جب بھی مظلوم نے ظالم کی حمایت کر دی ::برائے اصلاح

محمد بلال اعظم

لائبریرین
جب بھی مظلوم نے ظالم کی حمایت کر دی
ہم نے اِس شہر سے اُس شہر کو ہجرت کر دی​
ذہن نے سوچ لیا تھا، نہیں ملنا اُس سے
"دل مگر اس پہ وہ دھڑکا کہ قیامت کر دی"​
جب بھی چاہا تجھے الفاظ سے تعبیر کروں
مرے الفاظ نے معنی سے بغاوت کردی​
میرے احباب بھی اغیار بھی نالاں مجھ سے
تری چاہت نے یہ کیسی مری قسمت کر دی​
تُو نے ہر روز نیا زخم دیا محفل میں
ہم نے ہر روز بیاں تازہ حکایت کر دی​
اُس نے زخموں سے سجایا مرے پیکر کو بلالؔ
اس طرح اُس نے ادا رسمِ محبت کر دی​
 
اچھی غزل ہے۔ اصلاح کا کام تو استادوں کا ہے بھائی۔ مجھے کیوں ٹیگ کرکے گستاخ بناتے ہو؟
اور اب تو استاد الف عین کے ساتھ استاد محمد یعقوب آسی صاحب بھی محفل پر ہیں۔ :)
ویسے شروع کے ایک آدھ شعر میں ردیف کو ”کر دی“ محض تک بندی لگتی ہے۔ جب کہ ”کرلی“ ہونا تھا۔ خیر ویٹ کرو اساتذہ کا۔
 

الف نظامی

لائبریرین
سرمد در دیں عجب شکستے کردی
ایماں بہ فدائے چشمِ مستے کردی
با عجز و نیاز، جملہ نقدِ خود را
رفتی و نثارِ بُت پرستے کردی
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
اچھی غزل ہے۔ اصلاح کا کام تو استادوں کا ہے بھائی۔ مجھے کیوں ٹیگ کرکے گستاخ بناتے ہو؟
اور اب تو استاد الف عین کے ساتھ استاد محمد یعقوب آسی صاحب بھی محفل پر ہیں۔ :)
ویسے شروع کے ایک آدھ شعر میں ردیف کو ”کر دی“ محض تک بندی لگتی ہے۔ جب کہ ”کرلی“ ہونا تھا۔ خیر ویٹ کرو اساتذہ کا۔
مزمل شیخ بسمل صاحب۔
اس میں کہیں ’’کر دی‘‘ کا تقاضا ہے اور کہیں ’’کر لی‘‘ کا۔ طرحی غزلوں میں ایسے مسائل ہوا کرتے ہیں۔
مجھے یقین ہے کہ صاحبِ غزل توجہ فرمائیں گے۔

جہاں تک مجھے لگتا ہے، ان اشعار میں "کر دی" کا "کر لی" ہو گا۔

جب بھی چاہا تجھے الفاظ سے تعبیر کروں
مرے الفاظ نے معنی سے بغاوت کردی
اُس نے زخموں سے سجایا مرے پیکر کو بلالؔ
اس طرح اُس نے ادا رسمِ محبت کر دی
رہنمائی کی درخواست ہے۔
 
