متدبر انسان کی سوچ کی شاید دو سطحیں ہوتی ہیں۔ ایک وہ جو اس کے اندر ہی اندر طوفان بپا کئے رہتی ہے اور ایک وہ جس میں وہ دوسروں کو شریک کرتا ہے۔ ’’شاید‘‘ اس لئے کہا ہے کہ بقول انور مسعود انسان اتنی سادہ چیز بھی نہیں کہ ہم اس کا کیمیائی تجزیہ کر کے بتا سکیں کہ اس میں محبت اتنی ہے، نفرت اتنی ہے، بے یقینی اتنی ہے، یقین اتنا ہے، فکری گہرائی اتنی ہے، اور جذبہ اتنا ہے، غصہ اتنا ہے؛ وغیرہ۔
آپ کے اندر ہی اندر کیا طوفان برپا ہیں، وہ آپ ہی بہتر سمجھ سکتے ہیں یا آپ کے وہ دوست اور متعلقین جو بالمشافہ آپ کے ساتھ وقت گزارتے ہیں۔ کچھ کچھ اندازہ البتہ اس قلمی نام
متلاشی سے ہو جاتا ہے۔
اس کا علاج (اگر یہ واقعی بے سمتی کی کیفیت ہے تو) یہ ہے کہ انسان اپنے اللہ کی طرف یکسو ہو جائے اور ہر اُس چیز اور عمل سے کنارہ کش ہو جائے جسے وہ سمجھتا ہے کہ اس کی توجہ تقسیم کر کے ایک خطِ مستقیم کو قوس کی اور پھر دائرے کی شکل دے دیتی ہے۔
دوسرا مرحلہ ایک کیفیت کو بیان کرنے کا ہے۔