جب گرمی گرمی نہیں لگتی تھی!

arifkarim

معطل
جب گرمی گرمی نہیں لگتی تھی
160520130311_pak_youth_640x360_afp_nocredit.jpg

کبھی کبھی دل چاہتا ہے کہ اسی سادہ زندگی کی طرف واپس لوٹ جایا جائے
وہ بھی کیا دن تھے جب گرمی گرمی نہیں لگتی تھی اور جتنی گرمی پڑتی اس کا ایک توڑ موجود ہوتا تھا۔
جیسے ہی گرمیوں کی چھٹیاں ہوتیں بغیر اے سی کی بس یا بغیر اے سی کی ریل گاڑی میں بیٹھے، یہ جا وہ جا دادی کے گھر جا پہنچے جہاں ہر کمرے میں پنکھے کا ہونا لازمی نہیں تھا۔
صبح اٹھے تو گرمی کا توڑ گھر کا دہی اور اس سے سے بنی ہوئی لسی۔ دادی ذرا زیادہ مکھن بھی لسی میں ڈال دیتیں کہ پوتا شہر سے آیا ہے۔
اس کے بعد سورج تو سر پر اسی طرح ہوتا جس طرح آج کل ہوتا ہے لیکن درمیان میں ہمارا چھایا دار بیری کا درخت ہوتا۔ جس کی ٹہنی پر تو مرغیاں سستاتیں لیکن اس کی چھاؤں میں بھینسوں اور بکریوں کے ساتھ ہم بھی کھیلتے رہتے۔ گرمی کا تو کبھی دکھ نہ ہوا، ہاں گرمیوں کی چھٹیوں کے ختم ہونے کی فکر ہر وقت لگی رہتی۔
جب بیری کے نیچے کھیلتے کھیلتے تھک جاتے تو کزنز کے ساتھ باہر نکلتے۔ کوئی ڈر نہیں تھا کہ بچے باہر نکل رہے ہیں خدا خیر کرے۔ ذرا بازار تک گئے تو گاؤں کے کزن شہر سے آئے ہوئے نازک کزنوں کو ستو کا گلاس خرید کر لے دیتے۔ شروع شروع میں ذرا مشکل لگا لیکن بعد میں گڑھ کی مٹھاس نے ستو سے دوستی کرا دی اور ایسے لگنے لگا کہ شاید ستو گرمی کا اصل توڑ ہے۔ اگر ستو نہیں پینا تو نہ پیئں گنے کا رس تو ہے ہی۔ ریڑھی والا گنے کے ساتھ ہی لیموں یا مالٹا مشین میں ڈالتا اور دوسرے سرے سے جوس باہر نکل آتا۔ نمک ڈالو اور غٹا غٹ۔
160518080048_punjab_village_640x360_bbc_nocredit.jpg

گاؤں کی سادہ زندگی میں نہ تو گرمی کا احساس ہوتا اور نہ ہی شہر کی تھکن
لیکن گاؤں میں ہر روز ایک نئی چیز سے آشنا ہوتے۔ آج ستو ہے تو کل کانجی۔ شاید بہتوں کو تو اب اس کا نام بھی نہ آتا ہو۔ کانجی ویسے تو خزاں اور سردیوں کا مشروب سمجھا جاتا ہے لیکن یہ گرمیوں میں بھی بہت ذائقے دار اور فائدہ مند ہے۔ گرمی بھی ٹھیک اور معدہ بھی۔ پانی، کالی گاجروں، ہینگ اور چقندر سے بنا یہ جوس بہت یاد آتا ہے۔ ماں زبردستی یہ پلاتی تھیں اور دادی کہتیں کہ اگر یہ نہیں پینا تو چلو سادہ سی لیموں کی ٹھنڈی سنکجبین ہی پی لو۔ گرمی نکل جائے گی۔
اب اس عمر میں حیران ہوتے ہیں کہ کس طرح مٹی کے گھروں میں رہنے والے ان سادہ دیہاتیوں نے گرمی سے بچنے کے لیے نت نئے طریقے نکالے ہوئے تھے۔
مشروب پیتے پیتےبور ہوئے تو کزن زمینوں پر لے گئے جہاں ٹھیک فصلوں کے ساتھ ساتھ نہر بہتی تھی۔ سارا دن اس میں چھلانگیں لگاتے گرمی مارتے رہتے۔ بھینسیں بھی قریب ہی پانی کے مزے لے رہی ہوتیں، کبھی کبھی سوچتے کیا پانی گندہ تو نہیں ہے۔ ’بہتا ہوا پانی صاف ہوتا ہے‘، کزن بار بار یاد دلاتا رہتا۔ وہاں سے نکل کر آم کے درخت پر چڑھتے اور آم کھاتے۔ اکثر بڑے اوپر چڑھ کر آم نیچے پھینکتے اور ہم کیچ چھوڑ کر ڈانٹ بھی سنتے اور آم بھی کھاتے۔
شام ہوتے ہی گھر آتے تو پورے صحن کو پہلے ہی پانی دے دیا گیا ہوتا، پنجابی میں اسے ترونکا اور اردو میں چھڑکاؤ کہتے ہیں۔ عجیب طرح کی ٹھنڈک کا احساس۔ گرمیاں کہاں گذر جاتیں پتہ ہی نہ چلتا۔
160520121848_punjab_heat_640x360_afp.jpg