محترمی جناب محمد بلال اعظم صاحب۔​
سب سے پہلی گزارش (تمام احباب سے) کہ یہ ’’استاد‘‘ والی بات کم از کم میرے جیسے بندے پر کچھ جچتی نہیں ہے۔​
زیرِ نظر غزل کے بارے میں کچھ جسارتیں:۔​
جب بھی مظلوم نے ظالم کی حمایت کر دی​
ہم نے اِس شہر سے اُس شہر کو ہجرت کر دی​
اِس شہر اور اُس شہر میں کسی قدر ابہام ہے۔ مراد ہے ’’کسی اور شہر کو‘‘ اس کو دور کر ہی لیں۔ جیسا کہ اپنی اولین گزارش میں کہہ چکا ہوں، کر دی، کر لی ۔۔ طرحی غزلوں میں اکثر ایسا ہو جاتا ہے۔ اور یہ چونکہ ردیف ہے، اس لئے اس کو ہٹا دینا یا بدل دینا کچھ ایسا آسان بھی نہیں۔ آپ خود دیکھ لیجئے کہ محاورہ کیا کہتا ہے۔​
ذہن نے سوچ لیا تھا، نہیں ملنا اُس سے​
"دل مگر اس پہ وہ دھڑکا کہ قیامت کر دی"​
معنوی سطح پر تو شاید یہ بات قابلِ گرفت نہ ہو تاہم تاثر کی سطح پر ’’ذہن نے سوچ لیا‘‘ کچھ عجیب سا لگ رہا ہے۔ دل کا تقابل دماغ سے کرتے ہیں، عشق کا عقل سے، خرد کا جنوں سے۔ و علیٰ ہٰذا القیاس۔​
جب بھی چاہا تجھے الفاظ سے تعبیر کروں​
مرے الفاظ نے معنی سے بغاوت کردی​
الفاظ نے معنی سے بغاوت کر دی۔ تخیل عمدہ ہے۔ اگر یوں ہوتا ’’میرے لفظوں نے معانی سے ۔۔۔ ‘‘ یہ البتہ سوچنے کی بات ہے کہ ایسے میں الفاظ معانی سے عاری ہوا کرتے ہیں یا احساس کو بیان کرنے سے قاصر ہوتے ہیں؟۔ یہ ایک دو شعر دیکھئے گا۔​
مرے لفظوں کے معنی کھو گئے ہیں​
خبر تو ہے نظر باقی نہیں ہے​
اور​
زباں کوئی نہ مل سکی ظہورِ اضطراب کو​
تمام لفظ چھوڑ کر لرزتے لب، چلے گئے​
اور​
وفورِ شوق میں آنکھیں سوال ہوتی ہیں​
لبوں پہ کانپتے رہتے ہیں اضطراب عجیب​
میرے احباب بھی اغیار بھی نالاں مجھ سے​
تری چاہت نے یہ کیسی مری قسمت کر دی​
’’تیری‘‘ یہ غالباً املاء میں فروگزاشت ہوئی ہے۔ شعر مناسب ہے۔​
تُو نے ہر روز نیا زخم دیا محفل میں​
ہم نے ہر روز بیاں تازہ حکایت کر دی​
یہاں محفل کا ذکر کچھ زائد نہیں کیا؟ حکایت یا حقیقت بیان کرنے کو محفل کا ہونا کچھ ایسا لازمی بھی تو نہیں۔ توجہ فرمائیے گا۔​
اُس نے زخموں سے سجایا مرے پیکر کو بلالؔ​
اس طرح اُس نے ادا رسمِ محبت کر دی​
’’اُس نے‘‘ کی تکرار سے بچ سکیں تو بہتر ہے۔ ’’کتنے زخموں سے ۔۔۔ ‘‘ وغیرہ۔ ویسے یہ رسمِ محبت تو آپ کو ادا کرنی تھی!۔​
یہ کچھ نکات ہیں، دیکھ لیجئے اگر کسی قابل ہوں تو زہے نصیب۔ نہیں تو اِن کو نظر انداز کر دیجئے گا۔​
بہت آداب۔​
 

نیلم

محفلین
جب بھی مظلوم نے ظالم کی حمایت کر دی
ہم نے اِس شہر سے اُس شہر کو ہجرت کر دی​
ذہن نے سوچ لیا تھا، نہیں ملنا اُس سے
"دل مگر اس پہ وہ دھڑکا کہ قیامت کر دی"​
جب بھی چاہا تجھے الفاظ سے تعبیر کروں
مرے الفاظ نے معنی سے بغاوت کردی​
میرے احباب بھی اغیار بھی نالاں مجھ سے
تری چاہت نے یہ کیسی مری قسمت کر دی​
تُو نے ہر روز نیا زخم دیا محفل میں
ہم نے ہر روز بیاں تازہ حکایت کر دی​
اُس نے زخموں سے سجایا مرے پیکر کو بلالؔ
اس طرح اُس نے ادا رسمِ محبت کر دی​
خُوب :)
 

