سلمان حمید
محفلین
"جب میں بھاگا"
میں بچپن سے لڑکپن تک اپنے محلے کا سب سے لاغر اور کمزور بچہ سمجھا اور کہلایا جاتا تھا. گھر کے باہر چند ایک کو جھوٹا کہہ دینے اور گھر میں سے کسی بڑے کو لے جا کر لڑوا دینے سے اگر یہ تب ہی معاملہ ٹھپ کروا دیتا تو شاید یہ شہرت اور نوبت جوانی تک نہ پہنچتی. لیکن پہلی بات تو یہ کہ باہر چند ایک نہیں بلکہ پورا محلہ تھا جن کی زبانیں بند کرنے کو دوسری بات یہ کہ باہر گلی میں کسی کو اپنا ہتھیار بنا کے تب لے جاتا جب گھر کے اندر محلے والوں سے مختلف رائے کا مالک کوئی ملتا. پس کمزوری سے ادھر ادھر لڑکھڑاتے اور اپنی حالت زار اور لوگوں کی تمسخر اڑاتی نظروں کا سامنا کرتے ہوئے غصے سے کھڑکھڑاتے ہوئے جیسے تیسے لڑکپن گزر ہی گیا. نوجوانی کے اوائل میں جہاں جسمانی خصوصیات میں سانس کے پھولنے اور اٹھتے بیٹھتے چند جانی پہچانی اور کچھ انجان جگہوں سے ہڈیوں کے چٹخنے اور چڑچڑانے کی آوازوں کا اضافہ ہوا تھا وہاں ہی ایک خوشگوار تبدیلی یہ آئی کہ اب گھر سے نکلتا تو لوگوں کے طنزیہ جملے سنائی نہ دیتے تھے. اتنے دن تک تو انجانے میں سکون کا سانس لیتا رہا جب تک مجھ پر یہ راز افشا نہ ہو گیا کہ اب مابدولت لوگوں کو محلے میں چلتے پھرتے نظر ہی نہیں آتے. اس دن کے بعد سے میرا ایسا دل ٹوٹا کہ انسانیت پر سے اعتبار ہی اٹھ گیا. یہ وہ زمانہ تھا جب اسپورٹس کے نام پر سخت دھوپ میں کرکٹ کھیلنے صرف اس شرط پر جایا کرتا تھا کہ بچوں میں سب سے بڑا ہونے کے ناطے کپتانی کا منصب اور میدان میں وہ جگہ میں سنبھالوں گا جہاں گیند کے پیچھے سب سے کم بھاگنا پڑے. شرافت کا یہ عالم تھا کہ کسی دوکان کے باہر کھڑا اپنی من پسند چیز کو دیکھ کر آہیں تو بھر لیتا لیکن اٹھا کر بھاگنے کی کوشش تک نہ کرتا کیونکہ اتنا تو میں بھی جانتا تھا کہ بھاگ کر ایک گلی بھی مکمل نہیں کر سکوں گا اور نکر پر ہی پکڑا جاؤں گا. اپنے ساتھ بڑے ہوتے ہر کمزور کو صحت مند ہوتے دیکھنا مجھے اندر ہی اندر سے ایسے کھاتا گیا کہ حسد کے اس الاؤ میں دہک دہک کر ایک دن میرا ظاہر اور باطن ایک جیسا ہو گیا. وقت پر لگا کے اڑتا گیا اور میں بے تکا کھاتا رہا جس کی وجہ سے ایک وقت ایسا آیا کہ اب لوگ میرا سلام کے لیے اٹھتا ہاتھ نہ صرف دیکھ لیا کرتے تھے بلکہ بغل گیر ہو کر اتنا عرصہ کہیں غائب رہنے کا گلہ بھی کر لیا کرتے تھے. جرمنی پہنچ کر جب جب کسی پاکستانی بھائی سے ملاقات ہوئی جو ڈنکی لگا کر یعنی کئی ہفتے پیدل چل کر یہاں پہنچے تھے تب تب اللہ کا شکر ادا کیا کہ میں جہاز میں سوار ہو کر آیا تھا. "کہیں کہیں جب کوئی بارڈر کراس کرتے تو بھاگنا بھی پڑتا تھا"، ان کی دکھ بھری داستان کا یہ حصہ سنتے ہی میری سانس پھول جایا کرتی تھی.
جرمنی آ کر ہر مرد و زن کو سڑکوں کے کنارے بھاگتے دیکھتا تو دل میں خواہش اٹھتی کہ کاش میں بھی اتنا صحت مند ہوتا کہ کئی کلومیٹر بغیر رکے بھاگ سکتا.
