محسن وقار علی
محفلین
اردو ادب کے بڑے ناموں میں سے ایک نام نظیر اکبر آبادی کا ہے!
نظیر 1735ء میں پیدا ہوا۔ یہ عہد مغلیہ سلطنت کے زوال کا تھا۔ محمد شاہ رنگیلا کی حکومت تھی۔ جی ہاں! یہ وہی مغل حکمران تھا جس نے دہلی پر حملہ کرنے والے نادر شاہ کا خط یہ کہہ کر شراب کے جام میں ڈبو دیا تھا کہ ”ایں دفتر بے معنی، غرق مے ناب ست“ جس کے بعد نادر شاہ نے حملہ کر کے دہلی کو خون میں ڈبو دیا تھا۔ بات نظیر اکبر آبادی کی ہو رہی تھی۔ نظیر نے عوامی موضوعات پر 70 ہزار کے لگ بھگ شعروں پر مشتمل نظمیں لکھیں۔ جن میں سے بیشتر تو ناپید ہیں مگر چھ ہزار شعروں پر مشتمل ان کا دیوان ابھی تک موجود ہے۔ ان کی ایک شہرہ آفاق نظم ”روٹی“ ہے، اس کے ایک دو بند آپ کی نذر کرتا ہوں!
جس جا پہ ہانڈی، چولہا، توا اور تنور ہے
خلق کی قدرتوں کا اسی سے ظہور ہے
چولہے کے آگے، آنچ جو جلتی حضور ہے
جتنے ہیں نور، سب میں یہی خاص نور ہے
اسی نور کے سبب نظر آتی ہیں روٹیاں
……O……
پوچھا کسی نے یہ کسی کامل فقیر سے
یہ مہر و ماہ حق نے بنائے ہیں کاہے کے
وہ سن کر بولا ، بابا خدا تجھ کو خیر دے
ہم تو نہ چاند سمجھیں، نہ سورج ہیں جانتے
بابا ہمیں تو یہ نظر آتی ہیں روٹیاں
……O……
پھر پوچھا اس نے کہئے یہ ہے دل کیا اور نور کیا؟
اس کے مشاہدے میں ہے کھُلتا ظہور کیا؟
وہ بولا سن کے، تیرا گیا ہے شعور کیا؟
کشف القلوب کیا اور یہ کشف القبور کیا؟
جتنے ہیں کشف، سب یہ دکھاتی ہیں روٹیاں!
……O……
نظیر اکبر آبادی نے یہ نظم تقریباً 2سو پچاس سال قبل کہی تھی۔ آج 2013ء کے پاکستان کا جائزہ لیجئے تو کیا نظیر کی یہ نظم پاکستانیوں کی اکثریت کی فریاد نظر نہیں آتی؟
ہمیں یہ نظم یوں یاد آئی کہ آج سے تقریباً چھ ہفتے بعد پاکستانیوں کے سامنے سوال یہ کھڑا ہو گا کہ ووٹ کس کو دیں؟؟
آج ووٹ مانگنے والے جن کارناموں کی بنیاد پر عام پاکستانیوں سے ووٹ کے طلبگار ہیں، ان کی فہرست اگرچہ بہت طویل ہے مگر لازم ہے کہ ان کو مختصراً دہرا دیا جائے!
کہا یہ جاتا ہے کہ ہم نے ملک میں اتحاد کی سیاست کو فروغ دیا۔ آئین میں 18ویں، 19ویں اور 20 ویں ترامیم کیں! نیا NFC ایوارڈ دیا، صوبائی خودمختاری میں اضافہ کیا، میٹرو بس بنائی، Laptop بانٹے… وغیرہ وغیرہ
مگر سوال یہ پیداہوتا ہے کہ یہ سب کچھ اپنی جگہ بجا، مگر غریب کی روٹی کدھر گئی؟یہ سوال کسی ایک پارٹی سے نہیں، پاکستان میں گزشتہ پانچ سال کے دوران برسراقتدار رہنے والے ہر حکمران سے ہے؟
گزشتہ روز کے ”دی نیوز“ میں شائع شدہ ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ پانچ سال کے دوران
O…آٹے کے بیس کلو گرام بیگ کی قیمت میں 535 روپے اضافہ ہوا ۔ 2008میں یہ قیمت 285 روپے تھی، اب 820روپے ہے۔
O…گھی کی قیمت میں 114روپے فی کلو اضافہ ہوا۔ 2008میں یہ قیمت 96روپے تھی آج 210 روپے ہے!
