جدید فارسی اور ترکی میں تلفظ

کچھ عرصہ پہلے اپنے ترکی دوستوں سے ملاقات ہوئی اور ان کی ایک بات نوٹ کی کہ ترکی زبان میں "ہ" کو "ے" پڑھتے ہیں یا کہتے ہیں
جیسے سیدہ شگفتہ کو سیدے شگفتے
اور اسامہ کو اسامے
مجھے تو ترکی زبان کا یہ لہجہ بہت اچھا لگا۔ ایک چاشنی سی ہے
کوئی ترکی زبان جاننے والا بتا سکتا ہے کہ ایسا کیوں ہے؟
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
ایرانی فارسی اور اناطولیائی ترکی میں ہائے غیر ملفوظ کی حرکتِ ماقبل میں امالہ در آیا ہے یعنی فاطمہ کو وہاں فاطمے پڑھا جاتا ہے۔ ایسا تاریخی و تصادفی لسانی تغیر کی بنا پر ہوا ہے، اس کے پیچھے میرے خیال میں کوئی خاص وجہ نہیں ہے۔
فارسی کے مشرقی لہجوں یعنی افغانستان اور ماوراءالنہر کے لہجوں میں یہ تغیر وقوع نہیں ہوا ہے۔ اور ترکی زبان کے بیشتر غیر اناطولیائی لہجوں میں، حتیٰ کہ ایران کے فارسی گو علاقوں اور ایشیائے صغیر کے ترکی گو علاقوں کے درمیان میں واقع خطۂ آذربائجان کے ترکی لہجے میں بھی، فاطمَہ کو فاطمَہ ہی کہا جاتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ چونکہ عثمانی دور میں بلقان میں اسلام کے شیوع کا بنیادی ذریعہ عثمانی ترکی اور ترکی گو آبادی تھی، لہٰذا وہاں کی زبانوں میں موجود عربی/فارسی کے اسی طرح کے الفاظ اور مسلم آبادیوں کے لوگوں کے نام بھی اِمالے کے ساتھ تلفظ ہوتے ہیں یعنی: حدیجے (خدیجہ؛ اناطولیائی ترکی میں 'خ' کی آواز بھی مفقود ہو چکی ہے)، فاطمے (فاطمہ)، عائشے (عائشہ) وغیرہ۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
معاصر ایرانی فارسی میں زیر کی آواز 'i' کے بجائے 'e' ہے (کِتاب = ketab)، اس لیے در حقیقت ایران میں ہائے غیر ملفوظ پر ختم ہونے والے الفاظ میں 'ہا' سے قبل کے صامت کو زیر کے ساتھ لکھا اور پڑھا جاتا ہے۔ صرف لفظِ 'نَہ' (یعنی نہیں) اس اصول سے مستثنیٰ ہے۔
 
آخری تدوین:
ایرانی فارسی اور اناطولیائی/عثمانی ترکی میں ہائے غیر ملفوظ کی حرکتِ ماقبل میں امالہ در آیا ہے یعنی فاطمہ کو وہاں فاطمے پڑھا جاتا ہے۔ ایسا تاریخی و تصادفی لسانی تغیر کی بنا پر ہوا ہے، اس کے پیچھے میرے خیال میں کوئی خاص وجہ نہیں ہے۔
فارسی کے مشرقی لہجوں یعنی افغانستان اور ماوراءالنہر کے لہجوں میں یہ تغیر وقوع نہیں ہوا ہے۔ اور ترکی زبان کے بیشتر غیر اناطولیائی لہجوں میں، حتیٰ کہ ایران کے فارسی گو علاقوں اور ایشیائے صغیر کے ترکی گو علاقوں کے درمیان میں واقع خطۂ آذربائجان کے ترکی لہجے میں بھی، فاطمَہ کو فاطمَہ ہی کہا جاتا ہے۔
لُبنان کے گفتاری عربی لہجے میں بھی یہ لسانی مظہر موجود ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ چونکہ بلقان میں اسلام کے انتشار کا بنیادی ذریعہ عثمانی ترکی اور ترکی گو آبادی تھی، لہٰذا وہاں کی زبانوں میں موجود عربی/فارسی کے اسی طرح کے الفاظ اور مسلم آبادیوں کے لوگوں کے نام بھی اِمالے کے ساتھ تلفظ ہوتے ہیں یعنی: حدیجے (خدیجہ؛ اناطولیائی ترکی میں 'خ' کی آواز بھی مفقود ہو چکی ہے)، فاطمے (فاطمہ)، عائشے (عائشہ) وغیرہ