خیر قصہ مختصر یہ کہ، ایک دن میں نے اپنے دفتر کے ساتھیوں کی باتوں میں آ کر پچھلے ہفتے ہر سال جولائی میں ہونے والی اس دوڑ میں حصہ لینے کا فیصلہ کر لیا جس میں پچھلے تین سالوں تک حصہ نہ لینے کا بہانہ اللہ تعالٰی نے رمضان المبارک کی صورت میں عطا کرتے کرتے اس بار میری دسترس سے رمضان کچھ دن پیچھے کھینچ لیا.
جولائی کی چودہ تاریخ کو تیار ہو کر چھ اعشاریہ دو کلومیٹر کی اس دوڑ کی جگہ پر پہنچے تو ہمارے دفتر سے ہم چھ مرد اور تین خواتین تھیں جو تیس ہزار لوگوں کے ہجوم میں مجھے تسلی دے رہے تھے کہ اپنے ارد گرد نظر دوڑاؤ اور دیکھو کہ تم سے بھی گئے گزرے بھاگنے کے لیے تیار کھڑے ہیں. میں نے کپکپاتی ہوئی آواز میں اپنے ساتھ آئے ہوئے ان سب سے وعدہ لیا کہ مشکل کے اس وقت میں کوئی میرا ساتھ نہیں چھوڑے گا. ایمرجنسی کے موقع پر استعمال ہونے والے فون نمبر سے لے کر راستے میں کھڑے ڈاکٹروں اور ایمبولینسوں کی تقریباً ساری معلومات لے چکنے کے بعد بھی جب میری تسلی نہیں ہوئی تو ایک ساتھی نے اپنی جیب سے راستے کا نقشہ نکال کر مجھے تھماتے ہوئے کہا کہ چونکہ تم سب سے پیچھے ہو گے تو شاید اکیلے رہ کر راستے سے بھٹک نہ جاؤ. میں اپنے پیچھے انسانوں کا ایک نہ ختم ہونے والا ہجوم دیکھ کر ایک ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے نقشے پر سے راستہ سمجھنے لگا تھا کیونکہ مجھے یقین تھا کہ یہ ہجوم ایک نہیں تو دو کلومیٹر بعد مجھے ایک طرف دھکیل کر آگے نکل کر میری آنکھوں سے اوجھل ہو جائے گا اور پھر میں جیب سے نقشہ نکال کر بھاگنا چھوڑ کر پیدل چلنا اور راستہ ڈھونڈنا شروع کر دوں گا. اسی اثنا میں گیٹ کھلا تو ہر ایک نے سامنے کی طرف بھاگنا شروع کر دیا. میں نے بھی آؤ دیکھا نہ تاؤ اور دوڑ پڑا. کچھ دیر بھاگنے کے بعد سب کے ساتھ میں بھی رکا تو میرے دفتر کے سب ساتھی میرے آس پاس ہی تھے. میں تو جیسے خوشی سے پھولے نہ سما رہا تھا. اپنی بے ترتیب سانسوں کو قابو میں لاتے اور اپنے گھٹنوں پر جھک کر اپنی دھڑکنوں کو بحال کرتے ہوئے میں بے اختیار چلا اٹھا. "مجھے یقین نہیں آتا کہ ہم سب ایک ساتھ اختتامی لائن تک پہنچے ہیں." ان کی آنکھوں کی حیرانی نے مجھے سر سے پاؤں تک سرشار کر دیا تھا. بھلا یہ کیونکر یقین کریں گے کہ دوڑ میں پہلی بار حصہ لینے والا ان کے ساتھ ہی دوڑ ختم کر سکتا ہے. "یہ دوڑ کے آغاز کی جگہ ہے. یہاں سے دوڑ شروع ہو گی". ایک جرمن ساتھی نے تمسخر اڑاتے ہوئے میرے کان میں سرگوشی کی تھی اور اس کے ساتھ ہی دوڑ کے آغاز کا اعلان ہو گیا تھا. لوگ مجھے تھکے تھکے قدموں سے پیر اٹھاتے اور پسینہ پونچھتے ہوئے کو چھوڑ کر بھاگنے لگے تھے۔
پس نوشت: میں نے یہ دوڑ کہیں رکے بغیر بھاگ کر ہی مکمل کی. میرے تمام ساتھی مجھ سے تقریباً بیس منٹ پہلے منزل پر پہنچ گئے تھے ماسوائے ایک کافی صحت مند خاتون کے جو مجھ سے دو منٹ بعد پہنچیں.
