جدائی کے سفر کو مختصر کردو

اٹھا کے رخ سے تم زلفیں ادھر کردو
مری تاریک راتوں کی سحر کردو

سزا دے دو یا چاھے درگزر کردو
مگر تم یوں نه مجهكو دربدر كردو

هنر مندو! كوئی ایسا ھنر کردو
که اس ٹوٹے ستارے کو قمر کردو

کوئی رسته كوئی تدبیر سوچو اب
جدائی کے سفر کو مختصر کردو

تم چاھو تو بھاریں پھر سے لوٹیں گی
خطائیں درگزر میری اگر کر دو

ابھی تو طنز کرتے ھیں سبھی مجھ په
جو تم آئو مجهے پھر معتبر کردو
 
ماشاءاللہ بہت خوب۔۔۔

کچھ تبصرے اور مشورے :) :

سزا دے دو یا چاھے درگزر کردو
مگر تم یوں نه مجهكو دربدر كردو

1۔ یا کا اسقاط اچھا نہیں لگ رہا۔
2۔ ”چاھے“ کا درست املا ”چاہے“ ہے۔
3۔ ”مجھکو“ الگ الگ لکھنا بہتر ہے۔

هنر مندو! كوئی ایسا ھنر کردو
که اس ٹوٹے ستارے کو قمر کردو

1۔ ھنر کا درست املا ”ہنر“ ہے۔
2۔ ”ہنر کرنا“ کیا مطلب؟
3۔ ”که“ بھی عجیب سا لگ رہا ہے۔ اردو والی ”ہ“ بہتر رہتی ہے۔

کوئی رسته كوئی تدبیر سوچو اب
جدائی کے سفر کو مختصر کردو

1۔ ”رسته“ کے بجائے ”رستہ“ اچھا ہے۔
2۔ ”رستہ“ کے بعد کاما (،) لکھیں۔
2۔ ”سفرکو“ کہنا ٹھیک نہیں لگ رہا ، کیوں کہ اردو گرائمر کی کتب میں لکھا ہے کہ مفعول بہ جب غیر ذوی العقول میں سے ہو تو اس کے بعد ”کو“ لانا ٹھیک نہیں ہے۔ دو مفعولوں میں کچھ گنجائش ہے۔

تم چاھو تو بھاریں پھر سے لوٹیں گی
خطائیں درگزر میری اگر کر دو

1۔ پہلا مصرع وزن سے خارج ہے۔
2۔ ”بھاریں“ کا درست املا ”بہاریں“ ہے۔
3۔ ”چاھو“ کا درست املا ”چاہو“ ہے۔

ابھی تو طنز کرتے ھیں سبھی مجھ په
جو تم آئو مجهے پھر معتبر کردو

1۔ ”پہ“ مجبوری میں لکھا جاتا ہے، یہاں تو محل بھی ”پر“ کا ہے۔
2۔ ”آئو“ کا درست املا ”آؤ“ ہے۔
3۔ دوسرے مصرع میں ”تو“ کی کمی محسوس ہورہی ہے۔
4۔ اگر ردیف (کردو) کے بجائے ”کردیں“ کردیں تو غزل کا رنگ متأدبانہ ہوجائے گا، مگر ”تم“ والا مزہ پھر نہیں آسکے گا۔
:)
 
آخری تدوین:
شکريه اسامه صاحب دراصل ميں اس وقت موبائل سے ھوں تو املا کی غلطیاں ھیں.آپ کے مشورے بے حد اھم ھیں ان پر عمل کرکے غزل دوباره پوسٹ کرتا ھوں
 
ﺟﺪﺍﺋﯽ ﮐﮯ(کا) ﺳﻔﺮ ﮐﻮ (اب)
ﻣﺨﺘﺼﺮ ﮐﺮﺩﻭ

یوں کھیں تو ؟
جدائی کا سفر اب مختصر کردو

سر اس مصرع پر کوئی اچھی سی گره لگا کر دیں پلیز
 

ایوب ناطق

محفلین
بحرہزج مسدس سالم مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن۔۔۔۔
اگر ردیف کو تبدیل کرکے "کردو" ۔۔۔۔ سے "کرنا" ہو تو مجموعی آہنگ میں اضافہ ہو سکتا ہے (ایک مشورہ)۔۔۔ اللہ ان قوافی اور ردیف کے ساتھ بلوچستان کے عظیم شاعر عین سلام صاحب کی ایک ایسی غزل موجود ہے جسے میں اردو کی کسی بھی عظیم غزل کے ساتھ رکھتے ہوئے ہچکچاہٹ محسوس نہ کروں گا ۔۔۔۔ وہ دیکھ لیجیے
ساتھ ہی مشورہ کہ پہلے غزل مکمل کیجیے' اپنی دل کی آواز کو سنتے ہوئے' پھر اس کا خود جائزہ لیجیے (کچھ عرصہ بعد' جب آپ اس کے سحر سے نکل گئے ہو)' اس کے بعد اساتذہ کرام سے مشورہ کیجیے اور ان کی اصلاح کو سمجھ کر قبول کیجیے یا اپنے بھرپور دفاع کے لیے تیار رہیے ۔۔۔ والسلام
 
آخری تدوین:
مختصر بات کرونگا۔ تفصیلی بحث کے لیے اساتذہ کا انتظار۔۔۔
اٹھا کے رخ سے تم زلفیں ادھر کردو
مری تاریک راتوں کی سحر کردو
ادھر ؟ اُدھر؟ اِدھر؟ کہاں؟