O…چائے کی قیمت پانچ برسوں میں 440 روپے فی کلو گرام بڑھی۔ 2008 میں یہ 320روپے تھی آج 760روپے کلو ہے۔
O…اس عرصے میں دالوں کی قیمت 55سے 70 روپے فی کلو گرام بڑھی!
O…یوٹیلیٹی سٹور پرمرچوں کی قیمت 200روپے فی کلو گرام بڑھی ۔2008 میں یہ قیمت 160 روپے تھی آج 360روپے ہے!
”غریب کی روٹی“ کے اجزا کی قیمتیں کتنی بڑھیں؟ اعداد وشمار کا ایک گورکھ دھندہ ہے کہ کہاں تک سنوگے کہاں تک سناؤں ہزاروں ہی شکوے ہیں کیا کیا بتاؤں، مگر ووٹ دینے والوں کے سامنے جو سوال منہ کھولے کھڑے ہیں، وہ کچھ یوں ہیں!
O…کیا ”اتحادوں کی سیاست“ کو رگڑ کرروٹی کھانے کیلئے چٹنی بنائی جاسکتی ہے؟
O…کیا آئینی ترامیم کے مصالحے سے ہانڈی بھونی جاسکتی ہے؟
O…کیا NFC ایوارڈ کے آٹے سے روٹی بنائی جاسکتی ہے؟
O…کیا میٹروبس اور لیپ ٹاپ سکیم کے نوالے بنا کر بھوکے بچوں کا پیٹ بھرا جاسکتاہے؟
O…کیا مزدورکی تنخواہ 15ہزار (مرحلہ وار) کرنے کے مسلم لیگی منشور اور پیپلزپارٹی کی طرف سے یہی تنخواہ 18ہزار کرنے کے وعدے سے پیٹ کا جہنم ٹھنڈا ہوسکتاہے؟
ہمیں تویہ نظر آتا ہے… آنے والے الیکشن ”روٹی کی جنگ“ بن جائیں گے۔ اس لئے کہ گزشتہ پانچ برسوں کے دوران ہزاروں نئے ارب پتی تو ضرور بنے مگر کروڑوں پاکستانی خط ِغربت سے نیچے پھسل آئے۔ بنکوں، سرکاری دفتروں ، امیروں کے گھروں کے باہر کھڑے سکیورٹی گارڈ کو تنخواہ کیا ملتی ہے؟ کیاآپ کو معلوم ہے؟ سات سے آٹھ ہزار روپے، ایک دیہاڑی دار مزدور کتنے پیسے مہینے کے کمالیتا ہوگا؟ 6سے 8ہزار؟ اس آمدنی میں یہ لوگ اپنا پیٹ کیسے بھرتے ہیں؟ خدا ہی جانے، انسانی ذہن تو 8ہزارروپے میں غریب کے گھر کا بجٹ نہیں بنا سکتا!
سو اگر آپ نے غریب کی روٹی کا بندوبست نہیں کیا تواس سے ووٹ کس منہ سے مانگتے ہیں!
