جدید اور روایتی تہذیب کے درمیان تصادم

قیصرانی

لائبریرین
مختصر روشنی ڈال دیجئے کہ اتنی لمبی وڈیوز صرف وہ ہی دیکھیں گے جو اس کے بارے کچھ دلچسپی رکھتے ہوں گے :)
 
مختصر روشنی ڈال دیجئے کہ اتنی لمبی وڈیوز صرف وہ ہی دیکھیں گے جو اس کے بارے کچھ دلچسپی رکھتے ہوں گے :)
اپنے لفظوں میں خلاصہ پیش کر دیں۔ اتنی لمبی وڈیو دیکھنا بہت مشکل ہے۔ :)
کیا اس نئی دنیا میں نئی تہذیب جنم لے رہی ہے ۔پاکستان کی جو تہذیب تھی وہ ہندوستانی تھی لیکن اب اس میں عربی کلچر حاوی ہوتا جا رہا ہے ۔دنیا سمٹتی جا رہی ہے اس کا احساس خصوصا مذہبی رہنماوں کو نہیں ہے ۔مذہب ہمارے تانے بانے کو تبدیل کر نے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے ۔ ریاست مذہبی جنونیت اور خاص طور پر معاشرے کے سماجی اور اقتصادی ترقی کی طرف اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں ناکام ہے ۔مسلمان چونکہ ترقی نہیں کر پائے خاص کر سائنس اور تکنالوجی میں تو انھوں نے اپنی احساس کمتری کو چھپانے کے لئے غیروں پر تنقید کرنا شروع کر دیا ۔

پروگرام کی ہوسٹنک بلند اقبال صاحب کر رہے ہیں ان کی گفتگو کا مرکز زیادہ سنی اور شیعہ کے درمیان ہی گھوم رہی ہے ۔حالاں کہ انھوں نے موضوع بہت اچھا انتخاب کیا تھا ۔ کلچر اور ثقافت کا تنوع تو کہیں اور گم ہو گیا ہے ۔ نوجوان نسل خصوصا دونوں جگہ افراط اور تفریط کا شکار ہے ۔ ان کے لئے یہ فیصلہ کرنا بہت مشکل ہو رہا ہے کہ کون درست ہے اور کون غلط اور اسی کا فائدہ سازشی عناصر اٹھا رہے ہیں ۔آج کل "بنیاد پرستی" " انتہا پرستی" جیسے الفاظ بہت استعمال کئے جاتے ہیں لیکن اطمئنان بخش اس کا جواب نہیں مل سکا ہے ۔ سیکولرزم کی بھی بات کی گئی ہے کہ دینی طبقہ اس کا نام سنتے ہی بدک جاتے ہیں خاصکر دیوبندی علماء لیکن انھیں کے فکر اور فلسفہ سے تعلق رکھنے والے ہندوستانی علماء اسی کی دہائی دیتے نظر آتے ہیں ۔

پاکستان ایک اسلامی اسٹیٹ ہے یا سیکولر ؟ جناح کیسا ملک بنانا چاہتے تھے اس پر بھی گفتگو ہوئی ہے ۔ڈسکشن کافی طویل ہے سننے سے تعلق رکھتا ہے ۔ کئی لوگوں کی گفتگو ہے چند جملوں میں خلاصہ یہ میرے لئے ممکن نہیں ۔ آپ نے کہا تو سننے کے بعد جو باتیں یاد رہی سر سری طور پر لکھ دیا ہے ۔

نوٹ : یہ ساری باتیں ویڈیو میں ہیں بھائی لوگ اسے میری اپنی رائے نہ سمجھ لیں ۔
 
کیا اس نئی دنیا میں نئی تہذیب جنم لے رہی ہے ۔پاکستان کی جو تہذیب تھی وہ ہندوستانی تھی لیکن اب اس میں عربی کلچر حاوی ہوتا جا رہا ہے ۔دنیا سمٹتی جا رہی ہے اس کا احساس خصوصا مذہبی رہنماوں کو نہیں ہے ۔مذہب ہمارے تانے بانے کو تبدیل کر نے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے ۔ ریاست مذہبی جنونیت اور خاص طور پر معاشرے کے سماجی اور اقتصادی ترقی کی طرف اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں ناکام ہے ۔مسلمان چونکہ ترقی نہیں کر پائے خاص کر سائنس اور تکنالوجی میں تو انھوں نے اپنی احساس کمتری کو چھپانے کے لئے غیروں پر تنقید کرنا شروع کر دیا ۔

پروگرام کی ہوسٹنک بلند اقبال صاحب کر رہے ہیں ان کی گفتگو کا مرکز زیادہ سنی اور شیعہ کے درمیان ہی گھوم رہی ہے ۔حالاں کہ انھوں نے موضوع بہت اچھا انتخاب کیا تھا ۔ کلچر اور ثقافت کا تنوع تو کہیں اور گم ہو گیا ہے ۔ نوجوان نسل خصوصا دونوں جگہ افراط اور تفریط کا شکار ہے ۔ ان کے لئے یہ فیصلہ کرنا بہت مشکل ہو رہا ہے کہ کون درست ہے اور کون غلط اور اسی کا فائدہ سازشی عناصر اٹھا رہے ہیں ۔آج کل "بنیاد پرستی" " انتہا پرستی" جیسے الفاظ بہت استعمال کئے جاتے ہیں لیکن اطمئنان بخش اس کا جواب نہیں مل سکا ہے ۔ سیکولرزم کی بھی بات کی گئی ہے کہ دینی طبقہ اس کا نام سنتے ہی بدک جاتے ہیں خاصکر دیوبندی علماء لیکن انھیں کے فکر اور فلسفہ سے تعلق رکھنے والے ہندوستانی علماء اسی کی دہائی دیتے نظر آتے ہیں ۔

پاکستان ایک اسلامی اسٹیٹ ہے یا سیکولر ؟ جناح کیسا ملک بنانا چاہتے تھے اس پر بھی گفتگو ہوئی ہے ۔ڈسکشن کافی طویل ہے سننے سے تعلق رکھتا ہے ۔ کئی لوگوں کی گفتگو ہے چند جملوں میں خلاصہ یہ میرے لئے ممکن نہیں ۔ آپ نے کہا تو سننے کے بعد جو باتیں یاد رہی سر سری طور پر لکھ دیا ہے ۔

نوٹ : یہ ساری باتیں ویڈیو میں ہیں بھائی لوگ اسے میری اپنی رائے نہ سمجھ لیں ۔
اس شئرنگ کے لئے بہت شکریہ :)
اور خلاصہ بیان کرنے کا دگنا شکریہ :):)
یہ بات تو درست ہے کہ کچھ لوگ خوامخواہ مغرب پر تنقید کرتے ہیں۔ لیکن مغرب کے بہت سے کام قابل تنقید ہیں بھی۔
کچھ لوگ واقعی عالم دین کے منصب پر فائز ہونے کے قابل نہیں ہیں ۔ لیکن سارے علماء ایسے نہیں ہیں۔ الحمدللہ ایسے علماء بھی ہیں جو علم حق بلند کئے ہوئے ہیں۔
بنیاد پرستی یا انتہا پسندی پر تنقید کرنے سے پہلے اس کی تعریف بیان کرنا ہوگی۔
ایسے ہی جناح کی خواہش بیان کرنے سے پہلے سیکولر ازم کی تعریف بیان کرنا ہوگی۔
بہت سے لوگ معاملہ کنفیوژن میں رکھ کر بات شروع کر دیتے ہیں اور کوئی نتیجہ نہیں نکلتا۔
یہ سارے نکات دلچسپ ہیں اور ان پر بات ہوسکتی ہے۔ :)
 
اقبال حسن صاحب پاکستان کے معروف اسکرپٹ رائٹر ہیں انھوں نے اس ویڈیو کے بعد اپنے فیس بُک میں تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے ۔۔۔۔۔۔۔
’’یہ درست ہے کہ مشرق وسطیٰ کی تاریخ کے سیاسی ڈانڈے ہندوستان سے ملتے ہیں بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ ہندوستانی مسلمانوں کی وجہ سے یہ ایک انتہائی اہم حقیقت تھی اور رہے گی ۔ آپ کا یہ ارشاد بالکل بجا ہے کہ 1857 کی ناکام اور محدود جنگ آزادی جسے اس معنی میں تو جنگ آزادی نہیں کہا جا سکتا کہ اس میں زیادہ ترانگریز بچے اور عورتیں آزادی کی جنگ لڑنے والوں کا ہدف رہے وہابیت کا ھندوستان میں قیام کا وقت تھا۔ یہ حضرات لوٹ مار میں بھی کچھ کم نہیں تھے (دیکھئے ،،کمپنی کی حکومت،، (باری) ۔ یہی نہیں ان کو غالب جیسا غیر جانبدار شخص ،،تلنگے،، کہنے پر مجبور ہو گیا تھا۔ انگریز ایک زیرک قوم ہے اور ھر بات کا فیصلہ چونکہ بندوق سے نہیں کرتی، چنانچہ انہوں نے ایک طرف وھابی تحریک کو عرب میں فروغ دیا اور دوسری طرف مسلمان علما کا ایک گروہ ہندوستان میں بھی پیدا کر دیا اور یوں ایک طرح کی ،،مذہبی،، تفریق کا جنم ہوا ۔ یاد رہے کہ ھم یہاں اس کے درست یا غلط ہونے کی بحث نہیں کر رہے ۔ ایک طرف تو یہ تحریک اسلام کو ھندوؤں کی نقالی میں ،،ہلے گلے،، والا مذہب بنانے کے خلاف تھی اور حالانکہ ابھی تک ،،بریلویت،، کو یہ نام نہیں ملا تھا،جو اُس سے متصادم تھی ۔ مولویوں نے اسے مذہب کی سان پہ کچھ ایسے چڑھایا کہ یہ دونوں مکتبہ خیال ،،دو علیحدہ فرقوں،، میں تقسیم ہو گئے اور یہی ان کا مطمع نظر تھا جو یہ تقسیم چاہتے تھے چنانچہ اس سلسلے میں مسلمان حضرات ایک دوسرے سے شدت سے تحریری اور کہیں کہیں جسمانی طور پر بھی متصادم رہے اور یوں عام مسلمان بتدریج شدت پسند ہوتا گیا ۔ مسلمانوں میں صدیوں سے موجود شعیہ فرقہ کسی تشدد کا حامل نہیں تھا لیکن جب اودھ کے انتہائی فارغ حکمرانوں نے وقت گزاری کے لئے اس میں اپنی طرف سے اضافے شروع کئے اور وہ جیزیں داخل کر دیں جن کا اسلام سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں تھا اور انیسؔ و دبیرؔ کے مرثیوں کی شاعرانہ امثال کو واقعات کربلا کے تناظر میں ،،سچ،، بنا کر پیش کرنا شروع کیا تو یہ دیو بندی مسلک کے نزدیک تاریخ مسخ کرنے والی بات تھی ۔ یہاں سے نفرت مزید گہری ہوئی اور اس طرح یہ تقسیم در تقسیم والا ایجنڈا مزید مضبوط ہوا ۔ پھر فیصلہ ہوا کہ مسلمانوں کے دل میں فلسطین کی ریاست قائم کی جائے چنانچہ معاہدہ بافور ہوا غالباً 1918 میں جب پہلی جنگ ختم ہوئی تھی۔ادھر کویت میں پناہ لئے ہوئی آل سعود کی نئی مملکت سعودی عرب قائم کرنے کی کامیاب کوشش ہوئی تو اُدھر برائے نام ہی سہی، خلافت کو ختم کر دیا گیا جس پر بر صغیر کے مسلمانوں نے برصغیر کی تاریخ کی سب سے احمقانہ تحریک بھی چلائی ۔ یہ برصغیر کے مسلمانوں کے لئے ،،ٹسٹ کیس،، تھا ۔ جب یہ تحریک اپنا عروج دکھا کر ختم ہو گئی تو یہاں سے ہندوستانی مسلمانوں کی تقسیم کی کوشش مزید شدت سے شروع ہوئی ۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ ہندوستانی مسلمان اُس وقت کے عرب بدوؤں کے مقابلے میں مالی طور پر بھی اور فکری سطح پر بھی زیادہ بلند تھا ۔ اس کی ایک وجہ عربی اور فارسی پر اس وقت کے علما کا عبور تھا اور ایسے عالموں کی بادشاہوں کی طرف سے مسلسل سرپرستی بھی جاری تھی ۔ بادشاہت تو ختم ہو گئی لیکن اتنی بڑی تعداد میں عربی اور فارسی اور پھر اُس کے نتیجے میں مذہب پر عبور رکھنے والوں علما کی برصغیر میں، انگریزوں کے جانے کے بعد موجودگی یقیناً ،،ایجنڈا ترتیب دینے والوں،، کے لئے خطر ناک ثابت ہو سکتی تھی تو------------------- (اس سے آگے لکھنے والے کے پر جلتے ہیں اس لئے اس لکھے ہوئے کو یہیں تک کافی سمجھیں) ‘‘
 
