سعیدالرحمن سعید
معطل
جُدا کیا ہو گئے تم سے نہ پھر یکجا ہوئے خود سے
ملا وہ اختیار آخر کہ خود تنہا ہوئے خود سے
تہ ِ آب ِ دل و جاں موتیوں کی طرح رہتے ہیں
جو منظر اس جہانِ خاک میں پیدا ہوئے خود سے
چھپا لیتے رخِ جاناں ہم اپنی پیاسی آنکھوں میں
لب ِ گویا کے ہاتھوں کس لیے رسوا ہوئے خود سے
اڑی وہ خاک ِ دل صورت نظر آتی نہیں اپنی
پریشان ہو گئے اتنے کہ برگشتہ ہوئے خود سے
جلا کر چاند آنکھوں میں دوعالم دیکھتے تھے ہم
حجاب ِ لا مکاں پایا جو بے پروا ہوئے خود سے
پڑے تھے بے خبر مدت سے خاموشی کے ساحل پر
ہوا ایسی چلی ہم زمزمہ پیرا ہوئے خود سے
اب اس ذوق ِ حضوری کے مزے کس سے بیاں کیجے
ہم اپنی خلوتوں میں کس طرح گویا ہوئے خود سے
سعیدؔ اپنے سفینے کو بہا کر لے گئے ہر سو
جو طوفان قلزم ِ جاں میں مرے برپا ہوئے خود سے
سعید الرحمن سعیدؔ
ملا وہ اختیار آخر کہ خود تنہا ہوئے خود سے
تہ ِ آب ِ دل و جاں موتیوں کی طرح رہتے ہیں
جو منظر اس جہانِ خاک میں پیدا ہوئے خود سے
چھپا لیتے رخِ جاناں ہم اپنی پیاسی آنکھوں میں
لب ِ گویا کے ہاتھوں کس لیے رسوا ہوئے خود سے
اڑی وہ خاک ِ دل صورت نظر آتی نہیں اپنی
پریشان ہو گئے اتنے کہ برگشتہ ہوئے خود سے
جلا کر چاند آنکھوں میں دوعالم دیکھتے تھے ہم
حجاب ِ لا مکاں پایا جو بے پروا ہوئے خود سے
پڑے تھے بے خبر مدت سے خاموشی کے ساحل پر
ہوا ایسی چلی ہم زمزمہ پیرا ہوئے خود سے
اب اس ذوق ِ حضوری کے مزے کس سے بیاں کیجے
ہم اپنی خلوتوں میں کس طرح گویا ہوئے خود سے
سعیدؔ اپنے سفینے کو بہا کر لے گئے ہر سو
جو طوفان قلزم ِ جاں میں مرے برپا ہوئے خود سے
سعید الرحمن سعیدؔ
آخری تدوین: