الف نظامی
لائبریرین
سید قاسم محمود صاحب طرز ادیب تھے۔ سالہا سال تک متعدد اخبارات اور رسائل سے منسلک رہے اور فیض احمد فیض، سید عابد علی عابد اور دیگر بہت سے مشاہیر کے ساتھ کام کیا۔ انسائیکلوپیڈیا پاکستانیکا، انسائیکلوپیڈیا فلکیات اور انسائیکلوپیڈیا ایجادات تصنیف کیے۔ تشریح القرآن پانچ زبانوں عربی، انگریزی، اردو، ہندی اور گجرات میں کی۔ اس کے علاوہ متعدد کتب تصنیف اور تراجم کئے۔ یہ مضمون انہوں نے حلقہ ارباب ذوق کی ایک نشست میں پڑھا۔
جب میرے لیے حکم نامہ صادر ہوا کہ حضرت مجدد پیر مہر علی شاہؒ کو تحریری یا تقریری خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے حاضر ہو جاؤں تو ظاہر ہے کہ میں نے پانچ سات متعلقہ کتابیں یکجا کیں۔ مطالعے کو مجتمع کیا۔ خاص خاص واقعات و افکار کی نشاندہی کی۔ ان کے درمیان منطق کے جوڑ اور تفہیم کے پیوند بھی لگا لئے تو ذہن میں ایک مضمون مرتب ہو گیا۔
آج صبح اس مضمون کو قلمبند کرنے کا وقت آیا تو حسب معمول دست قدرت نے مصنف کے ہاتھ سے قلم چھین لیا اور اسے کتاب خانے سے نکال کر بڑی بے رحمی سے زندگی کے کنوئیں میں پھینک دیا‘ اور کہا کہ اب لکھ‘ اور خدا کو حاضر و ناظر جان کر لکھ۔کتاب زیست کے گھنے اوراق ایک ایک کر کے کھڑکھڑانے لگے۔
5 دسمبر 1957ء بروز جمعرات داتا دربار کی مسجد ‘ ظہر کاوقت‘ میں خواجہ غریب نوازؒ کے حجرۂ اعتکاف کے پاس سرنیہوڑائے‘ بیٹھا بیٹھا‘ دھوپ کے ساتھ ساتھ سرک رہا ہوں۔ مسجد کے سائے مقبرے کے دالان میں‘ ستونوں سے ٹکرا کر قدرے ترچھے ہو ئے ہیں۔ پہلوان صاحب حسب دستور نماز پڑھنے کے بعد میرے پاس آ کر بیٹھ گئے۔ پہلوان صاحب مسجد کے دیرینہ خادم ہیں۔ بوڑھے ہو گئے ہیں۔ لڑکپن میں یہان گجرات کے ایک گاؤں سے آئے تھے۔ ابا جی نے ان کو مجھ مجنوں کی خبر گیری پر مامور کر رکھا ہے۔
پہلوان صاحب نے اپنی مخصوص گھسی ہوئی آواز میں‘ مخصوص سرگوشی کے انداز میں میرے کان میں کہا: ’’آج تجھے دیکھنے پیر گولڑہ شریف آ رہے ہیں۔ عصر اور مغرب کے درمیان آئیں گے۔ شورش کاشمیری اخبار والا ان کے ہمراہ آئے گا۔ تیرا باوا بتا کے گیا ہے۔‘‘
پیروں‘ مرشدوں اور مشائخ کا وہاں آنا اور ایک گریجویٹ پاگل کو دیکھنا ایک معمول بن کر رہ گیا تھا۔ اس لیے‘ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے‘ میں نے اس خبر کا بھی کوئی خاص اثر نہ لیا اور گم سم‘ مست الست آلتی پالتی مارے بیٹھا رہا۔ لوگ کہتے ہیں کہ ان دنوں میرا دماغ چل گیا تھا۔ میں پاگل ہو گیا تھا۔
آٹھ ماہ قبل مئی میں اچانک میرا دماغ پٹڑی سے اتر گیا تھا۔ ’’اچانک‘‘ تو نہیں کہنا چاہیے‘ کیونکہ اس کے آثار میری پیدائش سے پہلے ہی قائم ہو چکے تھے۔ جنیٹک انجینئرنگ بتاتی ہے کہ میرے ڈی این اے میں تصوف کی لہک ماں کی طرف سے آئی۔ درویشی کی ترنگ باپ کی طرف سے۔ مزدوری کی عادت میراث نہیں‘ حالات اور ماحول کانتیجہ ہے۔ شروع ہی سے دل پر اثر بڑی بڑی‘ موٹی موٹی چیزوں کا نہیں پڑتا تھا۔ نازک‘ ہلکی‘ صاف ستھری‘ ننھی ننھی‘ شفاف آئینہ چیزیں اثر کرتی تھیں۔
بچپن میں جب میں پانچویں جماعت میں پڑھتا تھا تو اپنے سکول ٹیچر حافظ رشید احمد کے ہمراہ پانی پت‘ بو علی شاہ قلندرؒ کے مقبرے پر جانے کااتفاق ہوا۔ حافظ جی لوح مزار کے قریب آ نکھیں بند کر کے‘ ہاتھ باندھ کر چپ چاپ بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر کے بعد ان کا چہرہ متغیر ہو گیا اور ان کی بند آنکھوں سے ایک ‘ فقط ایک چمکدار ‘ ننھا سا آنسو نکلا‘ اور میرے قلب پر آن گرا۔ آج تک وہ آنسو گرا نہیں‘ اسے برابر پھیلتے ہوئے محسوس کر رہا ہوں۔
جوانی میں اٹھارہ ملازمتیں کیں۔ایک ملازمت ایسی ملی‘ جہاں تین چار علمائے کرام اپنے اپنے رنگ میں تصوف کے مارے ہوئے تھے۔ ڈاکٹر بشارت علی قریشی‘ جو ان دنوں سوشیالوجی آف قرآن پر کام کر رہے تھے۔ بعد میں جامعہ کراچی سے آن ملے۔ لطیف ملک ایم اے‘ جنہوں نے ہندوستان پاکستان کے بزرگان دین کے حالات و کوائف میں متعدد کتب تصنیف کیں۔ پروفیسر مشتاق بھٹی چشتی قادری جو اپنے ایم اے کے ساتھ ایم او ایل ضرور لکھنا پسند کرتے تھے۔
ان تینوں حضرات کا دل پسند موضوع تصوف تھا اور اس موضوع کا معمول ما بدولت۔ تینوں اپنے اپنے دعاوی کا چشم دیدگواہ مجھے بنانے کی کوشش کرتے تھے‘ اور نادیدہ چشم دید گواہی نے میرے اندر عملی جذبۂ شہادت کے جراثیم پیدا کر دیئے۔
اتفاق سے ان دنوں لاہور میں ایک ایم اے پاس‘ سوٹڈ بوٹڈ‘ ٹائی والا شخص بہت شہرت حاصل کر گیا تھا جو اپنے دفترآتے جاتے‘ اپنی نئی چمکیلی سائیکل پر سوار‘ سڑکوں پر دایاں ہاتھ لہرا لہرا کر‘ بلند آواز میں آیات قرآنی کا ورد کر کے لوگوں سے خود کو پاگل اور فاتر العقل کہلواتا تھا۔ اس کے متعلق مشہور تھا کہ چلہ الٹ گیا ہے۔ چلہ کیا ہوتا ہے؟ سیدھا پڑے تو کیا ہوتا ہے؟ الٹ جائے تو کیا ہوتا ہے؟ میرے اس عملی جذبے کے جراثیم کو غذا اس شخص نے فراہم کی۔