جہاں تک عربی کلچر کی بات ہے تو برصغیر کے مسلمانوں میں عربی اور فارسی (یا ایرانی) اور ترکی کلچر کے اثرات ہمیشہ سے رہے ہیں۔ ہاں یہ کہ سکتے ہیں کہ تقسیم ہند کے بعد چونکہ پاکستان میں ہندو اور غیر مسلم برائے نام رہ گئے تو ان کی تہذیبی اثرات بھی وقت کے ساتھ ساتھ کم ہوتے گئے۔ جو چیز آپکو عربی کلچر کا حاوی ہونا لگ رہا ہے وہ اصل میں ہندو تہذیب کے اثرات کا کم ہونا ہے۔
 
جہاں تک عربی کلچر کی بات ہے تو برصغیر کے مسلمانوں میں عربی اور فارسی (یا ایرانی) اور ترکی کلچر کے اثرات ہمیشہ سے رہے ہیں۔ ہاں یہ کہ سکتے ہیں کہ تقسیم ہند کے بعد چونکہ پاکستان میں ہندو اور غیر مسلم برائے نام رہ گئے تو ان کی تہذیبی اثرات بھی وقت کے ساتھ ساتھ کم ہوتے گئے۔ جو چیز آپکو عربی کلچر کا حاوی ہونا لگ رہا ہے وہ اصل میں ہندو تہذیب کے اثرات کا کم ہونا ہے۔
مجھے کیوں لگے گا ۔میں نے تو ابھی دیکھا ہی نہیں ہے ۔:)
 

زیک

مسافر
جہاں تک عربی کلچر کی بات ہے تو برصغیر کے مسلمانوں میں عربی اور فارسی (یا ایرانی) اور ترکی کلچر کے اثرات ہمیشہ سے رہے ہیں۔ ہاں یہ کہ سکتے ہیں کہ تقسیم ہند کے بعد چونکہ پاکستان میں ہندو اور غیر مسلم برائے نام رہ گئے تو ان کی تہذیبی اثرات بھی وقت کے ساتھ ساتھ کم ہوتے گئے۔ جو چیز آپکو عربی کلچر کا حاوی ہونا لگ رہا ہے وہ اصل میں ہندو تہذیب کے اثرات کا کم ہونا ہے۔
نہیں۔ پاکستان وغیرہ میں پہلے ایرانی و فارسی اثر تھا جو اب عربی سے بدل رہا ہے۔ یہ آپ ناموں میں بھی دیکھ سکتے ہیں
 
نہیں۔ پاکستان وغیرہ میں پہلے ایرانی و فارسی اثر تھا جو اب عربی سے بدل رہا ہے۔ یہ آپ ناموں میں بھی دیکھ سکتے ہیں
برصغیر میں اسلام سب سے پہلے عربی کلچر سے متاثر لوگ لائے تھے۔ جہاں جہاں مسلمان عرب سے نکل کے پہنچے عربی کلچر ساتھ لیکر گئے۔ آجکل عربی نام رکھنے کا فیشن چلا ہوا ہے۔ لباس اور رسوم وغیرہ میں کوئی خاص عربی کلچر نظر نہیں آتا۔ البتہ شاورما جیسے فاسٹ فوڈ ضرور متعارف ہوئے ہیں جیسے پیتزا وغیرہ آگئے پاکستان میں ایسے ہی خلیج سے شاورما پہنچ گیا۔
 