روٹی کی بات چلی ہے توچلتے چلتے یہ بھی سن لیجئے!گزشتہ دنوں جناب نواز شریف نے اپنی پارٹی کے انتخابی امیدواروں سے حلف لیا کہ وہ کرپشن نہیں کریں گے اورملک کوکرپشن سے پاک کرنے کے لئے جدوجہد کریں گے؟بہت اچھی بات ہے کہ ہمارے حکمرانوں میں ملک سے کرپش ختم کرنے کا شعور جاگا ہے! مگر بہتر ہوتا کہ نوازشریف صاحب اس بات کا بھی جائزہ لے لیتے کہ ان کے 3200 ملازموں کو جو ”روٹی“کھلائی گئی اس کے پیسے کہاں سے ادا کئے گئے!……O……پس تحریر: ایک پرانے صحافتی رفیق نے گزشتہ روز کراچی سے بذریعہ SMS اطلاع دی کہ سندھ کے چیف منسٹر ہاؤس پر ”ادی ٹپی“ کا بھوت اب بھی منڈلا رہاہے۔ کروڑوں روپے کی زمینیں کوڑیوں میں الاٹ کرنے والے جسٹس قربان علوی اگرچہ سندھ کے ”برائے نام“ وزیراعلیٰ بن چکے ہیں مگر ”وزیراعلیٰ ہاؤس“ پر ابھی تک پرانے ایڈوائزروں، سپیشل اسسٹنٹوں اور دوسرے عملے کا قبضہ برقرار ہے۔ ابھی تک سابق وزیراعلیٰ قائم علی شاہ نے اپنی ذاتی چیزیں بھی وہاں سے نہیں اٹھائیں۔ اویس ٹپی اور ان کے ساتھی ابھی تک سندھ حکومت اسی طرح چلارہے ہیں جیسی حکومت وہ قائم علی شاہ کے زمانے میں کررہے تھے!سندھ کا احوال آپ نے جان لیا!یہ سب کچھ کیا ہورہاہے۔ سندھ پراصل حکومت کس کی ہے؟ کچھ پتہ نہیں چل رہا۔ بالکل اپنے ہرنام سنگھ کی طرح۔ہرنام سنگھ کہیں جارہا تھا۔ رستے میں اس نے دیکھا کہ ایک چھوٹا سا بچہ گھر کی دہلیزپر بیٹھا رو رہاہے۔ ہرنام سنگھ نے اس کو پچکارتے ہوئے پوچھا ”بیٹاکیوں… رو رہے ہو؟“بچہ بلکتا ہوا بولا، ”اندرمیرے امی ابو صبح سے لڑ رہے ہیں۔ میں تنگ آ کر باہر آگیا ہوں!“ ہرنام سنگھ کو بہت غصہ آیا۔ اس نے بچے کے باپ سے دو دو ہاتھ کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے پوچھا !”بیٹا تمہارا باپ کون ہے؟ کیا نام ہے اس کا؟“بچے نے بدستور روتے ہوئے کہا:”انکل… اسی بات پر توماما، پاپا میں لڑائی ہو رہی ہے!“
بہ شکریہ روزنامہ جنگ
نظیر 1735ء میں پیدا ہوا۔ یہ عہد مغلیہ سلطنت کے زوال کا تھا۔ محمد شاہ رنگیلا کی حکومت تھی۔ جی ہاں! یہ وہی مغل حکمران تھا جس نے دہلی پر حملہ کرنے والے نادر شاہ کا خط یہ کہہ کر شراب کے جام میں ڈبو دیا تھا کہ ”ایں دفتر بے معنی، غرق مے ناب ست“ جس کے بعد نادر شاہ نے حملہ کر کے دہلی کو خون میں ڈبو دیا تھا۔ بات نظیر اکبر آبادی کی ہو رہی تھی۔ نظیر نے عوامی موضوعات پر 70 ہزار کے لگ بھگ شعروں پر مشتمل نظمیں لکھیں۔ جن میں سے بیشتر تو ناپید ہیں مگر چھ ہزار شعروں پر مشتمل ان کا دیوان ابھی تک موجود ہے۔ ان کی ایک شہرہ آفاق نظم ”روٹی“ ہے، اس کے ایک دو بند آپ کی نذر کرتا ہوں!
جس جا پہ ہانڈی، چولہا، توا اور تنور ہے
خلق کی قدرتوں کا اسی سے ظہور ہے
چولہے کے آگے، آنچ جو جلتی حضور ہے
جتنے ہیں نور، سب میں یہی خاص نور ہے
اسی نور کے سبب نظر آتی ہیں روٹیاں
……O……
پوچھا کسی نے یہ کسی کامل فقیر سے
یہ مہر و ماہ حق نے بنائے ہیں کاہے کے
وہ سن کر بولا ، بابا خدا تجھ کو خیر دے
ہم تو نہ چاند سمجھیں، نہ سورج ہیں جانتے
بابا ہمیں تو یہ نظر آتی ہیں روٹیاں
……O……
پھر پوچھا اس نے کہئے یہ ہے دل کیا اور نور کیا؟
اس کے مشاہدے میں ہے کھُلتا ظہور کیا؟
وہ بولا سن کے، تیرا گیا ہے شعور کیا؟
کشف القلوب کیا اور یہ کشف القبور کیا؟
جتنے ہیں کشف، سب یہ دکھاتی ہیں روٹیاں!