حصول رزق کے بعد فراغت کے اوقات میں یہ ٹیڑھے میڑھے سوالات لے کر بزرگان لاہور کی خدمت میں حاضری دیا کرتا ۔ مجھے بڑی آسانی سے نماز کی طرف لگا دیا گیا۔ میں بڑا زبردست پنج وقتہ نمازی بن گیا اور خود کو خوش کرنے کے لئے یہ مصرع گنگنایا کرتا ’’درجوانی توبہ کردن شیوۂ پیغمبر است‘‘ ہوتے ہوئے تخلیہ اختیار کیا۔ تخلیے میں عبادت کا لطف دو چند ہوا۔ بتایا گیا کہ اگر تم واقعی چلہ کھینچنا چاہتے ہو تو پہلے چالیس روز تک مسجد میں تہجد اد ا کرو۔ پھر گویا تم چلہ کشی کے لئے مبتدی اور امیدوار بن جاؤ گے۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ مئی میں، میں مسجد داتا دربار میںانتہائی خلوص‘ خشو وخضوع اور کامیابی سے تہجد گزاری کر رہا تھا۔ چالیسویں رات 27 رمضان المبارک کو پڑتی تھی‘ اور اس رات ٹھیک بارہ بجے 27 مئی‘ منگل کے دن کو شروع ہونا تھا۔ میں نے پہلی رات کا تعین اس حساب سے کیا تھا کہ چالیسویں رات 27 رمضان کو آ کر زیادہ بابرکت ثابت ہو۔
ان دنوں میں ہفت روزہ ’’لیل ونہار‘‘ کا نائب مدیر تھا۔ جناب فیض احمد فیض نے مجھے ایک ماہ پہلے سے ’’جنگ آزادی نمبر‘‘ کی ترتیب و تدوین پر مامور کر رکھا تھا۔ 1857ء کی جنگ آزادی کی یاد میں یہ خصوصی شمارہ 10 مئی کو صبح کو شائع کرنا مقصود تھا۔10 مئی جمعہ کو یہ شمارا دھوم دھام سے مارکیٹ میں آیا۔ مجھے سستانے کے لئے دو یوم کی چھٹی دی گئی کہ آگے چلیں گے دم لے کر۔ 13 مئی کو میں چوبیس گھنٹے کا استعفیٰ دے کر مسجد میں آ بیٹھا۔ سوچا یہ تھا کہ کیوں نہ ان بقیہ پندرہ راتوں کے ساتھ ساتھ پندرہ دن بھی ذرا قوت مدرکہ کی گہرائی اور قوت متخیلہ کی پہنائی میں گزاری جائیں‘ کہ نتیجہ زیادہ اچھے نمبروں کے ساتھ نکلے تو چلے کی امیدواری زیادہ پختہ اور مستحکم ہو جائے۔
27 رمضان المبارک کی شب مسجد میں پاکیزہ روحیں جشن منا رہی تھیں۔ فضائل کاو فور تھا۔ میں بھی روح کی جاں گسل کیفیتوں میں نہا رہا تھا۔ تجلیوں کی پھوار اپنے قلب پر براہ راست محسوس کر رہا تھا۔ جانے کیسے‘ کب ‘ کیونکر مجھ سے یہ واردات ظہور میں آئی کہ میں نے ایک ہی جھٹکے سے اپنا گریبان چاک کر لیا۔ دھاری دار قمیص تار تار کی‘ صحن مسجد میں اسے رواں رواں کیا اور سیڑھیاں اتر کر باہر نکل گیا۔
درویشوں کی لمبی قطار ختم کر کے جب میلارام کے کارخانے کے پاس پہنچا تو شلوار بھی اتار کر گندے نالے میں بہادی‘ اور یوں علائق دنیاوی سے کنارہ کش ہو کر اپنے جسم اور اپنی روح کو عریاں کر لیا۔ بے لباس ہوا تو جیسے گاؤں کا کتا اجنبی شہر میں آ کر دہشت زدہ ہو جاتا ہے‘ میں بھی دہشت زدہ ہو کر بھونکنے لگا۔ بہکنے بنکارنے لگا۔ بھائی گیٹ کا سدا بہار چوک‘ لوہاری دروازے کا پولیس زدہ چوک‘ انار کلی‘ نیلا گنبد‘ غرض رات بھر میں پاگلوں کی طرح چیختا رہا۔ جو میرے منہ میں آیا‘ اگلتا گیا‘ منہ سے باؤلے کتوں کی سی جھاگ نکلنے لگی۔
دو پہرہ دار سپاہیوں اور لوگوں نے الف ننگے لاوارث نوجوان لڑکے کو زبردستی پکڑا اور اسے قابو کر کے داتا دربار کی مسجد کے پچھواڑے ایک جھونپڑی میں چار پائی سے باندھ دیا۔ التہاب ذات کا مارا ہوا منہ زور سرکش گھوڑا بلبلاتا رہا۔ تاایں کہ بڑے مجاور حاجی غلام رسول وہ چیخیں سن کر وہاں پہنچے۔ انہوں نے مجھے شناخت کر لیا۔ فوراً گھر سے ابا جی کو بلوا بھیجا۔ ابا جی نے میری یہ حالت دیکھتے ہی فوراً ہتھیار ڈال دیئے۔ دس سال پہلے 1947ء میں اپنے قصبے کے چار ہزار شہیدوں کے گلے کٹوانے کے بعد ان میں اتنی قوت مزاحمت نہ رہی تھی کہ وہ اپنے چودہ افراد کے کنبے کے واحد کفیل کی ذہنی موت کا مقابلہ کر سکتے۔ وہ سجھ گئے کہ مجھ پر کسی کا سایہ ہے۔ انہوں نے اس سایے کے آگے ہاتھ جوڑ دیئے کہ آپ اس کے ساتھ جو چاہیں‘ سلوک کریں اسے کم از کم تہبند باندھنے دیں‘ تاکہ اس کی ماں بہنیں تو اسے دیکھنے آ جایا کریں۔ یہ ہماری عزت کا سوال ہے۔ ایک سے ایک بڑھ کر تہبند میرے لئے لائے گئے‘ میں نے سب پھینک دیئے‘ کھانے کے قاب اور ڈشیں آئیں‘ جن کو میں دیکھے بغیر وحشت سے سڑکوں پر پھینک دیتا۔
پہلا اتوار آیا تو وائی ایم سی اے میں حلقہ ارباب ذوق کے جوائنٹ سیکرٹری کی جستجو ہوئی کہ اس کے پاس ہفتہ وار کارروائی کا بھی رجسٹر تھا اور مجلس عاملہ کا بھی۔ سیکرٹری شہرت بخاری موٹر سائیکل پر بھاگے بھاگے گھر آئے۔ میرا بھائی محمد علی شہرت بخاری کو میرے پاس لے آیا۔ شہرت صاحب تو ہکا بکا رہ گئے۔ ایسا دانا بینا‘ شوخ و شنگ‘ قہقہہ بار آدمی پاگل کیسے ہو سکتا ہے۔
حلقے کے اجلاس کے فوراً بعد بیس پچیس ادیبوں کا کارواں میرے دیدار کو آیا۔ قیوم نظر‘ اعجاز حسین بٹالوی‘ ناصر کاظمی‘ انتظار حسین‘ انجم رومنی‘ امجد الطاف وغیرہ سب نے باری باری اپنے ننگے یار کو چھیڑا کہ بولے گا۔ لیکن واں ایک چپ سب کے جواب میں ۔ نہ مسکراہٹ‘ نہ تبسم‘ نہ لہجہ نہ ادا۔ ایک پتھر کا بت تھا جس سے وہ ہم کلام تھے۔
رائے ٹھہری کہ یہ ’’نفسیات جنوں‘‘ کا کیس ہے۔ چنانچہ ہمارے سابق باس ڈاکٹر ایم افضل (حال وزیر تعلیم) کے کہنے پر کرنل رفیع الزماں‘ جوایئر فورس میں ماہر نفسیات تھے‘ فاتحانہ ہمیں دیکھنے آئے اور مایوسانہ واپس چلے گئے۔ اپنا فیصلہ سنایا کہ مکمل فاتر العقل ہوا۔
کسی نے کہاکہ اس پر ملنگ سوار ہے۔ کسی نے کالا جادو ہے۔ کہا گیا کہ اس نے جس جگہ پر پیشاب کیا تھا‘ وہیں ایک بزرگ کی قبر تھی‘ ان کے زیر عتاب ہے‘ دیگ چڑھاؤ ‘ کسی نے کہا‘ جن کاسایہ ہے‘ کسی نے رائے دی‘ حضرت خضر کا سایہ ہے‘ چلہ الٹ گیا ہے‘ زیادہ پڑھنے لکھنے سے دماغ چل گیا ہے‘ جنسی خواہشات کا دباؤ ہے‘ معاشیات کا کھنچاؤ ہے۔ اعصاب کا تناؤ ہے۔ کوئی مخفی خواہش ہے جو رگ پٹھوں میں اتر گئی ہے۔ کالا جادو اتارنے والے آئے تھے‘ پیر آئے‘ لائے گئے‘ حکیم آئے‘ ڈاکٹر آئے‘ سات سات دالیں اکٹھی کر کے راوی کے کنارے جنتر منتر کئے گئے۔ سات سات کنوؤں کا پانی جمع کر کے اتار ا کیا گیا۔
