جدید غزل جس کی ابتدا حالی ؔ کے مقدمہ شعرو شاعری کے منظر عام پر آنے کے بعد ابتدا ہوئی ،اس روایت کی تجدیدو توسیع حسرتؔ ،جگرؔ ،یگانہ،اصغرؔ ،فراقؔ ،مجروح ؔ اور فیض ؔ وغیرہ سے ہوتی ہے،اس عہد میں غزل پرانی روایت سے منحرف ہوکر ایک نئی جہت سے آشنا ہوئی ،اس عہد کے شعرا نے گیسو و بلبل اور عشق و عاشقی کی روایت سے اوپر اٹھ کر بہت سے فلسفیانہ خیالات اور مضامین کو غزل کے اندر شامل کیا ،زندگی اور اس کے مسائل کو مفکرانہ لبادہ اڑھاکر بیان کیا جانے لگا ،زندگی کے کشمکش کا فلسفیانہ تصور پیش کیا ،سماجی،سیاسی ،معاشی،دینی اور عمرانی نظریات کو غزل کا حصہ بنایا جانے لگا ،نئے نئے استعارات و علائم اور لفظیات وضع کیا ،تصوف کو بھی ایک نئے انداز سے غزل کا حصہ بنایا گیازبان وبیان سنوارنے اور نکھارنے کے علاوہ مواد اور ہیئت کی ہم آہنگی پر بھی زور دیا گیا،جس کی وجہ سے غزل کی دنیا کافی وسیع ہوگئی ،۱۸۵۷ ء کے انقلاب کے بعد دیگر چیزوں کے ساتھ ساتھ یہاں کی شاعری پر بھی مغربی اثرات نظر آنے لگے ،جن کی وجہ سے غزل متعدد مرتبہ تبدیلیوں سے ہمکنار ہوئی حسرت وغیرہ کے عہد کے بعد ترقی پسند تحریک نے غزل میں ایک نئی فکر کی بنیاد رکھی ،پھر حلقۂ ارباد ذوق،پھر جدیدیت اور اس کے بعد مابعد جدیدیت جیسے افکارو عناصر نے غزل کو متاثر کیااور جوں جوں زمانہ دراز ہوتا گیا غزل کی بھی ترقی یافتہ شکلیں سامنے آتی چلی گئیں اور یہ تمام تبدیلیاں اس وجہ سے آئیں کہ فکری عناصر بدلتے گئے،غزل کی جدید عناصر کو سمجھنے کے لیے فکری عناصر اور ان اسباب وعوامل کوسمجھنا ضروری ہے جن کی وجہ سے غزل نے تبد یلیوں کو قبول کیا ۔
منقول: عبدالباری قاسمی
دہلی یونیورسٹی دہلی