……O……
نظیر اکبر آبادی نے یہ نظم تقریباً 2سو پچاس سال قبل کہی تھی۔ آج 2013ء کے پاکستان کا جائزہ لیجئے تو کیا نظیر کی یہ نظم پاکستانیوں کی اکثریت کی فریاد نظر نہیں آتی؟
ہمیں یہ نظم یوں یاد آئی کہ آج سے تقریباً چھ ہفتے بعد پاکستانیوں کے سامنے سوال یہ کھڑا ہو گا کہ ووٹ کس کو دیں؟؟
آج ووٹ مانگنے والے جن کارناموں کی بنیاد پر عام پاکستانیوں سے ووٹ کے طلبگار ہیں، ان کی فہرست اگرچہ بہت طویل ہے مگر لازم ہے کہ ان کو مختصراً دہرا دیا جائے!
کہا یہ جاتا ہے کہ ہم نے ملک میں اتحاد کی سیاست کو فروغ دیا۔ آئین میں 18ویں، 19ویں اور 20 ویں ترامیم کیں! نیا NFC ایوارڈ دیا، صوبائی خودمختاری میں اضافہ کیا، میٹرو بس بنائی، Laptop بانٹے… وغیرہ وغیرہ
مگر سوال یہ پیداہوتا ہے کہ یہ سب کچھ اپنی جگہ بجا، مگر غریب کی روٹی کدھر گئی؟یہ سوال کسی ایک پارٹی سے نہیں، پاکستان میں گزشتہ پانچ سال کے دوران برسراقتدار رہنے والے ہر حکمران سے ہے؟
گزشتہ روز کے ”دی نیوز“ میں شائع شدہ ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ پانچ سال کے دوران
O…آٹے کے بیس کلو گرام بیگ کی قیمت میں 535 روپے اضافہ ہوا ۔ 2008میں یہ قیمت 285 روپے تھی، اب 820روپے ہے۔
O…گھی کی قیمت میں 114روپے فی کلو اضافہ ہوا۔ 2008میں یہ قیمت 96روپے تھی آج 210 روپے ہے!
O…چائے کی قیمت پانچ برسوں میں 440 روپے فی کلو گرام بڑھی۔ 2008 میں یہ 320روپے تھی آج 760روپے کلو ہے۔
O…اس عرصے میں دالوں کی قیمت 55سے 70 روپے فی کلو گرام بڑھی!
O…یوٹیلیٹی سٹور پرمرچوں کی قیمت 200روپے فی کلو گرام بڑھی ۔2008 میں یہ قیمت 160 روپے تھی آج 360روپے ہے!
”غریب کی روٹی“ کے اجزا کی قیمتیں کتنی بڑھیں؟ اعداد وشمار کا ایک گورکھ دھندہ ہے کہ کہاں تک سنوگے کہاں تک سناؤں ہزاروں ہی شکوے ہیں کیا کیا بتاؤں، مگر ووٹ دینے والوں کے سامنے جو سوال منہ کھولے کھڑے ہیں، وہ کچھ یوں ہیں!
O…کیا ”اتحادوں کی سیاست“ کو رگڑ کرروٹی کھانے کیلئے چٹنی بنائی جاسکتی ہے؟
O…کیا آئینی ترامیم کے مصالحے سے ہانڈی بھونی جاسکتی ہے؟
O…کیا NFC ایوارڈ کے آٹے سے روٹی بنائی جاسکتی ہے؟
O…کیا میٹروبس اور لیپ ٹاپ سکیم کے نوالے بنا کر بھوکے بچوں کا پیٹ بھرا جاسکتاہے؟
O…کیا مزدورکی تنخواہ 15ہزار (مرحلہ وار) کرنے کے مسلم لیگی منشور اور پیپلزپارٹی کی طرف سے یہی تنخواہ 18ہزار کرنے کے وعدے سے پیٹ کا جہنم ٹھنڈا ہوسکتاہے؟
ہمیں تویہ نظر آتا ہے… آنے والے الیکشن ”روٹی کی جنگ“ بن جائیں گے۔ اس لئے کہ گزشتہ پانچ برسوں کے دوران ہزاروں نئے ارب پتی تو ضرور بنے مگر کروڑوں پاکستانی خط ِغربت سے نیچے پھسل آئے۔ بنکوں، سرکاری دفتروں ، امیروں کے گھروں کے باہر کھڑے سکیورٹی گارڈ کو تنخواہ کیا ملتی ہے؟ کیاآپ کو معلوم ہے؟ سات سے آٹھ ہزار روپے، ایک دیہاڑی دار مزدور کتنے پیسے مہینے کے کمالیتا ہوگا؟ 6سے 8ہزار؟ اس آمدنی میں یہ لوگ اپنا پیٹ کیسے بھرتے ہیں؟ خدا ہی جانے، انسانی ذہن تو 8ہزارروپے میں غریب کے گھر کا بجٹ نہیں بنا سکتا!