میرے چھوٹے چھوٹے بھائی روز مجھے دیکھنے آتے اور چوری چوری دیکھ کر چلے جاتے۔ بہنیں آتیں‘ اور رو رو کر آنکھیں سرخ کر کے چلی جاتیں۔ اماں جی کی آنکھیں مستقل روتی رہتیں۔ ایک روز وہ آئیں اور میری انگلی سے منگنی کی انگوٹھی اتار کر لے گئیں۔ لڑکی والوں نے بڑی مشکل سے تو ’’ہاں‘‘ کی تھی کہ ادیب کو بیٹی کون دے۔ وہ ادیب ہی نہیں‘ پاگل بھی ہے۔
ہمارے سابق باس حکیم احمد شجاع آئے۔ ایک نظر بھر کر دیکھا اور ہمدردانہ آہیں بھرتے ہوئے چلے گئے۔
ہمارے مشفق استاد سید عابد علی عابد کئی مرتبہ آئے۔ ہر مرتبہ گالیوں سے نوازا کہ الو کے پٹھے کو لاکھ سمجھایا کہ اپنی بساط سے آگے نہ بڑھ۔ زمانۂ جاہلیت میں ٹی ایس ایلیٹ کا موازنہ شیخ سعدی سے کرے گا تو وہی کچھ ہونا چاہئے تھا جو ہوا۔
ہمارے سابق باس جسٹس ایس اے رحمن آئے اور ہائے کس ادا سے آئے کہ اپنے ہمراہ ایک ڈاکٹر بھی لائے۔ وہ اگر چیف جسٹس تھے تو ہم بھی شہنشاہ تھے اور ان کو فقیر سے زیادہ کا درجہ دینے کے لئے تیار نہ تھے۔ ان کو دیکھا تو ہم نے شان بے نیازی سے منہ پھیر لیا۔ وہ اپنا سامنہ لے کر چلے گئے۔
مولانا حامد علی خاں اور مولانا غلام رسول مہر دونوں لمبی کار میں اکٹھے آئے۔ دیکھا اور آپس میں کچھ باتیں کرتے ہوئے چلے گئے۔
حلقہ ارباب ذوق والوں نے اخباروں میں خبر دے دی تھی کہ ابھرتا ہوا ادیب سید قاسم محمود ایک ناقابل فہم صدمے کا شکار ہو کر پاگل ہو گیا اور اب وہ داتا دربار کے باہر فقیروں میں عریاں بیٹھا ہے۔
اخباری نمائندے آئے۔ میری تصویریں اتاری گئیں۔ طرح طرح کی خبریں بننے لگیں۔
آغا شورش کاشمری کیوں نہ آتے۔ ان کے ’’چٹان‘‘ کو مستقل ہفتہ وار ادبی سرگرمیوں کا کالم نہ ملا تو انہیں کالم نویس کی جستجو ہوئی۔ معلوم ہوا۔ آغا جی کو یقین نہ آیا۔ دوڑے دوڑے میرے پاس پہنچے۔ کچھ اندازہ کیا۔ کچھ تو لا‘ شام کو پھر آئے۔ پانچ چھ مشٹنڈے ان کے ہمراہ تھے۔ ان کی سکیم یہ تھی کہ مجھے ایک دفعہ اس بیمار ماحول سے نکال کر کہیں اچھے‘ صحت مند ماحول میں لے جائیں اور علاج کرایا جائے تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ آغا صاحب کی پرجوش قیادت میں مجھے ڈنڈا ڈولی کر کے قریب ایک تانگے کی طرف لے جایا جانے لگا‘ لیکن میرے اندر کے ملنگ یا جن نے ان سب کی وہ مرمت کی کہ وہ اپنے منصوبے میں کامیاب نہ ہو سکے۔
کرنا خدا کا کیا ہوا کہ رفتہ رفتہ میں از خود ترقی یا تنزلی کی منزلیں طے کرنے لگا۔ کوئی ایک ماہ بعد ایک روز خود بخود لباس کی خواہش ہوئی۔ میں نے ابا جی سے اشارے سے کہا کہ تہبند چاہئے۔ اس بیماری کی خاص بات یہ تھی کہ میں بول نہیں سکتا تھا۔ میرے ہونٹ آپس میں سل گئے تھے۔ تہبند باندھ کر میں جھونپڑی سے نکلا اور فقیروں کے ساتھ ان کی قطار میں جا بیٹھا۔ ایک سینئر فقیر نے غصے سے گھورا۔ خیر یہ ہوئی کہ میں غرایا نہیں‘ چپ رہا۔ اس لئے صلح ہو گئی۔ دوسرے روز اسی فقیر نے اپنے بھنڈارے کے حصے میں سے مجھے مٹھی بھر چاول دینے چاہے۔ میں نے انکار کر دیا‘ کیونکہ مجھے کھانے کی طلب ہی نہ تھی۔
کافی دن کے بعد مجھ میں کھانے کی خواہش پیدا ہوئی۔ لوگ چٹکی چٹکی لنگر بانٹنے آتے۔ اس روز میں نے بھی ہاتھ پھیلا دیا۔ ایک کلچہ‘ اوپر چنے کی دال‘ میں نے آدھا کھا کر باقی کتوں کے آگے پھینک دیا جو ہم فقیروں کے گرد یوں منڈلاتے رہتے تھے جیسے ہم داتا کے گرد منڈلاتے رہتے تھے۔ ایک دن میں نے ابا جی سے اشارے سے کہا کہ میرے لئے کرتا لاؤ۔ کرتا آ گیا۔ پھر میں نے سر پر ہاتھ رکھ کر ٹوپی مانگی‘ جالی دار ٹوپی آ گئی۔ اب بھی میں فقیروں کی قطار ہی میں رہا۔
یا تو میں ہر وقت آلتی پالتی مارے بیٹھا رہتا تھا جیسے ٹانگیں آپس میں جڑ گئی ہوں‘ یا ایک روز خود بخود وہاں سے ا ٹھا اور مسجد میں جا کر وضو کرنے لگا۔ وضو کر کے داتا کے مزار کی جالی پکڑ کر خاموش گم سم گھڑا ہو گیا۔ آج یوں لگتا ہے کہ میں وہاں کئی برس تک یونہی کھڑا رہا۔
پھر میں پانچوں وقت کی باجماعت نمازوں میں شریک ہونے لگا۔ ساری رات صحن مسجد میں کھڑا عبادت کرتا رہتا ۔ البتہ دن کے وقت خواجہ غریب نواز ؒ کے حجرۂ اعتکاف کے پاس سرنیہوڑائے بیٹھا رہتا۔ جب سے سردیاں آئی تھیں‘ دھوپ کے ساتھ ساتھ سرکتا رہتا۔
عصر کی نماز کے بعد آغا شورش کاشمیری میرے پاس آئے۔ ان کے پیچھے پیچھے پیر گولڑہ شریفؒ تھے اور ان کے چند مرید اور ہمارے پہلوان صاحب۔ آغا صاحب نے پیر صاحبؒ سے کہا: ’’یہ ہے ہمارا وہ دوست سیدزادہ ہے۔ انتہائی ذہین اور شریف ہے۔ اچھا لکھنے والاہے۔ اسے دیکھئے کیا ہو گیا ہے۔‘‘
پیر صاحب نے یہ نہیں چاہا کہ مجھے کھڑا کیا جائے۔ وہ خود ہی میرے پاس آ کر بیٹھ گئے۔ ان کی پیروی میں ان کے مرید بھی‘ آغا صاحب بھی‘ اور پہلوان صاحب بھی بیٹھ گئے۔ پیر صاحبؒ نے میری طرف غور سے دیکھا۔ پھر دیکھا۔ میری آنکھوں میںد ور تک جھانکا۔ آغا جی سے فرمایا: ’’رہنے دیجئے یہیں۔ آپ کا کیا جاتا ہے۔ یہاں رہے گا تو کچھ حاصل کر لے گا۔‘‘
آغا شورش نے کہا: ’’نہیں جی‘ بھرا پرا کنبہ اس کے سر پر ہے‘ تباہ ہو جائے گا۔ اس کی خلاصی کرائیں۔‘‘
پیر صاحبؒ نے فرمایا: ’’اچھا آج رات بات کروں گا۔‘‘ یہ گویا واضح اشارہ تھا‘ داتا گنج بخشؒ کی طرف۔
اس رات‘ کوئی دو بجے ہوں گے۔ چاند پوری آب و تاب کے ساتھ دمک رہا تھا اور میں شدید سردی کے باوجود محض ایک کرتے میں‘ عین صحن مسجد کے وسط میں کھڑا محو عبادت تھا۔ اچانک مجھے کیا ہوا کہ میں مسجد میں گر گیا۔ پھر میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ خود بخود میری آواز کھل گئی۔ گڑگڑا کر دعا مانگنے لگا۔ اچانک میرے کانوں سے شائیں شائیں کی آوازیں آنے لگیں‘ جیسے کسی نے ان پر ڈاٹ لگا رکھی تھی‘ اور وہ ڈاٹ ہٹا دی گئی ہے۔ میں مسجد سے اٹھا اور دیوانہ وار اپنے گھر کی طرف دوڑا۔ زور زور سے دستک دی۔ اوپر والی منزل کی کھڑکی سے ابا جی نے پوچھا: ’’کون ہے؟‘‘
’’میں آ گیا ہوں‘‘ یہ پہلے بول تھے جو میری زبان سے آٹھ ماہ میں پہلی مرتبہ ادا ہوئے تھے۔
والدہ محترمہ‘ چاروں بھائی‘ تینوں بہنیں جاگ گئے۔ ان کی آنکھوں میں خوشی کے قمقمے یوں جگمگا رہے تھے کہ میں رب غفور کے حضور دست بدعا ہوں کہ ہر شخص کو یہ منظر عطا کرے۔
میں نے غسل کیا۔ کپڑے پہنے‘ نارمل آدمیوں کی طرح داتا صاحبؒ کی مسجد میں فجر کی نماز ادا کی‘ ناشتے میں دس بیس پراٹھے ہڑپ کر گیا‘ صدیوں کا بھوکا تھا۔ پھر ان گٹھڑیوں کو کھولا جن میں میری کتابیں‘ مجھے مردہ سمجھ کر‘ باندھ دی گئی تھیں۔ اپنا کام شروع کر دیا‘ اور الحمدللہ آج تک کر رہا ہوں۔
صدر محترم! 5 دسمبر 1957ء سے آج 1984ء تک‘ ستائیس برس ہو رہے ہیں‘ کوئی دن ایسا نہیں گیا جب میں نے گولڑہ شریف جانے کی آروز دل میں محسوس نہ کی ہو۔ کتابی آرزو نہیں ‘ قلبی آرزو لیکن اس آرزو کے ساتھ شک کا سانپ بھی پھنکارتا ہوا نظر آتا ہے۔ کیا انہوں نے مجھ پر احسان کیا کہ پاگل پن سے نجات دلا کر دینا میں نارمل انسانوں کے ساتھ زندگی بسر کرنے کے لئے بھیج دیا؟ یا کیا انہوں نے مجھ پر یہ ظلم کیا کہ ایک بہشتی ماحول سے نکا ل کر پاگل خانے میں بھجوا دیا؟ پاگل خانہ وہ تھا کہ یہ ‘ جہاں اب میں رہ رہا ہوں۔
وہاں میرے دماغ کی گراریاں پوری رفتار سے گھومنے لگی تھیں۔ تنو مند خیالات کی ولادت کی رفتاراپنے جو بن پر تھی۔ قلب شفاف اور منزا رہنے لگا تھا۔ میرا حسی‘ قلبی اورنفسی نظام باہم مربوط اور ہم آہنگ ہو کر ایک مکمل وحدت بن گیا تھا۔ وہاں یوں لگتا تھا جیسے پوری کی پوری کائنات میرے وجود کے اندر سمائی ہوئی ہے‘ اور میں‘ فقط میں ہوں اور اگر میرے باہر کوئی وجود رکھتا ہے تو وہ واحد ذات مطلق‘ جس کے آگے سربہ سجود ہونے میں عجب سرشاری تھی۔ من وتو کے سوا دل میں کسی اور کاچراغ نہ جلتا تھا۔ میرا یہ خاکی‘ آنی فانی جسم‘ لطیف و نفیس روح کے جھولے میں ہلکا پھلکا سا‘ فضا میں تیرتا رہتا تھا۔
یہاں یوں لگتا ہے کہ جیسے ہر نئے قدم پر ایک نئے خدا کا سامنا ہے جس کے آگے سربہ سجود ہونا از روئے قانون و رواج ضروری ہو۔ معمولی علیک سلیک اور روزمرہ کی بول چال کے لئے بھی پہلے منافقت کے احساس سے گزرنا پڑتا ہے۔ ہر سانس جو میرے اندر جاتا ہے اور میرے پھیپھڑوں سے باہر آتا ہے‘ سراسر آلودہ ہے‘ میں فضائی آلودگی کی بات نہیں کر رہا۔ میں روحانی کثافت کی بات کر رہا ہوں۔ اپنے تنفس کو تو میں لمبے لمبے سانس لے کر ٹھیک کر لیتا ہوں۔ نفس میں جو روزانہ غلاظت اردگرد کے ماحول سے پیدا ہو رہی ہے‘ اس کے اخراج کا کوئی نظام برسرعمل نہیں ہے۔ ڈاکٹر لوگ طر ح طرح کے نت نئے آلات سے دل کا ای سی جی وغیرہ کر لیتے ہیں۔ سوچتا ہوں کہ قلب کا ای سی جی کون کرے گا۔
وہاں میں خلاء میں معلق رہنے کے باوجود بھرا بھرا سا تھا۔
یہاں بھری پری دنیا میں رہنے کے باوجود میں کھوکھلا سا ہوں۔
وہاں زبان بندھی تھی‘ لیکن ذہن و ضمیر جاگا ہوا تھا اور ہر چیز کا ہوش تھا۔
یہاں زبان کھلی ہے‘ لیکن قلب و ضمیر سویا ہوا ہے اور کسی چیز کا ہوش نہیں۔
وہاں تمام علائق کی زنجیریں توڑ کر بیٹھنے کے باوجود دل سے محبت کا طوفان اٹھتا رہتا تھا۔
یہاں تمام علائق سے رشے استوار رہنے کے باوجود دل میں حقارت و نفرت کے بگولے اٹھتے رہتے ہیں۔
وہاں کا حرف آغاز یہ تھا کہ آؤ محبت کریں۔
یہاں کا حرف آغاز یہ ہے کہ آؤ نفرت نہ کریں۔
سوچتا رہتا ہوں کہ گولڑہ شریف پہنچ بھی جاؤں تو وہاں کہوں گا کیا؟ ممنونیت سے شکریہ ادا کروں گا یا شکوے کرنے بیٹھ جاؤں گا؟
یہ کیسے دریافت کروں گا کہ وہ لمحہ مجھ پر کیوں آیا جب میں نے اپنا گریباں چک کیا تھا اور قمیص تار تار کی تھی؟ وہ کسی لغزش کی سزا تھی یا کسی حرکت کا انعام تھا؟ مجھ پر کسی جن کا سایہ تھا یا کسی ملنگ کا قبضہ تھا؟ میرا دماغ خراب ہو گیا تھا یا عتاب نازل ہوا تھا؟ کیوں‘ مگر کیوں؟ اور وہ ایک دم سجدے سے ا ٹھ کر پھر دنیا کی طرف بھاگ آنا کسی قصور کی پاداش تھی یا کسی امتحان کا نتیجہ تھا؟ اور ایک دفعہ وہاں پہنچ گیا تو پھر سائنس کا پتلا اور ٹیکنالوجی کاپرزہ بن کر یہ بھی معلوم کروں گا کہ اہل قبول سے باتیں کیونکر ہوتی ہیں۔
صدر محترم! میں بہت الجھا ہوا‘ گم شدہ آدمی ہوں‘ نہیں جانتا کہ ’’پانا‘‘ کسے کہتے ہیں۔ مخالف سمتوں سے آنے والے متلاطم‘ ژولیدہ‘ بپھرے ہوئے سوالات نے مجھے جیتے جی مار رکھا ہے۔ یہ طے شدہ بات ہے کہ ایک نہ ایک دن میں انشاء اللہ ضرور گولڑہ شریف حاضری دینے جاؤں گا‘ لیکن وہاں میں اپنی قلبی کثافت‘ روحانی غلاظت اور نفسی الجھاؤ کے ساتھ نہیں جانا چاہتا‘ جو ان ستائیس برسوں میں بہت بڑھ گئی ہے۔ جب میں د اتا صاحبؒ گیاتھا تو میں معصوم تھا۔ معصومیت میں میرے ساتھ یہ سلوک ہوا کہ اب نہ جانے کیسا سلوک ہو۔ ڈرتا ہوں‘ خوف آتا ہے۔