سزا دے دو یا چاھے درگزر کردو
مگر تم یوں نه مجهكو دربدر كردو
"یا" کا اسقاط برا نہیں لگ رہا۔ محمد اسامہ سَرسَری سے غیر متفق۔
البتہ شعر کو اصلاح کی ضرورت اپنی جگہ ہے۔ سزا "دے دو" سے بہتر "سزا دو" لگے گا۔ دوسرا مصرع لفظی ساخت کے اعتبار سے بہت گرا ہوا ہے۔ ترمیم کرکے دیکھیں آپ بہتر سوچ سکتے ہیں۔

هنر مندو! كوئی ایسا ھنر کردو
که اس ٹوٹے ستارے کو قمر کردو
ٹوٹے ستارے کو قمر کرنا کوئی محاورہ ہے؟ میں اس کی منطق نہیں سمجھ پایا۔

کوئی رسته كوئی تدبیر سوچو اب
جدائی کے سفر کو مختصر کردو
یہ اچھا ہے۔
محمد اسامہ سَرسَری کی توجہ کے لیے اپنی رائے دینا چاہوں گا کہ اردو میں مفعول بہ غیر ذوی العقول میں سے ہو تو عمومیت کی حالت میں "کو" لانا غلط ہے۔ البتہ غیر ذوی العقول میں خصوصیت یا کوئی اور تخصیص پائی جائے تو "کو" لانا فصیح ہی نہیں بلکہ فصیح تر ہے۔ جدائی کے سفر کو مختصر کردے، ہمارے گناہوں کو بخش دے، مرے دل کو قرار دے، وعلی ہذاالقیاس۔

تم چاھو تو بھاریں پھر سے لوٹیں گی
خطائیں درگزر میری اگر کر دو
پہلا مصرع بے بہرا اور بے بحرا ہے۔ :):):)
دوسرے مصرعے کی نشست کو مزید درست کیا جاسکتا ہے۔ تھوڑی کوشش کریں۔


ابھی تو طنز کرتے ھیں سبھی مجھ په
جو تم آئو مجهے پھر معتبر کردو
سبھی مجھ "پر" اسامہ بھائی نے نشاندہی کر دی ہے۔
دوسرا مصرع یوں بھی بہتر ہوسکتا ہے
تم آجاؤ، مجھے پھر معتبر کردو
 
محمد اسامہ سَرسَری کی توجہ کے لیے اپنی رائے دینا چاہوں گا کہ اردو میں مفعول بہ غیر ذوی العقول میں سے ہو تو عمومیت کی حالت میں "کو" لانا غلط ہے۔ البتہ غیر ذوی العقول میں خصوصیت یا کوئی اور تخصیص پائی جائے تو "کو" لانا فصیح ہی نہیں بلکہ فصیح تر ہے۔ جدائی کے سفر کو مختصر کردے، ہمارے گناہوں کو بخش دے، مرے دل کو قرار دے، وعلی ہذاالقیاس۔
اگر تخصیص سے مراد دو مفعولوں کا آنا ہے تو اس کا استثنا میں نے بھی کیا ہے:
”سفرکو“ کہنا ٹھیک نہیں لگ رہا ، کیوں کہ اردو گرائمر کی کتب میں لکھا ہے کہ مفعول بہ جب غیر ذوی العقول میں سے ہو تو اس کے بعد ”کو“ لانا ٹھیک نہیں ہے۔ دو مفعولوں میں کچھ گنجائش ہے۔
البتہ اس طرف میرا دھیان نہیں گیا کہ رحیم ساگر بلوچ صاحب کے شعر میں بھی دو مفعول ہیں۔
فصیح اور افصح والی بات میں آپ جیسے اہل زبان و تحقیق کا ارشاد میرے لیے سند کا درجہ رکھتا ہے۔
اور اگر تخصیص کا کوئی اور مطلب ہے تو وضاحت کا منتظر ہوں تاکہ علم میں اضافہ ہو۔ :)
 
اگر تخصیص سے مراد دو مفعولوں کا آنا ہے تو اس کا استثنا میں نے بھی کیا ہے:

البتہ اس طرف میرا دھیان نہیں گیا کہ رحیم ساگر بلوچ صاحب کے شعر میں بھی دو مفعول ہیں۔
فصیح اور افصح والی بات میں آپ جیسے اہل زبان و تحقیق کا ارشاد میرے لیے سند کا درجہ رکھتا ہے۔
اور اگر تخصیص کا کوئی اور مطلب ہے تو وضاحت کا منتظر ہوں تاکہ علم میں اضافہ ہو۔ :)

تخصیص سے مراد کسی بھی مفعول کو کسی طرح سے خاص کردینا۔ اب چاہے اشارہ سے ہو جیسے "اس" دعا کو قبول کر۔ چاہے ضمیر ہو جیسے میری، اسکی، تیری ہماری دعا کو قبول کر۔ یا پھر کوئی نام یا کوئی بھی اسم عام ہو۔ یا کوئی اور خصوصیت جس سے مفعول کی عمومیت ختم ہو جاتی ہے۔
مثلاً
کیا تم نے انسان دیکھا ہے؟ (بحیثیت مخلوق۔ عمومیت)
کیا تم نے اسامہ کو دیکھا ہے؟ (یہاں "اسامہ" مفعول کی عمومیت ختم کرکے اسے کسی دوسرے انسان سے ممتاز کر رہا ہے)
میں نے ایک آدمی دیکھا (عمومیت۔ کہ آدمی تو کوئی بھی ہوسکتا ہے)
میں نے اس آدمی کو دیکھا جس کے بال پاؤں تک تھے (لفظ "اس" نے تخصیص پیدا کی ہے)

اس سے زیادہ اردو کی گرائمر مجھے نہیں آتی۔ :rolleyes::rolleyes::rolleyes:
 
Top