سو اگر آپ نے غریب کی روٹی کا بندوبست نہیں کیا تواس سے ووٹ کس منہ سے مانگتے ہیں!
روٹی کی بات چلی ہے توچلتے چلتے یہ بھی سن لیجئے!گزشتہ دنوں جناب نواز شریف نے اپنی پارٹی کے انتخابی امیدواروں سے حلف لیا کہ وہ کرپشن نہیں کریں گے اورملک کوکرپشن سے پاک کرنے کے لئے جدوجہد کریں گے؟بہت اچھی بات ہے کہ ہمارے حکمرانوں میں ملک سے کرپش ختم کرنے کا شعور جاگا ہے! مگر بہتر ہوتا کہ نوازشریف صاحب اس بات کا بھی جائزہ لے لیتے کہ ان کے 3200 ملازموں کو جو ”روٹی“کھلائی گئی اس کے پیسے کہاں سے ادا کئے گئے!……O……پس تحریر: ایک پرانے صحافتی رفیق نے گزشتہ روز کراچی سے بذریعہ SMS اطلاع دی کہ سندھ کے چیف منسٹر ہاؤس پر ”ادی ٹپی“ کا بھوت اب بھی منڈلا رہاہے۔ کروڑوں روپے کی زمینیں کوڑیوں میں الاٹ کرنے والے جسٹس قربان علوی اگرچہ سندھ کے ”برائے نام“ وزیراعلیٰ بن چکے ہیں مگر ”وزیراعلیٰ ہاؤس“ پر ابھی تک پرانے ایڈوائزروں، سپیشل اسسٹنٹوں اور دوسرے عملے کا قبضہ برقرار ہے۔ ابھی تک سابق وزیراعلیٰ قائم علی شاہ نے اپنی ذاتی چیزیں بھی وہاں سے نہیں اٹھائیں۔ اویس ٹپی اور ان کے ساتھی ابھی تک سندھ حکومت اسی طرح چلارہے ہیں جیسی حکومت وہ قائم علی شاہ کے زمانے میں کررہے تھے!سندھ کا احوال آپ نے جان لیا!یہ سب کچھ کیا ہورہاہے۔ سندھ پراصل حکومت کس کی ہے؟ کچھ پتہ نہیں چل رہا۔ بالکل اپنے ہرنام سنگھ کی طرح۔ہرنام سنگھ کہیں جارہا تھا۔ رستے میں اس نے دیکھا کہ ایک چھوٹا سا بچہ گھر کی دہلیزپر بیٹھا رو رہاہے۔ ہرنام سنگھ نے اس کو پچکارتے ہوئے پوچھا ”بیٹاکیوں… رو رہے ہو؟“بچہ بلکتا ہوا بولا، ”اندرمیرے امی ابو صبح سے لڑ رہے ہیں۔ میں تنگ آ کر باہر آگیا ہوں!“ ہرنام سنگھ کو بہت غصہ آیا۔ اس نے بچے کے باپ سے دو دو ہاتھ کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے پوچھا !”بیٹا تمہارا باپ کون ہے؟ کیا نام ہے اس کا؟“بچے نے بدستور روتے ہوئے کہا:”انکل… اسی بات پر توماما، پاپا میں لڑائی ہو رہی ہے!“
بہ شکریہ روزنامہ جنگ