شاید کوئی ہو جو میرا خوف دور کرے‘ میری الجھنیں سلجھائے‘ مجھے راستہ دکھائے۔ میری رہنمائی کرے‘ ورنہ اپنے اپنے جہنم میں ہر کوئی جھلس رہا ہے۔ میں بھی جھلس رہا ہوں۔ اسی باطنی الاؤ ہی سے تو ایک چوٹ کھائی ہوئی‘ بلبلائی ہوئی فریاد نے عرش عظیم کو ہلا دیا تھا۔
کتھے مہر علی‘ کتھے تیری ثنا
گستاخ اکھیاں‘ کتھے جا لڑیاں
(17نومبر 1984ء کو لکھا گیا)
جب میرے لیے حکم نامہ صادر ہوا کہ حضرت مجدد پیر مہر علی شاہؒ کو تحریری یا تقریری خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے حاضر ہو جاؤں تو ظاہر ہے کہ میں نے پانچ سات متعلقہ کتابیں یکجا کیں۔ مطالعے کو مجتمع کیا۔ خاص خاص واقعات و افکار کی نشاندہی کی۔ ان کے درمیان منطق کے جوڑ اور تفہیم کے پیوند بھی لگا لئے تو ذہن میں ایک مضمون مرتب ہو گیا۔
آج صبح اس مضمون کو قلمبند کرنے کا وقت آیا تو حسب معمول دست قدرت نے مصنف کے ہاتھ سے قلم چھین لیا اور اسے کتاب خانے سے نکال کر بڑی بے رحمی سے زندگی کے کنوئیں میں پھینک دیا‘ اور کہا کہ اب لکھ‘ اور خدا کو حاضر و ناظر جان کر لکھ۔کتاب زیست کے گھنے اوراق ایک ایک کر کے کھڑکھڑانے لگے۔
5 دسمبر 1957ء بروز جمعرات داتا دربار کی مسجد ‘ ظہر کاوقت‘ میں خواجہ غریب نوازؒ کے حجرۂ اعتکاف کے پاس سرنیہوڑائے‘ بیٹھا بیٹھا‘ دھوپ کے ساتھ ساتھ سرک رہا ہوں۔ مسجد کے سائے مقبرے کے دالان میں‘ ستونوں سے ٹکرا کر قدرے ترچھے ہو ئے ہیں۔ پہلوان صاحب حسب دستور نماز پڑھنے کے بعد میرے پاس آ کر بیٹھ گئے۔ پہلوان صاحب مسجد کے دیرینہ خادم ہیں۔ بوڑھے ہو گئے ہیں۔ لڑکپن میں یہان گجرات کے ایک گاؤں سے آئے تھے۔ ابا جی نے ان کو مجھ مجنوں کی خبر گیری پر مامور کر رکھا ہے۔
پہلوان صاحب نے اپنی مخصوص گھسی ہوئی آواز میں‘ مخصوص سرگوشی کے انداز میں میرے کان میں کہا: ’’آج تجھے دیکھنے پیر گولڑہ شریف آ رہے ہیں۔ عصر اور مغرب کے درمیان آئیں گے۔ شورش کاشمیری اخبار والا ان کے ہمراہ آئے گا۔ تیرا باوا بتا کے گیا ہے۔‘‘
پیروں‘ مرشدوں اور مشائخ کا وہاں آنا اور ایک گریجویٹ پاگل کو دیکھنا ایک معمول بن کر رہ گیا تھا۔ اس لیے‘ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے‘ میں نے اس خبر کا بھی کوئی خاص اثر نہ لیا اور گم سم‘ مست الست آلتی پالتی مارے بیٹھا رہا۔ لوگ کہتے ہیں کہ ان دنوں میرا دماغ چل گیا تھا۔ میں پاگل ہو گیا تھا۔
آٹھ ماہ قبل مئی میں اچانک میرا دماغ پٹڑی سے اتر گیا تھا۔ ’’اچانک‘‘ تو نہیں کہنا چاہیے‘ کیونکہ اس کے آثار میری پیدائش سے پہلے ہی قائم ہو چکے تھے۔ جنیٹک انجینئرنگ بتاتی ہے کہ میرے ڈی این اے میں تصوف کی لہک ماں کی طرف سے آئی۔ درویشی کی ترنگ باپ کی طرف سے۔ مزدوری کی عادت میراث نہیں‘ حالات اور ماحول کانتیجہ ہے۔ شروع ہی سے دل پر اثر بڑی بڑی‘ موٹی موٹی چیزوں کا نہیں پڑتا تھا۔ نازک‘ ہلکی‘ صاف ستھری‘ ننھی ننھی‘ شفاف آئینہ چیزیں اثر کرتی تھیں۔
بچپن میں جب میں پانچویں جماعت میں پڑھتا تھا تو اپنے سکول ٹیچر حافظ رشید احمد کے ہمراہ پانی پت‘ بو علی شاہ قلندرؒ کے مقبرے پر جانے کااتفاق ہوا۔ حافظ جی لوح مزار کے قریب آ نکھیں بند کر کے‘ ہاتھ باندھ کر چپ چاپ بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر کے بعد ان کا چہرہ متغیر ہو گیا اور ان کی بند آنکھوں سے ایک ‘ فقط ایک چمکدار ‘ ننھا سا آنسو نکلا‘ اور میرے قلب پر آن گرا۔ آج تک وہ آنسو گرا نہیں‘ اسے برابر پھیلتے ہوئے محسوس کر رہا ہوں۔
جوانی میں اٹھارہ ملازمتیں کیں۔ایک ملازمت ایسی ملی‘ جہاں تین چار علمائے کرام اپنے اپنے رنگ میں تصوف کے مارے ہوئے تھے۔ ڈاکٹر بشارت علی قریشی‘ جو ان دنوں سوشیالوجی آف قرآن پر کام کر رہے تھے۔ بعد میں جامعہ کراچی سے آن ملے۔ لطیف ملک ایم اے‘ جنہوں نے ہندوستان پاکستان کے بزرگان دین کے حالات و کوائف میں متعدد کتب تصنیف کیں۔ پروفیسر مشتاق بھٹی چشتی قادری جو اپنے ایم اے کے ساتھ ایم او ایل ضرور لکھنا پسند کرتے تھے۔
ان تینوں حضرات کا دل پسند موضوع تصوف تھا اور اس موضوع کا معمول ما بدولت۔ تینوں اپنے اپنے دعاوی کا چشم دیدگواہ مجھے بنانے کی کوشش کرتے تھے‘ اور نادیدہ چشم دید گواہی نے میرے اندر عملی جذبۂ شہادت کے جراثیم پیدا کر دیئے۔
اتفاق سے ان دنوں لاہور میں ایک ایم اے پاس‘ سوٹڈ بوٹڈ‘ ٹائی والا شخص بہت شہرت حاصل کر گیا تھا جو اپنے دفترآتے جاتے‘ اپنی نئی چمکیلی سائیکل پر سوار‘ سڑکوں پر دایاں ہاتھ لہرا لہرا کر‘ بلند آواز میں آیات قرآنی کا ورد کر کے لوگوں سے خود کو پاگل اور فاتر العقل کہلواتا تھا۔ اس کے متعلق مشہور تھا کہ چلہ الٹ گیا ہے۔ چلہ کیا ہوتا ہے؟ سیدھا پڑے تو کیا ہوتا ہے؟ الٹ جائے تو کیا ہوتا ہے؟ میرے اس عملی جذبے کے جراثیم کو غذا اس شخص نے فراہم کی۔
حصول رزق کے بعد فراغت کے اوقات میں یہ ٹیڑھے میڑھے سوالات لے کر بزرگان لاہور کی خدمت میں حاضری دیا کرتا ۔ مجھے بڑی آسانی سے نماز کی طرف لگا دیا گیا۔ میں بڑا زبردست پنج وقتہ نمازی بن گیا اور خود کو خوش کرنے کے لئے یہ مصرع گنگنایا کرتا ’’درجوانی توبہ کردن شیوۂ پیغمبر است‘‘ ہوتے ہوئے تخلیہ اختیار کیا۔ تخلیے میں عبادت کا لطف دو چند ہوا۔ بتایا گیا کہ اگر تم واقعی چلہ کھینچنا چاہتے ہو تو پہلے چالیس روز تک مسجد میں تہجد اد ا کرو۔ پھر گویا تم چلہ کشی کے لئے مبتدی اور امیدوار بن جاؤ گے۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ مئی میں، میں مسجد داتا دربار میںانتہائی خلوص‘ خشو وخضوع اور کامیابی سے تہجد گزاری کر رہا تھا۔ چالیسویں رات 27 رمضان المبارک کو پڑتی تھی‘ اور اس رات ٹھیک بارہ بجے 27 مئی‘ منگل کے دن کو شروع ہونا تھا۔ میں نے پہلی رات کا تعین اس حساب سے کیا تھا کہ چالیسویں رات 27 رمضان کو آ کر زیادہ بابرکت ثابت ہو۔