زبردست
یعنی ترکی اثر ہی ہے۔
بہرحال بڑا دلچسپ ہے۔ حتیٰ کہ قران پڑھنے کے دوران بھی میں یہ فرق محسوس کیا ہے۔ عام ترکی کوئی تلاوت کرتے ہیں تو اکثر یہ غلطی کرتے ہیں
 

سید عاطف علی

لائبریرین
ایرانی فارسی اور اناطولیائی ترکی میں ہائے غیر ملفوظ کی حرکتِ ماقبل میں امالہ در آیا ہے یعنی فاطمہ کو وہاں فاطمے پڑھا جاتا ہے۔ ایسا تاریخی و تصادفی لسانی تغیر کی بنا پر ہوا ہے، اس کے پیچھے میرے خیال میں کوئی خاص وجہ نہیں ہے۔
فارسی کے مشرقی لہجوں یعنی افغانستان اور ماوراءالنہر کے لہجوں میں یہ تغیر وقوع نہیں ہوا ہے۔ اور ترکی زبان کے بیشتر غیر اناطولیائی لہجوں میں، حتیٰ کہ ایران کے فارسی گو علاقوں اور ایشیائے صغیر کے ترکی گو علاقوں کے درمیان میں واقع خطۂ آذربائجان کے ترکی لہجے میں بھی، فاطمَہ کو فاطمَہ ہی کہا جاتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ چونکہ عثمانی دور میں بلقان میں اسلام کے شیوع کا بنیادی ذریعہ عثمانی ترکی اور ترکی گو آبادی تھی، لہٰذا وہاں کی زبانوں میں موجود عربی/فارسی کے اسی طرح کے الفاظ اور مسلم آبادیوں کے لوگوں کے نام بھی اِمالے کے ساتھ تلفظ ہوتے ہیں یعنی: حدیجے (خدیجہ؛ اناطولیائی ترکی میں 'خ' کی آواز بھی مفقود ہو چکی ہے)، فاطمے (فاطمہ)، عائشے (عائشہ) وغیرہ
واقعی
فارسی میں ترکی سے مستعار لیا ہے؟
فارسی میں نہ صرف یہ ۔ شگفتے، ریحانے بلکہ الف کو واؤ بھی کر نا شامل ہے ۔
مثلاََ ۔ جانم ۔کو جُونم ۔ بمعنی میری جان ( اور بہ گمان میرا جون کا مہینہ :)) ۔ گِران کو گِرُون۔ وغیرہ ۔۔۔اور یہ محض بولنے کے تلفظ تک ہے لکھا سب "ٹھیک :)" ہی جاتا ہے ۔
 

حسان خان

لائبریرین
بلکہ الف کو واؤ بھی کر نا شامل ہے ۔
تصحیح: الف صرف نون اور میم سے پہلے و اوِ معروف میں تبدیل ہوتا ہے۔
جان = جُون؛ جوان = جوُون؛ آرام = آرُوم؛ آمد = اُومد
اور جیسا کہ آپ نے کہا، ایسا صرف ایران (تہران) کی گفتاری زبان میں ہوتا ہے۔ لکھتے وقت معیاری زبان ہی استعمال ہوتی ہے۔

لیکن ذہن میں رہے کہ خواہ گفتاری زبان ہو خواہ رسمی زبان ہو، ایرانی فاطمہ کو فاطمے ہی تلفظ کرتے ہیں۔
 
آخری تدوین:

