جب بھی پھول کھلے گلشن میں ، ترے بدن کی یاد آئی
شامِ چمن کو دیکھ کر ترے ، سانولے پن کی یاد آئی
سبز درختوں کے جھرمٹ میں ، دُور ندی کے ساحل پر
شام ملی جب رات سے آکر ، ترے ملن کی یاد آئی
ذہن میں ایک چمیلی مہکی ، ایک دیا سا جل اُٹھا
اے دل ! آج اچانک تجھ کو ، کس آنگن کی یاد آئی
پہروں اپنے دل سے لپٹ کر ، چپکے چپکے روئے ظفر
اس انجانے شہر میں ہم کو ، جب بھی وطن کی یاد آئی
شامِ چمن کو دیکھ کر ترے ، سانولے پن کی یاد آئی
سبز درختوں کے جھرمٹ میں ، دُور ندی کے ساحل پر
شام ملی جب رات سے آکر ، ترے ملن کی یاد آئی
ذہن میں ایک چمیلی مہکی ، ایک دیا سا جل اُٹھا
اے دل ! آج اچانک تجھ کو ، کس آنگن کی یاد آئی
پہروں اپنے دل سے لپٹ کر ، چپکے چپکے روئے ظفر
اس انجانے شہر میں ہم کو ، جب بھی وطن کی یاد آئی