الف عین

لائبریرین
خوب بلال، پہلے تو اس کی مبارکباد کہ عروضی غلطی کوئی نہیں ہے، پوری غزل مکمل درست ہے۔ معنوی اعتبار سے جیسا کہ میں کہتا ہوں کہ اگر غالب کی غزل بھی اصلاح کے لئے پیش کی جائے تو اس میں بھی اصلاح کے پہلو ڈھونڈھ ہی لئے جائیں گے!!
میرے خیال میں دوسری جگہ تو کر دی‘ بھی درست ہو گا لیکن مطلع میں ہی ’ہجرت‘ کے لئے کر دی کہنا واقعی اچھا نہی لگ رہا۔ لیکن جیسا کہ آسی بھائی نے کہا ہے کہ یہ طرحی غزل ہے (جیسا کہ ایک مصرع تم نے بھی شاید اسی لئے واوین میں دیا ہے۔) تو طاہر ہے کہ زمین کی مجبوری ہو گی ہی!!
باقی اصلاحوں سے متفق ہوں برادرم محمد یعقوب آسی کی۔ البتہ ایک بات مزید
میرے احباب بھی اغیار بھی نالاں مجھ سے
تری چاہت نے یہ کیسی مری قسمت کر دی
اس میں ’تیری‘ کے محل کے عالوہ بھی مجھے پہلے مصرع کا بیانیہ پسند نہیں آیا۔ کم از کم ’ہیں‘ کی ضرورت تھی۔ اور ہو سکے تو ’اور‘ بھی۔ یعنی نثر میں ’میرے احباب بھی اور اغیار بھی نالاں ہیں مجھ سے‘ ہونا چاہئے تھا۔ نوالہ بنا کر دینے کی بجائے اپنی روٹی خود توڑو!! ایک ہنٹ یہ دے دوں کہ یہاں ’مجھ سے‘ سے چھٹکارا پایا جا سکتا ہے، دوسرے مصرع میں ’مری قسمت‘ سے بات واضح ہو ہی جاتی ہے۔​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
خوب بلال، پہلے تو اس کی مبارکباد کہ عروضی غلطی کوئی نہیں ہے، پوری غزل مکمل درست ہے۔ معنوی اعتبار سے جیسا کہ میں کہتا ہوں کہ اگر غالب کی غزل بھی اصلاح کے لئے پیش کی جائے تو اس میں بھی اصلاح کے پہلو ڈھونڈھ ہی لئے جائیں گے!!
میرے خیال میں دوسری جگہ تو کر دی‘ بھی درست ہو گا لیکن مطلع میں ہی ’ہجرت‘ کے لئے کر دی کہنا واقعی اچھا نہی لگ رہا۔ لیکن جیسا کہ آسی بھائی نے کہا ہے کہ یہ طرحی غزل ہے (جیسا کہ ایک مصرع تم نے بھی شاید اسی لئے واوین میں دیا ہے۔) تو طاہر ہے کہ زمین کی مجبوری ہو گی ہی!!
باقی اصلاحوں سے متفق ہوں برادرم محمد یعقوب آسی کی۔ البتہ ایک بات مزید
میرے احباب بھی اغیار بھی نالاں مجھ سے
تری چاہت نے یہ کیسی مری قسمت کر دی
اس میں ’تیری‘ کے محل کے عالوہ بھی مجھے پہلے مصرع کا بیانیہ پسند نہیں آیا۔ کم از کم ’ہیں‘ کی ضرورت تھی۔ اور ہو سکے تو ’اور‘ بھی۔ یعنی نثر میں ’میرے احباب بھی اور اغیار بھی نالاں ہیں مجھ سے‘ ہونا چاہئے تھا۔ نوالہ بنا کر دینے کی بجائے اپنی روٹی خود توڑو!! ایک ہنٹ یہ دے دوں کہ یہاں ’مجھ سے‘ سے چھٹکارا پایا جا سکتا ہے، دوسرے مصرع میں ’مری قسمت‘ سے بات واضح ہو ہی جاتی ہے۔​
