انحصار کرو۔ وہی مشکلوں سے بچاتا ہے اور نافرمان ہو جائیں تو وہی آسانیاں چھین لینے والا ہے۔
ہمارے ہاں المیہ یہ ہے کہ جب بھی اس طرح کا کوئی عبرت انگیز اور بصیرت افروز واقعہ رونما ہوتا ہے۔ رب کی پکڑ کے باعث اپنے اعمال اور سرگرمیوں کا جائزہ لینے کا موقع مہیا ہوتا ہے۔ ہم لوگ دفاعی نظام کی خامیاں تلاش کرنے لگتے ہیں۔ ’’یہ کر لیتے، وہ کر لیتے تو بچ جاتے‘‘ حالانکہ ایسے مواقع پر اور آج جاپان کی موجودہ تباہی پر اس دنیا کو اور اس کی ہر طرح کی ٹیکنالوجی کو ہیچ سمجھتے ہوئے اللہ پر اور اس کی قوت پر ایمان لانے کے جذبات پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ بھی ذہن نشیں کرنے کی ضرورت ہے کہ اللہ تعالیٰ مہلت کی رسی دراز ضرور کر دیتا ہے مگر جب پکڑتا ہے تو اس کی گرفت بڑی سخت ہوتی ہے۔ آج جہاں جاپان سے اظہار ہمدردی اور اس کی مدد کی ضرورت ہے وہیں اہل جاپان تک خدا کا پیغام پہنچانے اور خود اپنی زندگیوں سے رب کی نافرمانیاں نکال پھینکنے کی بھی شدید ضرورت ہے۔ اس موقع پر رعایا اور حکومتوں کو اپنی اپنی اسلام و ایمان دشمن پالیسیوں پر نظرثانی کرنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی پکڑ اور عذاب سے بچائے رکھے آمین۔
بشکریہ۔۔۔۔ہفت روزہ جرار
والسلام،،،، علی اوڈ راجپوت
ali oadrajput
________________
جاپان دوسری جنگ عظیم میں کھنڈر بن گیا تھا۔ ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی بموں نے تباہی اور ویرانی مسلط کر دی تھی۔ اس سے پہلے کی جاپانی تاریخ درندگی کی تاریخ ہے۔ اس کی فوج ایک بے انتہا خونخوار فوج تھی۔ اس فوج نے تیس کے عشرے میں چین کے علاقے مانچوریا کو قبرستان بنا ڈالا تھا۔ ناکنگ نامی شہر کے ایک ملین باسیوں کو ٹکٹکیوں پر لٹکا دیا تھا۔ فلپینز سے برما تک کے علاقے کو ظلم، دھونس اور دھاندلی کے بل بوتے پر بیگار کیمپ میں بدل ڈالا تھا۔ پھر جب دوسری جنگ عظیم میں خود تباہی اور بارود کا ذائقہ چکھا تو ہتھیار پگھلا ڈالے اور معیشت و اقتصادی ترقی میں دوڑیں لگا دیں۔ اس نے خوب ترقی کی۔ اتنی ترقی کی کہ پوری دنیا میں اس کی ٹیکنالوجی کی اور بالخصوص اس کی گاڑیوں کا لوہا مانا جانے لگا۔ ہر ملک اس اعتبار سے اس کا محتاج ہو گیا۔ معیشت مستحکم ہوئی اور دولت کی ریل پیل ہو گئی۔ زلزلے یہاں بہت آتے تھے چنانچہ ٹیکنالوجی پہ انحصار کیا گیا اور عمارتیں زلزلہ پروف بنا لی گئیں۔ چنانچہ اب یہاں زلزلہ خوف کی علامت نہیں رہا تھا بلکہ وہ ایک معمول کی چیز تھی۔ زلزلہ آتا تھا مگر کسی بھی عمارت کو ہلائے بغیر گزر جاتا تھا۔
جاپانی بہت مطمئن تھے اوضر ہمارے دانشور کہیں زیادہ مرعوب، وہ جاپان کی مثالیں دیتے فوج کم کرنے، ہتھیار پگھلا دینے اور محض معیشت کو مضبوط کرنے کی باتیں کرتے۔ آج دنیا جاپان کو دیکھ رہی ہے اور اسے اس ’’فلسفہ ٹیکنالوجی‘‘ پر ازسرنو غور کرنا پڑ رہا ہے۔ لوگ سوچ رہے ہیں اور یہ سوچ تناور ہو رہی ہے کہ محض ٹیکنالوجی نہیں بچا سکتی۔ جاپانی خدا کو بھول گئے تھے بلکہ انہوں نے ٹیکنالوجی کو مذہب اور خدا کا درجہ دے دیا تھا۔ ٹیکنالوجی کے خدا نے انہیں بہت عروج دیا مگر اب ایسا دھوکا دیا کہ سب ملیا میٹ ہو کے رہ گیا ہے۔ یہ سانحہ دراصل دنیا کی، مادیت کی، سانئس کی اور ٹیکنالوجی کی حیثیت اور حقیقت سامنے لانے کے لئے ایک آئینہ ہے۔ مسلمانوں کو بلکہ تمام انسانوں کو اللہ رب العزت نے بار بار سمجھایا کہ اسباب پر نہیں، مسائل کے سدباب پر نہیں بلکہ اسباب اور سدباب کے رب پر اعتماد و انحصار کرو۔ وہی مشکلوں سے بچاتا ہے اور نافرمان ہو جائیں تو وہی آسانیاں چھین لینے والا ہے۔
ہمارے ہاں المیہ یہ ہے کہ جب بھی اس طرح کا کوئی عبرت انگیز اور بصیرت افروز واقعہ رونما ہوتا ہے۔ رب کی پکڑ کے باعث اپنے اعمال اور سرگرمیوں کا جائزہ لینے کا موقع مہیا ہوتا ہے۔ ہم لوگ دفاعی نظام کی خامیاں تلاش کرنے لگتے ہیں۔ ’’یہ کر لیتے، وہ کر لیتے تو بچ جاتے‘‘ حالانکہ ایسے مواقع پر اور آج جاپان کی موجودہ تباہی پر اس دنیا کو اور اس کی ہر طرح کی ٹیکنالوجی کو ہیچ سمجھتے ہوئے اللہ پر اور اس کی قوت پر ایمان لانے کے جذبات پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ بھی ذہن نشیں کرنے کی ضرورت ہے کہ اللہ تعالیٰ مہلت کی رسی دراز ضرور کر دیتا ہے مگر جب پکڑتا ہے تو اس کی گرفت بڑی سخت ہوتی ہے۔ آج جہاں جاپان سے اظہار ہمدردی اور اس کی مدد کی ضرورت ہے وہیں اہل جاپان تک خدا کا پیغام پہنچانے اور خود اپنی زندگیوں سے رب کی نافرمانیاں نکال پھینکنے کی بھی شدید ضرورت ہے۔ اس موقع پر رعایا اور حکومتوں کو اپنی اپنی اسلام و ایمان دشمن پالیسیوں پر نظرثانی کرنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی پکڑ اور عذاب سے بچائے رکھے آمین۔
بشکریہ۔۔۔۔ہفت روزہ جرار
والسلام،،،، علی اوڈ راجپوت
ali oadrajput
________________