بچے گرمی سے بچنے کے لیے پانی میں نہا رہے ہیں
واپسی کے دن دادی ستو کا تھیلا اور گڑھ سامان میں رکھواتیں۔ ٹرین میں کھڑکی کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھنے کا اصرار کرتے، بڑا بھائی ہمیشہ جیت جاتا اور پھر قربانی بھی دے دیتا، سیٹ ہمارے پاس ہی آتی۔ شیخوپورہ پر جب ٹرین رکتی تو پھر سکنجبین کا گلاس۔ گرمی ذرا دور دور ہی رہتی۔
گرمی کا تو بس اس وقت پتہ چلا جب لاہور میں گھر میں اے سی لگ گیا۔ جیسے ہی اے سی والے کمرے سو نکلو گرم ہوا کے تھپیڑے منہ کو لگتے۔ ماں، نانی اور دادی کے جانے کے بعد تو ایسے لگا جیسے سورج کچھ اور آگ بگولہ ہو گیا ہے۔ دن بھر گھورتا رہتا۔
وہ بھی کیا دن تھے۔۔۔
بحوالہ
 
پورا مضمون آپ کا اپنا سمجھ کر پڑھ گئے اور اندازِ بیان کی سادگی و پرکاری پر عش عش کرتے رہے۔ سوچتے تھے، یہ کیونکر اور کب ہوا کہ اردو محفل پر لکھتے لکھتے آپ اس قدر خوبصورت لکھنے لگے۔اک خوشگوار حیرت ہوتی تھی۔

آخر میں حوالہ دیکھا۔ کیا جانئے کیا حالت ہوئی۔
 
آخری تدوین:

ربیع م

محفلین
بچپن کے دنوں میں چوری چھپے نہر جا کر نہانا اور واپسی پر جامن توڑنا ابھی تک بھلائے نہیں بھولتے۔

ویسے تو ہم ابھی بھی خود کو زمانہ بچپن میں ہی تصور کرتے ہیں :) :) :)
 

فاتح

لائبریرین
پورا مضمون آپ کا اپنا سمجھ کر پڑھ گئے اور اندازِ بیان کی سادگی و پرکاری پر عش عش کرتے رہے۔ سوچتے تھے، یہ کیونکر اور کب ہوا کہ اردو محفل پر لکھتے لکھتے آپ اس قدر خوبصورت لکھنے لگے۔اک خوشگوار حیرت ہوتی تھی۔

آخر میں حوالہ دیکھا۔ کیا جانئے کیا حالت ہوئی۔
یہ تو میرے دل کی بات کہہ گئے آپ۔ میں بھی پورا مضمون صرف اس لیے پڑھ گیا کہ عارف نے لکھا ہے۔
 

arifkarim

معطل
آخر میں حوالہ دیکھا۔ کیا جانئے کیا حالت ہوئی۔
یہ تو میرے دل کی بات کہہ گئے آپ۔ میں بھی پورا مضمون صرف اس لیے پڑھ گیا کہ عارف نے لکھا ہے۔
تھوڑا سا خود بھی سوچنا چاہئے کہ ابھی ناروے میں اتنی شدید گرمی پڑنی شروع نہیں ہوئی جو اس قسم کے مضمون کی ضرورت پڑے :)
 

فاتح

لائبریرین
تھوڑا سا خود بھی سوچنا چاہئے کہ ابھی ناروے میں اتنی شدید گرمی پڑنی شروع نہیں ہوئی جو اس قسم کے مضمون کی ضرورت پڑے :)
اگر پڑھنےو الوں کو اتنی سوچ میں ڈالنے کے بجائے عنوان میں مصنف کا نام لکھ دیتے تو سہولت ہو جاتی۔ :)
 

زیک

مسافر
پورا مضمون آپ کا اپنا سمجھ کر پڑھ گئے اور اندازِ بیان کی سادگی و پرکاری پر عش عش کرتے رہے۔ سوچتے تھے، یہ کیونکر اور کب ہوا کہ اردو محفل پر لکھتے لکھتے آپ اس قدر خوبصورت لکھنے لگے۔اک خوشگوار حیرت ہوتی تھی۔