محترمی جناب محمد بلال اعظم صاحب۔​
سب سے پہلی گزارش (تمام احباب سے) کہ یہ ’’استاد‘‘ والی بات کم از کم میرے جیسے بندے پر کچھ جچتی نہیں ہے۔​
زیرِ نظر غزل کے بارے میں کچھ جسارتیں:۔​
جب بھی مظلوم نے ظالم کی حمایت کر دی​
ہم نے اِس شہر سے اُس شہر کو ہجرت کر دی​
اِس شہر اور اُس شہر میں کسی قدر ابہام ہے۔ مراد ہے ’’کسی اور شہر کو‘‘ اس کو دور کر ہی لیں۔ جیسا کہ اپنی اولین گزارش میں کہہ چکا ہوں، کر دی، کر لی ۔۔ طرحی غزلوں میں اکثر ایسا ہو جاتا ہے۔ اور یہ چونکہ ردیف ہے، اس لئے اس کو ہٹا دینا یا بدل دینا کچھ ایسا آسان بھی نہیں۔ آپ خود دیکھ لیجئے کہ محاورہ کیا کہتا ہے۔​
ذہن نے سوچ لیا تھا، نہیں ملنا اُس سے​
"دل مگر اس پہ وہ دھڑکا کہ قیامت کر دی"​
معنوی سطح پر تو شاید یہ بات قابلِ گرفت نہ ہو تاہم تاثر کی سطح پر ’’ذہن نے سوچ لیا‘‘ کچھ عجیب سا لگ رہا ہے۔ دل کا تقابل دماغ سے کرتے ہیں، عشق کا عقل سے، خرد کا جنوں سے۔ و علیٰ ہٰذا القیاس۔​
جب بھی چاہا تجھے الفاظ سے تعبیر کروں​
مرے الفاظ نے معنی سے بغاوت کردی​
الفاظ نے معنی سے بغاوت کر دی۔ تخیل عمدہ ہے۔ اگر یوں ہوتا ’’میرے لفظوں نے معانی سے ۔۔۔ ‘‘ یہ البتہ سوچنے کی بات ہے کہ ایسے میں الفاظ معانی سے عاری ہوا کرتے ہیں یا احساس کو بیان کرنے سے قاصر ہوتے ہیں؟۔ یہ ایک دو شعر دیکھئے گا۔​
مرے لفظوں کے معنی کھو گئے ہیں​
خبر تو ہے نظر باقی نہیں ہے​
اور​
زباں کوئی نہ مل سکی ظہورِ اضطراب کو​
تمام لفظ چھوڑ کر لرزتے لب، چلے گئے​
اور​
وفورِ شوق میں آنکھیں سوال ہوتی ہیں​
لبوں پہ کانپتے رہتے ہیں اضطراب عجیب​
میرے احباب بھی اغیار بھی نالاں مجھ سے​
تری چاہت نے یہ کیسی مری قسمت کر دی​
’’تیری‘‘ یہ غالباً املاء میں فروگزاشت ہوئی ہے۔ شعر مناسب ہے۔​
تُو نے ہر روز نیا زخم دیا محفل میں​
ہم نے ہر روز بیاں تازہ حکایت کر دی​
یہاں محفل کا ذکر کچھ زائد نہیں کیا؟ حکایت یا حقیقت بیان کرنے کو محفل کا ہونا کچھ ایسا لازمی بھی تو نہیں۔ توجہ فرمائیے گا۔​
اُس نے زخموں سے سجایا مرے پیکر کو بلالؔ​
اس طرح اُس نے ادا رسمِ محبت کر دی​
’’اُس نے‘‘ کی تکرار سے بچ سکیں تو بہتر ہے۔ ’’کتنے زخموں سے ۔۔۔ ‘‘ وغیرہ۔ ویسے یہ رسمِ محبت تو آپ کو ادا کرنی تھی!۔​
یہ کچھ نکات ہیں، دیکھ لیجئے اگر کسی قابل ہوں تو زہے نصیب۔ نہیں تو اِن کو نظر انداز کر دیجئے گا۔​
بہت آداب۔​

