فاتح بھائی بہت شکریہ اصلاح کا۔ میں انگریزی ادب کا طالب علم ہوں اور اردو میں میری معلومات محدود ہیں۔
رباعی اور مستزاد کے حوالے سے یہ معلومات میرے لیے واقعی نئی ہیں۔ واقعی ہم اب تک یہی سمجھتے رہے کہ آخری ارکان کی تکرار سے مستزاد نظم یا غزل بنتی ہے۔ اور ہمیں اب تک یہی بتایا بھی جاتا رہا۔ اگر ممکن ہو تو کسی رباعی کو ضرور شیئر کیجیئے تا کہ ہم اسے محفوظ کر سکیں۔ شکریہ
لیجیے صاحب۔۔۔ رباعی تو نہیں لیکن نظیر اکبر آبادی کی ایک مستزاد کے اشعار پیش خدمت ہیں:
یوں ہجر میں روتا ہو ں میں اس گل کے شب و روز
کر نالۂ فریاد
جیسے کہ کسی وقت
یوسف کے لیے روئی تھیں یعقوب کی آنکھیں
ہر شام و سحر کو
خوناب میں بھر بھر
خط میں نے جو بھیجا اسے با حسرت دیدار
لکھ خون جگر سے
اور داغ کی کر مہر
تکتی رہیں جا کر مرے مکتوب کی آنکھیں
اس رشک قمر کو
حسرت سے سراسر
اس مثال میں ملاحظہ فرما سکتے ہیں کہ مستزاد ٹکڑا بحر کے پہلے اور آخری رکن پر مشتمل ہے۔
مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن
مفعول فعولن