میں بچپن سے لڑکپن تک اپنے محلے کا سب سے لاغر اور کمزور بچہ سمجھا اور کہلایا جاتا تھا. گھر کے باہر چند ایک کو جھوٹا کہہ دینے اور گھر میں سے کسی بڑے کو لے جا کر لڑوا دینے سے اگر یہ تب ہی معاملہ ٹھپ کروا دیتا تو شاید یہ شہرت اور نوبت جوانی تک نہ پہنچتی. لیکن پہلی بات تو یہ کہ باہر چند ایک نہیں بلکہ پورا محلہ تھا جن کی زبانیں بند کرنے کو دوسری بات یہ کہ باہر گلی میں کسی کو اپنا ہتھیار بنا کے تب لے جاتا جب گھر کے اندر محلے والوں سے مختلف رائے کا مالک کوئی ملتا. پس کمزوری سے ادھر ادھر لڑکھڑاتے اور اپنی حالت زار اور لوگوں کی تمسخر اڑاتی نظروں کا سامنا کرتے ہوئے غصے سے کھڑکھڑاتے ہوئے جیسے تیسے لڑکپن گزر ہی گیا. نوجوانی کے اوائل میں جہاں جسمانی خصوصیات میں سانس کے پھولنے اور اٹھتے بیٹھتے چند جانی پہچانی اور کچھ انجان جگہوں سے ہڈیوں کے چٹخنے اور چڑچڑانے کی آوازوں کا اضافہ ہوا تھا وہاں ہی ایک خوشگوار تبدیلی یہ آئی کہ اب گھر سے نکلتا تو لوگوں کے طنزیہ جملے سنائی نہ دیتے تھے. اتنے دن تک تو انجانے میں سکون کا سانس لیتا رہا جب تک مجھ پر یہ راز افشا نہ ہو گیا کہ اب مابدولت لوگوں کو محلے میں چلتے پھرتے نظر ہی نہیں آتے. اس دن کے بعد سے میرا ایسا دل ٹوٹا کہ انسانیت پر سے اعتبار ہی اٹھ گیا. یہ وہ زمانہ تھا جب اسپورٹس کے نام پر سخت دھوپ میں کرکٹ کھیلنے صرف اس شرط پر جایا کرتا تھا کہ بچوں میں سب سے بڑا ہونے کے ناطے کپتانی کا منصب اور میدان میں وہ جگہ میں سنبھالوں گا جہاں گیند کے پیچھے سب سے کم بھاگنا پڑے. شرافت کا یہ عالم تھا کہ کسی دوکان کے باہر کھڑا اپنی من پسند چیز کو دیکھ کر آہیں تو بھر لیتا لیکن اٹھا کر بھاگنے کی کوشش تک نہ کرتا کیونکہ اتنا تو میں بھی جانتا تھا کہ بھاگ کر ایک گلی بھی مکمل نہیں کر سکوں گا اور نکر پر ہی پکڑا جاؤں گا. اپنے ساتھ بڑے ہوتے ہر کمزور کو صحت مند ہوتے دیکھنا مجھے اندر ہی اندر سے ایسے کھاتا گیا کہ حسد کے اس الاؤ میں دہک دہک کر ایک دن میرا ظاہر اور باطن ایک جیسا ہو گیا. وقت پر لگا کے اڑتا گیا اور میں بے تکا کھاتا رہا جس کی وجہ سے ایک وقت ایسا آیا کہ اب لوگ میرا سلام کے لیے اٹھتا ہاتھ نہ صرف دیکھ لیا کرتے تھے بلکہ بغل گیر ہو کر اتنا عرصہ کہیں غائب رہنے کا گلہ بھی کر لیا کرتے تھے. جرمنی پہنچ کر جب جب کسی پاکستانی بھائی سے ملاقات ہوئی جو ڈنکی لگا کر یعنی کئی ہفتے پیدل چل کر یہاں پہنچے تھے تب تب اللہ کا شکر ادا کیا کہ میں جہاز میں سوار ہو کر آیا تھا. "کہیں کہیں جب کوئی بارڈر کراس کرتے تو بھاگنا بھی پڑتا تھا"، ان کی دکھ بھری داستان کا یہ حصہ سنتے ہی میری سانس پھول جایا کرتی تھی.
جرمنی آ کر ہر مرد و زن کو سڑکوں کے کنارے بھاگتے دیکھتا تو دل میں خواہش اٹھتی کہ کاش میں بھی اتنا صحت مند ہوتا کہ کئی کلومیٹر بغیر رکے بھاگ سکتا.
خیر قصہ مختصر یہ کہ، ایک دن میں نے اپنے دفتر کے ساتھیوں کی باتوں میں آ کر پچھلے ہفتے ہر سال جولائی میں ہونے والی اس دوڑ میں حصہ لینے کا فیصلہ کر لیا جس میں پچھلے تین سالوں تک حصہ نہ لینے کا بہانہ اللہ تعالٰی نے رمضان المبارک کی صورت میں عطا کرتے کرتے اس بار میری دسترس سے رمضان کچھ دن پیچھے کھینچ لیا.
جولائی کی چودہ تاریخ کو تیار ہو کر چھ اعشاریہ دو کلومیٹر کی اس دوڑ کی جگہ پر پہنچے تو ہمارے دفتر سے ہم چھ مرد اور تین خواتین تھیں جو تیس ہزار لوگوں کے ہجوم میں مجھے تسلی دے رہے تھے کہ اپنے ارد گرد نظر دوڑاؤ اور دیکھو کہ تم سے بھی گئے گزرے بھاگنے کے لیے تیار کھڑے ہیں. میں نے کپکپاتی ہوئی آواز میں اپنے ساتھ آئے ہوئے ان سب سے وعدہ لیا کہ مشکل کے اس وقت میں کوئی میرا ساتھ نہیں چھوڑے گا. ایمرجنسی کے موقع پر استعمال ہونے والے فون نمبر سے لے کر راستے میں کھڑے ڈاکٹروں اور ایمبولینسوں کی تقریباً ساری معلومات لے چکنے کے بعد بھی جب میری تسلی نہیں ہوئی تو ایک ساتھی نے اپنی جیب سے راستے کا نقشہ نکال کر مجھے تھماتے ہوئے کہا کہ چونکہ تم سب سے پیچھے ہو گے تو شاید اکیلے رہ کر راستے سے بھٹک نہ جاؤ. میں اپنے پیچھے انسانوں کا ایک نہ ختم ہونے والا ہجوم دیکھ کر ایک ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے نقشے پر سے راستہ سمجھنے لگا تھا کیونکہ مجھے یقین تھا کہ یہ ہجوم ایک نہیں تو دو کلومیٹر بعد مجھے ایک طرف دھکیل کر آگے نکل کر میری آنکھوں سے اوجھل ہو جائے گا اور پھر میں جیب سے نقشہ نکال کر بھاگنا چھوڑ کر پیدل چلنا اور راستہ ڈھونڈنا شروع کر دوں گا. اسی اثنا میں گیٹ کھلا تو ہر ایک نے سامنے کی طرف بھاگنا شروع کر دیا. میں نے بھی آؤ دیکھا نہ تاؤ اور دوڑ پڑا. کچھ دیر بھاگنے کے بعد سب کے ساتھ میں بھی رکا تو میرے دفتر کے سب ساتھی میرے آس پاس ہی تھے. میں تو جیسے خوشی سے پھولے نہ سما رہا تھا. اپنی بے ترتیب سانسوں کو قابو میں لاتے اور اپنے گھٹنوں پر جھک کر اپنی دھڑکنوں کو بحال کرتے ہوئے میں بے اختیار چلا اٹھا. "مجھے یقین نہیں آتا کہ ہم سب ایک ساتھ اختتامی لائن تک پہنچے ہیں." ان کی آنکھوں کی حیرانی نے مجھے سر سے پاؤں تک سرشار کر دیا تھا. بھلا یہ کیونکر یقین کریں گے کہ دوڑ میں پہلی بار حصہ لینے والا ان کے ساتھ ہی دوڑ ختم کر سکتا ہے. "یہ دوڑ کے آغاز کی جگہ ہے. یہاں سے دوڑ شروع ہو گی". ایک جرمن ساتھی نے تمسخر اڑاتے ہوئے میرے کان میں سرگوشی کی تھی اور اس کے ساتھ ہی دوڑ کے آغاز کا اعلان ہو گیا تھا. لوگ مجھے تھکے تھکے قدموں سے پیر اٹھاتے اور پسینہ پونچھتے ہوئے کو چھوڑ کر بھاگنے لگے تھے۔
پس نوشت: میں نے یہ دوڑ کہیں رکے بغیر بھاگ کر ہی مکمل کی. میرے تمام ساتھی مجھ سے تقریباً بیس منٹ پہلے منزل پر پہنچ گئے تھے ماسوائے ایک کافی صحت مند خاتون کے جو مجھ سے دو منٹ بعد پہنچیں.