شکریہ آپ دونوں کا۔
تفصیلی جواب کے ساتھ جلد حاضر ہوتا ہوں۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
استادِ محترم الف عین صاحب
استادِ محترم محمد یعقوب آسی صاحب

محترمی جناب محمد بلال اعظم صاحب۔​
سب سے پہلی گزارش (تمام احباب سے) کہ یہ ’’استاد‘‘ والی بات کم از کم میرے جیسے بندے پر کچھ جچتی نہیں ہے۔​
اگر عزت دل میں ہو تو وہ زباں پہ آ ہی جاتی ہے۔ لہٰذا ہمیں اس سے نہ روکیے پلیز۔​
زیرِ نظر غزل کے بارے میں کچھ جسارتیں:۔​
جب بھی مظلوم نے ظالم کی حمایت کر دی​
ہم نے اِس شہر سے اُس شہر کو ہجرت کر دی​
اِس شہر اور اُس شہر میں کسی قدر ابہام ہے۔ مراد ہے ’’کسی اور شہر کو‘‘ اس کو دور کر ہی لیں۔ جیسا کہ اپنی اولین گزارش میں کہہ چکا ہوں، کر دی، کر لی ۔۔ طرحی غزلوں میں اکثر ایسا ہو جاتا ہے۔ اور یہ چونکہ ردیف ہے، اس لئے اس کو ہٹا دینا یا بدل دینا کچھ ایسا آسان بھی نہیں۔ آپ خود دیکھ لیجئے کہ محاورہ کیا کہتا ہے۔​
"ہجرت" کا قافیہ اچھا لگ رہا تھا لین ردیف کی مجبوری تھی لہٰذا اگر اس طرح کر دیں تو​
جب بھی مظلوم نے ظالم کی حمایت کر دی​
دل میں طوفان اٹھا، برپا قیامت کر دی
ذہن نے سوچ لیا تھا، نہیں ملنا اُس سے​
"دل مگر اس پہ وہ دھڑکا کہ قیامت کر دی"​
معنوی سطح پر تو شاید یہ بات قابلِ گرفت نہ ہو تاہم تاثر کی سطح پر ’’ذہن نے سوچ لیا‘‘ کچھ عجیب سا لگ رہا ہے۔ دل کا تقابل دماغ سے کرتے ہیں، عشق کا عقل سے، خرد کا جنوں سے۔ و علیٰ ہٰذا القیاس۔​
ایک تبدیلی کی ہے چھوٹی سی لیکن کچھ اچھی نہیں لگی یہ تبدیلی یا ہو سکتا ہے یہ صرف میرا وہم ہو۔​
میں نے بھی سوچ لیا تھا، نہیں ملنا اُس سے
"دل مگر اس پہ وہ دھڑکا کہ قیامت کر دی"
جب بھی چاہا تجھے الفاظ سے تعبیر کروں​
مرے الفاظ نے معنی سے بغاوت کردی​
الفاظ نے معنی سے بغاوت کر دی۔ تخیل عمدہ ہے۔ اگر یوں ہوتا ’’میرے لفظوں نے معانی سے ۔۔۔ ‘‘ یہ البتہ سوچنے کی بات ہے کہ ایسے میں الفاظ معانی سے عاری ہوا کرتے ہیں یا احساس کو بیان کرنے سے قاصر ہوتے ہیں؟۔ یہ ایک دو شعر دیکھئے گا۔​
مرے لفظوں کے معنی کھو گئے ہیں​
خبر تو ہے نظر باقی نہیں ہے​
اور​
زباں کوئی نہ مل سکی ظہورِ اضطراب کو​
تمام لفظ چھوڑ کر لرزتے لب، چلے گئے​