ان دنوں میں ہفت روزہ ’’لیل ونہار‘‘ کا نائب مدیر تھا۔ جناب فیض احمد فیض نے مجھے ایک ماہ پہلے سے ’’جنگ آزادی نمبر‘‘ کی ترتیب و تدوین پر مامور کر رکھا تھا۔ 1857ء کی جنگ آزادی کی یاد میں یہ خصوصی شمارہ 10 مئی کو صبح کو شائع کرنا مقصود تھا۔10 مئی جمعہ کو یہ شمارا دھوم دھام سے مارکیٹ میں آیا۔ مجھے سستانے کے لئے دو یوم کی چھٹی دی گئی کہ آگے چلیں گے دم لے کر۔ 13 مئی کو میں چوبیس گھنٹے کا استعفیٰ دے کر مسجد میں آ بیٹھا۔ سوچا یہ تھا کہ کیوں نہ ان بقیہ پندرہ راتوں کے ساتھ ساتھ پندرہ دن بھی ذرا قوت مدرکہ کی گہرائی اور قوت متخیلہ کی پہنائی میں گزاری جائیں‘ کہ نتیجہ زیادہ اچھے نمبروں کے ساتھ نکلے تو چلے کی امیدواری زیادہ پختہ اور مستحکم ہو جائے۔
27 رمضان المبارک کی شب مسجد میں پاکیزہ روحیں جشن منا رہی تھیں۔ فضائل کاو فور تھا۔ میں بھی روح کی جاں گسل کیفیتوں میں نہا رہا تھا۔ تجلیوں کی پھوار اپنے قلب پر براہ راست محسوس کر رہا تھا۔ جانے کیسے‘ کب ‘ کیونکر مجھ سے یہ واردات ظہور میں آئی کہ میں نے ایک ہی جھٹکے سے اپنا گریبان چاک کر لیا۔ دھاری دار قمیص تار تار کی‘ صحن مسجد میں اسے رواں رواں کیا اور سیڑھیاں اتر کر باہر نکل گیا۔
درویشوں کی لمبی قطار ختم کر کے جب میلارام کے کارخانے کے پاس پہنچا تو شلوار بھی اتار کر گندے نالے میں بہادی‘ اور یوں علائق دنیاوی سے کنارہ کش ہو کر اپنے جسم اور اپنی روح کو عریاں کر لیا۔ بے لباس ہوا تو جیسے گاؤں کا کتا اجنبی شہر میں آ کر دہشت زدہ ہو جاتا ہے‘ میں بھی دہشت زدہ ہو کر بھونکنے لگا۔ بہکنے بنکارنے لگا۔ بھائی گیٹ کا سدا بہار چوک‘ لوہاری دروازے کا پولیس زدہ چوک‘ انار کلی‘ نیلا گنبد‘ غرض رات بھر میں پاگلوں کی طرح چیختا رہا۔ جو میرے منہ میں آیا‘ اگلتا گیا‘ منہ سے باؤلے کتوں کی سی جھاگ نکلنے لگی۔
دو پہرہ دار سپاہیوں اور لوگوں نے الف ننگے لاوارث نوجوان لڑکے کو زبردستی پکڑا اور اسے قابو کر کے داتا دربار کی مسجد کے پچھواڑے ایک جھونپڑی میں چار پائی سے باندھ دیا۔ التہاب ذات کا مارا ہوا منہ زور سرکش گھوڑا بلبلاتا رہا۔ تاایں کہ بڑے مجاور حاجی غلام رسول وہ چیخیں سن کر وہاں پہنچے۔ انہوں نے مجھے شناخت کر لیا۔ فوراً گھر سے ابا جی کو بلوا بھیجا۔ ابا جی نے میری یہ حالت دیکھتے ہی فوراً ہتھیار ڈال دیئے۔ دس سال پہلے 1947ء میں اپنے قصبے کے چار ہزار شہیدوں کے گلے کٹوانے کے بعد ان میں اتنی قوت مزاحمت نہ رہی تھی کہ وہ اپنے چودہ افراد کے کنبے کے واحد کفیل کی ذہنی موت کا مقابلہ کر سکتے۔ وہ سجھ گئے کہ مجھ پر کسی کا سایہ ہے۔ انہوں نے اس سایے کے آگے ہاتھ جوڑ دیئے کہ آپ اس کے ساتھ جو چاہیں‘ سلوک کریں اسے کم از کم تہبند باندھنے دیں‘ تاکہ اس کی ماں بہنیں تو اسے دیکھنے آ جایا کریں۔ یہ ہماری عزت کا سوال ہے۔ ایک سے ایک بڑھ کر تہبند میرے لئے لائے گئے‘ میں نے سب پھینک دیئے‘ کھانے کے قاب اور ڈشیں آئیں‘ جن کو میں دیکھے بغیر وحشت سے سڑکوں پر پھینک دیتا۔
پہلا اتوار آیا تو وائی ایم سی اے میں حلقہ ارباب ذوق کے جوائنٹ سیکرٹری کی جستجو ہوئی کہ اس کے پاس ہفتہ وار کارروائی کا بھی رجسٹر تھا اور مجلس عاملہ کا بھی۔ سیکرٹری شہرت بخاری موٹر سائیکل پر بھاگے بھاگے گھر آئے۔ میرا بھائی محمد علی شہرت بخاری کو میرے پاس لے آیا۔ شہرت صاحب تو ہکا بکا رہ گئے۔ ایسا دانا بینا‘ شوخ و شنگ‘ قہقہہ بار آدمی پاگل کیسے ہو سکتا ہے۔
حلقے کے اجلاس کے فوراً بعد بیس پچیس ادیبوں کا کارواں میرے دیدار کو آیا۔ قیوم نظر‘ اعجاز حسین بٹالوی‘ ناصر کاظمی‘ انتظار حسین‘ انجم رومنی‘ امجد الطاف وغیرہ سب نے باری باری اپنے ننگے یار کو چھیڑا کہ بولے گا۔ لیکن واں ایک چپ سب کے جواب میں ۔ نہ مسکراہٹ‘ نہ تبسم‘ نہ لہجہ نہ ادا۔ ایک پتھر کا بت تھا جس سے وہ ہم کلام تھے۔
رائے ٹھہری کہ یہ ’’نفسیات جنوں‘‘ کا کیس ہے۔ چنانچہ ہمارے سابق باس ڈاکٹر ایم افضل (حال وزیر تعلیم) کے کہنے پر کرنل رفیع الزماں‘ جوایئر فورس میں ماہر نفسیات تھے‘ فاتحانہ ہمیں دیکھنے آئے اور مایوسانہ واپس چلے گئے۔ اپنا فیصلہ سنایا کہ مکمل فاتر العقل ہوا۔
کسی نے کہاکہ اس پر ملنگ سوار ہے۔ کسی نے کالا جادو ہے۔ کہا گیا کہ اس نے جس جگہ پر پیشاب کیا تھا‘ وہیں ایک بزرگ کی قبر تھی‘ ان کے زیر عتاب ہے‘ دیگ چڑھاؤ ‘ کسی نے کہا‘ جن کاسایہ ہے‘ کسی نے رائے دی‘ حضرت خضر کا سایہ ہے‘ چلہ الٹ گیا ہے‘ زیادہ پڑھنے لکھنے سے دماغ چل گیا ہے‘ جنسی خواہشات کا دباؤ ہے‘ معاشیات کا کھنچاؤ ہے۔ اعصاب کا تناؤ ہے۔ کوئی مخفی خواہش ہے جو رگ پٹھوں میں اتر گئی ہے۔ کالا جادو اتارنے والے آئے تھے‘ پیر آئے‘ لائے گئے‘ حکیم آئے‘ ڈاکٹر آئے‘ سات سات دالیں اکٹھی کر کے راوی کے کنارے جنتر منتر کئے گئے۔ سات سات کنوؤں کا پانی جمع کر کے اتار ا کیا گیا۔
میرے چھوٹے چھوٹے بھائی روز مجھے دیکھنے آتے اور چوری چوری دیکھ کر چلے جاتے۔ بہنیں آتیں‘ اور رو رو کر آنکھیں سرخ کر کے چلی جاتیں۔ اماں جی کی آنکھیں مستقل روتی رہتیں۔ ایک روز وہ آئیں اور میری انگلی سے منگنی کی انگوٹھی اتار کر لے گئیں۔ لڑکی والوں نے بڑی مشکل سے تو ’’ہاں‘‘ کی تھی کہ ادیب کو بیٹی کون دے۔ وہ ادیب ہی نہیں‘ پاگل بھی ہے۔