فاتح

لائبریرین
فارسی میں نہ صرف یہ ۔ شگفتے، ریحانے بلکہ الف کو واؤ بھی کر نا شامل ہے ۔
مثلاََ ۔ جانم ۔کو جُونم ۔ بمعنی میری جان ( اور بہ گمان میرا جون کا مہینہ :)) ۔ گِران کو گِرُون۔ وغیرہ ۔۔۔اور یہ محض بولنے کے تلفظ تک ہے لکھا سب "ٹھیک :)" ہی جاتا ہے ۔
علاوہ ازیں آں کو اُن اور ایں کو اِن
مثلاً اگر اُن ترک شیرَوزی بِدست اَورد دلے مَورَو
 

سید عاطف علی

لائبریرین
تصحیح: الف صرف نون اور میم سے پہلے و اوِ معروف میں تبدیل ہوتا ہے۔
جان = جُون؛ جوان = جوُون؛ آرام = آرُوم؛ آمد = اُومد
اور جیسا کہ آپ نے کہا، ایسا صرف ایران (تہران) کی گفتاری زبان میں ہوتا ہے۔ لکھتے وقت معیاری زبان ہی استعمال ہوتی ہے۔
لیکن ذہن میں رہے کہ خواہ گفتاری زبان ہو خواہ رسمی زبان ہو، ایرانی فاطمہ کو فاطمے ہی تلفظ کرتے ہیں۔
مجھے یہ بڑی "ے" والے لہجے کی کارفرمائی سوری (شامی)عربی بولنے والوں کے لہجے تک میں واضح محسوس ہوتی ہے ۔
 

فاتح

لائبریرین
مجھے یہ بڑی "ے" والے لہجے کی کارفرمائی سوری (شامی)عربی بولنے والوں کے لہجے تک میں واضح محسوس ہوتی ہے ۔
شامی ق کو ع سے تبدیل کر دیتے ہیں مثلاً قلبی کو علبی
اماراتی ق کو گ سے تبدیل کرتے ہیں یعنی قلبی کو گلبی
مصری ج کی آواز کو گ سے تبدیل کرتے ہیں مثلاً جمال کو گمال
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
علاوہ ازیں آں کو اُن اور ایں کو اِن
کہنہ فارسی اور فارسی کے کسی معاصر لہجے میں نون غنہ کی آواز نہیں ہے۔ ہماری فارسی میں یہ غنہ کی آواز خطے کی ہند آریائی زبانوں کے اثر سے داخل ہوئی تھی۔
اس کا مطلب یہ نہ سمجھا جائے کہ میں برِ صغیری فارسی میں غنہ کے استعمال کو غلط کہہ رہا ہوں۔ فارسی صرف ایرانیوں یا افغانوں کی زبان نہیں ہے، اس پر ہمارا بھی کامل حق ہے۔ اور ہماری فارسی کا اپنا خاص شیوۂ بیان، طرزِ تلفظ اور سبکِ ادب تھا۔ جب ایرانی 'ق' کو 'غ' کہہ سکتے ہیں تو ہمیں بھی نون کو غنہ کر کے تلفظ کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔
میں صرف رسم الخط اور طرزِ کتابت کی وحدت کا حامی ہوں۔
 
آخری تدوین:

فاتح

لائبریرین
کہنہ فارسی اور فارسی کے کسی معاصر لہجے میں نون غنہ کی آواز نہیں ہے۔ ہماری فارسی میں یہ غنہ کی آواز خطے کی ہند آریائی زبانوں کے اثر سے داخل ہوئی تھی۔
اس کا مطلب یہ نہ سمجھا جائے کہ میں برِ صغیری فارسی میں غنہ کے استعمال کو غلط کہہ رہا ہوں۔ فارسی صرف ایرانیوں یا افغانوں کی زبان نہیں ہے، اس پر ہمارا بھی کامل حق ہے۔ اور ہماری فارسی کا اپنا خاص شیوۂ بیان، طرزِ تلفظ اور سبک تھا۔ جب ایرانی 'ق' کو 'غ' کہہ سکتے ہیں تو ہمیں بھی نون کو غنہ کر کے تلفظ کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔
میں صرف رسم الخط اور طرزِ کتابت کی وحدت کا حامی ہوں۔
طرز کتابت یکساں ہونے کی صورت میں "آن" لکھنا درست ہو گا یا "آں"؟
 

