طارق شاہ
محفلین
غزل
جتنے کم مجھ سے مُلاقات کے اِمکاں ہونگے
اُتنا اُتنا ہی، وہ مِلنے کو پریشاں ہونگے
ہیں فقط ہم ہی نہیں دِید کے طالِب اُس کے !
گھر سے نِکلیں جو کبھی جان کے حیراں ہونگے
ہر قدم اُس کو دِلائے گا مِرا ہی احساس
اُس کی راہوں میں بِچھے یُوں مِرے ارماں ہونگے
پھر بہار آئی گی، اور پھر مِری یادیں ہونگیں !
دل کے بہلانے کو کیا کُچھ نہیں ساماں ہونگے
جو نظر اُٹّھے گی اُس کی، وہ بحالِ افسوس !
یُوں مِرے دِیدہ و دِل اشک بَداماں ہونگے
آج مِل جائیں، ہر اِک غم کا اِزالہ کرلیں !
کل کا کیا ٹھیک ہے، کل اور ہی عنواں ہونگے
اُن کو اندازہ نہیں میری محبّت کا خلؔش !
میں گیا ہاتھ سے اُن کے تو پشیماں ہونگے
شفیق خلؔش