اور​
وفورِ شوق میں آنکھیں سوال ہوتی ہیں​
لبوں پہ کانپتے رہتے ہیں اضطراب عجیب​
آپ والا مصرع بے شک زیادہ اچھا لگ رہا ہے۔​
جب بھی چاہا تجھے الفاظ سے تعبیر کروں​
مرے لفظوں نے معانی سے بغاوت کردی
میرے احباب بھی اغیار بھی نالاں مجھ سے
تری چاہت نے یہ کیسی مری قسمت کر دی
’’تیری‘‘ یہ غالباً املاء میں فروگزاشت ہوئی ہے۔ شعر مناسب ہے۔
اس پہ استادِ محترم الف عین جی نے کہا تھا تو اگر ایسے کر دیں۔​
"مجھ سے" کی تکرار پھر باقی ہے:eek:
یار نالاں ہوئے، اغیار گریزاں مجھ سے
تیری چاہت نے یہ کیسی مری قسمت کر دی​
تُو نے ہر روز نیا زخم دیا محفل میں​
ہم نے ہر روز بیاں تازہ حکایت کر دی​
یہاں محفل کا ذکر کچھ زائد نہیں کیا؟ حکایت یا حقیقت بیان کرنے کو محفل کا ہونا کچھ ایسا لازمی بھی تو نہیں۔ توجہ فرمائیے گا۔​
پہلی بار جب لکھا تھا تو صرف اتنا ہی لکھا تھا "تُو نے ہر روز نیا زخم دیا" لیکن پھر بعد میں یہ سوچ کے "محفل میں" کا اضافہ کیا چونکہ محفل میں یار اغیار سبھی موجود ہوں گے تو ذرا اچھا لگے گا۔ باقی آپ زیادہ بہتر جانتے ہیں۔​
اُس نے زخموں سے سجایا مرے پیکر کو بلالؔ​
اس طرح اُس نے ادا رسمِ محبت کر دی​
’’اُس نے‘‘ کی تکرار سے بچ سکیں تو بہتر ہے۔ ’’کتنے زخموں سے ۔۔۔ ‘‘ وغیرہ۔ ویسے یہ رسمِ محبت تو آپ کو ادا کرنی تھی!۔​
بات تو آپ کی درست ہے لیکن ایک نیا فلسفہ، موضوع یا جو بھی کہہ لیں۔۔۔وہ لانا چاہ رہا تھا کہ روایت سے اختلاف کی جائے۔​
بہرحال پھر بھی یہ دو اشعار دیکھیں کہ اگر اس کے متبادل کے طور پہ ہو سکیں تو​
میں نے افکار کو ڈھالا نئے لفظوں میں بلالؔ
اور عیاں سب پہ مرے شہ کی حقیقت کر دی
یا​
ایسی چاہت کا کروں بھی تو کیا، جس نے بلالؔ
بھرے بازار میں رسوا مری خلعت کر دی
یہ کچھ نکات ہیں، دیکھ لیجئے اگر کسی قابل ہوں تو زہے نصیب۔ نہیں تو اِن کو نظر انداز کر دیجئے گا۔​
بہت آداب۔​
یہ تو کرم نوازی ہے آپ کی جو اِس ٹوٹی پھوٹی غزل پہ اپنے قیمتی وقت سے چند لمحات صرف کیے۔
ممنون رہا ہوں گا آپ سب کا۔
 
میں نے افکار کو ڈھالا نئے لفظوں میں بلالؔ
اور عیاں سب پہ مرے شہ کی حقیقت کر دی
یا
ایسی چاہت کا کروں بھی تو کیا، جس نے بلالؔ
بھرے بازار میں رسوا مری خلعت کر دی

