باباجی
محفلین
جاں ہوا یوں ہوئی اس خال کا بوسہ لے کر
جیسے اڑ جائے دہن میں کوئی گٹکا لے کر
تیرا بیمار نہ سنبھلا جو سنبھالا لے کر
چپکے ہی بیٹھ رہے دم کو مسیحا لے کر
شرط ہمت نہیں مجرم ہو گرفتارِ عذاب
تونے کیا چھوڑا اگر چھوڑے گا بدلہ لے کر
ذبح کرنے کو مرے پوچھے کیا ہو تکبیر
تم چھری پھیر بھی دو نام خدا کا لے کر
کھینچتی روز قیامت سے بھی ہے آپ کو دُور
تیری زلفوں کی بلاؤں سے شبِ یلدا لے کر
مجھ سا مشتاقِ جمال ایک نہ پاؤگے کہیں
گرچہ ڈھونڈوگے چراغ رُخ زیبا لے کر
جبکہ دیکھا نہ ملا مجھ میں کہیں میرا پتا
پھر گیا نامہ برِ یار خط اُلٹا لے کر
رہ گیا اپنا سا منہ لے کر وہ آئینہ رو
تیری تصویر کو یوسف نے جو دیکھا لے کر
تیرے پرزے نہ کیئے خط کی طرح اے قاصد
شکر کے چھوڑدیا اس نے نوشتہ لے کر
میرے قدموں ہی میں رہ جائینگے کہاں
دشت میں میرے قدم آبلہ پا لے کر
واں سے یاں آئے تھے اے "ذوق" کیا لائے تھے
یاں سے تو جائیں گے ہم لاکھ تمنا لے کر