بہت خوب سلمان بھائی !! مبارک ہوآپ پھر بھی ہزاروں سے آگے نکل گئے
آپ اچھا کرتے ہیں جو نہیں دوڑتے کیوں کہ کہنے والے کہہ گئے ہیں کہ دوڑنا شیوہء جوانمردی نہیں۔ ہم نے اِس قول کی حقیقت اُس دور میں پائی جب سکول سے گھر واپسی پر ہمارے راستے میں ایک پپی ہمارے استقبال کے لیے ہر دوسرے تیسرے دن موجود ہوتا تھا ۔ اُس وقت تک ہمیں اتنا ہی پتا تھا کہ چھوٹا ہو یا بڑا کُتا، کُتا ہی ہوتا ہے اور ہم اُس پپی کے جذبہء خیرسگالی کے اظہار میں ہلنے والی دُم سے بھی اُس کے حقیقی جذبات سمجھنے سے قاصر تھے سو دوڑ لگاتے اور بھاگم بھاگ گھر آ جاتے۔ ایک دن سخت گرمی لگ رہی تھی اور ہم نے ٹھان لی کہ آج کتے کی کاٹی برداشت کرنا پڑ جائے تو پروا نہیں مگر بھاگنے کی کوفت نہیں اُٹھائیں گے۔ لیکن بہرحال یہ فیصلہ اپنے وقت کے بڑے فیصلوں میں سے ایک تھا سو جب پپی نظر آیا تو روح فنا ہو گئی اور ایک بار قدم ڈگمگا گئے ذہن میں کتوں کے خونخوار رویّوں سے متعلق تمام یادیں تازہ ہو گئیں۔ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ مصمم ارادے کی طاقت تھی یا اس گو مگو میں ضائع کیے جانے والے وہ چند قیمتی لمحات تھے جو ہمارے اور پپی کے درمیان محفوظ فاصلہ قائم رکھنے کے ضامن تھے الغرض ہم بھاگے نہیں بلکہ عرق آلود پیشانی ، رُکی ہوئی سانس اور کپکپاتی ٹانگوں سے ایک جگہ ساکت ہو گئے جبکہ پپی ہمارے پاؤں میں لوٹم پوٹم ہونے اور پاؤں چاٹنے لگا۔ جب کُچھ دیر کے انتظار کے بعد بھی پپی نے کاٹی نہیں کی تو ہماری جان میں جان آئی اور اتنے میں ایک راہ گیر نے ہماری حالت دیکھتے ہوئے پپی کو ششکارا جس سے وہ بھاگ گیا اور ہم جیسے تیسے گھر کی طرف روانہ ہوئے ۔ اس دن کے بعد سے ہماری دوستی ہو گئی۔ آپ نے دیکھا نہ بھاگنے کے کتنے فائدے ہیں
۔