سب سے پہلی گزارش (تمام احباب سے) کہ یہ ’’استاد‘‘ والی بات کم از کم میرے جیسے بندے پر کچھ جچتی نہیں ہے۔
زیرِ نظر غزل کے بارے میں کچھ جسارتیں:۔
جب بھی مظلوم نے ظالم کی حمایت کر دی
ہم نے اِس شہر سے اُس شہر کو ہجرت کر دی
اِس شہر اور اُس شہر میں کسی قدر ابہام ہے۔ مراد ہے ’’کسی اور شہر کو‘‘ اس کو دور کر ہی لیں۔ جیسا کہ اپنی اولین گزارش میں کہہ چکا ہوں، کر دی، کر لی ۔۔ طرحی غزلوں میں اکثر ایسا ہو جاتا ہے۔ اور یہ چونکہ ردیف ہے، اس لئے اس کو ہٹا دینا یا بدل دینا کچھ ایسا آسان بھی نہیں۔ آپ خود دیکھ لیجئے کہ محاورہ کیا کہتا ہے۔
ذہن نے سوچ لیا تھا، نہیں ملنا اُس سے
"دل مگر اس پہ وہ دھڑکا کہ قیامت کر دی"
معنوی سطح پر تو شاید یہ بات قابلِ گرفت نہ ہو تاہم تاثر کی سطح پر ’’ذہن نے سوچ لیا‘‘ کچھ عجیب سا لگ رہا ہے۔ دل کا تقابل دماغ سے کرتے ہیں، عشق کا عقل سے، خرد کا جنوں سے۔ و علیٰ ہٰذا القیاس۔
جب بھی چاہا تجھے الفاظ سے تعبیر کروں
مرے الفاظ نے معنی سے بغاوت کردی
الفاظ نے معنی سے بغاوت کر دی۔ تخیل عمدہ ہے۔ اگر یوں ہوتا ’’میرے لفظوں نے معانی سے ۔۔۔ ‘‘ یہ البتہ سوچنے کی بات ہے کہ ایسے میں الفاظ معانی سے عاری ہوا کرتے ہیں یا احساس کو بیان کرنے سے قاصر ہوتے ہیں؟۔ یہ ایک دو شعر دیکھئے گا۔
مرے لفظوں کے معنی کھو گئے ہیں
خبر تو ہے نظر باقی نہیں ہے
اور
زباں کوئی نہ مل سکی ظہورِ اضطراب کو
تمام لفظ چھوڑ کر لرزتے لب، چلے گئے
اور
وفورِ شوق میں آنکھیں سوال ہوتی ہیں
لبوں پہ کانپتے رہتے ہیں اضطراب عجیب
میرے احباب بھی اغیار بھی نالاں مجھ سے
تری چاہت نے یہ کیسی مری قسمت کر دی
’’تیری‘‘ یہ غالباً املاء میں فروگزاشت ہوئی ہے۔ شعر مناسب ہے۔
تُو نے ہر روز نیا زخم دیا محفل میں
ہم نے ہر روز بیاں تازہ حکایت کر دی
یہاں محفل کا ذکر کچھ زائد نہیں کیا؟ حکایت یا حقیقت بیان کرنے کو محفل کا ہونا کچھ ایسا لازمی بھی تو نہیں۔ توجہ فرمائیے گا۔
اُس نے زخموں سے سجایا مرے پیکر کو بلالؔ
اس طرح اُس نے ادا رسمِ محبت کر دی
’’اُس نے‘‘ کی تکرار سے بچ سکیں تو بہتر ہے۔ ’’کتنے زخموں سے ۔۔۔ ‘‘ وغیرہ۔ ویسے یہ رسمِ محبت تو آپ کو ادا کرنی تھی!۔
یہ کچھ نکات ہیں، دیکھ لیجئے اگر کسی قابل ہوں تو زہے نصیب۔ نہیں تو اِن کو نظر انداز کر دیجئے گا۔
بہت آداب۔