حسان خان
لائبریرین
جب اُدھر شہ نے کمانوں کو کڑکتے دیکھا
اپنی آغوش میں اصغر کو ہمکتے دیکھا
شہ نے اکبر کو صدا دی کہ اذاں دو اٹھ کر
کوکبِ صبح جو گردوں پہ چمکتے دیکھا
شور تھا فوج میں شبیر ہٹیں گے کیونکر
ان کے بچوں کو نہ میداں سے سرکتے دیکھا
شور تھا شاہ کی شیریں سخنی کا رن میں
پیاس میں خشک زباں کو نہ بہکتے دیکھا
شوق نے دی دلِ سرور کو تکاں سینے میں
فوجِ اعدا میں جو نیزوں کو لچکتے دیکھا
صرّۂ خاکِ شفا سونگھ کے جان آتی ہے
یوں گلِ باغِ جناں کو نہ مہکتے دیکھا
تھا غمِ اکبر و اصغر میں عجب حالِ حسین
دل کے پہلو میں کلیجے کو پھڑکتے دیکھا
اس قدر جور کیے تھک گئے اربابِ وفا
ظلم اٹھانے میں نہ شبیر کو تھکتے دیکھا
ہوئے گستاخ جو اعدا تو یہ غصہ آیا
کہ لہو شیروں کی آنکھوں سے ٹپکتے دیکھا
نامِ شبیر کسی کی جو زباں سے نکلا
تو برابر دلِ صغرا کو دھڑکتے دیکھا
سن کے بیعت کا سخن کہتے تھے مجروح حسین
ہم نے زخموں پہ نمک تم کو چھڑکتے دیکھا
تھا عجب پیاس سے بچوں کے دلوں کا عالم
یوں نہ مچھلی کو بھی خشکی میں پھڑکتے دیکھا
کون ایسا ہے جو اس موت سے مجبور نہیں
شوخ چشموں کو پلک بھی نہ جھپکتے دیکھا
شبِ عاشور ہوئی اور بھی بیمار کو فکر
گھونٹ پانی کا گلے میں جو اٹکتے دیکھا
رات بھر سوئے نہ معصوم جلے خیموں میں
خشک پتوں کو جو صحرا میں کھڑکتے دیکھا
شاہ کہتے تھے سب احباب ہمیں چھوڑ گئے
ناامیدی کو نہ پہلو سے سرکتے دیکھا
مہر سمجھا کہ سرک جا یہ اشارہ ہے مجھے
علمِ شاہ کا پنجہ جو لچکتے دیکھا
غمِ اکبر میں کبھی ماں کو نہ آیا آرام
دل میں کس وقت یہ نشتر نہ کھٹکتے دیکھا
ہیں وہ ہشیار جو پیتے ہیں مئے خمِ غدیر
کبھی ان بادہ کشوں کو نہ بہکتے دیکھا
حالِ شبیر پہ دریا کے نگہباں روئے
قبرِ بے شِیر پر آنسو جو چھڑکتے دیکھا
کفش برداریِ صاحب ہو تعشق کو نصیب
غل ہو یوں بخت کسی کا نہ چمکتے دیکھا
اپنی آغوش میں اصغر کو ہمکتے دیکھا
شہ نے اکبر کو صدا دی کہ اذاں دو اٹھ کر
کوکبِ صبح جو گردوں پہ چمکتے دیکھا
شور تھا فوج میں شبیر ہٹیں گے کیونکر
ان کے بچوں کو نہ میداں سے سرکتے دیکھا
شور تھا شاہ کی شیریں سخنی کا رن میں
پیاس میں خشک زباں کو نہ بہکتے دیکھا
شوق نے دی دلِ سرور کو تکاں سینے میں
فوجِ اعدا میں جو نیزوں کو لچکتے دیکھا
صرّۂ خاکِ شفا سونگھ کے جان آتی ہے
یوں گلِ باغِ جناں کو نہ مہکتے دیکھا
تھا غمِ اکبر و اصغر میں عجب حالِ حسین
دل کے پہلو میں کلیجے کو پھڑکتے دیکھا
اس قدر جور کیے تھک گئے اربابِ وفا
ظلم اٹھانے میں نہ شبیر کو تھکتے دیکھا
ہوئے گستاخ جو اعدا تو یہ غصہ آیا
کہ لہو شیروں کی آنکھوں سے ٹپکتے دیکھا
نامِ شبیر کسی کی جو زباں سے نکلا
تو برابر دلِ صغرا کو دھڑکتے دیکھا
سن کے بیعت کا سخن کہتے تھے مجروح حسین
ہم نے زخموں پہ نمک تم کو چھڑکتے دیکھا
تھا عجب پیاس سے بچوں کے دلوں کا عالم
یوں نہ مچھلی کو بھی خشکی میں پھڑکتے دیکھا
کون ایسا ہے جو اس موت سے مجبور نہیں
شوخ چشموں کو پلک بھی نہ جھپکتے دیکھا
شبِ عاشور ہوئی اور بھی بیمار کو فکر
گھونٹ پانی کا گلے میں جو اٹکتے دیکھا
رات بھر سوئے نہ معصوم جلے خیموں میں
خشک پتوں کو جو صحرا میں کھڑکتے دیکھا
شاہ کہتے تھے سب احباب ہمیں چھوڑ گئے
ناامیدی کو نہ پہلو سے سرکتے دیکھا
مہر سمجھا کہ سرک جا یہ اشارہ ہے مجھے
علمِ شاہ کا پنجہ جو لچکتے دیکھا
غمِ اکبر میں کبھی ماں کو نہ آیا آرام
دل میں کس وقت یہ نشتر نہ کھٹکتے دیکھا
ہیں وہ ہشیار جو پیتے ہیں مئے خمِ غدیر
کبھی ان بادہ کشوں کو نہ بہکتے دیکھا
حالِ شبیر پہ دریا کے نگہباں روئے
قبرِ بے شِیر پر آنسو جو چھڑکتے دیکھا
کفش برداریِ صاحب ہو تعشق کو نصیب
غل ہو یوں بخت کسی کا نہ چمکتے دیکھا
(تعشق لکھنوی)