یہاں پہلے شعر میں ع کے اخفاء کا اشکال ہو رہا ہے۔ لفظ ’’اور‘‘ کو پورا ادا کریں تو ع کو گرانا پڑتا ہے۔ جو علمائے بیان کے نزدیک جائز نہیں۔ دوسرے شعر میں ’’کیا‘‘ سوالیہ ہے تو پھر اِس کو کو ’’کا‘‘ کے وزن پر (دو حرفی) ادا کرنا ہو گا۔ ’’خلعت‘‘ کا رسوا ہونا یا اس کو رسوا کرنا؟ یہ محاورے کی بات ہے، الف عین صاحب کی رائے لے لیجئے گا۔
 

الف عین

لائبریرین
مطلع مجھے اب بھی درست نہیں لگا۔ کس نے قیامت برپا کر دی؟ اس سے تو ’ہجرت کر دی‘ ہی بہتر تھا۔
میں نے بھی سوچ لیا تھا، نہیں ملنا اُس سے
درست ہے۔

یار نالاں ہوئے، اغیار گریزاں مجھ سے
اس میں اب بھی کمی محسوس ہوتی ہے۔ ایک مشورہ
چھٹ گئے یار بھی، اغیار بھی ناراض ہوئے
تُو نے ہر روز نیا زخم دیا محفل میں​
ہم نے ہر روز بیاں تازہ حکایت کر دی​

کیا یوں نہیں ہو سکتا
تُو نے ہر روز نیا زخم دیا ہے ہم کو
نئے دونوں مقطعوں کے بارے میں آسی بھائی سے متفق ہوں۔ لیکن اس پرانے مطلع کو ہی کیا یوں کہیں کیا جا سکتا؟
اپنے پیکر کو سجایا کئی زخموں سے بلالؔ​
اس طرح ہم نے ادا رسمِ محبت کر دی​
محمد یعقوب آسی بھائی کا کیا خیال ہے؟​
 
نئے دونوں مقطعوں کے بارے میں آسی بھائی سے متفق ہوں۔ لیکن اس پرانے مطلع کو ہی کیا یوں کہیں کیا جا سکتا؟
اپنے پیکر کو سجایا کئی زخموں سے بلالؔ
اس طرح ہم نے ادا رسمِ محبت کر دی
محمد یعقوب آسی بھائی کا کیا خیال ہے؟

متفق ہوں جناب الف عین۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
جناب استادِ محترم محمد یعقوب آسی صاحب

جناب استادِ محترم الف عین صاحب

میں نے افکار کو ڈھالا نئے لفظوں میں بلالؔ
اور عیاں سب پہ مرے شہ کی حقیقت کر دی
یہاں پہلے شعر میں ع کے اخفاء کا اشکال ہو رہا ہے۔ لفظ ’’اور‘‘ کو پورا ادا کریں تو ع کو گرانا پڑتا ہے۔ جو علمائے بیان کے نزدیک جائز نہیں۔
فاعلاتن/فَعِلاتن/فَعِلاتن/فعلن
ار ع یا سب/پِ م رِ شہ /کِ ح قی قت/کر دی
میں شاید سمجھ نہیں سکا آپ کی بات۔
اور کو میں نے ار باندھا ہے۔ فی الوقت نوشی گیلانی کا یہی شعر یاد آ رہا ہے کہ
نشانی کوئی تو اب کے سفر کی گھر لانا
تکان پاؤں کی اور تتلیوں کے پر لانا

دوسرے شعر میں ’’کیا‘‘ سوالیہ ہے تو پھر اِس کو کو ’’کا‘‘ کے وزن پر (دو حرفی) ادا کرنا ہو گا۔​
ایسی چاہت کا کروں بھی تو کیا، جس نے بلالؔ
بھرے بازار میں رسوا مری خلعت کر دی
اگر ایسے کر دیں تو پھر
ایسی چاہت کا کروں بھی میں تو کیا، جس نے بلالؔ
بھرے بازار میں رسوا مری خلعت کر دی
ویسے محاورے کی وجہ سے تو یہ شعر غلط ہو ہی گیا ہے۔ لہٰذا اسے چھوڑ ہی دیتے ہیں۔
 
Top