تخصیص سے مراد کسی بھی مفعول کو کسی طرح سے خاص کردینا۔ اب چاہے اشارہ سے ہو جیسے "اس" دعا کو قبول کر۔ چاہے ضمیر ہو جیسے میری، اسکی، تیری ہماری دعا کو قبول کر۔ یا پھر کوئی نام یا کوئی بھی اسم عام ہو۔ یا کوئی اور خصوصیت جس سے مفعول کی عمومیت ختم ہو جاتی ہے۔
مثلاً
کیا تم نے انسان دیکھا ہے؟ (بحیثیت مخلوق۔ عمومیت)
کیا تم نے اسامہ کو دیکھا ہے؟ (یہاں "اسامہ" مفعول کی عمومیت ختم کرکے اسے کسی دوسرے انسان سے ممتاز کر رہا ہے)
میں نے ایک آدمی دیکھا (عمومیت۔ کہ آدمی تو کوئی بھی ہوسکتا ہے)
میں نے اس آدمی کو دیکھا جس کے بال پاؤں تک تھے (لفظ "اس" نے تخصیص پیدا کی ہے)
اس سے زیادہ اردو کی گرائمر مجھے نہیں آتی۔