آخر میں حوالہ دیکھا۔ کیا جانئے کیا حالت ہوئی۔
اسی لئے حوالہ ہمیشہ شروع میں دینا چاہیئے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
پورا مضمون آپ کا اپنا سمجھ کر پڑھ گئے اور اندازِ بیان کی سادگی و پرکاری پر عش عش کرتے رہے۔ سوچتے تھے، یہ کیونکر اور کب ہوا کہ اردو محفل پر لکھتے لکھتے آپ اس قدر خوبصورت لکھنے لگے۔اک خوشگوار حیرت ہوتی تھی۔

آخر میں حوالہ دیکھا۔ کیا جانئے کیا حالت ہوئی۔
کوئی بات نہیں صاحب، عارف شمیم اور عارف کریم میں تھوڑا ہی سا تو فرق ہے :)
 

اکمل زیدی

محفلین
چلیں پھر پھر بھی موقع مناسبت سے ایک بہترین تحریر شئیر کرنے پر بہت سی داد . . . بہت مزہ آیا پڑھ کے . . . مجھے بہت fascinate کرتی ہے اس طرح کی تحریر . .
 

یاز

محفلین
پورا مضمون آپ کا اپنا سمجھ کر پڑھ گئے اور اندازِ بیان کی سادگی و پرکاری پر عش عش کرتے رہے۔ سوچتے تھے، یہ کیونکر اور کب ہوا کہ اردو محفل پر لکھتے لکھتے آپ اس قدر خوبصورت لکھنے لگے۔اک خوشگوار حیرت ہوتی تھی۔

آخر میں حوالہ دیکھا۔ کیا جانئے کیا حالت ہوئی۔
یہ تو میرے دل کی بات کہہ گئے آپ۔ میں بھی پورا مضمون صرف اس لیے پڑھ گیا کہ عارف نے لکھا ہے۔
یہی واردات ہم پہ بھی بیت گئی۔
جوں جوں تحریر پڑھتے گئے، عارف بھائی کے چھپے رستم ہونے پہ یقین پختہ ہوتا گیا۔ اخیر میں "ربط" کی دید ہوئی تو خیالات کا تانتا ٹوٹا، اور توقعات کا محل زمیں بوس ہوا۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
چلیں اس جدید تحقیق سے یہ تو ثابت ہو گیا کہ گرمی کا تعلق موسم یا انسان کے جسم کے ساتھ نہیں بلکہ اُس کی عمر کے ساتھ ہے :)
 
ویسے مضمون کی عنوان سے مطابقت نہیں بن رہی. پورا مضمون گرمی بھگانے والی اشیاء کے ذکر سے بھرا ہوا ہے. گرمی نہیں لگتی تھی تو ان چیزوں کا مقصد؟
:p
 

arifkarim

معطل
ویسے مضمون کی عنوان سے مطابقت نہیں بن رہی. پورا مضمون گرمی بھگانے والی اشیاء کے ذکر سے بھرا ہوا ہے. گرمی نہیں لگتی تھی تو ان چیزوں کا مقصد؟
:p
شاید مطلب یہ تھا کہ گرمی لگتی تھی پر اسکی شدت ایسے محسوس نہیں ہوتی تھی جیسا کہ آجکل اے سی والے کمرے سے باہر نکلنے پر ہوتی ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ۹۰ کی دہائی میں جب ابھی اے سی عام نہیں ہوئے تھے تو ہم شدید گرمی کی دوپہر میں بھی باہر کھیل رہے ہوتے تھے۔ اگر گھر والے جاگ جائیں تو ڈانٹ پڑ جاتی تھی نہیں تو انہیں سوتا چھوڑ کر ہم یار لوگ گلیوں میں کھیلتے رہتے تھے۔ اب اے سی، کولر وغیرہ کے بعد کمرے سے باہر نکلا ہی نہیں جاتا۔ ائیر کنڈیشنر کی بدولت جسم کی اپنی کنڈیشن بدل گئی ہے۔
 

یاز

محفلین
ویسے مضمون کی عنوان سے مطابقت نہیں بن رہی. پورا مضمون گرمی بھگانے والی اشیاء کے ذکر سے بھرا ہوا ہے. گرمی نہیں لگتی تھی تو ان چیزوں کا مقصد؟
:p
میرے خیال میں "جب گرمی گرمی نہیں لگتی تھی" بچپن کی یادوں کے لئے ضرب المثل کے طور پہ بھی کہا جاتا ہے۔ اگرچہ اس کا استعمال خال خال ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔
 

زیک

مسافر
ناروے کی مناسبت سے "جب سردی سردی نہیں لگتی تھی!" کب آ رہی ہے؟
 
آخری تدوین:
Top