نبیل
تکنیکی معاون
جوں جوں پرویز مشرف کے گرد گھیرا تنگ ہوتا جا رہا ہے اور اس کے ملک سے فرار ہونے کی تیاری کی افواہوں میں تیزی آ رہی ہے اسی رفتار سے کچھ قلم اور ضمیر فروشوں نے 180 درجے کا ٹرن لینا شروع کر دیا ہے۔ گزشتہ آٹھ سال سے مشرف کے زیر سایہ حکومتوں سے مراعات حاصل کرنے کے بعد اب نذیر ناجی کو یکایک مشرف دنیا کا سب سے برا انسان لگنے لگا ہے۔ آج مؤرخہ 29 مئی 2008 کا کالم ملاحظہ کریں:
حوالہ: جانے دیں، نذیر ناجی (29 مئی 2008 )
سچ یہ ہے کہ سابقہ فوجی حکومتوں کے ریکارڈ کی روشنی میں مجھے ہرگز امید نہ تھی کہ اپنی زندگی میں مجھے اُس شخص کا انجام دیکھنے کا موقع ملے گا جس نے باسٹھ سال کے ایک بیمار شخص کو چار دن دواؤں اور دس دن بستر اور باتھ روم سے محروم رکھا۔ ایک دن قریباً 35 افراد کے ہمراہ جن میں وزیراعظم کے صاحبزادے حسین نواز بھی شامل تھے، بلیک ہول میں گزارنے پر مجبورکیا۔ یہ ایک بہت ہی چھوٹا سا کمرہ تھا جس میں باتھ روم نہیں تھا۔ اقتدار کے نشے میں چور جنرل پرویز مشرف اپنے مفتوحہ محل کے معائنے پر آئے تھے۔ میرا خیال تھا وہ ہم لوگوں سے اخلاقاً بات چیت کریں گے۔ مگر الٹا ہو گیا۔ ہمیں اُس وقت تک قید میں بٹھائے رکھا گیا جب تک جنرل صاحب رخصت نہیں ہو گئے۔ میں دمے، شوگر اور بلڈ پریشر کامریض ہوں۔ ان تینوں امراض میں ایک کی دوا لینے میں بھی تاخیر ہو جائے تو حالت خراب ہو جاتی ہے۔ اسی خراب حالت میں قید کے وہ دن گزارنا پڑے۔ میں نے جنگ آزادی کے مجاہدوں اور سیاسی لیڈروں کے ایام اسیری کی داستانیں پڑھ رکھی ہیں۔ الجزائر کی جمیلہ بوائری کے ایک انٹرویو کے چند جملے میرے لئے مشعل راہ ثابت ہوئے۔ ان سے پوچھا گیا تھا کہ جب تمہیں اذیت دی جاتی اور تمہارے جسم پر جلتے ہوئے سگریٹ لگائے جاتے تو تمہیں کیا محسوس ہوتا تھا؟ جمیلہ کا جواب تھا ”میں اُس وقت اپنے جسم کے اندر ہوتی ہی نہیں تھی۔ میں سمجھتی تھی یہ اذیت کسی اورکو دی جا رہی ہے۔ میں اپنے آپ سے علیحدہ کھڑی ہوکر سب کچھ دیکھتی اور اپنی اس مسرت سے لطف اندوز ہوتی کہ میں اپنے وطن کی آزادی کے لئے قربانی دے رہی ہوں“۔ یہ بڑا مشکل مرحلہ ہوتا ہے لیکن بہادروں کی باتیں یاد کر کے مجھ جیسے بزدل بھی حوصلہ پکڑ لیتے ہیں۔ مجھ میں بھی حوصلہ پیدا ہو گیا تھا اور میں نے یہ تمام اذیتیں ہنستے کھیلتے، لطیفے سنتے اور سناتے ہوئے برداشت کیں۔ ہمارے پہرے پر مامور افسروں اورجوانوں کا رویہ البتہ ہم سے بہت اچھا تھا۔ وزیراعظم ہاؤس کے قیدیوں کا انچارج بریگیڈیئر ہمارے ساتھی رائے ریاض کا کلاس فیلو نکل آیا اور ایک کیپٹن آفاق ہوا کرتے تھے، وہ میرے بیٹے انیق ناجی کے مداح تھے۔ وہ بھی میری عزت کرنے کے باوجود چار دن تک مجھے دوائیں پہنچانے میں کامیاب نہ ہوئے۔ ظاہر ہے ان کے اوپر کوئی اور بھی نگرانی رہی ہو گی۔
