فاتح
لائبریرین
داغ دہلوی کی ایک غزل مستزاد
جب ان سے حالِ دلِ مبتلا کہا، تو کہا ۔ "بچائے تجھ سے خدا"
کچھ اور اس کے سوا مدعا کہا، تو کہا ۔ "ہماری جانے بلا"
کہا جو ان سے کہ ہو سر سے پاؤں تک بے عیب ۔ تو بولے وہ "لاریب"
دغا شعار و ستم آشنا کہا، تو کہا ۔ "ملے گی تجھ کو سزا"
غمِ فراق سنایا تو سن کے فرمایا ۔ "ہمیں نہ رحم آیا"
رقیب کا جو ذرا ماجرا کہا، تو کہا ۔ "یوں ہی سہی، تجھے کیا؟"
نہ دل دہی کا نہ عاشق کی جاں نوازی ہے ۔ "یہ بے نیازی ہے"
عذابِ پرسشِ روزِ جزا کہا، تو کہا ۔ "ہمیں نہیں پروا"
"خدا کے بندوں پر ایسا ستم روا نہ کرو ۔ "ذرا خدا سے ڈرو"
کسی غریب نے با التجا کہا، تو کہا ۔ "کسی کو کیوں چاہا"
شکایتِ طپشِ غم سے کیا ہو دل ٹھنڈا ۔ "اثر ہو جب الٹا"
تمہاری باتوں سے دل جل گیا کہا، تو کہا ۔ "جلانے میں ہے مزا"
عدو کا ذکر جو وہ چھیڑ سے نکالتے ہیں ۔ "وہ صاف ٹالتے ہیں"
یہ کیا طریق ہے اے بے وفا! کہا، تو کہا ۔ "تجھے تو ہے سودا"
پتے کی ان سے جو کوئی کہے قیامت ہے ۔ " کہ اس سے نفرت ہے"
حسیں کہا تو سنا، خود نما کہا، تو کہا ۔ بہت بگڑ کے "بجا"
شریر و شوخ ہے وہ داغؔ یہ تو ہے ظاہر ۔ "عبث ہوئے تر بھر"
کسی نے چھیڑ سے تم کو برا کہا تو کہا ۔ "کہ چھیڑ کا ہے مزا"
داغؔ دہلوی
محفل کے ان دوستوں کے لیے جو یہ سوچ رہے ہیں کہ یہ "مستزاد" کیا بلا ہے:
مستزاد کا لفظی مطلب ہے زائد یا بڑھایا ہوا۔
شاعری میں مستزاد ایک ایسی صنف ہے جس کے ہر شعر کے ہر مصرع کے بعد ایک ایسے ٹکڑے کا اضافہ کیا گیا ہو جو اس مصرع کے رکن اوّل اور رکن آخر کے برابر ہو۔ مثلاً اس غزل کی بحر "مفاعلن فعلاتن مفاعلن فعلن" ہے اور یوں اس کا پہلا رکن "مفاعلن" اور آخری رکن "فعلن" ہے۔ اس غزل کے مصرعوں کا وزن "مفاعلن فعلاتن مفاعلن فعلن" ہے جب کہ مستزاد ٹکڑے کا وزن "مفاعلن فعلن"۔
مستزاد ٹکڑے کی ایک خوبی یہ بھی ہوتی ہے کہ اگر اسے نکال دیا جائے تو شعر کے مفہوم میں کوئی خامی نہ پیدا ہو یا شعر ادھورا نہ لگے لیکن داغ نے اس مستزاد غزل میں یہ پابندی روا نہیں رکھی۔