بر صغیر میں اسلام عرب سے نہیں آیا ماسوائے Kerala وغیرہ کے
جس راستے سے بھی آیا اس کا آغاز عرب سے ہی ہوا، مسلمان تاجروں اور محمد بن قاسم کے ذریعے ڈائرکٹ بھی آیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں بلوچستان تک تو عرب پہنچ چکے تھے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
مجھے تو یہ لگتا ہے کہ ہم دیسی لوگ، یعنی برصغیر کے لوگ اتنا عرصہ پستے رہے ہیں کہ کوئی بھی اثر ہم تک پہنچے، ہم اسے اپنانے کو اتاولے بیٹھے ہوتے ہیں۔ چاہے وہ مذہب ہو، سیاست ہو، فیشن ہو، کلچر ہو یا کچھ بھی :)
 

arifkarim

معطل
جو چیز آپکو عربی کلچر کا حاوی ہونا لگ رہا ہے وہ اصل میں ہندو تہذیب کے اثرات کا کم ہونا ہے۔

ہاہاہاہا! جناب عالی، اس خطے کے مسلمانوں میں 1947 سے قبل بھی عرب رنگ ڈھنگ نہیں رہا ہے۔1915 میں عرب قوم پرستوں نے اسلامی خلافت عثمانیہ کیخلاف کھلے عام بغاوت کی اور جنگ عظیم اول کے بعد اسلامی خلافت کا نام و نشان ہی ختم کر دیا جسکی شروعات خود سرزمین عرب سے 1400 سال قبل ہوئی تھی! اسکے جواب میں پورے عالم اسلام کو چھوڑ کر صرف برصغیر کے مسلمانوں نے خلافت موومنٹ کی تحریک کا آغاز کیا۔ گو کہ یہ خلافت تحریک سیکولر اتا ترک کے آگے ناکام ہو گئی لیکن اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ مسلم امت نام کی کوئی چیز 21 ویں صدی میں موجود نہیں ہے جو کسی ایک مسلم خلیفہ کے نام پر متحد ہو سکے۔

جہاں تک پاکستان میں ہندو تہذیب کے اثرات کم ہونے کا سوال ہے تو جناب آپ کبھی پاکستانی میڈیا کا چکر بھی لگا لیا کریں۔ ہماری خواتین تو خود بھارتی ڈراموں، فلموں، اداکاروں کی دیوانی ہیں اور ہمارا بچہ بچہ اردو کی بجائے ہندی بول رہا ہے۔
 
ہاہاہاہا! جناب عالی، اس خطے کے مسلمانوں میں 1947 سے قبل بھی عرب رنگ ڈھنگ نہیں رہا ہے۔1915 میں عرب قوم پرستوں نے اسلامی خلافت عثمانیہ کیخلاف کھلے عام بغاوت کی اور جنگ عظیم اول کے بعد اسلامی خلافت کا نام و نشان ہی ختم کر دیا جسکی شروعات خود سرزمین عرب سے 1400 سال قبل ہوئی تھی! اسکے جواب میں پورے عالم اسلام کو چھوڑ کر صرف برصغیر کے مسلمانوں نے خلافت موومنٹ کی تحریک کا آغاز کیا۔ گو کہ یہ خلافت تحریک سیکولر اتا ترک کے آگے ناکام ہو گئی لیکن اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ مسلم امت نام کی کوئی چیز 21 ویں صدی میں موجود نہیں ہے جو کسی ایک مسلم خلیفہ کے نام پر متحد ہو سکے۔

جہاں تک پاکستان میں ہندو تہذیب کے اثرات کم ہونے کا سوال ہے تو جناب آپ کبھی پاکستانی میڈیا کا چکر بھی لگا لیا کریں۔ ہماری خواتین تو خود بھارتی ڈراموں، فلموں، اداکاروں کی دیوانی ہیں اور ہمارا بچہ بچہ اردو کی بجائے ہندی بول رہا ہے۔
اگر بھارتی مسلمانوں اور پاکستانیوں کا موازنہ کیا جائے تو پاکستانیوں پر ہندو تہذیب کے اثرات کا کم ہونا بالکل صاف ظاہر ہوگا۔
 
Top