ہمارے سابق باس حکیم احمد شجاع آئے۔ ایک نظر بھر کر دیکھا اور ہمدردانہ آہیں بھرتے ہوئے چلے گئے۔
ہمارے مشفق استاد سید عابد علی عابد کئی مرتبہ آئے۔ ہر مرتبہ گالیوں سے نوازا کہ الو کے پٹھے کو لاکھ سمجھایا کہ اپنی بساط سے آگے نہ بڑھ۔ زمانۂ جاہلیت میں ٹی ایس ایلیٹ کا موازنہ شیخ سعدی سے کرے گا تو وہی کچھ ہونا چاہئے تھا جو ہوا۔
ہمارے سابق باس جسٹس ایس اے رحمن آئے اور ہائے کس ادا سے آئے کہ اپنے ہمراہ ایک ڈاکٹر بھی لائے۔ وہ اگر چیف جسٹس تھے تو ہم بھی شہنشاہ تھے اور ان کو فقیر سے زیادہ کا درجہ دینے کے لئے تیار نہ تھے۔ ان کو دیکھا تو ہم نے شان بے نیازی سے منہ پھیر لیا۔ وہ اپنا سامنہ لے کر چلے گئے۔
مولانا حامد علی خاں اور مولانا غلام رسول مہر دونوں لمبی کار میں اکٹھے آئے۔ دیکھا اور آپس میں کچھ باتیں کرتے ہوئے چلے گئے۔
حلقہ ارباب ذوق والوں نے اخباروں میں خبر دے دی تھی کہ ابھرتا ہوا ادیب سید قاسم محمود ایک ناقابل فہم صدمے کا شکار ہو کر پاگل ہو گیا اور اب وہ داتا دربار کے باہر فقیروں میں عریاں بیٹھا ہے۔
اخباری نمائندے آئے۔ میری تصویریں اتاری گئیں۔ طرح طرح کی خبریں بننے لگیں۔
آغا شورش کاشمری کیوں نہ آتے۔ ان کے ’’چٹان‘‘ کو مستقل ہفتہ وار ادبی سرگرمیوں کا کالم نہ ملا تو انہیں کالم نویس کی جستجو ہوئی۔ معلوم ہوا۔ آغا جی کو یقین نہ آیا۔ دوڑے دوڑے میرے پاس پہنچے۔ کچھ اندازہ کیا۔ کچھ تو لا‘ شام کو پھر آئے۔ پانچ چھ مشٹنڈے ان کے ہمراہ تھے۔ ان کی سکیم یہ تھی کہ مجھے ایک دفعہ اس بیمار ماحول سے نکال کر کہیں اچھے‘ صحت مند ماحول میں لے جائیں اور علاج کرایا جائے تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ آغا صاحب کی پرجوش قیادت میں مجھے ڈنڈا ڈولی کر کے قریب ایک تانگے کی طرف لے جایا جانے لگا‘ لیکن میرے اندر کے ملنگ یا جن نے ان سب کی وہ مرمت کی کہ وہ اپنے منصوبے میں کامیاب نہ ہو سکے۔
کرنا خدا کا کیا ہوا کہ رفتہ رفتہ میں از خود ترقی یا تنزلی کی منزلیں طے کرنے لگا۔ کوئی ایک ماہ بعد ایک روز خود بخود لباس کی خواہش ہوئی۔ میں نے ابا جی سے اشارے سے کہا کہ تہبند چاہئے۔ اس بیماری کی خاص بات یہ تھی کہ میں بول نہیں سکتا تھا۔ میرے ہونٹ آپس میں سل گئے تھے۔ تہبند باندھ کر میں جھونپڑی سے نکلا اور فقیروں کے ساتھ ان کی قطار میں جا بیٹھا۔ ایک سینئر فقیر نے غصے سے گھورا۔ خیر یہ ہوئی کہ میں غرایا نہیں‘ چپ رہا۔ اس لئے صلح ہو گئی۔ دوسرے روز اسی فقیر نے اپنے بھنڈارے کے حصے میں سے مجھے مٹھی بھر چاول دینے چاہے۔ میں نے انکار کر دیا‘ کیونکہ مجھے کھانے کی طلب ہی نہ تھی۔
کافی دن کے بعد مجھ میں کھانے کی خواہش پیدا ہوئی۔ لوگ چٹکی چٹکی لنگر بانٹنے آتے۔ اس روز میں نے بھی ہاتھ پھیلا دیا۔ ایک کلچہ‘ اوپر چنے کی دال‘ میں نے آدھا کھا کر باقی کتوں کے آگے پھینک دیا جو ہم فقیروں کے گرد یوں منڈلاتے رہتے تھے جیسے ہم داتا کے گرد منڈلاتے رہتے تھے۔ ایک دن میں نے ابا جی سے اشارے سے کہا کہ میرے لئے کرتا لاؤ۔ کرتا آ گیا۔ پھر میں نے سر پر ہاتھ رکھ کر ٹوپی مانگی‘ جالی دار ٹوپی آ گئی۔ اب بھی میں فقیروں کی قطار ہی میں رہا۔
یا تو میں ہر وقت آلتی پالتی مارے بیٹھا رہتا تھا جیسے ٹانگیں آپس میں جڑ گئی ہوں‘ یا ایک روز خود بخود وہاں سے ا ٹھا اور مسجد میں جا کر وضو کرنے لگا۔ وضو کر کے داتا کے مزار کی جالی پکڑ کر خاموش گم سم گھڑا ہو گیا۔ آج یوں لگتا ہے کہ میں وہاں کئی برس تک یونہی کھڑا رہا۔
پھر میں پانچوں وقت کی باجماعت نمازوں میں شریک ہونے لگا۔ ساری رات صحن مسجد میں کھڑا عبادت کرتا رہتا ۔ البتہ دن کے وقت خواجہ غریب نواز ؒ کے حجرۂ اعتکاف کے پاس سرنیہوڑائے بیٹھا رہتا۔ جب سے سردیاں آئی تھیں‘ دھوپ کے ساتھ ساتھ سرکتا رہتا۔
عصر کی نماز کے بعد آغا شورش کاشمیری میرے پاس آئے۔ ان کے پیچھے پیچھے پیر گولڑہ شریفؒ تھے اور ان کے چند مرید اور ہمارے پہلوان صاحب۔ آغا صاحب نے پیر صاحبؒ سے کہا: ’’یہ ہے ہمارا وہ دوست سیدزادہ ہے۔ انتہائی ذہین اور شریف ہے۔ اچھا لکھنے والاہے۔ اسے دیکھئے کیا ہو گیا ہے۔‘‘
پیر صاحب نے یہ نہیں چاہا کہ مجھے کھڑا کیا جائے۔ وہ خود ہی میرے پاس آ کر بیٹھ گئے۔ ان کی پیروی میں ان کے مرید بھی‘ آغا صاحب بھی‘ اور پہلوان صاحب بھی بیٹھ گئے۔ پیر صاحبؒ نے میری طرف غور سے دیکھا۔ پھر دیکھا۔ میری آنکھوں میںد ور تک جھانکا۔ آغا جی سے فرمایا: ’’رہنے دیجئے یہیں۔ آپ کا کیا جاتا ہے۔ یہاں رہے گا تو کچھ حاصل کر لے گا۔‘‘
آغا شورش نے کہا: ’’نہیں جی‘ بھرا پرا کنبہ اس کے سر پر ہے‘ تباہ ہو جائے گا۔ اس کی خلاصی کرائیں۔‘‘
پیر صاحبؒ نے فرمایا: ’’اچھا آج رات بات کروں گا۔‘‘ یہ گویا واضح اشارہ تھا‘ داتا گنج بخشؒ کی طرف۔
اس رات‘ کوئی دو بجے ہوں گے۔ چاند پوری آب و تاب کے ساتھ دمک رہا تھا اور میں شدید سردی کے باوجود محض ایک کرتے میں‘ عین صحن مسجد کے وسط میں کھڑا محو عبادت تھا۔ اچانک مجھے کیا ہوا کہ میں مسجد میں گر گیا۔ پھر میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ خود بخود میری آواز کھل گئی۔ گڑگڑا کر دعا مانگنے لگا۔ اچانک میرے کانوں سے شائیں شائیں کی آوازیں آنے لگیں‘ جیسے کسی نے ان پر ڈاٹ لگا رکھی تھی‘ اور وہ ڈاٹ ہٹا دی گئی ہے۔ میں مسجد سے اٹھا اور دیوانہ وار اپنے گھر کی طرف دوڑا۔ زور زور سے دستک دی۔ اوپر والی منزل کی کھڑکی سے ابا جی نے پوچھا: ’’کون ہے؟‘‘
’’میں آ گیا ہوں‘‘ یہ پہلے بول تھے جو میری زبان سے آٹھ ماہ میں پہلی مرتبہ ادا ہوئے تھے۔
والدہ محترمہ‘ چاروں بھائی‘ تینوں بہنیں جاگ گئے۔ ان کی آنکھوں میں خوشی کے قمقمے یوں جگمگا رہے تھے کہ میں رب غفور کے حضور دست بدعا ہوں کہ ہر شخص کو یہ منظر عطا کرے۔
میں نے غسل کیا۔ کپڑے پہنے‘ نارمل آدمیوں کی طرح داتا صاحبؒ کی مسجد میں فجر کی نماز ادا کی‘ ناشتے میں دس بیس پراٹھے ہڑپ کر گیا‘ صدیوں کا بھوکا تھا۔ پھر ان گٹھڑیوں کو کھولا جن میں میری کتابیں‘ مجھے مردہ سمجھ کر‘ باندھ دی گئی تھیں۔ اپنا کام شروع کر دیا‘ اور الحمدللہ آج تک کر رہا ہوں۔
صدر محترم! 5 دسمبر 1957ء سے آج 1984ء تک‘ ستائیس برس ہو رہے ہیں‘ کوئی دن ایسا نہیں گیا جب میں نے گولڑہ شریف جانے کی آروز دل میں محسوس نہ کی ہو۔ کتابی آرزو نہیں ‘ قلبی آرزو لیکن اس آرزو کے ساتھ شک کا سانپ بھی پھنکارتا ہوا نظر آتا ہے۔ کیا انہوں نے مجھ پر احسان کیا کہ پاگل پن سے نجات دلا کر دینا میں نارمل انسانوں کے ساتھ زندگی بسر کرنے کے لئے بھیج دیا؟ یا کیا انہوں نے مجھ پر یہ ظلم کیا کہ ایک بہشتی ماحول سے نکا ل کر پاگل خانے میں بھجوا دیا؟ پاگل خانہ وہ تھا کہ یہ ‘ جہاں اب میں رہ رہا ہوں۔
وہاں میرے دماغ کی گراریاں پوری رفتار سے گھومنے لگی تھیں۔ تنو مند خیالات کی ولادت کی رفتاراپنے جو بن پر تھی۔ قلب شفاف اور منزا رہنے لگا تھا۔ میرا حسی‘ قلبی اورنفسی نظام باہم مربوط اور ہم آہنگ ہو کر ایک مکمل وحدت بن گیا تھا۔ وہاں یوں لگتا تھا جیسے پوری کی پوری کائنات میرے وجود کے اندر سمائی ہوئی ہے‘ اور میں‘ فقط میں ہوں اور اگر میرے باہر کوئی وجود رکھتا ہے تو وہ واحد ذات مطلق‘ جس کے آگے سربہ سجود ہونے میں عجب سرشاری تھی۔ من وتو کے سوا دل میں کسی اور کاچراغ نہ جلتا تھا۔ میرا یہ خاکی‘ آنی فانی جسم‘ لطیف و نفیس روح کے جھولے میں ہلکا پھلکا سا‘ فضا میں تیرتا رہتا تھا۔
یہاں یوں لگتا ہے کہ جیسے ہر نئے قدم پر ایک نئے خدا کا سامنا ہے جس کے آگے سربہ سجود ہونا از روئے قانون و رواج ضروری ہو۔ معمولی علیک سلیک اور روزمرہ کی بول چال کے لئے بھی پہلے منافقت کے احساس سے گزرنا پڑتا ہے۔ ہر سانس جو میرے اندر جاتا ہے اور میرے پھیپھڑوں سے باہر آتا ہے‘ سراسر آلودہ ہے‘ میں فضائی آلودگی کی بات نہیں کر رہا۔ میں روحانی کثافت کی بات کر رہا ہوں۔ اپنے تنفس کو تو میں لمبے لمبے سانس لے کر ٹھیک کر لیتا ہوں۔ نفس میں جو روزانہ غلاظت اردگرد کے ماحول سے پیدا ہو رہی ہے‘ اس کے اخراج کا کوئی نظام برسرعمل نہیں ہے۔ ڈاکٹر لوگ طر ح طرح کے نت نئے آلات سے دل کا ای سی جی وغیرہ کر لیتے ہیں۔ سوچتا ہوں کہ قلب کا ای سی جی کون کرے گا۔
وہاں میں خلاء میں معلق رہنے کے باوجود بھرا بھرا سا تھا۔
یہاں بھری پری دنیا میں رہنے کے باوجود میں کھوکھلا سا ہوں۔
وہاں زبان بندھی تھی‘ لیکن ذہن و ضمیر جاگا ہوا تھا اور ہر چیز کا ہوش تھا۔
یہاں زبان کھلی ہے‘ لیکن قلب و ضمیر سویا ہوا ہے اور کسی چیز کا ہوش نہیں۔
وہاں تمام علائق کی زنجیریں توڑ کر بیٹھنے کے باوجود دل سے محبت کا طوفان اٹھتا رہتا تھا۔
یہاں تمام علائق سے رشے استوار رہنے کے باوجود دل میں حقارت و نفرت کے بگولے اٹھتے رہتے ہیں۔
وہاں کا حرف آغاز یہ تھا کہ آؤ محبت کریں۔
یہاں کا حرف آغاز یہ ہے کہ آؤ نفرت نہ کریں۔
سوچتا رہتا ہوں کہ گولڑہ شریف پہنچ بھی جاؤں تو وہاں کہوں گا کیا؟ ممنونیت سے شکریہ ادا کروں گا یا شکوے کرنے بیٹھ جاؤں گا؟
یہ کیسے دریافت کروں گا کہ وہ لمحہ مجھ پر کیوں آیا جب میں نے اپنا گریباں چک کیا تھا اور قمیص تار تار کی تھی؟ وہ کسی لغزش کی سزا تھی یا کسی حرکت کا انعام تھا؟ مجھ پر کسی جن کا سایہ تھا یا کسی ملنگ کا قبضہ تھا؟ میرا دماغ خراب ہو گیا تھا یا عتاب نازل ہوا تھا؟ کیوں‘ مگر کیوں؟ اور وہ ایک دم سجدے سے ا ٹھ کر پھر دنیا کی طرف بھاگ آنا کسی قصور کی پاداش تھی یا کسی امتحان کا نتیجہ تھا؟ اور ایک دفعہ وہاں پہنچ گیا تو پھر سائنس کا پتلا اور ٹیکنالوجی کاپرزہ بن کر یہ بھی معلوم کروں گا کہ اہل قبول سے باتیں کیونکر ہوتی ہیں۔
صدر محترم! میں بہت الجھا ہوا‘ گم شدہ آدمی ہوں‘ نہیں جانتا کہ ’’پانا‘‘ کسے کہتے ہیں۔ مخالف سمتوں سے آنے والے متلاطم‘ ژولیدہ‘ بپھرے ہوئے سوالات نے مجھے جیتے جی مار رکھا ہے۔ یہ طے شدہ بات ہے کہ ایک نہ ایک دن میں انشاء اللہ ضرور گولڑہ شریف حاضری دینے جاؤں گا‘ لیکن وہاں میں اپنی قلبی کثافت‘ روحانی غلاظت اور نفسی الجھاؤ کے ساتھ نہیں جانا چاہتا‘ جو ان ستائیس برسوں میں بہت بڑھ گئی ہے۔ جب میں د اتا صاحبؒ گیاتھا تو میں معصوم تھا۔ معصومیت میں میرے ساتھ یہ سلوک ہوا کہ اب نہ جانے کیسا سلوک ہو۔ ڈرتا ہوں‘ خوف آتا ہے۔
شاید کوئی ہو جو میرا خوف دور کرے‘ میری الجھنیں سلجھائے‘ مجھے راستہ دکھائے۔ میری رہنمائی کرے‘ ورنہ اپنے اپنے جہنم میں ہر کوئی جھلس رہا ہے۔ میں بھی جھلس رہا ہوں۔ اسی باطنی الاؤ ہی سے تو ایک چوٹ کھائی ہوئی‘ بلبلائی ہوئی فریاد نے عرش عظیم کو ہلا دیا تھا۔
کتھے مہر علی‘ کتھے تیری ثنا
گستاخ اکھیاں‘ کتھے جا لڑیاں
(17نومبر 1984ء کو لکھا گیا)
آخری تدوین: