محسن وقار علی
محفلین
میں اس بزرگ خاتون کے جذبے کی داد دیئے بغیر نہ رہ سکا۔ یارو! جذبہ، ارادہ اور خواب زندگی کے بہترین اثاثے ہوتے ہیں اوران محرکات کے بغیر زندگی کی گاڑی نہ متحرک ہوتی ہے اور نہ آگے بڑھتی ہے۔ قبرستان اورشہر میں کیافرق ہوتاہے؟ قبرستان میں زندگی سوتی اور آبادیوں میں زندگی رقص کرتی نظر آتی ہے۔ زندگی کا رقص، زندگی کی ہلچل، زندگی کی رونق، زندگی کا آگے بڑھنے اور سبقت لے جانے کا ارادہ یہ سب کچھ جذبہ ہے اور جذبے کا مرہون منت ہے۔ جب جذبہ مر جائے تو انسان زندہ ہونے کے باوجودچلتی پھرتی لاش ہوتاہے لیکن اگر جذبہ زندہ ہو توانسان تمام تر بیماری اور جسمانی کمزوری کے باوجود زندہ اور متحرک ہوتاہے۔اسی لئے انسانوں کی زندگی ہو یا قوموں کی زندگی، میں انہیں جذبے کی مرہون منت سمجھتا ہوں کیونکہ جذبہ وہ ستون ہے جس پر زندگی کھڑی ہوتی ہے، ستون مسمار ہو جائے تو اس پرموجود ہر شے مسمار ہو جائے گی۔ تاریخ کے صفحات کھنگالتے ہوئے اور تاریخ کی شاہراہوں پر چلتے ہوئے باربار احساس ہوتاہے کہ دنیا بھر میں اور انسانی زندگی میں جب بھی کبھی کوئی تبدیلی آئی یا انقلاب طلوع ہواتو وہ اس جذبے کا نتیجہ تھا جس نے تبدیلی اور انقلاب سے پہلے جنم لیا۔ انقلاب فرانس کا بڑاذکرہوتاہے میں نے اسے سمجھنے کی کوشش کی تو محسوس کیاکہ انقلاب فرانس سے کئی دہائیاں قبل اس انقلاب کے لئے جذبہ پیدا ہو چکا تھا۔ ارادہ جنم لے چکا تھا چنانچہ جب جذبہ ارادے سے مربوط ہو گیا تو تحریک نے سراٹھایا اور پھر انقلاب کی راہ ہموار ہوگئی۔ دور کیوں جائیں۔ ہندوستان کی تاریخ کا گہری نظر سے مطالعہ کیجئے تو آپ کو اورنگزیب عالمگیر کے انتقال کے بعد انیسویں صدی تک مسلمانوں کے لاشعور میں ایک خواب، ایک امنگ اورایک آرزو پروان چڑھتی نظر آتی ہے اور وہ خواب ہندوستان میں مسلمانوں کی ایک علیحدہ مملکت کا۔ اس خواب یا امنگ نے انیسویں صدی کے آغاز کے کچھ ہی عرصہ بعد ایک مبہم ارادے کی شکل اختیار کرنا شروع کی۔
اس مبہم ارادے کو علامہ اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعے تقویت دی اور اپنی سیاسی بصیرت سے اسے واضح شکل عطا کردی۔ پھر قائداعظم کی عظیم قیادت، بصیرت اور اعلیٰ کردار نے اسے جذبہ عطا کردیا۔ اس جذبے نے قرارداد لاہور یا قرارداد پاکستان کی صورت میں اظہارپایا اور پھر اسی جذبے نے چودہ اور پندرہ اگست 1947 کی نصف شب دنیا کے نقشے پر سب سے بڑی مسلمان ریاست کااضافہ کردیا۔ اگلی کہانی دردناک ہے لیکن کیاکیجئے کہ زندگی میں جہاں خوشیوں اور کامیابیوں کے پھول کھلتے اور مہکتے ہیں وہاں تلخ حقائق کی آندھیاں پھولوں کو مرجھا بھی دیتی ہیں اورمسل بھی دیتی ہیں۔ چنانچہ اس استحکام پاکستان کاجذبہ ماند پڑ گیااور تلخ حقائق کے سبب نفرت میں بدل گیا تو پاکستان 1971میں دولخت ہو گیا۔
ہاں تومیں عرض کر رہا تھا کہ میں اس بزرگ خاتون کے جذبے کی داد دیئے بغیر نہ رہ سکا۔ وہ کمزور اوربوڑھی ضرور تھی لیکن جذبے کے حوالے سے جوان بلکہ نوجوان تھی۔ وہ 23مارچ 2013 کے دن مینار ِ پاکستان کے طویل سائے تلے کھڑی جذبوں کاشعلہ جوالہ بنی کہہ رہی تھی کہ ”میں نے پاکستان بنتے دیکھا۔ میں قرارداد پاکستان کے وقت کم سن تھی لیکن میں نے اپنے بزرگوں سے 23مارچ 1940 کے جوش و جذبے کی نہ صرف کہانیاں سنیں بلکہ محسوس کیں اور وہ میری شخصیت کا حصہ بن گئی ہیں۔ آج 73 برس بعد میں تحریک انصاف کے جلسے میں کھڑی 1940 جیسا جذبہ نہ صرف دیکھ رہی ہوں بلکہ محسوس بھی کر رہی ہوں۔“ دیکھنے اور محسوس کرنے میں فرق ہوتا ہے۔ ضروری نہیں کہ آپ دیکھیں اور محسوس بھی کریں۔ ضروری نہیں کہ آپ محسوس کریں اور دیکھیں بھی۔ دیکھے بغیر بھی محسوس کیاجاسکتاہے اور محسوس کئے بغیر بھی دیکھا جاسکتاہے۔ اس بزرگ خاتون کا چہرہ خوشی سے تمتا رہا تھا اور وہ اقبال کے یقین محکم کی تصویر بنی کہہ رہی تھی کہ ”23مارچ 1940 کے جذبے نے پاکستان بنایا تھا اور انشاء اللہ23 مارچ 2013 کا جذبہ پاکستان میں تبدیلی کاپیش خیمہ ثابت ہوگا۔ اب پاکستان میں انشاء اللہ تبدیلی آئے گی، انقلاب کا سورج طلوع ہوگا، سیاست کے روایتی برج ٹوٹیں گے اورعوامی راج کادور دورہ ہوگا۔“جذبوں کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر میں جہاں ہر طرف بچوں، جوانوں، بوڑھوں اور عورتوں کے جذبوں کی لہریں دیکھی جاسکتی تھیں اورمحسوس کی جاسکتی تھیں مجھے اس بزرگ اور جسمانی حوالے سے ناتواں خاتون کی آواز سب سے زیادہ توانا اور سب پر غالب محسوس ہوئی۔ میں نے تاریخ کے صفحات میں جھانکا تو مجھے اس جذبے میں اسی طرح کے انقلاب یا تبدیلی کی خواہش نظرآئی جو تاریخ نے 1940 میں دیکھی تھی اورپھرہم نے 1970 میں دیکھی۔ ایک نے پاکستان بنایا اور دوسری نے ملک میں عوامی انقلاب کا خواب دیکھا۔ اگر تبدیلی کی آرزو کی ٹہنیوں پرپھول نہ کھلیں اور میٹھے پھل نہ لگیں تو اس میں بیچارے جذبے کا کیا قصور؟ جذبہ، خواہش، خواب اور آرزو پاکستان سے محبت اوراس کی خاک کے ذروں سے عقیدت کا تقاضا ہے۔ یہ پاکستان کو ہر میدان میں ترقی کرتے اور آگے بڑھتے دیکھنے کی آرزو اور خواب ہے۔ یہ گزشتہ کئی برسوں کی مایوسیوں اور محرومیوں کے خلاف ردعمل ہے اور مثبت ردعمل ہے لیکن کل کیا ہو؟ یہ میرا رب ہی جانتاہے۔ بلاشبہ غائب کا علم صرف اورصرف اللہ سبحانہ تعالیٰ کے پاس ہے لیکن اس نے زمین پر اپنے خلیفہ حضرت انسان کوایک عظیم شے ودیعت کر رکھی ہے اور قدرت کا وہ عظیم تحفہ… اولاد ِ آدم کے لئے منفرد عطیہ… شعور، عقل اور بصیرت ہے جس سے باقی مخلوقات مقابلتاً محروم ہیں۔ عقل، فہم اور بصیر ت کے وضح کردہ اصولوں پر پرکھیں تو اس وقت پاکستان کو ایسی ہی قیادت کی ضرورت ہے جو سرتاپا پاکستان ہو، جس کامرنا جینا اس ملک کے لئے ہو اوراس کاثبوت بلکہ واضح ثبوت یہ ہے کہ جس کی ملک سے باہر جائیداد ہونہ دولت، جو قائداعظم کی مانند اقتدار سے فائدہ اٹھائے نہ کسی عزیز و رشتے دار کوفائدہ اٹھانے دے، نہ خود جاگیریں، دولت اور صنعتیں بنائے اور نہ اپنے عزیزوں کو اس حوالے سے سرکاری مدد دے جو قوم کے خزانے کی حفاظت کرے اوراپنے ایمان کی مانند اس کا تقدس قائم رکھے۔ ہاں اگر ایمان ہی کمزور ہو تو پھر خزانے کے تقدس کا احساس ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ایمان کی بنیاد ہی اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنْ ہے۔ اسی سے ایمان کا منبع پھوٹتا اور عملی شکل اختیار کرتاہے۔ یہی وہ نعرہ ہے جو عمران خان نے 30اکتوبر 2011 کو مینار ِ پاکستان کے سائے تلے سٹیج پر کھڑے ہو کر لاکھوں لوگوں کے سامنے لگایا تھا اور یہی وہ ”ایمان“ ہے کہ جسے عمران خان نے 23مارچ 2013 کے جلسے میں پارٹی منشور کی بنیاد قرار دیا۔ سبحان اللہ ”تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں“ گویا اللہ سبحانہ تعالیٰ پراٹل یقین کا اظہار ہے جو اسے ان سیاسی لیڈروں سے ممتاز کرتا ہے جو امریکہ سمیت دوسری غیرملکی طاقتوں کی زلف کے اسیر ہیں اوراقتدار میںآ نے کے لئے ان سے وعدوں کے شکنجوں میں کسے ہوئے ہیں۔ میرے نزدیک یہ محض اعلان ہی نہیں بلکہ اپنے خالق حقیقی سے ایک وعدہ ہے۔ وعدہ پورا کرنے کے لئے خلوص نیت سے محنت اور جدوجہد کی جائے تو اللہ کی مدد شامل حال ہو جاتی ہے لیکن اگر یہ وعدہ محض سیاسی سلوگن اور فریب ہوتو پھر اس کی سزا بھی ملتی ہے۔ آنکھوں اورذہن سے پردے ہٹاکر دیکھو اورسمجھو توراز کھلے گا کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ وعدہ شکن کو صرف سزا ہی نہیں دیتا بلکہ عبرت کی مثال بھی بناتا ہے۔ ہوا چل پڑی ہے۔ اب یہ فیصلہ آپ کا ہے کہ آپ ملک میں تبدیلی لانا چاہتے ہیں یا نہیں کیونکہ اللہ سبحانہ تعالیٰ ان قوموں کی حالت نہیں بدلتا جن میں خود اپنی حالت کے بدلنے کا جذبہ اور خواہش نہ ہو۔
بہ شکریہ روزنامہ جنگ
اس مبہم ارادے کو علامہ اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعے تقویت دی اور اپنی سیاسی بصیرت سے اسے واضح شکل عطا کردی۔ پھر قائداعظم کی عظیم قیادت، بصیرت اور اعلیٰ کردار نے اسے جذبہ عطا کردیا۔ اس جذبے نے قرارداد لاہور یا قرارداد پاکستان کی صورت میں اظہارپایا اور پھر اسی جذبے نے چودہ اور پندرہ اگست 1947 کی نصف شب دنیا کے نقشے پر سب سے بڑی مسلمان ریاست کااضافہ کردیا۔ اگلی کہانی دردناک ہے لیکن کیاکیجئے کہ زندگی میں جہاں خوشیوں اور کامیابیوں کے پھول کھلتے اور مہکتے ہیں وہاں تلخ حقائق کی آندھیاں پھولوں کو مرجھا بھی دیتی ہیں اورمسل بھی دیتی ہیں۔ چنانچہ اس استحکام پاکستان کاجذبہ ماند پڑ گیااور تلخ حقائق کے سبب نفرت میں بدل گیا تو پاکستان 1971میں دولخت ہو گیا۔
ہاں تومیں عرض کر رہا تھا کہ میں اس بزرگ خاتون کے جذبے کی داد دیئے بغیر نہ رہ سکا۔ وہ کمزور اوربوڑھی ضرور تھی لیکن جذبے کے حوالے سے جوان بلکہ نوجوان تھی۔ وہ 23مارچ 2013 کے دن مینار ِ پاکستان کے طویل سائے تلے کھڑی جذبوں کاشعلہ جوالہ بنی کہہ رہی تھی کہ ”میں نے پاکستان بنتے دیکھا۔ میں قرارداد پاکستان کے وقت کم سن تھی لیکن میں نے اپنے بزرگوں سے 23مارچ 1940 کے جوش و جذبے کی نہ صرف کہانیاں سنیں بلکہ محسوس کیں اور وہ میری شخصیت کا حصہ بن گئی ہیں۔ آج 73 برس بعد میں تحریک انصاف کے جلسے میں کھڑی 1940 جیسا جذبہ نہ صرف دیکھ رہی ہوں بلکہ محسوس بھی کر رہی ہوں۔“ دیکھنے اور محسوس کرنے میں فرق ہوتا ہے۔ ضروری نہیں کہ آپ دیکھیں اور محسوس بھی کریں۔ ضروری نہیں کہ آپ محسوس کریں اور دیکھیں بھی۔ دیکھے بغیر بھی محسوس کیاجاسکتاہے اور محسوس کئے بغیر بھی دیکھا جاسکتاہے۔ اس بزرگ خاتون کا چہرہ خوشی سے تمتا رہا تھا اور وہ اقبال کے یقین محکم کی تصویر بنی کہہ رہی تھی کہ ”23مارچ 1940 کے جذبے نے پاکستان بنایا تھا اور انشاء اللہ23 مارچ 2013 کا جذبہ پاکستان میں تبدیلی کاپیش خیمہ ثابت ہوگا۔ اب پاکستان میں انشاء اللہ تبدیلی آئے گی، انقلاب کا سورج طلوع ہوگا، سیاست کے روایتی برج ٹوٹیں گے اورعوامی راج کادور دورہ ہوگا۔“جذبوں کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر میں جہاں ہر طرف بچوں، جوانوں، بوڑھوں اور عورتوں کے جذبوں کی لہریں دیکھی جاسکتی تھیں اورمحسوس کی جاسکتی تھیں مجھے اس بزرگ اور جسمانی حوالے سے ناتواں خاتون کی آواز سب سے زیادہ توانا اور سب پر غالب محسوس ہوئی۔ میں نے تاریخ کے صفحات میں جھانکا تو مجھے اس جذبے میں اسی طرح کے انقلاب یا تبدیلی کی خواہش نظرآئی جو تاریخ نے 1940 میں دیکھی تھی اورپھرہم نے 1970 میں دیکھی۔ ایک نے پاکستان بنایا اور دوسری نے ملک میں عوامی انقلاب کا خواب دیکھا۔ اگر تبدیلی کی آرزو کی ٹہنیوں پرپھول نہ کھلیں اور میٹھے پھل نہ لگیں تو اس میں بیچارے جذبے کا کیا قصور؟ جذبہ، خواہش، خواب اور آرزو پاکستان سے محبت اوراس کی خاک کے ذروں سے عقیدت کا تقاضا ہے۔ یہ پاکستان کو ہر میدان میں ترقی کرتے اور آگے بڑھتے دیکھنے کی آرزو اور خواب ہے۔ یہ گزشتہ کئی برسوں کی مایوسیوں اور محرومیوں کے خلاف ردعمل ہے اور مثبت ردعمل ہے لیکن کل کیا ہو؟ یہ میرا رب ہی جانتاہے۔ بلاشبہ غائب کا علم صرف اورصرف اللہ سبحانہ تعالیٰ کے پاس ہے لیکن اس نے زمین پر اپنے خلیفہ حضرت انسان کوایک عظیم شے ودیعت کر رکھی ہے اور قدرت کا وہ عظیم تحفہ… اولاد ِ آدم کے لئے منفرد عطیہ… شعور، عقل اور بصیرت ہے جس سے باقی مخلوقات مقابلتاً محروم ہیں۔ عقل، فہم اور بصیر ت کے وضح کردہ اصولوں پر پرکھیں تو اس وقت پاکستان کو ایسی ہی قیادت کی ضرورت ہے جو سرتاپا پاکستان ہو، جس کامرنا جینا اس ملک کے لئے ہو اوراس کاثبوت بلکہ واضح ثبوت یہ ہے کہ جس کی ملک سے باہر جائیداد ہونہ دولت، جو قائداعظم کی مانند اقتدار سے فائدہ اٹھائے نہ کسی عزیز و رشتے دار کوفائدہ اٹھانے دے، نہ خود جاگیریں، دولت اور صنعتیں بنائے اور نہ اپنے عزیزوں کو اس حوالے سے سرکاری مدد دے جو قوم کے خزانے کی حفاظت کرے اوراپنے ایمان کی مانند اس کا تقدس قائم رکھے۔ ہاں اگر ایمان ہی کمزور ہو تو پھر خزانے کے تقدس کا احساس ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ایمان کی بنیاد ہی اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنْ ہے۔ اسی سے ایمان کا منبع پھوٹتا اور عملی شکل اختیار کرتاہے۔ یہی وہ نعرہ ہے جو عمران خان نے 30اکتوبر 2011 کو مینار ِ پاکستان کے سائے تلے سٹیج پر کھڑے ہو کر لاکھوں لوگوں کے سامنے لگایا تھا اور یہی وہ ”ایمان“ ہے کہ جسے عمران خان نے 23مارچ 2013 کے جلسے میں پارٹی منشور کی بنیاد قرار دیا۔ سبحان اللہ ”تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں“ گویا اللہ سبحانہ تعالیٰ پراٹل یقین کا اظہار ہے جو اسے ان سیاسی لیڈروں سے ممتاز کرتا ہے جو امریکہ سمیت دوسری غیرملکی طاقتوں کی زلف کے اسیر ہیں اوراقتدار میںآ نے کے لئے ان سے وعدوں کے شکنجوں میں کسے ہوئے ہیں۔ میرے نزدیک یہ محض اعلان ہی نہیں بلکہ اپنے خالق حقیقی سے ایک وعدہ ہے۔ وعدہ پورا کرنے کے لئے خلوص نیت سے محنت اور جدوجہد کی جائے تو اللہ کی مدد شامل حال ہو جاتی ہے لیکن اگر یہ وعدہ محض سیاسی سلوگن اور فریب ہوتو پھر اس کی سزا بھی ملتی ہے۔ آنکھوں اورذہن سے پردے ہٹاکر دیکھو اورسمجھو توراز کھلے گا کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ وعدہ شکن کو صرف سزا ہی نہیں دیتا بلکہ عبرت کی مثال بھی بناتا ہے۔ ہوا چل پڑی ہے۔ اب یہ فیصلہ آپ کا ہے کہ آپ ملک میں تبدیلی لانا چاہتے ہیں یا نہیں کیونکہ اللہ سبحانہ تعالیٰ ان قوموں کی حالت نہیں بدلتا جن میں خود اپنی حالت کے بدلنے کا جذبہ اور خواہش نہ ہو۔
بہ شکریہ روزنامہ جنگ