سید عاطف علی

لائبریرین
شامی ق کو ع سے تبدیل کر دیتے ہیں مثلاً قلبی کو علبی
اماراتی ق کو گ سے تبدیل کرتے ہیں یعنی قلبی کو گلبی
مصری ج کی آواز کو گ سے تبدیل کرتے ہیں مثلاً گمال
اس کی وجہ میرے خیلا میں یہ ہے کہ اصل میں مصری لہجہ اینٹرٹینمنٹ کی دنیا پر غالب ہے اور اسی تتبع میں شامی اور لبنانی حتی کہ یمنی لہجوں میں ق کو ع (بلکہ الف) کیا جاتا ہے ۔ ویسے سعودی اور اماراتی لہجوں میں ق کو عموما گ کیا جاتا ہے ۔
 

فاتح

لائبریرین
اس کی وجہ میرے خیلا میں یہ ہے کہ اصل میں مصری لہجہ اینٹرٹینمنٹ کی دنیا پر غالب ہے اور اسی تتبع میں شامی اور لبنانی حتی کہ یمنی لہجوں میں ق کو ع (بلکہ الف) کیا جاتا ہے ۔ ویسے سعودی اور اماراتی لہجوں میں ق کو عموما گ کیا جاتا ہے ۔
مصری تو ق کو ع یا الف کی آواز سے ادا نہیں کرتے تو ان کا تتبع کیسے؟
 

فاتح

لائبریرین
اس کی وجہ میرے خیلا میں یہ ہے کہ اصل میں مصری لہجہ اینٹرٹینمنٹ کی دنیا پر غالب ہے اور اسی تتبع میں شامی اور لبنانی حتی کہ یمنی لہجوں میں ق کو ع (بلکہ الف) کیا جاتا ہے ۔ ویسے سعودی اور اماراتی لہجوں میں ق کو عموما گ کیا جاتا ہے ۔
اماراتی لہجے کی ایک اور حیران کن مثال جو کم از کم میرے لیے حیران کن تھی وہ یہ تھی کہ اگر دو اماراتی خواتین ایک دوسرے سے حال پوچھیں تو "کیفک" کو چیفچ" کہتی ہیں
 

حسان خان

لائبریرین
طرز کتابت یکساں ہونے کی صورت میں "آن" لکھنا درست ہو گا یا "آں"؟
میری رائے میں آن۔
اگر یہاں شائع ہونے والی قدیم فارسی کتابوں کو دیکھا جائے تو وہاں بھی یہ نون کے اعلان کے ساتھ ہی لکھا جاتا رہا ہے۔
شعر کی قرائت کے وقت وزن کے لحاظ سے آسانی سے کہیں بھی نون کے اعلان کو ساقط کر کے غنہ میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔

یاد رہے کہ ایران میں 'ق' کو 'غ' کی مانند تلفظ کیا جاتا ہے، لیکن لکھتے وقت الفاظ کا معیاری املا ہی استعمال ہوتا ہے۔ اگر ایرانی اپنے قاف والے الفاظ کو غین سے لکھنے لگ جائیں تو ایران سے باہر کے افراد کو تحریر پڑھنے میں بہت دشواری پیش آئے گی۔
افغانستان، ایران اور تاجکستان کے طرزہائے تلفظ میں جتنا بھی فرق ہو، وہ فارسی رسم الخط میں لکھتے وقت ایک ہی طرزِ کتابت کو استعمال میں لاتے ہیں۔ اس لیے اگرچہ ہمارے لہجے میں نون غنہ شامل ہے، تاہم ہمیں بھی فارسی کی کتابت میں معیاری رسم الخط کی پیروی کرنی چاہیے۔
 
Top