کاشفی
محفلین
غزل
(مضطر اکبر آبادی)
جب بھی کسی کا ذکر چھیڑا ہے، جب بھی کسی کی بات چلی ہے
یہی رہا ہے ذکر مسلسل، بات یہی دن رات چلی ہے
پل دو پل کا ہے یہ میلہ، لوگو اس کا لطف اُٹھا لو
پی لو، کھالو، موج اُڑا لو، ورنہ پھر برسات چلی ہے
دھواں دھواں ہیں شمعیں، ساری محفل پر سکتہ ہے طاری
صبح کی آنے کو ہے سواری ، دل برداشتہ رات چلی ہے
اُف وہ حیا کہ ناز تھا جس کو اپنی تاب و تواں پر بےحد
اُس کا یہ انجام ہوا ہے موت سے کھا کر مات چلی ہے
ہے سارے کا سارا دِکھاوا، جھوٹی ہے سب کارگزاری
اُتنا کہاں نِکلا ہے نتیجہ جتنی تحقیقات چلی ہے
ڈھکی چھُپی ہر گز نہ رہے گی اُس کی بےمہری کی حقیقت
پہنچ ہی جائے گی اُس تک بھی مضطر جب یہ بات چلی ہے
(مضطر اکبر آبادی)
جب بھی کسی کا ذکر چھیڑا ہے، جب بھی کسی کی بات چلی ہے
یہی رہا ہے ذکر مسلسل، بات یہی دن رات چلی ہے
پل دو پل کا ہے یہ میلہ، لوگو اس کا لطف اُٹھا لو
پی لو، کھالو، موج اُڑا لو، ورنہ پھر برسات چلی ہے
دھواں دھواں ہیں شمعیں، ساری محفل پر سکتہ ہے طاری
صبح کی آنے کو ہے سواری ، دل برداشتہ رات چلی ہے
اُف وہ حیا کہ ناز تھا جس کو اپنی تاب و تواں پر بےحد
اُس کا یہ انجام ہوا ہے موت سے کھا کر مات چلی ہے
ہے سارے کا سارا دِکھاوا، جھوٹی ہے سب کارگزاری
اُتنا کہاں نِکلا ہے نتیجہ جتنی تحقیقات چلی ہے
ڈھکی چھُپی ہر گز نہ رہے گی اُس کی بےمہری کی حقیقت
پہنچ ہی جائے گی اُس تک بھی مضطر جب یہ بات چلی ہے