مزید پڑھیں۔۔
حوالہ: جانے دیں، نذیر ناجی (29 مئی 2008 )
سچ یہ ہے کہ سابقہ فوجی حکومتوں کے ریکارڈ کی روشنی میں مجھے ہرگز امید نہ تھی کہ اپنی زندگی میں مجھے اُس شخص کا انجام دیکھنے کا موقع ملے گا جس نے باسٹھ سال کے ایک بیمار شخص کو چار دن دواؤں اور دس دن بستر اور باتھ روم سے محروم رکھا۔ ایک دن قریباً 35 افراد کے ہمراہ جن میں وزیراعظم کے صاحبزادے حسین نواز بھی شامل تھے، بلیک ہول میں گزارنے پر مجبورکیا۔ یہ ایک بہت ہی چھوٹا سا کمرہ تھا جس میں باتھ روم نہیں تھا۔ اقتدار کے نشے میں چور جنرل پرویز مشرف اپنے مفتوحہ محل کے معائنے پر آئے تھے۔ میرا خیال تھا وہ ہم لوگوں سے اخلاقاً بات چیت کریں گے۔ مگر الٹا ہو گیا۔ ہمیں اُس وقت تک قید میں بٹھائے رکھا گیا جب تک جنرل صاحب رخصت نہیں ہو گئے۔ میں دمے، شوگر اور بلڈ پریشر کامریض ہوں۔ ان تینوں امراض میں ایک کی دوا لینے میں بھی تاخیر ہو جائے تو حالت خراب ہو جاتی ہے۔ اسی خراب حالت میں قید کے وہ دن گزارنا پڑے۔ میں نے جنگ آزادی کے مجاہدوں اور سیاسی لیڈروں کے ایام اسیری کی داستانیں پڑھ رکھی ہیں۔ الجزائر کی جمیلہ بوائری کے ایک انٹرویو کے چند جملے میرے لئے مشعل راہ ثابت ہوئے۔ ان سے پوچھا گیا تھا کہ جب تمہیں اذیت دی جاتی اور تمہارے جسم پر جلتے ہوئے سگریٹ لگائے جاتے تو تمہیں کیا محسوس ہوتا تھا؟ جمیلہ کا جواب تھا ”میں اُس وقت اپنے جسم کے اندر ہوتی ہی نہیں تھی۔ میں سمجھتی تھی یہ اذیت کسی اورکو دی جا رہی ہے۔ میں اپنے آپ سے علیحدہ کھڑی ہوکر سب کچھ دیکھتی اور اپنی اس مسرت سے لطف اندوز ہوتی کہ میں اپنے وطن کی آزادی کے لئے قربانی دے رہی ہوں“۔ یہ بڑا مشکل مرحلہ ہوتا ہے لیکن بہادروں کی باتیں یاد کر کے مجھ جیسے بزدل بھی حوصلہ پکڑ لیتے ہیں۔ مجھ میں بھی حوصلہ پیدا ہو گیا تھا اور میں نے یہ تمام اذیتیں ہنستے کھیلتے، لطیفے سنتے اور سناتے ہوئے برداشت کیں۔ ہمارے پہرے پر مامور افسروں اورجوانوں کا رویہ البتہ ہم سے بہت اچھا تھا۔ وزیراعظم ہاؤس کے قیدیوں کا انچارج بریگیڈیئر ہمارے ساتھی رائے ریاض کا کلاس فیلو نکل آیا اور ایک کیپٹن آفاق ہوا کرتے تھے، وہ میرے بیٹے انیق ناجی کے مداح تھے۔ وہ بھی میری عزت کرنے کے باوجود چار دن تک مجھے دوائیں پہنچانے میں کامیاب نہ ہوئے۔ ظاہر ہے ان کے اوپر کوئی اور بھی نگرانی رہی ہو گی۔
مزید پڑھیں۔۔